مصیبتوں اور آفتوں کا راز
مصیبتوں اور آفتوں کا رازیہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ خدا عادل ہے او ر اس کے تمام کام حکمت کی بنیاد پر ہیں کچھ ایسے مسائل ہیں جو واضح نہیں ہو سکے لہٰذا ان کو واضح کردینا ضروری ہے یعنی آفتیں اور بلائیں ،دردورنج ،ناکامی او ر شکست ،نقائص اور بحران خد اکی عدالت سے کیسے سازگارہے ؟تھوڑا غورکرنے پر واضح ہوجاتاہے کہ یہ تمام حالات عدل الٰہی کے موافق رہے ہیں نہ کہ مخالف ،مذکورہ سوالات کے سلسلہ میں دو بہترین جواب دئے جا سکتے ہیں۔ ١۔ مختصر اور اجمالی ٢ ۔تفصیلی اجمالی جواب:جب عقلی اور نقلی دلیلو ں سے ثابت ہوچکا کہ خداحکیم و عادل ہے اور اس کی تمام تخلیق ہدف اور حکمت کے ساتھ ہے اور یہ کہ خدا وند متعال کسی شخص اورکسی کاکبھی بھی محتاج نہیں اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے خلا صہ یہ کہ وہ کوئی بھی کام خلاف حکمت انجام نہیں دیتا ،ظلم جوکہ سرچشمۂ جہل اورعاجزی ہے اس کا تصور ذات اقدس کے لئے ممکن ہی نہیں اس کے باوجود اب اگر ہم مذکورہ حوادث وحالات کے فلسفہ کونہ سمجھ سکیں تو ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ یہ ہمارے علم کی محدودیت اور اس کا قصور ہے ، چونکہ جس نے بھی خدا کو اس کے صفات کی روشنی میں پہچانا اس کے لئے یہ جواب کافی ووافی ہے ۔تفصیلی جواب :ان مصیبتوں کے ذمہ دار خو د ہم ہی ہیں ۔انسان کی زندگی میں بہت زیادہ مصیبتیں دامن گیر ہوتی ہیں جس کی اصلی وجہ او رسبب خو د وہی ہے اگرچہ اکثر ناکامیوں کاسبب،سستی وکاہلی او رسعی وتلاش کو چھوڑ دینا ہے ۔زیادہ تر بیماریاں شکم پرستی اورہوائے نفس کی وجہ سے آتی ہیں ،بے نظمی ہمیشہ بد بختی کا سبب رہی ہے اور اسی طرح اختلاف وجدائی ہمیشہ مصیبت اور بد بختی کا پیش خیمہ رہے ہیں اور تعجب تو یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے علت ومعلول کے رابطہ کو بھلاکر ساری مصیبتوں کا ذمہ دار خداکو ٹھرایاہے۔ ان باتوں کے علا وہ بہت سے نقائص اور کمیا ںجیسے بعض بچوں کا ناقص الخلقت ہو نا (اندھا ،بہرا اور گونگا ، مفلو ج ہو نا ) والدین کی کوتاہی او ر شریعت کے اصول و قوانین کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے ہے ، اگر چہ بچہ کا کوئی قصور نہیں لیکن یہ والدین کے جہل او رظلم کا طبیعی اثر ہے (بحمد اللہ معصوم ہادیوں نے ان نقائص کو روکنے کے لئے کچھ قوانین بتائے ہیں یہاں تک کہ بچے کے خوبصورت اور با استعداد ہونے کے لئے بھی قوانین وآئین بتائے ہیں ) ۔اگر والدین نے ان قوانین کی پیروی نہیں کی تو عا م سی بات ہے کہ اس نواقص کے ذمہ دار ہو ں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی خدا کی طرف منسوب نہیں کر سکتے بلکہ یہ ایسی مصیبت ہیں جسے انسان نے خود اپنے یا دوسروں کے لئے پال رکھی ہے۔ قرآن اس جانب اشارہ کرتا ہے 🙁 مَا أَصَابَک مِن حَسنَةٍ فَمِن اللّٰہ وَمَا أَصَابَک مِن سَیئَةٍ فَمِن نَفسِک)جو بھی نیکیاں(اچھائیاں او رکا میابیاں) تم تک پہونچی ہیں وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائیاں( بدبختیاںاور ناکامیاں) تمہا رے دامن گیر ہو تی ہیں وہ خود تمہاری کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔ (١) اور دوسری جگہ قرآن فرماتاہے :(ظَھَر الفَسَادُ فی البَرِّ وَالبَحرِ بِما کَسبَت أَیدیِ النَّاسِ لِیُذِیقھم بَعضَ الّذیِ عَمِلوا لَعَلَّھُم یُرجَعُونَ) لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے دریا اور خشکی میں فساد پھیل گیا (لہٰذا ) خدا ان کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھا دینا چاہتا ہے شاید وہ بدل جا ئیں۔(2)نا پسند واقعات او رالٰہی سزائیں
حدیثوں میں بھی متعدد مقامات پر اس طرح ذکر ہو ا:انسانوں کے دامن گیر ہونے والی مصیبتوں کا زیاد ہ تر حصہ گناہو ں کی سزا کا ہو تا ہے ۔ایک حدیث میں امام علی رضا ںسے روایت ہے :”کلّما أحدث العِباد من الذنوب ما لم یکونوا یعملون أحدث لھم من البلا ء ما لم یکونوایعرفون”جب بھی خدا کے بندے ایسے گناہو ںکو انجام دیتے ہیں جنہیں کبھی پہلے انجام نہیں دیا تھا توخدا انہیں نامعلوم اور نئی مصیبتوں میں گرفتار کردیتاہے ۔(3)حضرت امام صادق ںسے منقول ہے :” أِنَّ الرجلَ لیذنب الذنب فیحرم صلا ة اللیل واِنَّ عمل الشَّرأسرع فی صاحبہ من السکین فی اللحم”کبھی انسان ایسے گنا ہ کو انجام دیتا ہے جس کے نتیجہ میں نماز شب سے محروم ہو جا تاہے (کیونکہ ) برے عمل کا برا اثر اس کے انجام دینے والے میں اس چاقو سے زیادہ تیز ہو تا ہے جوگوشت کو کا ٹنے میں ہو تا ہے۔ (4) حضرت علی ابن ابی طالب ں فرماتے ہیں : کسی قوم کی خوشی اور نشاط اسی وقت چھنتی ہے جب وہ براکام انجام دیتی ہے کیو نکہ خدا بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ (5)ایک دوسری جگہ امام علی فرماتے ہیں : گناہو ںسے دوری اختیار کرو کیونکہ تمام بلا ئیں او رمصیبتیں ،روزی کا کم ہو نا ،گناہ کی وجہ سے ہے یہاںتک کہ بدن میں خراش کا آنا ،ٹھوکر کھا کر گر جانا ،مصیبتوں میں گرفتار ہو نا ،یہ سب گناہ کا نتیجہ ہے، خداوند متعال کا ارشاد ہے : جو بھی مصیبت تم تک آتی ہے وہ تمہا رے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔
عذاب او رسزا کے عمومی ہونے پر کچھ سوال بہت سی مصیبتیں اور بلا ئیں تاریخی شواہد ،حدیثوں او رقرآن کی روشنی میں عذاب او ر سزا کے عنوان سے ہو تی ہیں۔لیکن یہاںپر جو سوال ذہن میں آتاہے وہ یہ ہے کہ عذاب او رسزائوں میں گرفتار ہونے والے افراد دوطرح کے ہیں ،ظالم اور مظلوم ،مومن او رکافر توآخر سبھی لوگ کیو ںعذاب میں گرفتار ہو کر ہلا ک ہوگئے ۔؟جو اب : اسلا م کی رو سے مظلو مین یا مومنین کی مشکلا ت او رمصیبتیں نہی عن المنکر کو ترک کرنے او ر گمراہی وظالمین کامقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے ہے (اِتقُوا فِتنةً لاتُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنکُم خَاصةً)ایسے فتنہ سے بچو جس کے اثرات صرف ظالموں تک ہی نہیں بلکہ سبھی کو گھیرلیتے ہیں۔ (6)قال رسول اللّہ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلم : لتامرنَّ بالمعروف ولتنھنَّ عن المنکر أو لیعمنکم عذاب اللّہ(7) امر بمعروف اور نہی عن المنکر ضرور انجام دو ورنہ خدا کا عمومی عذاب تم کو بھی گھیرلے گا ۔دوسراسوال یہ ہے : کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ گنہگار وں او رظالموں کی دنیاوی زندگی بہت اچھی ہے او ر انہیں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں، جبکہ ان کے مقابل نیک اور مومن لوگو ں کو پریشان حال دیکھتے ہیں آخر ایسا کیوں ؟۔ جو اب:آیات و روایات کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ظالموںاور گنہگاروں کو مہلت اور نعمتیں ان کے عذاب کی شدت کا باعث ہے ۔
(وَلَا یَحسَبَنَّ الَّذینَ کَفَروا أَنَّما نُملیِ لَھم خَیرُ لأنفُسِھِم اِنَّما نُملیِ لَھُم لِیَزدادوا ثماً وَ لَھُم عَذابُ مُھِینُ)(8) کفار ہر گز اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ اگر ہم نے ان کو مہلت دے دی تو اس میں ان کی بھلا ئی ہے ،ہم نے ان کو اس لئے مہلت دی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ گنا ہ کریں ، سخت عذاب ا ن کے انتظار میں ہے ۔حضرت علی ںنے فرمایا :” یابن آدم اِذا رأیتَ ربکَ سبحانہ یُتابع علیک نعمة وأَنت تعصیہ فاحذرہ” فرزند آدم جب تم یہ محسوس کرنا کہ خدا نا فرمانی کے باوجود تم پر نعمتوں کی بارش کر رہا ہے تو اس سے ہوشیار رہنا (9) امام صادق ں فرماتے ہیں : اِذا أَراد اللّہ بعبد خیراً فأذنب ذنباً تبعہ بنقمة فیذکرہ الاستغفار واذا أراد اللّہ بعبدٍ شراً فاذنب ذنبا تبعہ بنعمة لینسیہ الاستغفار ویتمادی بہ وھو قول اللّہ عزَّوجلَّ (سنستدرجھم من حیث لا یعلمون) بالنعم عند المعاصی” (10) جب خدا کسی بندہ کی بھلا ئی اور خوش نصیبی چاہتا ہے تو اس کے گناہ کرنے پر کسی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے او راسے استغفار کی طرف متوجہ کر تا ہے ،اور جب (نا فرمانی او رسر کشی کی وجہ سے ) کسی بندہ کی تباہی وبربادی چاہتا ہے تو اس کے گناہ پر ایسی نعمت دیتا ہے جس سے استغفار کو بھول جائے اور اپنی عادت پر باقی رہ جائے ۔اور یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں خد اکا ارشاد ہے ، ہم انہیں آہستہ آہستہ ایسے راستوں سے عذاب کی طرف لے جا تے ہیں کہ ان کو خبر تک نہیںہو پا تی اور وہ یہ کہ نافرمانی کے موقع پر ہم انہیں نعمت عطا کر دیتے ہیں ۔مصائب وبلیات کا فلسفہ مومنین کے لئے بلا ء ومصیبت ا ن کے علو درجات کے لئے ہے او ر کبھی ان کی یاد دہانی اور بیداری کے لئے بعض وقت ان کے گناہو ں کا کفارہ ہیں اور یہ سب کی سب چیزیں خدا کی طرف سے مومنین پر لطف ہیں ۔امام صادق ں فرماتے ہیں:”اِنَّ عَظیم الأجرِ لمَع عظیم البلا ء وما أحب اللّٰہ قوماً الا ابتلاھم” اجرت کی زیادتی بلا ئوں کی کثرت پر ہے اور خدا جس قوم کو دوست رکھتا ہے اس کو بلا ئو ں میں مبتلا ء کرتا ہے۔ (11) امام باقرں فرماتے ہیں:”لو یعلم المؤمن مالہ فی المصائب من الاجر لتمنی أَنَّہ یُقرض بالمقاریض” اگر مومن کو اس بات کاعلم ہو جائے کہ آنے والی مصیبت کااجر کتنا ہے تو وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ اس کو قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ (12) امام علی ں فرماتے ہیں:”مَن قَصَّر فی العمل ابتلیٰ بالھم ولا حاجة للّٰہ فِیمَن لیس للّہ فی نفسہ وما لہ نصیب” جس نے اعمال میں کمی کی وہ مشکلا ت کا شکار ہو ا اور جس کے جان ومال میں کسی قسم کا نقصان نہ پایا جائے تو وہ لطف خدا کا مستحق نہیں ہے۔ (13) امام صادق ں نے فرمایا: ساعات الأَوجاعُ یُذھبنّ بساعات الخطایا( 14) مصیبت کی گھڑیا ں خطا کے لمحات کو مٹادیتی ہیں۔ (بیماری گناہوں کا کفارہ ہے ) ۔دوسری جگہ امام صادق ں فرماتے ہیں : لا تزال الغموم والھموم بالمؤمن حتی لاتدع لہ ذنباًً(15) مومن ہمیشہ مصیبت وبلا ء میں اس لئے گرفتار رہتا ہے تاکہ اس کے گنا ہ باقی نہ رہ جائیں ۔امام رضا ںنے فرمایا : المرضُ للمؤمن تطھیرو رحمة و للکافر تعذیب ولعنة وأَن المرضَ لا یزال بالمؤمن حتیٰ لا یکون علیہ ذنب(16) مومن کی بیماری اس کی پاکیزگی او ررحمت کا سبب ہے او رکا فر کے لئے عذاب و لعنت کا سامان ہے ،مومن ہمیشہ بیماری میں مبتلارہتا ہے تاکہ اس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں ۔امام باقر ںفرماتے ہیں :” أِنَّما یُبتلیٰ المؤمن فی الدنیا علیٰ قدر دینہ او قال علی حسب دینہ” مومن دنیا میں مراتب دین کے تحت مصیبت میں مبتلاہو تا ہے۔ (17) دوسری حدیث میں امام صادق ںنے فرمایا :مومن کے لئے چالیس شب نہیں گذرتی کہ اس کے اوپر کو ئی بڑی مصیبت آپڑتی ہے تاکہ وہ ہو شیار ہوجائے ۔(18)قرآن مجید میں کم وبیش، بیس مقامات پر امتحان الٰہی کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے ۔یہ امتحان خدانے ہم سے آگا ہی کے لئے نہیں لیا ہے کیونکہ وہ ابتداء ہی سے ہم سے با خبر ہے بلکہ اس امتحان میں تربیت کاایک پہلو ہے۔ الٰہی امتحانات روح اورجسم کے لئے تکامل کاذریعہ ہیں او ردوسری طرف امتحان کے بعد جزاوسزا کا استحقاق ہے( وَلَنَبلُونَّکُم بِشَیئٍ مِن الخَوفِ والجُوعِ وَنَقصٍ مِن الأموالِ وَ الأنفُسِ والثَّمراتِ و بَشّر الصَّابِرینَ)(19) او رہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف، تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس او رثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر! آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ۔(وَنَبلُونَّکُم بالشَّرِّ والخَیرِ فَتنة واِلینا تُرجعَونَ) (20)اور ہم تو اچھائی او ربرائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے اور تم سب پلٹا کر ہماری بارگاہ میں لائے جائوگے ۔مولائے کائنا ت نے فرمایا :… ولکنّ اللّہَ یختبر عبادہ بأنواع الشدائد ویتعبدھم بأنواع المجاھد و یبتلیھم بضروب المکارہ (21) خدا وند تعالی اپنے بندوں کو مختلف سختیوں کے ذریعہ آزماتاہے او ربندے کو مختلف مشکلوں میں عبادت کی دعوت دیتا ہے اور متعدد پریشانیوں میں مبتلا کر تا ہے ۔فلسفہ مصائب کا خلا صہ اور نتیجہ بہتیرے اعتراضات، عدل الٰہی کے سلسلہ میں جہالت او ربلا ء و مصیبت کے فلسفہ کو درک نہ کرنے کے باعث ہو ئے ہیں مثلایہ خیال کریں کہ موت فنا ہے اور اعتراض کر بیٹھیں کہ فلاں شخص کیو ں جوانی کے عالم میں مر گیا اور اپنی زندگی کا لطف نہ اٹھا سکا ؟ ہم یہ سوچتے ہیں کہ دنیا ابدی پناہ گاہ ہے لہٰذا یہ سوال کرتے ہیں کہ سیلا ب اور زلزلے کیو ں بہت سارے لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ہے ؟ ہماری فکر کے اعتبار سے یہ دنیا آرامگاہ ہے تو پوچھتے ہیں کہ بعض لوگ بے سروسامان کیوں ہیں ؟۔(یہ سارے سوالات ) ان لوگو ں کی مانند ہیں جو دوران درس اعتراضات کی جھڑ لگادیتے ہیں کہ چائے کیاہوئی ،کھا نا کیوں نہیں لاتے ،ہما را بستر یہاں کیوں نہیں ہے ؟ان سارے سوالوں کے جواب میں صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ درس گا ہ ہے مسافر خانہ نہیں ۔در حقیقت گزشتہ سارے اعتراضات کابہترین راہ حل اس دنیا کو پہچاننا اور موجودات عالم کے مقصد خلقت کو درک کرنا ہے ۔…………..(1) سورہ نساء آیة ٧٩ (2) سورہ روم آیة ٤١ (3) سابق ، ،ص ٣٥٨(4) نہج البلا غہ خطبہ ١٧٨ (5) سورہ نساء ٧٩ ،بحارالانوار ج ٨٣ ،ص ٣٥٠(مزید معلومات کے لئے تفسیر برہان ج،٤ ص ١٢٧ او رنور الثقلین آیة ٧٨ کے ذیل میںاو ر بحارالانوار ج، ٧٨ ،ص ٥٢ کی طرف رجوع فرمائیں (6) سورہ انفال آیة ٢٠(7)وسائل الشیعہ جلد ١١،ص٤٠٧(8)سورہ آل عمران آیة ١٧٨ (9)شرح ابن الحدید ، ج،١٩ ص ٢٧٥ ۔(10) اصول کا فی ج، ٢،باب استدراج ، حدیث ۔١(11) بحار جلد ٦٧ ،ص٢٠٧ (12)بحار جلد ٨١ ،ص ١٩٢ ۔(13) بحار الانوار ج،٨١ ص ،١٩١۔
(14)بحار الانوار جلد٦٧باب ابتلاء لمومن(15)بحار الانوار جلد،٨١ص،١٩١
(16)بحار الانوار جلد٨١، ص،١٨٣
(17) بحار الانوار ج،٨١ ص ،١٩٦۔(18)بحار الانوار جلد٦٧باب ابتلاء لمومن(19) سورہ بقرہ آیة ١٥٥(20) سورہ انبیاء آیة ٣٥
(21)نہج البلا غہ خطبہ ١٩٢