تقیہ سے متعلق شبہات حصہ دوم
امام کی پيروي اور تقیه کے درميان تناقضاس شبہہ کو یوں بیان کیا هے که شیعه ائمه(ع) کی پیروی کرنے کا ادعا کرتے هیں جبکه ائمه طاهرین (ع)نے تقیه کرنا چھوڑ دئے هیں ؛ جس کا نمونه علی (ع)نے ابوبکر کی بیعت کی ، اور امام حسین (ع)نے یزید کے خلاف جهاد کیا . (1 )
اس شبہہ کا جواب :اولاً :شیعه نظریے کے مطابق تقیه ایسے احکام میں سے نهیں که هر حالت میں جائز هو ، بلکه اسے انجام دینے کیلئے تقیه اور حق کا اظهار کرنے کے درمیان مصلحت سنجی کرناضروري هے که تقیه کرنے میں زیاده مصلحت هے یا تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت هے ؟ ائمه طاهرین (ع) بھی مصلحت سنجی کرتے اور عمل کرتے تھے. جیسا که اوپر کی دونوں مثالوں میں تقیه کو ترک کرنے میں زیاده مصلحت پائی جاتی هے لهذا دونوں اماموں نے تقیه کو ترک کیا . اگر امام حسین (ع)تقیه کرتے تو اپنے جد امجد ﷺ کا دین نهیں بچتا .ثانيا: شيعه سارے اماموں کی پيروي کرنےکو واجب سمجھتے هیں . اور همارے سارے ائمه نے بعض جگهوں پر تقیه کئے هیں اور بعض جگهوں پر تقیه کو ترک کئے هیں . بلکه اس سے بھی بالا تر که بعض مقامات پر تقیه کرنے کا حکم دئے هیں . یه اس بات کی دلیل هے که ان کی زندگی میں کتنی سخت دشواریاں پیش آتی تھیں.ثالثاً: تقيہ کے بہت سے موارد ، جهاں خود ائمه(ع) نے تقیه کرنے کو مشروع قرار دئے هیں ، جن کا تذکره گذرچکا .رابعاً: شبہہ پیدا کرنے والا خود اعتراف کررها هے که حضرت علي(ع) نے فقط چھ ماه بيعت كرنے سے انکار کیا پھر بعد میں بيعت کرلی .یه خود دلیل هے سيره حضرت علي(ع) میں بھی تقيہ هے .
فتواي تقيہ امام (ع)کي تشخيصاس کے بعد که قائل هوگئے كه ائمه(ع) بھی تقیه کرتے تھے ؛ درج ذیل سوالات ، اس مطلب کی ضمن میں که اگر امام حالت تقیه میں کوئی فتوا دیدے، تو کیسے پهچانیں گے که تقیه کي حالت میں فتوا دے رهے هیں یا عام حالت میں ؟!
جواب:اس کی پهچان تین طریقوں سے ممکن هے :1. امام کا فتوی ایسے دلیل کے ساتھ بیان هوجو حالت تقیه پر دلالت کرتی هو .2. فتوی دینے سے پهلے کوئی قرینه موجود هو ، جو اس بات پر دلالت کرے که حالت تقیه میں امام نےفتوی دیا هے .3. امام(ع) قرينه اور دليل کو فتوی صادر کرنے کے بعد ،بیان کرے که حالت تقیه میں مجھ سے یه فتوی صادر هوا هے .
تقيہ اورشیعوں کا اضطراب!تقيہ یعنی جبن و اضطراب کادوسرا نام هے ،اور شجاعت اور بہادری کے خلاف هے . جس کی وجه سے اپنےقول و فعل میں، اورظاهر و باطن میں اختلاف کی صورت میں ظاهر هوتی هے .اور یه صفت ، رزائل اخلاقی کے آثار میں سے هے اور اس کی سخت مذمت هوئی هے؛ لهذا خود امام حسين(ع) نے كلمه حق کی راه میں تقيہ کے حدود کو توڑ کر شهادت کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا . (2 )جواب: اگرشیعوں میں نفسياتي طور پر جبن، اضطراب اور خوف پایا جاتا توظالم بادشاهوں کے ساتھ ساز باز کرتے ، اور کوئی جنگ يا جهاد کرنے کی ضرورت هی پیش نهیں آتی . یه لوگ بھی درباری ملاؤں کی طرح اپنے اپنے دور کے خلیفوں کے هاں عزیز هوتے .اور تقیه کی ضرورت هی پیش نه آتی.اس سے بڑھ کر کیا کوئی شجاعت اور بہادری هے که جس دن اسلام کی رهبری اور امامت کا انتخاب هونے والاتھا ؛ اس دن لوگوں نے انحرافی راسته اپناتے هوئے نااهل افراد کو مسندخلافت پر بٹھادئے . اس دن سے لیکر اب تک شیعوں کا اور شیعوں کے رهنماؤں کا یهی نعره اور شعار رها هے که هر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ ٹکرانا هے اور مظلوموں کی حمایت کرنا هے . اور اسلام سے بےگانه افراد کی سازشوں کو فاش کرنا هے .اگرچه شیعه مبناي تقيہ پر حركت کرتے هیں ؛ لیکن جهاں بھی اس بات کی ضرورت پیش آئی که ظالم اور جابر کے خلاف آواز اٹھانا هے ؛ وہاں شیعوں نے ثابت کردیا هے که اسلام اور مسلمین اور مظلوموں کی حمایت میں اپنا خون اور اپنے عزیزوں کی جان دينے سے بھي دريغ نهيں کيا.شیعوں کا آئیڈیل یه هے که اسلام همیشه عظمت اور جلالت کے مسند پرقائم رهے اور امت اسلامی کے دل اور جان میں اسلام ی عظمت اور عزت باقی رهے .اور یه بھی مسلمان یاد رکھے ! که تاریخ بشریت کا بہترین انقلاب ؛ شیعه انقلاب رها هے . اور دنیا کے پاک اور شفاف ترین انقلابات ، جو منافقت ، دھوکه بازی ، مکر و فریب اور طمع و لالچ سے پاک رهے ؛ وہ شیعه انقلابات هیں .هاں ان انقلابات میں مسلمان عوام اور حکومتوں کی عظمت اور عزت مجسم هوچکی تھی .اور طاغوتی قوتوں کےمقابلے میں اس مکتب کے ماننے والوں کو عزت ملی اور شیعه، طاغوتی طاقوتوں اور حکومتوں کو برکات اور خیرات کا مظهر ماننا تو درکنار ، بلکه ان کے ساتھ ساز باز کرنے سے پر هیز کرتے تھے .هم کچھ انقلابات کا ذکر کریں گے ، جن کو ائمه طاهرین (ع) نے سراهتے هوئے ان کی کامیابی کے لئے دعا کی هیں .کیونکه کسی بھی قوم کی زندگی اور رمز بقا انهی انقلابات میں هے . جن میں سے بعض یه هیں:o زيد ابن علي(رہ) کا انقلابo محمد بن عبدالله (رہ) کا حجازميں انقلابo ابراهيم بن عبدالله (رہ)کا بصره ميں انقلابo محمد بن ابراهيم و ابو السراي(رہ)کا انقلابo محمد ديباج فرزند امام جعفر صادق(ع)کا انقلابo علي ابن محمد فرزند امام جعفر صادق(ع)کا انقلاباسی طرح دسیوں اور انقلابات هیں ، که جن کی وجه سے عوام میں انقلاب اورشعور پید اهوگئی هے . اور پوری قوم کی ضمیر اور وجدان کو جگایا هے . (3 )امامان معصوم(ع) ان انقلابات کو مبارک اور خیر وبرکت کا باعث سمجھتے تھے .اور ان سپه سالاروں کي تشویق کرتے تھے .راوي کهتا هے : فَدَخَلْنَا عَلَى الصَّادِقِ ع وَ دَفَعْنَا إِلَيْهِ الْكِتَابَ فَقَرَأَ وَ بَكَى ثُمَّ قَالَ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ عِنْدَ اللَّهِ أَحْتَسِبُ عَمِّي إِنَّهُ كَانَ نِعْمَ الْعَمُّ إِنَّ عَمِّي كَانَ رَجُلًا لِدُنْيَانَا وَ آخِرَتِنَا مَضَى وَ اللَّهِ عَمِّي شَهِيداً كَشُهَدَاءَ اسْتُشْهِدُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ (4 ) جب امام صادق(ع) کو زیدابن علی کی شهادت کی خبر ملی تو کلمہ استرجاع کے بعد فرمایا :میرے چچا واقعاً بہترین اور عزیز ترین چچا هیں . اور همارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں چاهنے والے هیں . خدا کی قسم ! میرے چچا ایسے شهید هوئے هیں ، جیسے رسول خدا ﷺ ، علی اور حسین (ع) کےرکاب ميں شہید هوچکے هوں .خدا کی قسم ! وہ شهید کی موت مرے هیں .ایسے کلمات ائمه معصومین Gسے صادر هوئے هیں ، اور یه بہت دقیق تعبیر یں هیں که جو شیعه تفکر کی عکاسی کرتی هیں که هر ظالم و جابر حکمران کو غاصب مانتے تھے .اور هر حاکم ، شیعه کو اپنے لئے سب سے بڑا خطر ه جانتا تھا .هم زیاده دور نهیں جاتے ، بلکه اسی بیسویں صدی کا انقلاب اسلامی ایران پر نظر کریں ؛ کیسا عظیم انقلاب تھا ؟! که ساری دنیا کے ظالم وجابر ؛ کافر هو یا مسلمان ؛طاغوتی قوتیں سب مل کر اسلامی جمهوری ایران پر حمله آور هوئے ؛ اگرچه ظاهراً ایران اور عراق کے درمیان جنگ تھی ، لیکن حقیقت میں اسلام اور کفر کے درمیان جنگ تھی . کیونکه عالم کفر نے دیکھا که اگر کوئی آئین یا مکتب ، ان کیلئے خطرناک هے ، تو وہ اسلام ناب محمدی (ص) اور اس کے پیروی کرنے والے هیں . اسی لئے باطل طاقتیں اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ ، اسلام ناب محمدیﷺ کے علمبردار یعنی خمینی بت شکن (رہ)اور ان کے انقلاب کو سرکوب کرنے پر اتر آئے ، لیکن الله تعالیٰ نے ان کو ذلیل و خوار کیا اور جمهوری اسلامی ایران کی ایک فٹ زمین بھی چھین نه سکے، جبکه صدام نے مغرورانه انداز ميں کها تھا که ايک هفتے کے اندر اندر تهران ميں وارد هونگے اور ظهرانه تهران ميں جشن مناتے هوئے کھائيں گے .آج پوری دنیا میں اگر اسلام کا کوئی وقار اور عزت نظر آتا هے تو انقلاب اسلامی کی وجه سے هے .آئیں اس انقلاب سے بھی نزدیکتر دیکھتے هیں که مکتب اهل بیت (ع) کے پیروکاروں نے کس طرح حقیقی اسلام کے دشمنوں کے ساتھ بہادرانه طور پر مقابله کیا اور دشمن کے سارے غرور کو خاک میں ملاتے هوئے ، شکست فاش دیا ؟! میرا مقصد ؛ شیعیان لبنان (حزب الله اور ان کے عظیم لیڈر ، سید حسن نصرالله ) هیں . جو کردار خمینی بت شکن (رہ) نے امریکا اور اسرائیل کے مقابلے میں دنیا کے مستضعفوں کی حاکمیت قائم کرنے میں ادا کیا ، وہی کردار سید حسن نصرالله نے جنایت کار اور خون خوار اسرائیل کے ساتھ ادا کیا .مناسب هے که اس بارے میں کچھ تفصیل بیان کروں ،تاکه دنیا کے انصاف پسند لوگوں کو یه معلوم هو سکے که تقیه کے دائرے کو توڑ کر دشمن کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابله کرنے والا کون تھا ؟!رهبر انقلاب اسلامي حضرت امام خميني(رہ) نے ایک تحقير آميز انداز میں اسرائیل کی حیثیت کو دنیا کے سامنے واضح کرتے هوئے فرمایا تھا : که اگر دنیا کے سارے مسلمان متحد هوکر ایک ایک گلاس پانی پھینک دیں تو اسرائیل اس صفحی هستی سے محو هوجائے گا . دنیا کے بہت سارے دانشمندوں اور روشن فکروں نے اس بات کا مزاق اڑایا تھا ، لیکن حزب الله لبنان کی تجربات اور مهارت نے یه بات دنیا کے اوپر واضح کردیا که اسرائیل کی حکومت هزارون ایٹمی میزائیلوں اور بموں اور جدید ترین هتھیاروں کے رکھنے کے باوجود بھی ایک باایمان اور مختصر گروہ کے سامنے بے بس هوکر اپنے گٹھنے ٹیک دینے پر مجبور هوگئے .اور شیشے کے درودیوار والے محل اور بنگلوں میں رهنے والے چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں کے غلیل کی زد میں آکر پریشان اور بیچین نظر آتےهيں.آج پوری دنیا میں خمینی بت شکن (رہ) کے افکار اور نظریات پھیل چکے هیں ؛ جس کا مصداق اور نمونه اتم ، سید حسن نصر الله اور حزب الله لبنان کی شکل میں نظرآتا هے .اور آپ کے اس فرمان کی ترجمانی کرتے هوئے سید حسن نصرالله نے کها: والله انّ هي( اسرائيل) وہن من بيت العنكبوت؛ خدا کی قسم یه اسرائیل مکڑی کی جال سے بھی زیاده نازک اور کمزور هے . یه کهه کر امام خمینی (رہ) کے اس جملے( اسرائیل کو اس صفحه هستی سے مٹ جانا چاهئے ) کی صحیح ترجمانی کی .هاں ! سید حسن نصر الله کیلئے یهی باعث فخر تھی که رهبر معظم و مرجع عالی قدر حضرت آیة الله العظمی سید علی خامنه ای کے بازؤں کا بوسه لیتے هوئے ، دنیا پر واضح کررهے تھے که میں امام زمان (عج) کے نائب برحق کےشاگردوں میں سے ایک ادنی شاگرد هوں. اس مرد مجاهد نے لبنان کے سارے بسنے والوں کو ؛ خوہ وہ مسلمان هویا غیر مسلمان ، شهادت طلبی کا ایسا درس دیا که سارے مرد ،عورت ، چھوٹے بڑے نے ان کی باتوں پر لبیک کهه کرکلمه لاالٰه الا الله کی سربلندی کے لئے شهادت کی موت کو خوشی سے گلے لگائے . یهی حزب الله کی جیت کی اصل وجه تھی .اور یه ثابت کردیا که مکتب اهل بیت(ع) کے ماننے والا هی رهبری کے لائق هے .آج پورے دنیا والوں نے یه محسوس کرلیا هے ، خصوصاً جوانوں نے ، که حزب الله ، شیعه هے ، اور ان کی مکتب حقه کا زیاده سے زیاده مطالعه کرنے لگے هیں ، جس کا نتیجه یه نکلا هے که حقیقی اسلام کی شناخت کیلئے دروازه کھل گیا هے .نيو يورك ٹائمز نے لکھا هے که : سيد حسن نصر الله نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کرکے اپنی اور اپنی ٹیم کی شخصيت اور وقار کو حد سے زیاده بلند و بالا کیا هے . اور جو چیز صفحه تاریخ سے مٹادینے کے قابل هیں، وہ مصر کا صدر جمال عبد الناصر کا یهودیوں کو سمندر میں پھینک دینے کا خالی اور کھوکھلا دعوا اور صدام کا آدھا اسرائیل کو جلانے کا جھوٹا ادعی تھا ؛ ان دنوں صدام کے بڑے بڑے پوسٹرز پاکستان کے مختلف شهرو ں میں روڈوں پر بکنے لگے . اور صدام کو صلاح الدین ایوبی کا لقب دینے لگے .لیکن اس نے اسرائیل کے اوپر حمله کرنے کے بجائے کویت پر حمله کر کے مسلمانوں کا مال اور خزانه لوٹ کر سب سے بڑا ڈاکو بن گیا .لیکن ان کے مقابلے میں دیکھ لو که سيد حسن نصر الله،۴۶ ساله ایک روحانیت کے لباس میں محاذ جنگ پر ایک فوجی جرنیل کا کردار ادا کرتے هوئے اپنی ٹیم کا کمانڈ کرتے هوئے نظر آتا هے .یه اخبار مزید لکھتا هے که : وہ مشرق وسطي کا قدرتمند ترین انسان هے .یه بات عرب ممالک کے کسی ایک وزیر اعظم کے مشیر نے اس وقت کهی که جب سيد حسن نصرالله ٹی وی پر خطاب کررهے تھے .پھر وہ ایک سرد آه بھر کر کهتا هے : حسن نصرالله هی تمام عرب ممالک کے رهبر هیں .کیونکه وہ جو جو وعده کرتا هے اسے ضرور پورا کرتے هیں .خود اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کردیا تھا که ۳۳ روزه جنگ میں ۱۲۰ اسرائیلی فوج کو قتل اور ۴۰۰ کوشدید زخمی کردئے ، جن میں سے بھی اکثر مرنے کے قریب تھے .اسی طرح ۵۰ یهودی دیھاتی بھی حزب الله کے میزائلوں کی زد میں آکر مرے ، اور ۲۵۰۰ افراد زخمی تھے .حز ب الله نے یه کر دکھایا که اس مختصر مدت میں ۱۲۰ میر کاوا ٹینک ، ۳۰ زرهی ، ۲ آپاچی هیلی کوپٹر کو منهدم کردیا .غربی سیاستمداروں ، وایٹ هاوس کے حکمران لوگ ، شروع میں حزب الله کی اس مقاومت اور مقابلے کو بہت هی ناچیز اور کم سمجھ رهے تھے ،اور ان کا یه تصور تھا که ایک هفتے کے اندر اندر حزب الله پسپا هوجائے گا ، اور اسرائیل کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور هوجائے گا .یهی وجه تھی که پهلے دو هفتے تک تو نه اقوام متحده کی جانب سے اور نه وائٹ هاؤس کی جانب سے ،اور نه کوئی سازمان كنفرانس اسلامي عرب لیگ کی جانب سے اعتراض هوا ، نه اس جنگ کو روکنے کی بات هوئی ؛ صرف یه لوگ تماشا دیکھتے رهے ، اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یه تھي که ایک دفعه بھی اسرائیل کی ان جنایات اور غانا میں بچوں اور عورتوں کے قتل عام کرنے پر ، ایک احتجاجی جلسه بھی عرب لیگ میں منعقد نهیں هوا !!.جب امریکه کی وزیر خارجه مس کونڈولارائس سے جنگ بندی کیلئے تلاش کرنے کی اپیل کی؛ تاکه لبنان خون خربہ میں تبدیل نه هو ؛ تو اس نے بڑی نزاکت کے ساتھ کها تھا :کوئی بات نهیں ، بچه جننے کیلئے اس کی ماں کو درد زه برداشت کرنا پڑتا هے ، اسی طرح هم اس کره زمین پر ایک جدید مشرق وسطی کے وجود میں لانے کیلئے کوشان هے ، جس کا وجود میں آنے کیلئے کوئی ایک ملک(لبنان) خون خربہ میں تبدیل هوجائے ، اور یه ایک طبیعی چيز هے !!اس بیان کے جواب میں سید حسن نصراللہ نے مناسب اور منه توڑ جواب دیتے هوئے کها : هم بھی اس ناجائز طریقے سے وجود میں آنے والے بچے کو دنیا میں قدم رکھتے هی گلا دبا کر ماردیں گے .تیسرے هفتے میں دهیمی دهیمی الفاظ میں بعض ممالک کے رهنماؤں اور سیاسی لیڈروں کے منه کھلنے لگیں .اقوام متحده کے اٹارنی جنریل ، جیسے طولانی خواب سے بیدار هوا هو، سمجھنے لگے که لبنان میں کوئی معمولی حادثه رونما هوا هے ،تیسرے هفتے کے آخر میں جب حزب الله ، اسرائیل کے چار بحری کشتیوں کو منهدم کرنے میں کامیاب هوئے ، اور اسرائیل اپنے کسی بھی ایک هدف کو پهنچ نهیں پایا ؛ تو امریکه ؛ جو کسی بھی صورت میں شورای امنیت کا جلسه تشکیل دینے کیلئے حاضر نه تھا ، ایک دم وہ جنگ بندی کرنے کے خاطر اتفاق رأی کے ساتھ شق نمبر ۱۷۰۱ کے مطابق ، میدان میں اتر آیا ؛ کیونکه اسرائیل نے امریکه اور دوسرے ممالک کی طرف سے دئے هوئے تمام تر جدید میزائل ، بمب اور دوسرے سنگین اسلحے سے لیس هونے کے باوجود ؛ حزب الله کے سامنے اپنے گٹھنے ٹیک دیا تھا، اور مزید سیاسی امداد کیلئے هاتھ پھیلا رها تھا . اس ضرورت کو امریکه ، قطعنامہ کے ذریعے جبران کرنا چاهتا تھا .مکتب اهل بیت (ع)کے ماننے والوں کے یه سارے انقلابات ، شیعوں کی شجاعت ، دلیری اور بہادری کو ثابت کرتی هیں .اور یه سارے انقلابات ، اپنی ذاتی مفاد کے خاطر نهیں تھیں ، بلکه الله تعالی کے ارادے کو حاکم بنانا اور ظلم و ستم کو ختم کرنا مقصود تھا .لیکن افسوس کے ساتھ کهنا پڑتا هےکه بعض مسلم ممالک کے مفتی حضرات ؛ جیسے سعودی عرب کے مفتی بن جبرین ، اور مصر کے درباری ملا ، طنطاوی ، نے فتوا دئے تھے که حزب الله کا مدد کرنا، حتی ان کے لئےدعا کرنا بھی جائز نهیں هے ، بلکه حرام هے ؛ کیونکه وہ لوگ شیعه هیں . اسي طرح سعودی حکومت نے بھي اسرائیل کے جنگی طياروں کولبنان پر حمله کرنے کیلئے پیٹرول (فیول) دیتا رها .اور جب مسلمانوں کی طرف سے یه لوگ پریشر میں آئے تو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے هوئے اپنی ملت اور قوم کے سامنے معافی مانگنے پر مجبور هو گئے . اور مفتی بن جبرین نے اپنے ویب سایٹ پر غلطی کا اعتراف کرتے هوئے معافی مانگا ، اور کها: جو کچھ مجھ سے پهلے نقل هوئی هے وہ میرا قدیم اور پرانا نظریه تھا ؛ ابھی میرا جدید نظریه یه هے که یه حزب الله ، وہی حزب الله هیں جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا هے .اور هم انهیں دوست رکھتے هیں اور ان کیلئے دعا بھی کرتے هیں .اور طنطاوي نے بھی جب جامعة الازهر کے اساتذه نے ان کے اوپر اعتراض کئے تو ان کے سامنےکها: جو کچھ میں نے پهلے بتايا تھا وہ میرا اپنا ذاتی نظریه نهیں تھا بلکه حکومت کی طرف سے کهلوایا تھا . اور میرا ذاتی نظریه ان کے بارے میں یه هے که حزب الله کے مجاهدین، اس وقت اسلام ، مسلمین اور عرب امت کی عزت اور کرامت کے لئے اسرائیل کے ساتھ لڑ رهے هیں ،لهذا ان کی حمایت کرنا ضروری هے .آج کے دور میں سارے عرب ممالک میں محبوب ترین اسلامی شخصیت ، سید حسن نصرالله کو ٹهھرایا جاتا هے . اور هر بچه ، جو پیداهوتا هے ؛ اس کا نام حسن نصرالله رکھ رهے هیں . یه بہت دلچسپ بات تھی که اس سال جب ماه رمضان المبارک کا مهینه آیا اور لوگ روزه رکھنے لگے ؛ مصر میں بہترین اور اعلی درجے کے خرما یا کھجور کا نام حسن نصرالله رکھا گیا ؛تا که روزه دار ، افطاری کے وقت حسن نصرالله کو دعائیں دیں اور خراب کھجور کا نام بش اور بلر رکھا گیا.یه وہ تاریخی حقائق هیں ، جن سے کوئی بھی اهل انصاف انکار نهیں کرسکتا . اور ان حقیقتوں سے لوگ جب آشنا هوجاتے هیں تو خود بخود مذهب حقه کی طرف مائل هوجاتے هیں ، بشرطیکه درباری ملاؤں کی طرف سے مسلمانوں کوکوئی رکاوٹ درپيش نه هو.اب هم ان سے سوال کرتے هیں که آپ کوئی ایک نمونه پیش کریں جو آپ کے کسی سیاسی یا مذهبی رهنما نے ایسا کوئی انقلاب برپا کیا هو ، اور اپنی شجاعت کا ثبوت دیا هو، تاکه هم بھی ان کی پیروی کریں ؟!اور همیں یقین هے که وہ لوگ نه اسلام سے پهلے اور نه اسلام کے بعد ، کوئی ایسی جوانمردی نهیں دکھا سکتے . کیونکه انهیں اپنی جوان مردی دکھانے کی ضرورت هی نهیں پڑی ؛ جو همیشه ظالم و جابر حکمرانوں کے کوڑوں اور تلواروں سے همیشه محفوظ رهے هیں .کیونکه وہ لوگ همیشه حاکموں کے هم پیاله بنتے رهے هیں اوران کی هرقسم کے ظلم وستم کی تائید کرتے رهے هیں .جس کی وجه سے تقیه کا موضوع هی منتفی هوجاتا هے .اگر شیعه علما بھی ان کی طرح حکومت وقت کی حمایت کرتے اور ان کے هاں میں هاں ملاتے رهتے تو ان کو بھی کبھی تقيہ کی ضرورت پیش نه آتی .بلکه ان کیلئے تقیه جائز بھی نه هوتا ، کیونکه تقیه جان اور مکتب کی حفاظت کے خاطر کیا جاتا هے ، اور جب ان کی طرف سے جان اور مال کی حفاظت کی گارنٹی مل جاتی تو ، تقیه کرنے کی ضرورت هی نهیں رهتی .
تقيہ كافروں سے کیا جاتا هے نه مسلمانوں سےاشكال کرتے هیں که تقیه کافروں سے کیا جاتا هے نه مسلمانوں سے . کیونکه قرآن مجید میں تقیه کا حکم کافروں سے کرنے کا هے نه مسلمانوں سے . چنانچه فرمایا: لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِي شَيْءٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّهِ الْمَصِيرُ. (5 )خبردار صاحبانِ ایمان !مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے. اور یه تقیه ابتدای اسلام میں تھا ، لیکن شیعه حضرات ، اهل حدیث سے تقیه کرتے هیں .پهلاجواب:یه شيعيان حيدر كرار(ع) کی مظلوميت تھی که جو مسلمانوں سے بھی تقیه کرنے اور اپنا عقیده چھپانے پر مجبور هوگئے . اور یه نام نهاد مسلمانوں کیلئے لمحه فکریه هے که وہ اپنے اعمال اور کردار اور عقیدے پر نظر ثانی کرے ؛ که جو کافروں والا کام اوربرتاؤ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کرتا هو ، کیونکه اگر تقیه کرنے کی وجه اور علت کو دیکھا جائے تو معلوم هوجاتا هے که نتیجه ایک نکلتا هے ، اور وہ دشمن کی شر سے دین، جان اور مال کی حفاظت کرنا هےدوسرا جواب: ظاهر آيه اس بات پر لالت کرتی هے که تقیه ان کافروں سے کرنا جائز هے جو تعداد یا طاقت کے لحاظ سے مسلمان سے زیاده قوی هو .لیکن شافعی مذهب کے مطابق اسلامی مختلف مکاتب فکر سے تقیه کرنا جائز هے . کیونکه شافعی کے نزدیک مجوز تقیه ، خطر هے ، خوہ یه خطر کافروں سے هو یا مسلمانوں سے هو ؛ که شیعه ،مسلمانوں کے هاتھوں بہت سی سختیوں اور مشکلات کو تحمل کرنے پر مجبور هوئے هیں . اور یه مظلومیت ،شهادت علي ابن ابي طالب(ع) کے بعد سے شروع هوئی .ان دوران میں بنی امیه کے کارندوں نے شیعه مرد عورت ، چھوٹے بڑے ، حتی شیعوں کے کھیتوں اور حیوانات پر بھی رحم نهیں کيا .آخر کار انهیں بھی آگ لگادی گئي.جب معاویه اريكه قدرت پر بیٹھا تو شيعيان علي(ع)کو سخت سے سخت قسم کی اذیتیں پهنچانا شروع کیا . اور ان کے اوپر زندگی تنگ کردی .اور اس نے اپنےایک کارندے کو خط لکھا : میں علی اور اولاد علی (ع)کے فضائل بیان کرنے والوں سے اپنی ذمه بری کرتا هوں ، یعنی انهیں نابود کروں گا .یهی خط تھا که جس کی وجه سے ان کے نماز جماعت اور جمعے کے خطیبوں نے علی پر ممبروں سے لعن طعن کرتے هوئے ان سے اظهار برائت کرنے لگے ، یه دور،کوفه والوں پر بہت سخت گذری ، کیونکه اکثر کوفه والے علی کے ماننے والے تھے . معاویه نے زیاد بن سمیه کو کوفه اور بصره کی حکومت سپرد کی ، یه ملعون شیعوں کو خوب جانتا تھا ، ایک ایک کرکے انهیں شهیدکرنا ، هاتھ پیر ، کان اور زبان کاٹنا ، آنکھیں نکالنا اور شهر بدر کرنا شروع کیا .اس کے بعد ایک اور خط مختلف علاقوں میں باٹنا شروع کیا ؛ جس میں اپنے کارندوں اور حکومت والوں کو حکم دیا گياکه شیعوں کی کوئی گوہی قبول نه کریں .سب سے زیاده دشواری اور سختی عراق ، خصوصاً کوفه والوں پر کی جاتی تھی ؛ کیونکه وہ لوگ اکثر شیعیان علی ابن ابی طالب (ع) تھے .اگر یه لوگ کسی معتبر شخص کے گھر چلا جائے تو ان کے غلاموں اور کنیزوں سے بھی احتیاط سے کام لینا پڑتا تھا ؛ کیونکه ان کے اوپر اعتماد نهیں کرسکتے تھے .اور انهیں قسم دلاتے تھے که ان اسرار کو فاش نهیں کریں گے . اور یه حالت امام حسن مجتبی (ع) کے دور تک باقی رهی ، امام مجتبی (ع)کی شهادت کے بعد امام حسین (ع)پر زندگی اور تنگ کردی.عبدالملك مروان کی حکومت شروع هوتے اور حجاج بن يوسف کے بر سر اقتدار آتے هی ، دشمنان امير المؤمنين(ع) هر جگه پھیل گئے اور علی(ع) کے دشمنوں کی شأن میں احادیث جعل کرنے ، اور علی (ع)کی شأن میں گستاخی کرنے لگے.اور یه جسارت اس قدر عروج پر تھا که عبدالملك بن قريب جو اصمعي کا دادا تھا ؛ عبدالملك سے مخاطب هوکر کهنے لگا : اے امیر ! میرے والدین نے مجھے عاق کردیا هے اور سزا کے طور پر میرا نام علی رکھا هے . میرا کوئی مددگار نهیں ، سواے امیر کے . اس وقت حجاج بن یوسف هنسنے لگا اور کها: جس سے تو متوسل هوا هے ؛ اس کی وجه سے تمھیں فلان جگه کی حکومت دونگا .امام باقر(ع)شیعوں کی مظلومیت اور بنی امیه کے مظالم کے بارے میں فرماتے هیں : یه سختی اور شدت معاويه کے زمانے اور امام مجتبي(ع) کی شهادت کے بعد اس قدر تھی که همارے شیعوں کو کسی بھی بہانے شهید کئے جاتے ، هاتھ پیر کاٹتے اور جو بھی هماری محبت کا اظهار کرتے تھے ، سب کو قید کرلیتے تھے اور ان کے اموال کو غارت کرتے تھے . اور گھروں کو آگ لگائے جاتے تھے ،یه دشواری اور سختی اس وقت تک باقی رهی که عبید الله جو امام حسین(ع) کا قاتل هے کے زمانے میں حجاج بن یوسف اقتدار پر آیا تو سب کو گرفتار کرکے مختلف تهمتیں لگا کر شهید کئے گئے .اور اگر کسی پر یه گمان پیدا هوجائے ، که شیعه هے ، تو اسے قتل کیا جاتا تھا . (6 )یه تو بنی امیه کا دور تھا اور بنی عباس کا دور تو اس سے بھی زیاده سخت دور، اهل بیت کے ماننے والوں پر آیا . چنانچه شاعر نے علی(ع)کے ماننے والوں کی زبانی یه آرزو کی هے ، که اے کاش ، بنی امیه کا دور واپس پلٹ آتا !: (7 )
فياليت جور بني مروان دام لناو كان عدل بني العباس في الناراےكاش ! بنی امیه کا ظلم و ستم ابھی تک باقی رهتا اور بنی عباس کا عدل و انصاف جهنم کی آگ میں .جب منصور سن ۱۵۸ھ میں عازم حج هوا كه وہ اس کی زندگی کا آخری سال تھا ؛ ریطه جو اپنے بھائی سفاح کی بیٹی اور اپنے بیٹے کی بیوی (بہو) تھی ، اسے اپنے پاس بلا کر سارے خزانے کی چابی اس کا حواله کیا ، اور اسے قسم دلائی که اس کے خزانے کو کسی کیلئے بھی نهیں کھولے گي.اور کوئی ایک بھی اس کے راز سے باخبر نه هو،حتی اس کا بیٹا محمد بھی ، لیکن جب اس کی موت کی خبر ملی تو محمد اور اس کی بیوی جا کر خزانے کا دروازه کھولا ، بہت هی وسیع اور عریض کمروں میں پهنچے ، جن میں علی(ع) کے ماننے والوں کے کھوپڑیاں اور جسم کے ٹکڑے اور لاشیں ملیں .اور هر ایک کے کانوں میں کوئی چیز لٹکی هوئی تھی که جس پر اس کا نام اور نسب مرقوم تھا . ان ميں جوان ، نوجوان اوربوڑھے سب شامل تھے . الا لعنة الله علي القوم الظالمين!.محمد نے جب یه منظر دیکھا تو وہ مضطرب هو ا اور اس نے حکم دیا که ان تمام لاشوں کو گودال کھود کر اس میں دفن کئے جائیں . (8 )بنی عباس کے بادشاهوں نے علی (ع)کے فضائل بیان کرنےوالے شاعروں کی زبان کاٹی ، اور ان کو زنده درگور کئے اور جو پهلے مر چکے تھے ان کو قبروں سے نکال کرجسموں کو جلادئے گئے . ان سب کا صرف ايک هي جرم تھا ؛ اوروہ محبت علی(ع) کے سوا کچھ اورنه تھا .شيعيان آفريقا ،معاذ ابن باديس کے دور میں سنه ۴۰۷ ھ میں سب کو شهید کئےگئے ، اور حلب کے شیعوں کو بھی اسی طرح بے دردی سے شهید کئے گئے .اي اهل انصاف!خود بتائیں که ان تمام سختیوں ، قید وبند کی صعوبتوں اور قتل و غارت ، کے مقابلے میں اس مظلوم گروہ نے اگر تقیه کر کے اپني جان بچانے کي کوشش کي ، تو کیا انهوں نے کوئی جرم کیا؟!!اور یه بتائیں که کون سا گروہ یا فرقه هے ؛ جس نے شیعوں کی طرح اتنی سختیوں کو برداشت کیا هو ؟!!…………..(1 ) . موسي موسوي؛ الشيعه والتصحيح، ص۶۹.(2 ) . دكتر علي سالوس؛ جامعه قطربين الشيعه و السنه،ص۹۲.(3 ). علي عباس موسوي؛ پاسخ شبہاتي پيرامون مكتب تشيع ، ص۹۷.(4 ). بحارالأنوار ، ج 46،ص 175 باب 11- أحوال أولاده و أزواجه .(5 ) . سوره مباركه آلعمران/۲۸.(6 ). عباس موسوي؛ پاسخ و شبہاتي پيرامون مكتب تشيع،ص۸۶.(7 ) . ابن ابي الحديد؛ شرح او، ج ۱۱ ص۴۴.(8 ) . عباس موسوي؛ پاسخ و شبہاتي پيرامون مكتب تشيع،ص۸۷.