تقیہ سے متعلق شبہات

229

وہ شبہات ا ور تّهمتیں جو شیعوں کے تقیه سے مربوط هیں :
تقيہ شیعوں کی بدعتشبہہ پیدا کرنے والے کا کهنا هے که :تقیه شیعوں کی بدعت هے جو اپنے فاسد عقیدے کو چھپانے کے خاطر کرتے هیں. (1 )اس شبہہ کا جواب یه هے که اس نے بدعت کے معنی میں اشتبہ کیا هے . جب که مفردات راغب نے بدعت کی تعریف کرتے هوئے کها هے : البدعة هي ادخال ما ليس من الدين في الدين(2 ) بدعت سے مراد یه هے که جوچیز دین میں نهیں، اسے دین میں داخل کرے .اور گذشته مباحث سے معلوم هوا که تقیه دین کی ضروریات میں سے هے . کیونکه قرآن اور احاديث ائمه(ع)میں واضح طور پر بیان هوا هے که تقیه کو اهل تشیع اور اهل سنت دونوں مانتے هیں اور اس کے شرعی هونے کو بھی مانتے هیں .لذا ، تقیه نه بدعت هے اور نه شیعوں کا اختراع ،که جس کے ذریعے اپنا عقیده چھپائے ، بلکه یه الله اور رسول کا حکم هے .گذشته مباحث سے معلوم هوا كه تقيہ دين کاحصه هے کيونکه وہ آيات جن کو شيعه حضرات اسلام کا بپاكننده جانتے هيں،ان کي مشروعيت کو ثابت کرچکے هيں اور اهل سنت نے بھي ان کي مشروع هونے کا في الجمله اعتراف کيا هے. اس بنا پر ، نه تقيہ بدعت هے اور نه شيعوں کا اپنا عقيده چھپانے کيلئے اختراع هے.
تقيہ، مكتب تشيع کا اصول دين ؟!بعض لوگوں کا اپنے مخالفین کے خلاف مهم چلانے اور ان کو هرانے کیلئے جو خطرناک اور وحشنتاک راسته اختیار کرتے هیں ، ان میں سے ایک یه هے که ان کو متهم کرنا هے اور ایسی تهمتیں لگاتے هیں ، جن سے وہ لوگ مبریٰ هیں . اگرچه عیوب کا ذکر کرنا معیوب نهیں هے .ان لوگوں میں سے ایک ابن تیمیه هے ؛ جو کهتا هے که شیعه تقیه کو اصول دین میں سے شمار کرتے هیں . جبکه کسی ایک شیعه بچے سے بھی پوچھ لے تو وہ بتائے گا : اصول دین پانچ هیں :اول : توحید. دوم :عدل سوم: نبوت چهارم:امامت پنجم : معاد.ليکن وہ اپنی كتاب منهاج السنه میں لکھتا هے : رافضي لوگ اسے اپنا اصول دین میں شمار کرتے هیں .ایسی باتیں یا تهمتیں لگانے کی دو هی وجه هوسکتی هیں:۱. یا وہ شیعه عقائد سے بالکل بے خبر هے ؛ که هو هی نهیں سکتا . کیونکه مذهب تشیع کا اتنا آسان مسئله ؛ جسے سات ساله بچه بھی جانتا هو ، ابن تیمیه اس سے بے خبر هو .کیونکه همارے هاں کوئی چھٹا اصل بنام تقیه موجود نهیں هے .۲. یا ابن تیمیه اپنی هوا وہوس کا اسیر هوکر شیعوں کو متهم کرنے پر تلا هوا هے . وہ چاهتا هے که اس طریقے سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرےاوراسلام اور مسلمین کی قوت اور شان و شکوکت کو متزلزل کرے .اس قسم کی بیهوده باتیں ایسے لوگوں کی دل خوشی کا سبب بن سکتے هیں ، جو کسی بھی راستے سے شیعیان علی ابن ابی طالب (ع) کی شان شوکت کو دنیا والوں کے سامنے گھٹائے اور لوگون کو مکتب حقه سے دور رکھے . (3 )جب که خود اهل سنت بھی تقیه کے قائل هیں اور ان کے علماء کا اتفاق اور اجماع بھی هے ، که تقیه ضرورت کے وقت جائز هے .چنانچه ابن منذر لکھتا هے: اجمعوا علي من اكره علي الكفر حتي خشي علي نفسه القتل فكفر و قلبہ مطمئن بالايمان انه لا يحكم عليه بالكفر. (4 )اس بات پر اجماع هے که اگر کوئی کفر کے اظهار کرنے پر مجبور هو جائے ، اور جان کا خطره هو تو ایسی صورت میں ضرور اظهار کفرکرے .جبکه اس کا دل ایمان سے پر هو ، تو اس پر کفر کا فتوا نهیں لگ سکتا .یا وہ کفر کے زمرے میں داخل نهیں هوسکتا .ابن بطال کهتا هے : واجمعوا علي من اكره علي الكفر واختار القتل انه اعظم اجرا عنداﷲ !یعنی علماء کا اجماع هے که اگر کوئی مسلمان کفر پر مجبور هوجائے ، لیکن جان دینے کو ترجیح دے دے تو اس کے لئے الله تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا اجر اور ثواب هے .خوداهل سنت تقيہ کے جائز هونے کو قبول کرتے هیں . لیکن جس معنی ٰ میں شیعه قائل هیں ، اسے نهیں مانتے .یعنی ان کے نزدیک تقیه ، رخصت یا اجازت هے ، لیکن شیعوں کے نزدیک ، ارکان دین میں سے ایک رکن هے . جیسے نماز. اور بعد میں امام صادق(ع)کی روایت کو نقل کرتے هیں، جو پيامبر اسلام(ص) سے منسوب هے . قال الصادق(ع) : لو قلت له تارك التقيہ كتارك الصلوة . اس کے بعد کهتےهیں که شیعه صرف اس بات پر اکتفاء نهیں کرتے بلکه کهتے هیں : لا دين لمن لا تقية له . (5 )
تقيہ، زوال دين کا موجب ؟!کها جاتا هے که تقیه زوال دین اور احکام کی نابودی کا موجب بنتا هے . لهذا تقیه پر عمل نهیں کرنا چاهئے .اور اس کو جائز نهیں سمجھنا چاهئے .جواب: تقيہ ، احكام پنجگانه میں تقسيم كيا گیا هے :یعنی:واجب ، حرام ، مستحب ، مكروہ ، مباح.حرام تقيہ، دین میں فساد اور ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے . بہ الفاظ دیگر جوبھی اسلام کی نگاه میں جان، مال ، عزت، ناموس وغیره کی حفاظت سے زیاده مهم هو تو وہاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ، بلکه حرام هے .اور شارع اقدس نے بھی یهی حکم دیا هے .کیونکه عقل حکم لگاتی هے که جب بھی کوئی اهم اور مهم کے درمیان تعارض هوجائے تو اهم کو مقدم رکھاجائے ، اور اگر تقیه بھی موجب فساد یا ارکان اسلام میں متزلزل هونے کا سبب بنتا هے تو وہاں تقیه کرنا جائز نهیں هے .ائمه طاهرین(ع) سے کئی روايات هم تک پهنچی هے که جو اس بات کی تائید کرتی هیں ؛ اور بتاتی هیں که بعض اوقات تقیه کرنا حرام هے .امام صادق (ع)فرمود: … فكل شيئ يعمل المؤمن بينهم لمكان التقية مما لا يؤدي الي الفساد في الدين فانّه جائز(6 ) امام نے فرمایا: هر وہ کام جو مؤمن تقیه کے طور پر انجام دیتے هیں ؛اور دین کیلئے کوئی ضرر یا نقصان بھی نه هو ،اور کوئی فساد کا باعث بھی نه هو ؛ تو جائز هے .امام صادق (ع)کی اس حدیث سے معلوم هوتا هے که تقیه بطور مطلق حرام نهیں هے بلکه وہ تقیه حرام هے جو زوال دین کا سبب بنتا هو .لیکن وہ تقیه واجب یا مباح يا مستحب هے جو زوال دین کا سبب نهیں بنتا . اس کا مکتب تشیع قائل هے ……………(1 ). فهرست ايرادات و شبہات عليه شيعيان در هند و پاكستان، ص ۳۶.(2 ) . راغب اصفهاني ؛ مفردات، بدع.(3 ) . عباس موسوي؛ پاسخ و شبہاتي پيرامون مكتب تشيع، ص۱۰۲.(4 ) . دكترناصر بن عبدالله؛ اصول مذهب شيعه،ج ۲، ص ۸۰۷.(5 ). همان(6 ) . وسائل الشيعه ، ج۶، باب۲۵، ص۴۶۹.

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.