جبر کے اقسام
١۔ جبر فلسفی• مقدمہ اول:تمام افعال انسان ،خود انسان کی طرح ممکن الوجود ہے۔
• مقدمہ دوم:تمام ممکن الوجود جب تک حد ضرورت تک نہ پہنچے وجود میں نہیں آسکتا ۔
• نتیجہ:انسان اپنے افعال میں مجبور ہے۔جواب : اس قاعدہ فلسفی کا مفاد یہ ہے کہ کوئی بھی سانحہ پیش آنے کیلئے علت تامہ کا ہونا ضروری ہے اسی طرح انسان کی اختیاری امور کیلئے بھی ضروری ہے ۔ لیکن افعال اختیاری اور غیر اختیاری میں فرق یہ ہے کہ افعال اختیاری جب تک خود انسان اس عمل کو اختیار نہ کرے اس عمل کی علت بھی محقق نہیں ہوگی ۔ لہذا فعل بھی انجام نہیں پائے گا ۔ پس قاعدہ فلسفی :الشیی لم یجب لم یوجد،کا اس ادعی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں۔
٢۔ جبر تاریخی• مقدمہ اول:یہ تاریخی قوانین اوراصول بھی نا قابل انکار ہیں ۔
• مقدمہ دوم:
تمام قوانین تاریخی کا پاس رکھنا ہرانسان پر فرض ہے۔
• نتیجہ:پس ہر انسان مجبور ہیں کہ اپنے اپنے کاموں میں قوانین تاریخی کی پیروی کرے۔جواب: یہ بیان تو نہ صرف دلیل جبر نہیں بلکہ بالکل برعکس اختیار پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ اولاً تاریخ کوئی واقعیت نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک امر انتزاعی ہے۔ثانیاً : تاریخ کا قانون مندی ہونا فقط خیالی ہے ۔ کیونکہ جو چیز خود واقعیت خارجی نہیں رکھتی کس طرح ممکن ہے کہ قوانین خاص کا حامل ہو؟!اور یہ بھی معلوم ہے کہ روش علمی تجربے پر منحصر ہے ۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے کہ قابل تکرار ہو کہ ایک جگہ تجربہ کرے پھر اسی مشابہ کو دوسری جگہ ۔ تاکہ رابطہ علیت کو کشف کرسکے ۔ اور ایک قانون علمی ثابت ہوسکے ۔ لیکن تاریخ قابل تکرار نہیں ۔ لہذا جبر تاریخی بے بنیاد ہے۔ اور یہ صرف ایک تعبیر ہے کہ جسے دوسروں سے عاریہ لیا ہے ۔اس قسم کی غیر علمی اور نا قابل اثبات مفروضات کے ذریعے اختیار جیسی ایک بدیہی چیز کو جسے ہر انسان اپنے اندر احساس کرتا ہے اور آیات اور روایات بھی جس کی تائید کرتی ہیں اور ہر اخلاقی اور تربیتی نظام کی بنیاد بھی اسی پر ہو ،نظر انداز نہیں کرسکتا ۔
٣۔ جبر اجتماعی• مقدمہ اول:جامعہ موجود واقعی ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو ہمیشہ فشار جامعہ کے ماتحت تصور کرتا ہے۔
• مقدمہ دوم:اور خود جامعہ کیلئے خاص قوانین وضع ہوا ہے ۔
• نتیجہ:پس ہر انسان اجتماعی قوانین کی متابعت کرنے پر مجبور ہے۔جواب: یہ لوگ جامعہ کیلئے وجود حقیقی کے قائل ہیں جبکہ جامعہ کا وجود ایک وجود اعتباری ہے۔ اور خارج میں اجتماع نامی کوئی شییٔ موجود نہیں بلکہ بعض افراد کا جمع ہونے کا نام اجتماع ہے۔ فرض کرلیں کہ آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ جامعہ وجود حقیقی رکھتا ہے اور بعض قوانین بھی اس کیلئے وضع ہوا ہے؛ کس نے کہا کہ انسان ان قوانین پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہے؟!!
٤۔ جبر طبیعی• مقدمہ اول:طبیعی قوانین ہماری زندگی میں ہماری رفتار و کردار کو تشکیل دیتی ہیں ۔
• مقدمہ دوم:انسان کے اختیاری افعال بھی اثر پذیرہیں۔
• نتیجہ:انسان کے اختیاری افعال بھی قوانین طبیعی کے بغیرباقی نہیں رہتا جس کا لازمہ یہ ہے کہ جبر طبیعی کا انکار نہیں کرسکتا ۔جواب: انسان کے کچھ خاص غریزوں کو کچھ خاص طبیعی وسائل کے ذریعے ابھارا جا سکتا ہے ۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ انسان مسلوب الاختیار ہو ۔ کیونکہ غرائز طبیعی کو لگام دے سکتا ہے ۔ اس کی بہترین مثال: داستان حضرت یوسف(ع)ہے جو بہت ہی تعجب آور ہے کیونکہ تمام شرائط اور وسائل جیسے جوانی کا عالم، زلیخا کی گناہ آلود خواہشات کو پورا کرنے کیلئے بہترین موقع فراہم ہے ۔ بہترین طریقے سے سجھایا ہوا شہوت آمیز بندکمرہ ، زلیخا جیسی حسین و جمیل عورت کا ننگی ہونا و ۔ ۔ ۔ان تمام شرائط اور وسائل طبیعی کے باوجود کس طرح حضرت یوسف(ع) نے بدکاری سے دوری اختیار کی؟!!قرآن مجید فرمارہا ہے: وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ۔ -1-یعنی اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کرلیتے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ چکے ہوتے، اس طرح ہوا تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں، کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔اجزاء علت تامہ قریب تو کامل تھا لیکن وہ برہان خدا دادی جو نورانیت اور پاکیزگی تھی ۔ جسے ہم درک نہیں کرسکتے ، گناہ کبیرہ سے بچنے کا باعث بنا ۔اس ماجرا میں فقط حضرت یوسف(ع) کی ذات تھی جس نے اس فعل قبیح کو ترک کرنے کا ارادہ کیا ۔ فقط وہی ذات تھی جس نے اپنے اختیار کیساتھ راہ رضای الہی کو انتخاب کیا اور فرمان شیطان کو اپنے سے دور کیا ۔ اب بتاؤ جبر طبیعی کہاں گیا؟!دوسری مثال :حضرت نوح(ع) کا بیٹا اور حضرت لوط(ع) کی بیوی کو دیکھ تمام شرائط طبیعی ہدایت اللہ کے نبیوں کے گھر میں جہاں وحی الہی نازل ہو کرتی تھی) ہونے کے باوجود گمراہ ہوئے۔ جبکہ حضرت نوح(ع)کے دوسرے تمام بیٹے اپنے پدر بزرگوار کے پیروکار بنے ۔ لیکن یہ ایک سرکش نکلا اور ہلاک ہوا ۔پس جبر طبیعی کے قائل افراد اس حقیقت کی توجیہ کیسے کرینگے؟!تیسری مثال: ہمسر فرعون حضرت آسیہ شرائط طبیعی کے لحاظ سے تو ایسے محیط میں زندگی کر رہی تھی کہ دنیا کی ساری دولت ان کے قدموں تلے موجود تھی ۔ اور شوہر کہ جو اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا ۔ پھر بھی نہ دنیا کے زرق و برق اسے راہ خدا سے بھٹکا سکے اورنہ فرعون جیسا کافر شوہر ۔ بلکہ خدا کی راہ میں دنیا کی سختی اور مشقتیں برداشت کرکے خدا سے اس کا صلہ جنت میں محل کی صورت میں مانگ رہی ہے ۔ جس کی قرآن نے یوں تعبیر کی ہے: رب ابن لی عندک بیتا فی الجنة -2- یعنی خدایا مجھے اپنے پاس گھر عطا کرے۔ پس جبر اور قوانین طبیعی کے درمیان کوئی لازمہ نہیں جو انسانی زندگی پر اثر انداز ہو سکے۔ -3—————1 ۔ یوسف ۲۴ ۔2 ۔ تحریم ١١.3 ۔ غرویاں، آموزش عقائد،ج١،ص٢٠٥.