اشاعرہ اور معتزلہ کا اختلاف

625

• : جو بھی تفویض کا قائل ہوا ، انہوں نے ممکن الوجود کو اپنی حدود سے باہر کھینچ لایا اور واجب الوجود کی حد تک لے آیا ۔ پس یہ لوگ مشرک ہیں ۔اور جو بھی جبر کے قائل ہوا ، انہوں نے واجب الوجود کو اپنا بلند اور بالا مقام سے کھینچ کر ممکن الوجود کی حد تک نیچے لایا ۔ پس یہ لوگ کافر ہیں۔ اسی لئے امامرضا(ع) نے فرمایا : اہل جبر کافر ہیں اور اہل تفویض مشرک۔ اور جو بھی لاجبر ولا تفویض بالامر بین الامرین کے قائل ہوا ، حق پر ہے اور امت محمدی 7ہے-2-۔• : جو بھی جبر کے قائل ہوا ہے اس نے نہ صرف خدا کے حق میں ستم کیا بلکہ تمام ممکنات کے حق میں بھی ظلم کیا ۔ جو بھی تفویض کے قائل ہوا اس نے واجب الوجود اور ممکن الوجود دونوں کے حقوق کو پایمال کیا ۔اور جو بھی الامر بین الامرین کے قائل ہوا اس نے واجب الوجود اور ممکن الوجود دونوں کو اپنا اپنا حق عطا کیا : واعطاء کل ذی حق حقہ ۔ جو عین عدالت ہے ۔• : جبریوں کی دائیں آنکھ اندھی ہوگئی ہے اور یہ اندھا پنی بائیں آنکھ تک سرایت کرگئی ہے ۔ اور جو تفویض کے قائل ہوئے ہیں ان کی بائیں آنکھ اندھی ہوگئی ہے اور یہ اندھا پنی دائیں آنکھ تک سرایت کرگئی ہے ۔اور جو الامر بین الامرین کے قائل ہو ئے ان کی دونوں آنکھیں بینا اور روشن ہیں ۔• : جو بھی جبر کے قائل ہیں رسول خدا 7کے انہیں اپنی امت کا مجوسی اور جو تفویض کے قائل ہیں انہیں یہودی قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا : القدریة مجوس ھذہ الامة ۔کیونکہ انہوں نے نقائص کو خدا کی طرف نسبت دی ہیں اور جو تفویض کے قائل ہیں انہوں نے خدا کی ذات کو لاتعلق اور بے اختیار تصور کیا ہے ۔ ان کے اقوال کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے وقالت الیھود ید اللہ مغلولة ۔امام صادق(ع) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا :لم یعنوا انہ ھکذا ولیکنھم قالوا : قد فرغ من الامر فلا یزید ولا ینقص ۔ فقال اللہ تکذیبا لقولھم : غلت ایدیھم و لعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء الم تسمع اللہ عروجل یقول: یمحوا اللہ ما یشاء و یثبت و عندہ ام الکتاب-3-۔• : -4-مذہب جبر کا قائل ہونا خدا کا بندوں پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ۔ مذہب تفویض کا قائل ہونا بندوں کا خدا پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ۔ اور مذہب لاجبر ولا تفویض کا قائل ہونا ان دونوں مظالم کی نفی کرنے کے مترادف ہے ۔ اور یہی مذہب توحید ہے اور مذہب تجلی اور ظہور ۔• : خدا وند بالواسطہ طور پر انسانوں کے اختیاری افعال کا فاعل ہے اور خود انسان فاعل بلا واسطہ ہے۔اکثر علماء اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بندہ کا فعل بالواسطہ طورپر خدا سے منسوب ہے کیونکہ یہ قدرت اور طاقت ، خدا نے دی ہے ۔ لیکن خود انسان اس فعل کا فاعل مباشر ہے کیونکہ انسان جس طرح چاہے تصرف کرسکتاہے اور ان تین نظریات کو ایک مثال کے ذریعے بیان کرینگے۔مثال : فرض کرلیں ایک شخص مرتعش الید یعنی ہاتھ پیر لرز رہا ہے جس میں قدرت نہیں ۔ لیکن اگر کوئی اس کے ہاتھ میں تلوار یا ایک چاقو تھمادے اور یہ شخص جانتابھی ہو کہ یہ تلوار یا چاقو اگر اسے تھمادے تو کسی دوسرے شخص پر زخم وارد کرسکتا ہے یا ہلاک کرسکتا ہے ۔ اس صورت میں اس قتل کو اس شخص کی طرف نسبت دی جائے گی جس نے تلوار تھما دیا ہے ۔ نہ اس صاحب ید کی طرف جو مسلوب الاختیار ہے ۔ اسی طرح اگر کسی ایسے شخص کے ہاتھوں تلوار تھما دے ۔ جو اپنے ہاتھوں کو حرکت دے سکتا ہو اور صاحب ارادہ بھی ہو ۔ اس صورت میں حکم برعکس ہوگا یعنی قتل کی نسبت خود اسی صاحب ید کی طرف دی جائیگی ۔لیکن اگر کوئی مشلول الید کو فرض کرلیں کہ اس کے ہاتھ حرکت نہیں کرسکتی لیکن دوسرا شخص بجلی کے ذریعے یا کسی اور ذریعے سے اس کی ہاتھوں میں حرکت پیدا کرے ۔ اگر سوئچ دبا کر رکھے تو حرکت باقی رہتی ہے، لیکن اگر ایک لمحہ کیلئے سوئچ سے ہاتھ ہٹائے تو اس کے بدن سے قوت ہی جدا ہوجائیگی ۔ یعنی دوسرے کی تمام حرکات اور سکنات اس شخص کے اختیار میں ہو اور وہ جاکر کسی کو قتل کرے درحالیکہ وہ جانتا بھی ہے کہ میں کیا کررہا ہوں ۔ تو اس صورت میں قتل کو دونوں شخص کی طرف نسبت دے سکتا ہے ۔ لیکن ایک کی طرف نسبت بلا واسطہ دوسرے کی طرف بالواسطہ ۔پس گروہ جبریہ بندہ کے افعال کو خداکی طرف نسبت دیتے ہیں جیسے مثال اول ، کہ لرزنے والا ہاتھ کا مالک تھا ۔ جو ہلاک کرنے میں مضطر اور بے اختیار تھا ۔تفویض والے مثال دوم کی مانند افعال انسان کو خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں ، کہ بندہ حدوثا خدا کی طرف محتاج ہے لیکن بقائاً نہیں ۔ یعنی قدرت دینا خداکا کام ہے لیکن قتل کرنے میںخدا کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہے۔لیکن جو الامر بین الامرین کے قائل ہیں ۔ تیسری مثال کی مانند ہیں ، کہ انسان ہروقت قدرت کے حصول کیلئے خدا کی طرف محتاج ہے ۔ حتی قتل کرنے میں بھی ۔ یہاں تک کہ کہہ سکتا ہے کہ اس فعل کیلئے جو بندہ سے صادر ہوتا ہے اس میںدو واقعی نسبتیں موجود ہیں۔ ایک نسبت فاعل مباشرکی طرف دوسری نسبت فاعل غیر مباشر کی طرف ۔ 5—————-1 ۔ بقرہ٦۔2 ۔ ازعیون اخبار الرضا ۔ طلب و ارادہ ، امام خمینی ،ص٧٥۔3 ۔ ہمان ، ص٧٦۔4 ۔ معاد شناسی ،ج١٠ ،ص٢٦٢۔5 ۔ لب الاثر ، ص٢٤٣۔
اشاعرہ اور معتزلہ کا اختلافمعتزلہ والے کہتے ہیں اگر افعال بندہ جبری ہو تو تکلیف عبث اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر بے فائدہ ہوگا ، ثواب اور عقاب ، مدح وذم ، افعال خیر میں اصلا نہیں ہونا چاہئے ۔ اس لئے کہ فاعل خدا ہے ۔ لیکن اشاعرہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے افعال میں مستقل اور خود مختار ہیں۔ مشیت الٰہی کا کوئی کردار نہیں ۔ جس کا لازمہ یہ ہے کہ جسے خداوند ارادہ کرے انجام پذیر ہوگا اور جس چیز کا ارادہ نہ کرے انجام نہیں پائے گا ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دونوں گروہ نماز گذار ہیں ۔ جبروالے دن رات میں کئی مرتبہ کیسے قرأت کرتے ہیں: ایاک نعبد ؟! اور تفویض والے کئی بار دن میں کیسے قرأت کرتے ہیں : ایاک نستعین ؟!اور ان کو کیا ہوگیا ہے کی بحول اللہ و قوتہ اقوم و اقعد میں غور و فکر نہیں کرتے؟ تاکہ یہ دونوں اس تعلیم الٰہی کے ذریعے صراط مستقیم پر گامزن ہوجائے ۔ اور جان لے کی حول اور قوت دونوں حق سبحان کی طرفسے ہیں۔کہ امام صادق نے قدریہ سے کہا سورہ فاتحہ پڑھو جب وہ ایاک نعبد و ایاک نستعین پر پہنچا تو فرمایا : تم تو اپنے افعال میں مستقل اور خود مختار ہو کس طرح خدا سے مدد طلب کرتے ہو؟!! مذہب تفویض کا باطل ہونا واضح ہے کیونکہ اس عقیدے کے مطابق انسان مکمل طور پر اختیار کا مالک ہے جبکہ کوئی بھی موجودات دوسری موجودات کو مستقل طور پر ایجاد نہیں کرسکتی اور یہ اس وقت ممکن ہے جب نابودی اور فنا کے تمام ممکنہ راستے اپنے معلول پر بند کرسکے ۔ جو ناممکن ہے ۔پس اگر معلول کا وجود میں آنے کیلئے ہزار شرط موجود ہوں ان میں سے نوسو ننانوے شرائط کو پورا کرسکتا ہو لیکن صرف ایک شرط کہ خود فاعل کا اپنا وجود ہے اس فاعل کی قدرت سے باہر ہے جسے کسی اور سے حاصل کیا ہے ۔ تو اس فاعل کو فاعل مطلق اور مستقل نہیں کہہ سکتا ۔ اسی طرح علت تامہ یا مستقلہ بھی نہیں کہہ سکتا ۔ اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی یہ ادعی نہیں کرسکتا کہ میرا وجود اپنی مرہون منت ہے۔اس کا مطلب یہ ہو اکہ ہمارا اختیار خدا کے اختیار کے زیر سایہ ہے۔
کیا خدا وند گھڑی ساز کی مانند ہے؟!نظریہ معتزلہ (مفوضہ ) کے مطابق خداوند گھڑی ساز کی مانند ہے جس طرح گھڑی ساز کا گھڑی درست کرنے کے بعد گھڑی کیساتھ کوئی واسطہ باقی نہیں رہتا اور سوئیاں خود بخود گھومتی رہتی ہیں ،خداوند کا بھی کائنات کو خلق کرنے کے بعد کوئی واسطہ اس کائنات کے ساتھ باقی نہیں اور یہ نظام کائنات خود بخود چل رہا ہے۔ اور یہ کہنا غلط ہے کیونکہ برہان عقلی کے ذریعے ثابت ہوچکا ہے کہ تمام ممکن الوجود ایک واجب الوجود کی طرف دائما محتاج ہیں اور ایک لمحہ کیلئے بھی اس سے بے نیاز اورمستغنی نہیں ہوسکتا ۔فاعتبروا یا اولی الابصار!قاضی نوراللہ شوشتری نقل کرتے ہیں کہ صاحب بن عبادS جو تاریخ شیعیت میں خوش بخت ترین شخص گذرےہیں، یعنی بیشتر عمر وزارت و خلافت میں گذری اور ساتھ ہی عابد ، زاہد، عارف اور عاشق اہل بیت Fتھے ۔ کے دور حکومت میں اصفہان میں ایک عورت جو جبری مذہب سے تعلق رکھتی تھی ۔ زنا کا مرتکب ہو ا۔ جب اس کے شوہر کو معلوم ہوا تو ایک رسی لیکر اسے مارنا شروع کردیا ۔ اس وقت وہ عورت کہتی ہے: القضا والقدر ۔ یعنی نعوذباللہ من ذالک یہ قبیح فعل قضا اور قدر الٰہی کے ذریعے انجام پایا ۔ میرا اس میں کیا قصور ہے؟!شوہر نے چیخ کر کہا زنا بھی کرتی ہو اور اپنے اس برے فعل کو خدا کی طرف منسوب بھی کر رہی ہو!!بیوی نے جب یہ سنا تو غصے میں آکر کہنے لگی کہ تم نے اپنا مذہب اور عقیدہ کو چھوڑ کر صاحب بن عباد کے مذہب (مذہب جعفری) کو اختیار کیا ہے؟وہ شخص اچانک متوجہ ہو ااور تازیانہ پھینک دینے کے بعد بیوی سے معافی مانگنے لگا : میری جان تو ٹھیک کہہ رہی ہو ۔ تو اپنے عقیدہ پر قائم ہو ۔ لیکن مجھ سے غلطی ہوگئی ۔ مجھے معاف کرنا ۔!!!جب انسان کی عقل پر پردہ پڑجاتاہے تو سوچ اور فکر سے عاری ہوتا ہے ورنہ یہ شخص کہہ سکتا تھا کہ یہ جو تازیانہ تجھ پر پڑرہا ہے وہ بھی خدا کی طرف سے ہے۔ لیکن وہ سوچ کہاں!!!
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.