ہماری زندگی میں خدا کے وجودکی نشانیاں

129

فرض کیجئے کہ آپ کا ایک دوست سفر سے لوٹا ہے اور آپ کے لئے تحفہ کے طور پر ایک کتاب لایا ہے اور اس کتاب کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ایک بہترین کتاب ہے کیونکہ اس کا مصنف ایک غیر معمولی فطانت کا مالک،دانشور،آگاہ، ماہر اور اپنے فن میں ہر لحاظ سے انوکھا اور استاد ہے۔آپ اس کتاب کا ہرگز سرسری مطالعہ نہیں کریں گے بلکہ اس کے برعکس اس کے تمام جملوں حتی اس کے لفظ لفظ پر غور وخوض کریںگے اور اگر اس کے کسی جملہ کو نہ سمجھے تو گھنٹوں بلکہ شایدمسلسل کئی دنوں تک فرصت پانے پر اس کے بارے میں سعی و کوشش کریں گے تاکہ اس کا معنی ومفہوم آپ کے لئے واضح ہو جائے ،کیونکہ اس کا مصنف ایک عام انسان نہیں ہے بلکہ ایک ایسا عظیم دانشورہے جوسوچے سمجھے بغیر ایک لفظ بھی نہیں لکھتا ہے۔لیکن اگر اس کے برعکس آپ سے کہا جائے کہ( اگر چہ ممکن ہے یہ کتاب بظاہر خوبصورت ہو،لیکن) اس کا مصنف ایک کم علم شخص ہے اور کسی قسم کی علمی صلاحیت نہیں رکھتا ہے اور اس کے کام میں کوئی نظم و ضبط نہیں ہے!واضح ہے کہ آپ اس قسم کی کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالیں گے اور جہاں پر بھی کوئی ناقابل فہم مطلب نظر آئے گا اسے مصنف کی کم علمی کا نتیجہ تصور کریں گے اور سوچیں گے کہ اس پر وقت صرف کر نے سے کوئی فائدہ نہیں ہے !کائنات کی مثال بھی ایک عظیم کتاب کے مانند ہے کہ اس میں موجود ہر مخلوق اس کا ایک لفظ یا جملہ ہے۔ایک خداشناس شخص کی نظر میں کائنات کے تمام ذرّات قابل غور ہیں۔ایک با ایمان انسان خدا پرستی کے نور کے پر تو میں ایک خاص تفکر و تدبر کے ساتھ خلقت کے اسرار کا مطالعہ کرتا ہے (اور یہی موضوع انسان کے علم ودانش کی تر قی میں مدد گار ثابت ہوتا ہے)کیو نکہ وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کا خالق،بے انتہا علم وقدرت رکھتا ہے ،اور اس کے تمام کام حکمت وفلسفہ کی بنیاد پر ہیں ،اس لئے وہ اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کر تا ہے ،گہری تحقیق کرتا ہے تاکہ اس کے اسرار کو بہتر صورت میں درک کرے۔لیکن ایک مادہ پرست انسان خلقت کے اسرار کا گہرا مطالعہ کر نے کا شوق ہی نہیں رکھتا ہے،کیونکہ وہ بے شعور طبیعت کو ان کا خالق جانتا ہے ۔اگر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بعض مادی دانشور سائنسی ایجادات انجام دیتے ہیں ،یہ اس لئے ہے کہ وہ غالباًخدا کو قبول کرتے ہیں ،صرف اس کا نام طبیعت رکھتے ہیں ،کیونکہ وہ طبیعت کے کام کے سلسلہ میں “نظم”،”حساب”اور”نظام”کے قائل ہیں۔مختصر یہ کہ خدا پرستی علم ودانش کی ترقی کا وسیلہ ہے۔
۲۔خدا کی معرفت اور تلاش وامیدجب انسان اپنی زندگی میں سخت اور پیچیدہ حوادث سے دوچار ہو تا ہے اور بظاہر اس پر ہر طرف سے امید کے دروازے بند ہو جاتے ہیںاور مشکلات کے مقابلہ میں کمزوری،ناتوانی اور تنہائی کا احساس کرتا ہے تو اس وقت خداپر ایمان اس کی مدد کرتا ہے اور اسے توانائی بخشتا ہے۔جو لوگ خداپر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی اپنے آپ کوتنہا اور ناتواںنہیں پاتے،نا امید نہیں ہوتے،کمزوری اور ناتوانائی کا احساس نہیں کرتے ،کیو نکہ خدائی طاقت تمام مشکلات سے بالاتر ہے اور خدا کے سامنے تمام چیزیں آسان ہیں ۔ایسے لوگ پروردگارعالم کی مہربانی،حمایت اور مدد کی امید کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی پوری طاقت کو بروئے کار لاتے ہیں اور عشق و امید کے ساتھ سعی و کوشش کو جاری رکھتے ہیں اور مشکلات پر غلبہ پاتے ہیں۔جی ہاں!خدا پر ایمان انسانوں کے لئے ایک بڑا سہارا ہے۔خدا پر ایمان استقامت اور پائداری کا سبب ہے۔خدا پر ایمان،دلوں میں امید کی کرن کو ہمیشہ باقی رکھتا ہے۔اسی لئے با ایمان افرادکبھی خود کشی کا اقدام نہیں کرتے ہیں کیو نکہ خودکشی کا سر چشمہ مکمل نا امیدی اورناکامی کا احساس ہے ،لیکن با ایمان افراد نہ ہی نا امید ہو تے ہیں اور نہ ہی ناکامی کا احساس کر تے ہیں۔
۳۔خدا کی معرفت اورذمہ داری کا احساسہم ایسے ڈاکٹروں کو جانتے ہیں کہ جب کوئی تنگ دست بیمار ان کے پاس آتا ہے تو نہ صرف وہ اس سے فیس نہیں لیتے بلکہ اس کی دوائی کے پیسے بھی اپنے جیب سے دیتے ہیں ۔یہاں تک کہ اگر اپنے بیمار کے بارے میں خطرہ کا احساس کرتے ہیں تو اس کی جھونپڑی میں رات بھر اس کے سر ہانے بیٹھے رہتے ہیں ۔یہ خداپرست اور با ایمان افراد ہیں۔لیکن ہم ایسے ڈاکٹروں کو بھی جانتے ہیں کہ پیسے لئے بغیر بیمار کے لئے کسی قسم کا اقدام نہیں کرتے ہیں ،کیو نکہ یہ قوی ایمان نہیں رکھتے۔ایک با ایمان انسان جس عہدہ پر بھی فائز ہو،ذمہ داری کا احساس کرتا ہے،وہ فرض شناس ہو تا ہے ،نیک اور بخشنے والا ہو تا ہے ،وہ ہمیشہ اپنے اندر ایک معنوی پلیس کو حاضر پاتا ہے جو اس کے اعمال کی نگرانی کرتا ہے۔لیکن بے ایمان افراد خود خواہ،خود غرض اور خطر ناک ہوتے ہیں اور اپنے لئے کبھی ذمہ دار ی کے قائل نہیں ہوتے۔ان کے لئے ظلم وستم اور دوسروں کی حق تلفی کرنا آسان ہو تا ہے اور نیک کام انجام دینے کے لئے حاضر نہیں ہوتے ہیں۔
۴۔ خدا کی معرفت اور سکون قلبماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ موجودہ زمانہ میں نفسیاتی اور روحی بیماریاں دوسرے زمانوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کا ایک سبب احساس پریشانی ہے،مستقبل کے حوادث کی پریشانی ،موت کی پریشانی،جنگ کی پریشانی اور فقر و ناکامی کی پریشانی۔لیکن اس کے بعد وہ کہتے ہیں:انسان کی روح سے پریشانیوں اور اضطرابوں کو دور کر نے والی چیزوں میں سے ایک خدا پر ایمان ہے ۔کیونکہ جب بھی پریشانی کے عوامل و اسباب اس کی روح پر اثر انداز ہو نا چاہتے ہیں خدا پر ایمان انھیں پیچھے ہٹا دیتا ہے۔خدا جو مہر بان ہے،خدا جو رزق دیتا ہے،خدا جو اپنے بندوں کے حالات سے آگاہ ہے اور اس کے بندے جب بھی اس کی طرف رخ کرتے ہیں ،وہ ان کی مدد کرتا ہے اور مشکلات سے انھیں نجات بخشتا ہے۔اسی لئے حقیقی مو منین ہمیشہ سکون احساس کرتے ہیں اور ان کی روح میں کبھی اضطراب نہیں ہوتا ہے اور چونکہ ان کاکام خدا کے لئے ہوتا ہے اس لئے اگر کبھی کوئی نقصان بھی اٹھاتے ہیں تو اسی سے تلافی چاہتے ہیں ،یہاں تک کہ جنگ کے دوران بھی ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو تی ہے۔قرآن مجید فر ماتا ہے:<الّذین آمنواولم یلبسواإیمانھم بظلم اولٰئک لھم الامن>(سورئہ انعام/۸۲)”جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا اور انھیں کے لئے امن وسکون ہے۔”
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.