گروہ مفوضہ کا نظریہ

157

دلیل مفوضہ• جب انہوں نے جبریہ کے اقوال کے مفاسد کو دیکھا تویہ گمان کرنے لگے کہ بندہ اپنے کاموں میں مستقل اور آزاد ہے ۔ جس طرح یہودیوں نے کہا: ید اللہ مغلولة کہ ان کا عقیدہ کہ خدا نے اس کائنات کو ایک ہفتے میں خلق کیا اور ہفتہ کے دن تعطیل کیا! اور خدا بالکل لا تعلق ہوا ۔ جس طرح گھڑی ساز گھڑی بنانے کے بعد لا تعلق ہوتا ہے ۔ پھر بھی گھڑی کی سوئیاں چلتی رہتی ہے۔ اسی طرح یہ کائنات بھی خود بخود چلتی رہتی ہے ۔ یہ خلاف عقل ہے کیونکہ ہر ایک کیساتھ یہ اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ بہت سے کاموں کو سارے انسان تمام تر کوششوں کے ساتھ شروع کرتے ہیں اور تمام علل و اسباب بھی اسے فرہم ہوتا ہے لیکن کبھی کامیاب ہوتا ہے کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا :عرفت اللہ بفسح العزائم الھمم۔ یعنی میں نے لوگوں کے عزم وارادہ کے خلاف نتیجہ نکلنے سے خدا کو پہچانا۔کیونکہ کبھی لوگ ثروت مند اور دولت مند ہونے کے خاطر بہت محنت کرتے ہیں لیکن اسے تنگدستی اور فقر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اور کبھی اس کے برعکس بھی نتیچہ نکلتا ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ خدا کی حیثیت گھڑی ساز کی ہے ،یہ سلطنت مطلقہ کی توہین ہے۔ ثانیا آیات اور روایات بھی اس بات کے خلاف ہیں ۔ مذکورہ مثال کی طرف توجہ کریں کہ :ایاک نعبد و لا حول ولا قوة الا باللہ اور بحول للہ و قوتہ اقوم و اقعد ۔ ۔۔ ۔ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خدا کی مخلوقات ہمیشہ اور ہر ہر سکینڈ کیلئے خدا کی ذات پر محتاج ہیں-1-۔ • خدا نے امور دین کو پیامبراکرم(ص) کے ہاتھوں سونپ دیا ہے۔ اور انہوں نے ائمہ اور اولیاء کو تفویض کیا ہے۔ جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا نے سو رۂ نجم میںپیغمبر(ص)کے بارے میں فرمایا : و ما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی-2-۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے۔اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔یہ آیت صریح کیساتھ کہہ رہی ہے کہ پیامبر(ص) جو کچھ بھی بولے وہ خدا کی وحی کے مطابق ہوگا۔ حضرت علی(ع) فرماتے ہیں کہ جب پیامبر اسلام (ص)جاتے ہوئے مجھے علم اور معفرت کے ہزار دروازے عطا کئے اور میں نے بھی ان ہزار دروازوں سے ہزار دروازے اور کھول دئے ۔امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں جو علوم اور معارف علی(ع)کو عطا ہوئے ہیں ، ارث میں ملا ۔دوسری بات یہ ہے کہ اخبار تفویض کسی بھی صورت میں ادعای مفوضہ کے ساتھ مربوط نہیں ۔ کیونکہ مفوضہ کا ادعی یہ ہے کہ انسان کو تکوینیات میں اپنا نائب قرار دیا ہے ۔ لیکن ان روایا ت میں جو اختیار دیا گیا ہے وہ عالم تشریع میں ہے ۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً-3- ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔کہ خدا کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول اور ائمہ(ع) کی اطاعت واجب ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ خدا نے اپنے امور کو رسول اکرم(ص) اور اولی الامر کو تفویض کیا ہے ۔ یہاں ہم یہ جواب دینگے کہ اس تفویض کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کسی کو ایک ملک کا حاکم بنا دے اور تمام امور سلطنت کو اس کے ہاتھوں میں سونپا ہو اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ فلانی کی اطاعت کرو ۔ جو بھی اس حاکم کی نافرمانی کرے تو فلان سزا دونگا ۔ کیونکہ اس کا حکم میرا حکم ہے۔ -4—————-1 ۔ بہشتی نژاد ، پرسش وپاسخ اعتقادی،ج ١ ،ص٩٧.2 ۔ نجم ۳،۴۔3 ۔ نساء ۵۹۔4 ۔ معاد و عدل ،ص٥٩۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.