واقعۂ کربلا میں جنابِ زینب س کا بے مثال کردار
تاریخ ِ اسلام میں ایسی صاحبِ ایمان و ایثار خواتین کی کمی نہیں ہے جنہوں نے نازک سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں اپنے سرگرم اور فعّال کردار سے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا ہے ۔
ان خواتین میں سے ایک حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ذاتِ گرامی ہے ، آپ نے تحریکِ کربلا میں شامل ہو کر ایک عظیم ذمہّ داری کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
واقعۂ کربلا کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کی عظیم ذمّہ داری کو ادا کرنے کے لئے چند معصوم ہستیوں نے بچپن سے ہی حضرتِ زینب (س) کی تربیت کی تھی اور کربلا کے راستہ میں امام حسین (ع) نے بھی اپنے ارشادات اور نصیحتوں کے ذریعہ اپنی بہن کو اس عظیم مقصد کے لئے تیّار کیا ۔
حضرت زینب (س) ،حضرت علی علیہ السّلام اور معصومۂ کونین حضرت فاطمۂ زہراء سلام اللہ جیسے والدین کی تربیت اور اپنی ذاتی صلاحیت کی بنا پر انسانی فضائل و کمالات کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز ہوئیں،آپ بھی اپنے والدین کی طرح تمام بہترین صفات و کمالات کا مرقّع تھیں ۔
حضرتِ زینب (س) راہِ خدا میں جہاد ، ایمان و عقیدہ پر ثابت قدمی ، شجاعت اور بہادری ، فصاحت و بلاغت ، باطل کے مقابلہ میں شعلہ افشانی ، ستم پیشہ اور ظالم و سفّاک طاقتوں کے مقابلہ میں آتش فشانی کا بے مثال نمونہ ہیں ۔
حضرت زینب (س) زہد ، علم ، عفت اور شجاعت کا مجسّم نمونہ ہیں ، آپ عقیلۂ طاہرہ اور الٰہی اخلاق سے مزیّن ہیں ۔
شام و کوفہ کے بازاروں میں حضرت زینب(س) کے خطبوں نے لوگوں کے ذہنوں میں آپ کے والدِ گرامی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے خطبوں کی یاد تازہ کردی ۔ حضرتِ زینب (س) کا شمار محدثین اور حدیث کے راویوں میں ہوتا ہے ۔
آپ نے بچپن میں جب کہ ابھی آپ کا سنِّ مبارک پانچ یا چھ برس سے زیادہ نہیں تھا اپنی والدۂ گرامی حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا سےعظیم مفاہیم ومضامین پر مشتمل خطبہ سنا اور بعد میں اسے دیگر افراد تک پہنچایا ۔
معاشرہ کی اصلاح اور اس دور کے ناسازگار اور ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کے لئے امام حسین علیہ السّلام کا بے مثال اقدام
امام حسین علیہ السّلام نے اپنے مخصوص الٰہی علم و معرفت کی بنا پر معاشرہ کی اصلاح کے لئے ایک دقیق اور منظّم منصوبہ تیّا رکیا کہ جس نے نہ فقط اس دور کے معاشرہ کو معنوی اور ثقافتی اعتبار سے حتمی موت سے نجات دلائی بلکہ عالمِ انسانیت کو وہ قوّت اور طاقت عطا کی کہ وہ ہمیشہ ظلم وستم اور برے اعمال کے خلاف ردِّ عمل ظاہر کرسکے ۔
امام حسین علیہ السّلام نے اپنی تحریک کی کچھ ایسی منصوبہ سازی کی کہ انسانوں میں آپ کی قربانی اور یاد ہمیشہ ہی زندہ و جاوید رہے ، یہی چیز مسلمانوں کی غفلت ، ظلم کے سامنےسرِتسلیم خم کرنے اور تحریفِ دین میں رکاوٹ بن رہی ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام حسین علیہ السّلام کا قیام اسلام کی بقا اور مسلمانوں کی بیداری کا ضامن ہے ۔
امام حسین علیہ السّلام نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تحریک کو دو مرحلوں پر استوار کیا :
پہلا مرحلہ ، خون ، شہادت اور انقلاب کا مرحلہ تھا ، دوسرامرحلہ پیغام رسانی ، امّتِ مسلمہ کی بیداری اور اس واقعہ کی یاد کو زندہ اور تازہ رکھنے کا مرحلہ تھا ۔
اس تحریک کے پہلے مرحلہ کی ذمّہ داری جان نثار مردوں پر تھی جو اپنے پورے وجود کے ساتھ ظلم و ستم اور انحراف کے سامنے ثابت قدم رہے اور اس راہ میں جامِ شہادت نوش کیا لیکن اس تحریک کے دوسرے مرحلہ کی ذمّہ داری مردوں کے بس سے باہر تھی چونکہ یزید اور یزیدی یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ عاشور کے دن کسی مرد کو زندہ نہ چھوڑیں۔
امام حسین علیہ السّلام نے اپنے قیام کے دوسرے مرحلہ کی ذمّہ داری کو خواتین اور بچّوں کے سپرد کیا اور اس کی قیادت کو اپنی بہن جنابِ زینب سلام اللہ علیہا کو سونپا۔
اس عظیم ذمّہ داری کو نبھانے کے لئے جنابِ زینب(س) کی تعلیم و تربیت
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نفسیاتی اعتبار سے قوّت ِ برداشت کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز تھیں وہ اس سلسلہ میں مثالی اورمنفرد شخصیت کی مالک ہیں، لیکن کربلا کے پیغام کو پہنچانے کی ذمّہ داری اس قدر سنگین اور عظیم تھی کہ حضرتِ زینب (س) جیسی شخصیت کے لئے بھی اس فرض کی ادائیگی کے لئے پیشگی تیّاری کی ضرورت تھی ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے بچپن کے زمانے سے ہی یہ سیکھ رہی تھیں کہ مشکلات اور سختیوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے،کس طریقہ سے ستم گروں اور ظالموں کے سامنے سرِتسلیم خم نہ کیا جائے ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا سفرِ کربلا کے تمام واقعات بالخصوص روزِ عاشوار کے جاں گداز اورالمناک واقعات میں اپنے بھائی کے ہمراہ تھی اور ان کی ناصر و مددگار تھیں۔
امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی سیاسی موجودگی ۔
امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کے بعد حضرتِ زینب سلام اللہ علیہا کی سنگین ذمّہ داری کا آغاز ہو ا۔
آپ نے جسمانی ، روحانی لحاظ سے انتہائی مشکل حالات میں نہایت سنگین اور خطرناک ذمّہ داریوں کا بیڑا اٹھایا اور انہیں بہترین انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
جسمانی اعتبار سے حضرتِ زینب سلام اللہ علیہا کا سن ِ مبارک تقریباً پچپن سال کاتھا اور پانچ مہینہ سے اپنے وطن سے دور تھیں۔بلاشبہ اس دوران ان کی زندگی غیر معمولی حالات سے دوچار تھی خاص طور پر واقعہ ٔ کربلا کے آخری ایّام میں جب پانی، غذا اور آرام کے اعتبار سے حالات بالکل تبدیل ہو چکے تھے اور امام حسین علیہ السّلام کے اعزّاء و اصحاب انتہائی بحرانی اور ناسازگار حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے ۔
روحانی اعتبار سے یہ لوگ کئی دنوں سے دشمن کےایک بہت بڑے لشکر کے محاصرہ میں تھے وہ بھی ایک ایسا دشمن جو انسانی اور اسلامی اقدار کا ذرّہ برابر پابند نہیں تھا ۔
حضرت زینب (ع) نے ایک دن سے بھی کم وقت میں اپنے کئی بھائیوں، بھتیجوں اور چچیروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے خاک و خوں میں غلطاں دیکھا ، ان میں سے کسی ایک کا غم بھی کسی بھی مضبوط اور فولادی اعصاب کے مالک انسان کی کمر شکنی اور ایک طویل عرصہ کے لئے زندگی کو معمول کی حالت سے خارج کرنے کے لئے کافی ہے ۔
امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا پر تین اہم ذمّہ داریاں عائد ہوتی تھیں،سب سے پہلی ذمّہ داری امام ِسجّاد علیہ السّلام کی تیمارداری اور دشمن کے حملوں اور سازشوں سے آپ کی جان کی حفاظت تھی ۔ دوسری ذمّہ داری اہلیبیتِ عصمت و طہار ت کی خواتین اور بچّوں کی حفاظت اور ان کی حمایت اور دفاع تھی ، آپ کی تیسری ذمّہ داری یہ تھی کہ آپ کربلا کے شہیدوں کے خون کا پیغام دنیا تک پہنچائیں اور امّت ِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے جگائیں اور اسے حالات سے آگاہ کریں۔
انقلابِ کربلا کی پیغام رسانی
امام حسین علیہ السّلام کی تحریک اور قیام دو مرحلوں پر مشتمل تھا
پہلا مرحلہ ، پیکار،جہاد اور شہادت کا مرحلہ تھا ، دوسرا مرحلہ پیغام رسانی اور امّت مسلمہ کی بیداری کا مرحلہ تھا۔اگر امام حسین علیہ السّلام کی تحریک صرف پہلے مرحلہ تک محدود رہتی تو سرزمینِ کربلا کے اطراف کے شہروں تک طبیعی طور پر امام حسین علیہ السّلام کی تحریک اور شہادت کی خبر پہنچنےکےلئے کئی ماہ کا عرصہ درکار تھا،اس عرصہ میں یزیدی اپنے مفادات کے حصول کے لئے اپنی پروپیگنڈہ مشینری کو استعمال کرکے بڑی آسانی سے کربلا کے حقائق میں تحریف کرسکتے تھے اور عوام النّاس تک کربلا کے واقعات کو اس طریقہ سے پہنچا سکتے تھے کہ جس سے یزید کی حکومت کو کم سے کم نقصان پہنچتا۔
اس صورت میں مسلمانوں کے اس دور کے معاشرہ اور آئندہ کی نسلوں میں امام حسین علیہ السّلام کی تحریک کی تاثیر میں بہت کمی واقع ہوجاتی اور یقیناً ہم آج کے دور میں امام حسین علیہ السّلام کی تحریک کی اس قدر برکتیں اور اثرات مشاہدہ نہ کرتے ۔
لیکن امام حسین علیہ السّلام کے اہلِ حرم کی اسیری نے بنی امیّہ کی وسیع تر پروپیگنڈہ سرگرمیوں کو ناکام بنا دیا اور ان کی سازشوں کو طشت از بام کردیا۔
جنابِ زینب (س) کی سربراہی میں امام حسین علیہ السّلام کے اہل ِ حرم نے کوفہ و شام اور اس قافلہ کے راستہ میں واقع ہونے والے شہروں کے عوام کے لئے بڑی تیزی سے یزید اور اس کے عمّال کے مظالم اور خبیث چہرہ سے نقاب اٹھائی اور انہیں ذلّت و رسوائی کی دھول چٹائی ۔
انہوں نے کم سے کم ممکنہ وقت میں امام حسین علیہ السّلام کی حق طلبی ، ظلم ستیزی ، دین کی حفاظت ، مظلومیت اور عدل خواہی کی آواز کو بہت سے شہروں تک پہنچایا ۔جس کی وجہ سے بہت ہی کم عرصہ میں یزید نے یہ درک کر لیا کہ وہ امام حسین علیہ السّلام کی شہادت اور آپ کے اہل ِ حرم کی اسارت کے ذریعہ اپنے معیّنہ اہداف و مقاصد تک رسائی نہیں حاصل کرسکا ہے بلکہ اس کے برعکس اس نے روز بروز اپنے آپ کو زیادہ ذلیل اور قابل نفرت بنایا ہے ۔
امام حسین علیہ السّلام کے اہلِ حرم کی اسیری اور حضرت زینب (س) کی قیادت میں ان کے اقدامات نے نہ فقط اس دور میں امام حسین علیہ السّلام کی تحریک کو تحریف سے محفوظ رکھا بلکہ تاریخ کے ہر دور میں اسے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ رکھا یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بعض متعصّب قسم کے افراد بھی یزید اور یزیدیوں کے مظالم پر پردہ نہیں ڈال سکے ۔