تقيه
وہ لوگ خود قابل مذمت هیں
تقیه کا مباح هونا:تقیه اس صورت میں مباح هوجاتا هے که اس کا ترک کرنا ایک قسم کا دفاع اور حق کی تقویت کا باعث هو. ایسے مواقع پر انسان فداکاری کرکے اپنی جان بھی دے سکتا هے ،اسی طرح اسے یه بھی حق حاصل هے که وہ اپنے حق سے دست بردار هوکر اپنی جان بچائے . تقیه کا حرام هونا: اس صورت میں تقیه کرنا حرام هوجاتا هے که اگر تقیه کرنا، باطل کی ترویج، گمراهی کا سبب، اور ظلم وستم کی تقویت کا باعث بنتا هو.ایسے موقعوں پر جان کی پروا نهیں کرنا چاهئے اور تقیه کو ترک کرنا چاهئے .اور هر قسم کی خطرات اور مشکلات کو تحمل کرنا چاهئے . ان بیانات سے واضح هوا که تقیه کی حقیقت کیا هے اور شیعوں کا عقلی اور منطقی نظریه سے بھی واقف هوجاتا هے ، اس ضمن میں اگر کوئی تقیه کی وجه سے ملامت اور مذمت کرنے کے لائق هے تو وہ تقیه کرنے پر مجبور کرنے والے هيں ، که کیوں آخر اپنی کم علمی کی وجه سے دوسرے مسلمانوں کے جان و مال کے درپے هوگئے هو؟ او ر تقیه کرنے پر ان کو مجبور کرتے هو؟!!پس وہ لوگ خود قابل مذمت هیں ، نه یه لوگ.کیونکه تاریخ کے اوراق یه بتاتے هیں که معاویه نے جب حكومت اسلامي کی باگ دوڑ مسلمانوں کی رضایت کے بغیر سنبھال لی تو اس کی خودخوہی اس قدر بڑھ گئی که جسطرح چاهے اور جو چاهے ، اسلامی احکام کے ساتھ کھیلتا تھا ، اور کسی سے بھی خوف نهیں کھاتے ، حتی خدا سے بھی !! خصوصاً شیعیان علی ابن ابیطالب (ع) کا پیچھا کرتے تھے ، ان کو جهاں بھی ملے ، قتل کیا کرتے تھے ، یهاں تک که اگر کسی پر یه شبہہ پیدا هوجائے که یه شیعه هے تو اسے بھی نهیں چھوڑتا تھا . بنی امیه اور بنی مروان نے بھی اسی راه کو انتخاب کیا اور ادامه رکھا .بنی عباس کی نوبت آئی تو انہوں نے بھی بنی امیہ کے مظالم اور جنایات کو نہ صرف تکرار کیا بلکہ ظلم وستم کا ایک اور باب کھولا ، جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا. ایسے میں شیعہ تقیہ کرنے کے سوا کیا کچھ کر سکتے تھے؟یہی وجہ تھی کہ کبھی اپنا عقیدہ چھپاتے اور کبھی اپنے عقیدے کو ظاہر کرتے تھے.جس طریقے سے حق اور حقیقت کا دفاع ہوسکتا تھا اور ضلالت اور گمراہی کو دور کرسکتا تھا . ایسے موارد میں شيعه اپنا عقيده نهيں چھپاتے تھے ، تاکه لوگوں پراتمام حجت هوجائے .اورحقانيت لوگوں پر مخفي نه ره جائے .اسي لئے هم ديکھتے هيں که هماري بہت ساري هستياں اپنے دور ميں تقيہ کو کلي طور پر پس پشت ڈالتے هوئے اپني جانوں کو راه خدا ميں قربان کئے، اور ظالموں کے قربان گاهوں اور پھانسي کے پھندوں تک جانے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھنے لگے . تاريخ کبھي بھي مجعذراء (شام کي ايک ديھات کانام هے) کے شهداء کو فراموش نهيں کرے گي.يه لوگ چوده افرادتھے جو بزرگان شيعه ميں سے تھے ، جن کا سربراه وہي صحابي رسول تھے جو زهد و تقوي اور عبادت کي وجه سےجسم نحيف هوچکے تھے.اور وہ کون تھا ؟ وہ عظيم نامور حجر بن عدي کندي تھا ، شام کو فتح کرنے والي فوج کے سپه سالاروں ميں سے تھے . ليکن معاويه نے ان چوده افراد کو سخت اذيتيں دے کر شهيد کيا . اور اس کے بعد کها: ميں نےجس جس کو بھي قتل کيا ، اس کي وجه جانتا هوں ؛سوائے حجر بن عدي کے ، که اس کا کيا جرم تھا ؟! ابن زياد بن ابيه جو بدکارعورت سميه کا بيٹا تھا ؛ شراب فروش ابي مريم کي گوہي کي بناپر معاويه نے اسے اپنا بھائي کهه کر اپنے باپ کي طرف منسوب کيا ؛ اسي زيادنے حکم ديا که رشيد حجري کو علي(ع) کي محبت اور دوستي کے جرم ميں ، ان کے هاتھ پير اور زبان کاٹ دئے جائيں .اور ايک درخت کے ٹهني کے سولي پر چڑھائے گئے. ابن زياد جو اسي زنازاده کا بيٹا تھا ، نے علي کے دوستدار ميثم تمار کو مار پيٹ کے بعد اسے دونوں هاتھ اور دونوں پاؤں اور زبان کو کاٹ کر تين دن تک کچھور کے اس سوکھے ٹهني پر لٹکائے رکھا، جس کي جب سے مولا نے پيشن گوئي کي تھي اس وقت سے اس تنے کو پاني ديتا رها تھا ، اور تين دن بعد اسے بے دردي سے شهيدکيا گيا . (1 ) اے اهل انصاف! اب خودبتائيں که ظلم و ستم کے ان تمام واقعات ميں کون زياده قابل مذمت هے ؟! کيوہ گروہ جسے تقيہ کرنے اور اپناعقيده چھپانے پر مجبور کيا گيا هو يا وہ گروہ جو اپنے دوسرے مسلمانوں کو تقيہ کرنے اور عقيده چھپانے پر مجبور کرتے هوں؟!دوسرے لفظوں ميں مظلوموں کا گروہ قابل مذمت هے يا ظالوں کا گروہ ؟! هر عاقل اور باانصاف انسان کهے گا : يقيناً دوسرا گروہ هي قابل مذمت هے. آقاي كاشف الغطاء(رہ) دوسروں کو تقيہ کرنے پر مجبور کرنے والوں سے سوال کرتے هيں اور جواب ديتے هيں : کيا رسول خدا کے صحابي عمر بن حمق خزاعي اور عبد الرحمن ابن حسانبي ، زياد کے هاتھوں« قس الناطف» ميں زنده درگورکئے جانے کو فراموش کرسکتے هيں؟!! کيا ميثم تمار ، رشيد هجري اور عبدالله بن يقطرجيسي هستيوں کو ابن زياده نے جس طرح بے دردي سے سولي پر چڑا کر شهيد کيا ؛ قابل فراموش هے؟! ان جيسے اور سينکڑوں علي (ع)کے ماننے والے تاريخ ميں مليں گے جنهوں نے اپني پياري جانوں کو الله کي راه ميں فنا کرنے سے دريغ نهيں کيا .کيونکه يه لوگ جانتے تھے که تقيہ کهاں استعمال کرنا هے اور کهاں ترک کرنا هے .يه لوگ بعض مواقع ميں تقيہ کو اپنے آپ پر حرام سمجھتے تھے.کيونکه اگر يه لوگ ان موارد ميں تقيہ کرتے تو حق اور حقيقت بالکل ختم هوجاتا . آقاي كاشف الغطاء (رہ)فرماتے هيں:ميں معاويه سے يهي پوچھوں گا که حجر بن عدي کا کيا قصور تھا اور اس کا کيا جرم تھا ؟ سواي علي کي محبت اور مودت کے ، جس سے اس کا دل لبريز تھا .اس نے تقيہ کو کنار رکھتے هوئے بني اميه کا اسلام سے کوئي رابطه نه هونے کو لوگوں پر آشکار کرديا تھا. هاں اس کا اگر کوئي گناه تھا تو وہ حق بات کا اظهار کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتا تھا . اور يهي اس کا مقدس اور اهم هدف تھا ، جس کي خاطر اپني جان کا نذرانه دينے سے دريغ نهيں کيا .(2 ) ابن اثير لکھتا هے که حجر بن عدي کے دو دوست کو پکڑ کرشام ميں معاويه کے پاس روانه کيا گيا ؛ معاويه نے ايک سے سوال کيا : علي کے بارے ميں کيا کهتے هو؟! اس نے کها: وہي ، جو تو کهتا هے . معاويه نے کها: ميں ان سے اور ان کے دين سے که جس کي وہ پيروي کرتا هے، اور اس خدا سے که جس کي وہ پرستش کرتا هے ، بيزار هوں . وہ شخص خاموش رها.اس مجلس ميں موجود بعض لوگوں نے ان کي سفارش کي، اور معاويه نے بھي ان کي سفارش قبول کرلي .اور اسے آزاد کرديا . ليکن اسے شهر بدر کرکے موصل ميں بھيجا گيا . معاويه نے دوسرے سے سوال کيا :تو علي کے بارے ميں کيا کهتے هو؟ اس نے کها: مجھے چھوڑ دو ، نه پوچھے توتمھارے لئےبہتر هے . معاويه نے کها: خدا کي قسم تمهيں جواب دئے بغير نهيں چھوڑوں گا . اس مرد مجاهد نے کها: ميں گوہي ديتا هوں علي بن ابيطالب(ع) ان لوگوں ميں سے تھے جو الله تعالي کو بہت ياد کرتے تھے اور حق بات کي طرف لوگوں کو دعوت ديتے تھے ، عدل اور عدالت کے قيام کے لئے کوشان تھے،علي(ع) ان ميں سے تھے جو لوگوں کي دادو فرياد سنتے تھے ،… اس طرح وہ فضائل علي بيان کرتے گئے اور لوگ انهيں داد ديتے گئے .يهاں تک که معاويه نے کها : تو نے اپنےآپ کو هلاکت ميں ڈالا . اس محب علي (ع)نے کها:بلکه ميں نے تجھے بھي هلاک کيا، يعني لوگوں کے سامنے تجھے بھي ذليل و خوارکيا. معاويه نے حکم ديا که اس شخص کو زياد بن ابيه کے پاس واپس بھيج دو، تاکه وہ اسے بدترين حالت ميں قتل کرے ! زياد بن ابيه ملعون نے بھي اس محب علي کو زنده درگور کيا . اگر يه لوگ تقيہ کرتےتو لوگوں تک علي(ع) کے فضائل بيان نه هوتے ، اور دين اسلام معاويه ، يزيداور ابن زياد والا دين بن کر ره جاتا.يعني ايسا دين ؛ جو هر قسم کے رزائل ، جيسے مکرو فريب ، خيانت ومنافقت،ظلم و بربريت ،… کا منبع هو .اور يه دين کهاں اور وہ دين جو تمام فضليتوں کامنبع هو، که جسے رسول اسلام (ص)نے لايا اور علي اور اولاد علي نے بچايا اور ان کے دوستداروں نے قيامت تک کيلئے حفاظت کي ؛ کهاں؟!!! هاں يه لوگ راه حق اور فضيلت ميں شهيد هونے والے هيں . جن ميں سے ايک گروہ شهدائے طف هيں ، جن کا سپه سالار حسين(رہ) هيں ، جنهوں نے کبھي بھي ظلم وستم کو برداشت نهيں کيا ، بلکه ظالموں کے مقابلے ميں بڑي شجاعت اور شهامت کے ساتھ جنگ کيں ، اور تقيہ کو اپنے اوپر حرام قرار ديا هوا تھا. اب ان کے مقابلے ميں بعض علي(ع) کے ماننے والے تقيہ کرنے پر مجبور تھے ، کيونکه شرائط،اوضاع واحوال اور محيط فرق کرتا تھا.بعض جگهوں پرمباح ، يا جائز سمجھتے تھے اور بعض جگهوں پر واجب يا حرام يا مکروہ. اب هم مسلمانوں سےيهي کهيں گے که آپ لوگ دوسرے مسلمانوں کو تقيہ کرنے پر مجبور کرتے هيں اور پھر کهتے هيں که شيعه تقيہ کيوں کرتے هيں ؟آپ کوئي ايسا کام نه کريں ، که دوسرے مسلمان تقيہ کرنے پر مجبور هوجائيں .
ان لوگوں کو کيا غم ؟!
چاليس هجري سے ليکر اب تک شيعه اور ان کے اماموں نے رنج و الم، اذيت اورآزارميں زندگي کيں.کسي نے زندگي کا بيشتر حصه قيد خانوں ميں گذاري ، کسي کو تير اور تلوار سے شهيد کيا گيا، تو کسي کو زهر ديکر شهيد کيا گيا .ان مظالم کي وجه سے تقيہ کرنے پر بھي مجبور هوجاتےتھے. ليکن دوسرے لوگ معاويه کي برکت سے سلسله بني اميه کے طويل و عريض دسترخوان پر لطف اندوز هوتے رهے ، اس کے علوہ مسلمانوں کے بيت المال ميں سے جوائز اور انعامات سے بھي مالامال هوتے رهے ،اور بني عباس کے دور ميں بھي يه برکتوں والا دسترخوان ان کيلئے بچھے رهے .يهي وجه تھي که ان نام نهاد اور ظالم وجابر لوگوں کو بھي اولي الامر اور واجب الاطاعة سمجھتے رهے .اس طرح يزيد پليد ، وليد ملعون اور حجاج خونخوار کو بھي خلفائے راشدين ميں شامل کرتے رهے . خدايا !ان کی عقل کو کیا ہوگیا ہے ؟ یہ لوگ دوست کوبھی رضی اللہ اور دشمن کو بھی رضی اللہ. علی (ع)کوبھی خلیفہ اور معاویہ کوبھی خلیفہ مانتے ہیں، جب کہ ان دونوں میں سے ایک برحق ہوسکتا ہے . اگر کہے کہ ان کے درمیان سیاسی اختلاف تھا ؛ تو سب سے زیادہ طولانی جنگ مسلمانوں کے درمیان ہوئی ، جنگ صفین ہے ، جس میں سینکڑون مسلمان مارے گئے. اور جہاں مسلمانوں کاقتل عام ہورہاہو؛ اسے معمولی یا سیاسی اختلاف سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا. اسی طرح یزید کو بھی رضی اللہ اور حسین کو بھی رضی اللہ ، عمر بن عبدالعزیز کو بھی رضی اللہ اور متوکل عباسی اور معتصم کو بھی رضی اللہ؟ یعنی دونوں طرف کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں. یہ کہاں کا انصاف اور قانون ہے ؟ اور کون سا عاقلانہ کام ہے ؟ جاي سؤال يهاں هے که کيا يه لوگ بھي کوئي رنج و الم ديکھيں گے ؟! ليکن اس بارے ميں اماميه کا کيا عقيده هے؟ ذرا سن ليں : شيعه اسے اپنا امام اور خليفه رسول مانتے هيں الله اور رسول کي جانب سے معين هوا هو ، نه لوگوں کے ووٹ سے.اس سلسلے ميں بہت لمبي بحث هے ، جس کيلئے ايک نئي کتاب کي ضرورت هے . خلاصه کلام يه هے که شيعه هر کس وناکس کو خليفه رسول نهيں مانتے؛ بلکه ايسے شخص کو خليفه رسول مانتے هيں ، جو خود رسول ﷺ کي طرح معصوم هو. هم کهتے هيں که ٹھيک هے هم تقيہ کے قائل هيں ،ليکن هم پر اعتراض کرنے والے هميشه حاکم وقت کي چاپلوسي کرنے ميں مصروف هيں.اور آپ کوئي ايک مورد دکھائيں ، که جس ميں اپنے کوئي رهبر يا عالم ،ظالم و جابر خليفے يا حاکم کو نهي از منکر کرتے هوئے اسے ناراض کيا هو؟! اس کے باوجود که آپ کے بہت سے علما جو درباري اور تنخوہ دار تھے ، جب بني اميه کا حاکم وليد ، بقول آپ کے،اميرالمؤمنين مستي اور نشے کي حالت ميں مسجد ميں نماز جماعت کراتا هے اور محراب عبادت کو شراب کي بدبو سے آلوده کرتا هے اور صبح کي نمازچار رکعت پڑھ ليتا هے ، جب لوگ کانافوسي کرنے لگتے هيں تو وہ پيچھے مڑ کر کهتا هے : اگر کم هوا تو اور چار رکعت پڑھا دوں؟!کوئي بھي حالت تقيہ سے نکل کر اسے روکنے يا نهي از منکر کرنے والا نهيں هوتا . اگرعلي(ع)کے هزاروں شيعوں کا حجاج بن يوسف خونخوارتمهاري نگاهوں ميں اولوالامر هے ، کے ساتھ گفتگو سننا چاهتے هو تومعلوم هوجائے گا که کن کن هستيوں نے اس ظالم و جابر کے ساتھ آنکھوں ميں آنکھيں ڈال کر بات کي ؟! بڑے بڑے دانشمندوں جيسے شهيد اول محمد بن مکي عاملي ، کو پهلے تلوار سے شهيد کيا گيا ،پھر لاش کو سولي پر لٹکا رکھا ، پھر اسے دمشق کے قلعے ميں لے جاکرجلايا گيا. اسي طرح شهيد ثاني زين الدين بن علي عاملي کوشهيدکيا گيا. قاضي نورالله شوستري(رہ) جوشهيد ثالث کے نام سے معروف هے ، اسے هندوستان ميں شهيد کيا گيا.(3 ) سيد نصر الله حائري(رہ) جو نادرباد شاه کا سفير تھا ، جوصرف اور صرف شيعه هونے کي وجه سے شهيد کيا گيا . اور صدام نے دس لاکھ سے زياده شيعوں کا قتل عام کيا اور بہت سے لوگوں کا پورا گھرانه تبہ کيا . ان تمام مظالم ، جرم ، قتل وغارت گري کے باوجود يه لوگ پوچھتے هيں که شيعه تقيہ کيوں کرتے هيں ؟!جب که اس سے پهلے اپنے آپ سے پوچھنا چاهئے که شيعوں کو تقيہ کرنے پر مجبورکيوں کرتے هيں. آخر ميں الله تعالي کي بارگاه ميں دست بہ دعا هوں که الله پاک هم سب کو راه مستقيم پرثابت قدم رکھے اور جو بھي هدايت کے طلب گار هيں انهيں هدايت کے راستے پر گامزن فرما
. آمين
…………..
(1 ) . شيعه مي پرسد، ص ۲۹۰. (2 ) . اين است آئين ما، ص ۳۶۸. (3 ) . محب الاسلام؛ شيعه مي پرسد، ج۲، ص ۲۹۳.