امام عصر (عج) کا نائبين کے انتخاب ميں کردار
شيعہ معاشرہ کی ہدايت کےلئے نواب اربعہ اور شيعہ نشين علاقوں ميں وکلاء کا انتخاب ،عصر غيبت صغري ميں براہ راست ناحيہ مقدسہ کي طرف سے انجام پاتا تھا۔[1] دشمن کے خطرہ کے سامنے اس تنظيم کا پائيدار ہونا اور امور کا منظم سلسلہ اور شيعہ معاشرہ اور اس کے رہبري کرنے والے مرکز کي حفاظت اقتضاء کررہي تھي کہ انتہائی لائق اور قابل وثوق افراد کو منتخب کياجائے۔تنظيم نيابت کي علاقائی نظارت اور سرگرمی میں وسعت:
عصر غيبت صغري ميں شيعہ قيادت کے ڈھانچہ کي وسيع علاقائی نظارت کو جاننے کے لئے موجودہ شواہد کے مطالعہ سے ہم جان لیتے ہیں کہ اس زمانہ کے شيعہ نشين علاقوں کےتمام گوشہ و کنار کا اس خفیہ چینل کے ذریعے بغداد اور سامرا ميں رہبري کرنے والے مرکز سے رابطہ تھا ۔ موجودہ شواہد کي بناپر اس تنظيم کی زیر نظارت سرزمينوں کي فہرست درج ذيل ہے:
١)۔ جزيرۃ العرب : جو مکہ٬ مدينہ٬ يمن اور بحرين سب کو شامل تھا۔
٢)۔ عراق: کوفہ٬ بغداد ٬ سامرا٬ مدائن ٬ قراسواد٬ واسط٬ بصرہ٬ نصيبين اور موصل سب کو شامل تھا۔
٣)۔ شمالي افريقہ٬ مصر اور مغرب کو شامل تھا۔
٤)۔ ايران: قم ٬ آوہ (آبہ) ٬ ري٬ قزوين٬ ہمدان٬ دينور٬ قرميسين٬ آذربائيجان اور اہواز کو شامل تھا۔
٥)۔ خراسان اور ماوراء النھر: بيھق، نيشاپور٬ مرو٬ بلخ٬ کابل٬ سمرقند٬ کش اور بخارا وغيرہ سب کو شامل تھا۔
جيسا کہ گزرچکاہے ٬ نواب اربعہ کچھ دیگر وکيلوں اور معاونین کي مدد سے اس حيرت یا غيبت کے زمانہ ميں شيعہ رہبري اور ہدايت کا کام آگے بڑھاتے رہے۔
ناحيہ مقدسہ کے سب سے پہلے وکيل نے بغداد ميں تين ممتاز وکيلوں کي مدد سے اور غيبت صغري کے آغاز کےحساس اور نازک دور ميں اپناکام انجام دياہے۔ ان کے تين معاونين کے اسماء درج ذيل ہيں:
١۔(احمد بن اسحاق اشعري قمي)۲۔ (حاجز بن يزيد وشاء)۳۔ محمد بن احمد بن جعفر قطان قمي)[2] البتہ ان کے فرزند يعني محمد بن عثمان عمري بھی اپنے باپ کے ساتھ ساتھ کاموں ميں مشغول تھے۔
سفير اوّل کے انتقال اور ان کے فرزند کي جانشيني کے ساتھ وہي گزشتہ معاونين دوسرے سفير کے ساتھ ساتھ اپني فعاليت انجام ديتے رہے۔ ان معاونين نے دوسرے سفير کي نيابت کےدوران طويل عرصہ تک تعاون کرنے کے بعد جہان فانی کو الوداع کیا ۔ دوسرے سفيرنے ان کے بعد امور کو آگے بڑھانے کے لئے ديگر معاونين کا انتخاب کيا اور ان کي مدد سے تنظيم پر نظارت اور ديگر علاقوں کے وکلاء سے رابطے میں رہے۔ شيخ طوسي کي تصريح کے مطابق٬ بغداد ميں دوسرے سفير کے ماتحت ١٠ وکلاء افراد ان کے احکامات کي انجام دہي ميں مشغول تھے۔[3]
حسين بن روح نوبختي نے دوسرے سفير کي رحلت کے بعد ناحيہ مقدسہ کے حکم سے مقام نيابت کي ذمہ داري سنبھالي اوروہ خودبھي دوسرے سفير کے ماتحت افراد ميں سے ايک تھے۔ دوسرے سفير کي زندگي کے آخري ايام ميں ٬ لوگوں کو حسين بن روح سے زيادہ سے زيادہ آشنا کرنے کےلئے تمام امور نيابت بالخصوص شرعي وجوہات کی قبولی کی ذمہ داری ان کے سپرد کردی گئی ۔[4]
ابن روح کي نيابت کے آغاز سے دوسرے سفير کے معاونين اور ماتحت افراد نے اسي طرح تيسرے سفير کے ساتھ اپني فعاليت جاري رکھي۔ ابن روح کے ايک نماياں معاون کہ ان کے قيد ہونے کے بعدبھي تمام امور کو چلانے کے لئے اپنا کردار اداکرتے رہے تھے٬ ابوجعفر محمد بن ابي العزاقر المعروف شلمغاني تھے ٬ کہ انہوں نے بعد ميں اپنے مقام و مرتبہ سے سوء استفادہ کيا اورحلول جيسے بعض غلط اور نادرست عقيدہ کا اظہار کرنے کي وجہ سے اپنے منصب سے معزول ہوگئے اور ناحيہ مقدسہ کي لعنت کا نشانہ بنے۔[5]
چوتھے سفير کے معاونين کے اسماء کي ہميں خبر نہيں ہے، ليکن اندازہ لگايا جاسکتاہے کہ تيسرے سفير کے بعض معاونين ان کے انتقال کے بعد اپنے مقام پر رہتے ہوئے اپنے کام ميں مشغول رہے۔
بغداد اور اس کے اطراف وجوانب ميں سفراء کے نماياں اور صف اوّل کے معاونين اور ماتحت افراد کے علاوہ ٬ ديگر شيعہ نشين علاقوں ميں ساکن و کلاء بھي نواب اربعہ کي خدمت ميں ان کے زير نظر فعاليت ميں مشغول تھے۔ رجالي اور روائي ماخذ ميں مفصّل تحقيق سے چالیس افراد کا نام معلوم ہوتا ہے ۔ ان ميں سے بعض درج ذيل ہيں:
١۔حسن بن نضر قمي٬ ابوصدام٬ ابوعلي محمد بن احمد بن حمّاد مروزي محمودي٬ جعفر بن عبدالغفار٬ ابوالحسين محمد بن جعفر اسدي رازي٬محمد بن شاذان بن نعيم نيشاپوري، قاسم بن علاء آذر بائيجاني٬ حسن بن قاسم بن علاء آذر بائيجاني ٬ علي بن حسين بن علي طبري سمرقندي٬ ابومحمد جعفر بن معروف کشي٬ بسّامي ،عاصمي٬ ابوجعفر محمد بن علي شلملغاني٬ ابوالقاسم حسن بن احمد٬ ابوجعفر محمد بن احمد زجوزي٬ ابوجعفر محمد بن علي اسود٬ محمد بن عباس قمي٬ احمد بن متيّل قمي٬ ابوعبداللہ بزوفري٬ ابوعلي محمد بن ابي بکر ھمام بن سھيل کاتب اسکافي ٬ ابو محمد حسن بن علي جناء نصيبي وغيرہ۔
اس طرح سے نواب اربعہ٬ عصر غيبت صغري ميں وکالت کي قدیم تنظیم کے امور کو بڑھاتے ہوئے ، ناحيہ مقدسہ اور مختلف سرزمينوں اورعلاقوں ميں ساکن شيعوں کے درميان مطمئن اورمفید رابطہ کا ذريعہ قرار پائے اور اس کے ذريعہ عالم شیعہ رہبري کی بقاء اور حفاظت کے لئے بہترين روش سے ايسے نازک اور سرنوشت ساز دور ميں بھر پور فائدہ اٹھایا۔
اس بنا پر نواب اربعہ کي خدمات کي دقيق شناخت٬ ان کي کارکردگي کي وسعت اور غيبت صغري کے ٧٠/سالہ دور ميں کیسے شيعہ معاشرہ کي رہبري کی ،یہ سب گزشتہ ادوار ميں پائے جانے والے وکالت کے ارتباطي چینل کي فعاليتوں پر توجہ کے بغیر ممکن نہيں ہوگا ۔ تنظيم نيابت دراصل بہت سارے وکلاء اور سرپرست وکلاء کي فعاليت کا تسلسل ہے جنہوں نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام کے بعددقت اور نظم و ضبط کے ساتھ شيعہ نشين علاقہ ميں امور کي باگ و ڈور اپنے ہا تھ ميں لےلي، نيز شيعوں اور بغداد٬ مدينہ٬ سامراء اور مرو ميں آئمہ عليھم السلام کے محل سکونت کے مراکز کے درميان رابطہ کو جاری اور باقی رکھا۔
چوتھے سفير کا انتقال اور ناحيہ مقدسہ کي جانب سے ان کي وفات سے چند روز پہلے انہيں خطاب کرتے ہوئے تو قيع صادرہوئي اور انہیں حکم دیا گیا کہ اب اپنے بعد سفارت اور نيابت کا عہدہ کسي کے حوالے نہ کريں نیز اسي توقيع ميں غيبت صغري کے اختتام اور غيبت کبري (غيبت تامہ) کا اعلان کیاگيا۔
غيبت صغري کے تمام ہونے اور وکالت اورنيابت کے چینل کے آخري رہبر یعنی چوتھے سفير کی وفات کے ساتھ دو صدي کی مسلسل محنت و کوشش کے بعد تنظيم وکالت کي فعاليت کا دور تمام ہوگيااور تنظيم فقاہت پورے غيبت کبري کے دور ميں تنظيم وکالت کا عصر حاضر تک تسلسل ہے۔
[1] ۔مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: الغيبۃ ص١٧٠ ميں وکالت کے لئے محمد بن ابراہيم بن مھزيار اھوازي کے انتخاب کا واقعہ اور حسن بن قاسم علاء آذربائيجاني کا وکالت کے لئے الغيبہ ٬ ص١٩١ اور الخرائج والجرائح قطب الدين راوندي ٬ تحقيق مؤسسہ الامام المھدي عج اللہ تعالي فرجہ الشريف قم٬ ھ ق ٬ ج١ ٬ ص٤٦٧.
[2] ۔تاريخ سياسي غيبت امام دوازدھم عج اللہ تعالي فرجہ الشريف ٬ ص۱٤٩.
[3] ۔الغيبہ٬ ص٢٢٧.
[4] ۔ سابقہ ماخذ ٬ صص ٢٢٣ و ٢٢٧.
[5] ۔ سابقہ ماخذ ٬ صص١٨٣ و ٢٤٨.