جبر و اختیار کے متعلق صحیح نظریہ (حصه آخر)
دوسرا دستہ آیاتوں کا جو فقط ارادہ الہی کر مؤثر جانتا ہے :وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ-1- اور تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ عالمین کا پروردگار خدا چاہے۔وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ -2-۔ اور یہ اسے یاد نہ کریں گے مگر یہ کہ اللہ ہی چاہے کہ وہی ڈرانے کا اہل اور مغفرت کا مالک ہے ۔وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا -3- اور تم لوگ تو صرف وہی چاہتے ہو جو پروردگار چاہتا ہے بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ۔ان دو دستہ آیتوں کو اگر جمع کرے تو قول الامر بین الامرین محقق پائے گا ۔ اور ثابت ہوجائے گا کہ ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے ۔
جمع کیسے کیا جائے؟پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثر مفسرین اور متکلمین کی نگاہ میں آیات قرآنی کے درمیان ظاہری تعارض ہے نہ حقیقی ۔ دوسری بات یہ کہ خود تعارض دو طرح کے ہیں:الف: ایک بات دوسری بات کی صراحتا نفی کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک کہتا ہے کہ پیامبر اسلام (ص) ماہ سفر میں رحلت پاگئے ۔ دوسرا کہتا ہے کہ پیامبر اسلام (ص)کی ماہ صفر میں رحلت نہیںہوئی ۔ یہاں پر دوسرا جملہ پہلا جملہ کی صراحتا نفی نہیں کرتا ۔ لیکن دوسرے جملے کی تصدیق اور سچائی اگر ثابت ہوجائے تو پہلے جملے کی مفاد کاملا باطل اور جھوٹ ثابت ہوتی ہے ۔ مثال وہی لیں : اگر ایک نے کہا پیامبر اسلام (ص) ماہ صفر میں رحلت کرگئے ۔ دوسرا کہے ماہ ربیع الاول میں رحلت کرگئے ہیں۔ اب اگر یہ ثابت ہوجائے کہ آپ کی رحلت ماہ ربیع الاول میں ہوئی ہے خود بخود پہلا قول باطل ہوجاتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان آیتوں میں جو اختیار انسان اور قضای الہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، کس نوع کا تعارض ہے ؟ کیا یہ آیتیں صراحتا ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں یا نہ؟ بلکہ ایک دستہ آیات کی سچائی اور مفاد کو قبول کرے تو دوسرے دستے کی نفی ہوتی ہے ؟جواب: قرآنی آیتیں ایک دوسرے کہ مسلما اور صراتا نفی نہیں کرتی ۔ کیونکہ ایسا نہیں کہ ایک دستہ آیات کہے کہ ساری چیزین مقدر ہوچکی ہیں ۔ دوسرا دستہ کہے کہ کوئی بھی چیز مقدر نہیں ہوتی ہیں ۔ ایک دستہ کہے کہ ساری چیزیں علم خدا میں موجود ہیں دوسرا دستہ کہے کہ کوئی چیز بھی خدا کے علم میں نہیں ۔ ایک دستہ آیت کہے کہ ساری چیزیں مشیت الہی سے مربوط ہیں ۔ دوسرا دستہ کہے کہ کوئی چیز بھی مشیت الہی سے مربوط نہیں ہیں ۔بلکہ ان دو دستوں کا متعارض خیال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض متکلمین اور مفسرین جو کہتے ہیں کہ ساری چیزیں تقدیر الہی کے تابع ہیں جس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان آزاد نہیں؛ آزادی اور مقدر ہونا ایک دوسرے سے سازگار نہیں ۔ اگر ساری چیزیں خدا کے علم میں ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ جبرا ًوہ فعل انجام پائے و گرنہ علم خدا جہل میں تبدیل ہوجائے گا ۔لیکن دوسری طرف سے اگر دیکھ لیں کہ یہ کہنا کہ انسان اپنی خوش بختی اور بدبختی میں خود ایک مؤثر عامل ہے ۔ اپنی تقدیر کو اپنے ہی اختیار سے بنا اور بگاڑ سکتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس سے پہلے تقدیر نامی کوئی چیز نہیں تھی ۔پس ان دو دستوں میں سے ایک دستہ آیات کی تأویل ہونا ضروری ہے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی بہت ساری کتابیں تأویل اور توجیہ سے پر ہیں ، کہ گروہ معتزلہ نے آیات تقدیر کی تأویل کی ہے اور اشاعرہ نے آیات اختیار کی ۔لیکن تیسرا گروہ جو ان تعارض ظاہری کو حل کرے اور ثابت کرے کی قضا و قدر الہی اور اختیار و آزادی کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی ۔پس یہ تعارض بعض مفسرین اور متکلمین کی کج فہمی اور کم فکری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ وگرنہ اصولا ممکن نہیں کہ کتاب مبین الہی میں تعارض اور اختلاف موجود ہو کہ تأویل کرنے کی نوبت آجائے۔ -4—————-1 .۔ تکویر ٢٩۔2 ۔ مدثر ۵۶۔3 .۔ ا نسان،۳۰.4 ۔ شہید مطہری ؛ انسان و سرنوشت ،ص ٤٢۔
الامر بین الامرین روایات کی روشنی میںاس سلسلے میں بہت سی روایات ہمارے ائمہ معصومین(ع)سے نقل ہوئی ہیں نچانچہ بعض کتابوں مثلا بحار الانوار ، تحف العقول ، توحید صدوق، ۔ ۔ ۔ میں امام ہادی(ع) سے اس خط کو نقل کیا ہے جس میں جبر اور تفویض کے باطل ہونے کو ثابت کرچکے ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :فاما الجبر الذی یلزم من دان بہ الخطاء فہو قول من زعم ان اللہ تعالی اجبرالعباد علی المعاصی وعاقبھم علیھا ۔ و من قال بہذا القول فقد ظلم اللہ فی حکمہ و کذبہ وردّ علیہ قولہ : ولا یظلم ربک احداً -1- اور جب نامئہ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ-2- یہ اس بات کی سزا ہے جو تم پہلے کرچکے ہو اور خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ-3- اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں ۔پس جس نے بھی یہ گمان کیا کہ وہ مجبور ہے تو گویا اس نے گناہ کیا ۔ اور اس نے اپنی گناہوں کو خدا کے ذمہ ڈال دیا ۔ اور یہ ظلم ہے ۔ اور جس نے بھی خدا پر ظلم کیا گویا اس نے اس کی کتاب کو جٹھلایا ۔ اور امت اسلامی کا اتفاق ہے کہ جو بھی کتاب خدا کو جٹھلائے وہ کافر ہے ۔امیرالمؤمنین (ع) سے جب عبایہ بن ربعی الاسدی نے استطاعت کے بارے میں سوال کیا کہ کس کی وجہ سے ہم اٹھتے بیٹھتے ہیں اور کاموں کو انجام دیتے ہیں ؟فرمایا کیا تم نے استطاعت کے بارے میں مجھ سے سوال کیا ہے؟ اسے تو نے خدا کی مدد سے حاصل کیا ہے یا خدا کی مدد کے بغیر ؟عبابہ خاموش ہوا تو امام(ع)نے اصرار کیا ، کہو اے عبایہ! تو اس نے کہا یا امیر المؤمنین (ع)کیا کہوں؟امام(ع)نے فریا یا : اگر تو کہے خدا کی مدد سے حاصل کی ہے تو تمہیں قتل کروں گا ۔ اور اگر کہے خدا کی مدد کے بغیر حاصل کیا ہے تو بھی قتل کروں گا ۔عبایہ نے کہا: پس یا امیر المؤمنین کیا کہوں؟!امام نے فرمایا : کہو کہ استطاعت کو تو اس خدا کی مدد سے حاصل کیا ہے جو خود استطاعت کا مالک ہے اور اگر تمہیں عنایت کرے تو یہ اس کی عطا ہے اور اگر تجھ پر بند کرے تو بلا ہے ۔ اور وہی مالک ہے ان چیزوں کا جو ہمیں دی گئی ہیں ۔اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ جس چیز کا بھی خدا تعالی ہمیں مالک بنا دے اس کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتی ۔4—————-1 ۔ سورہ کہف٤٩۔2 ۔ حج١٠۔3 . یونس٤٤۔4 ۔ فی الجبر والقدر ، ص ٢٥٥۔