حکومت علوي کي خصوصيات

128

حکومت علوي کي خصوصيات:اميرالمومنين علي بن ابي طالب عليہ السلام کي زندگي پر توجہ کرنا حقيقتاً اس مہينہ کي اہم برکتوں ميں سے ايک بہت با اہميت برکت ہے لوگوں کو کبھي يہ توفيق حاصل نہيں ہو پاتي کہ مختلف زاويہ سے علي ابن ابي طالب عليہ السلام کي زندگي کا جائزہ لے سکيں اور انکي زندگي کا مطالعہ کر سکيں، چاہے وہ کوئي عام آدمي ہو يا پھر خطبائ واعظين ہو، خصوصاً اسلامي مملکت کے ذمہ داران تو آج سب سے زيادہ آپکو پہچانتے اور آپکي معرفت کے نيازمند ہيں اور يہ موقع ديگر مہينوں ميں بہت کم ہي نصيب ہوتا ہے، جس کي جو بھي ذمہ داري ہو۔اوپر سے نيچے تک تمام عہد داران مملکت اسلامي آج ہر زاويہ اور ہر پہلو سے علي عليہ السلام کي زندگي اور انکي شخصيت کو پہچاننے کیلئے سراپا محتاج ہيں۔مختلف روايات کے مطابق آنجناب کي عمر شريف،٥٨ سال سے ليکر،٦٠ ٦٣ اور ٦٥ سال تک ذکر ہوئي ہے ليکن ٦٣ سال مشہور ہے (يعني وہي نبي گرامي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلمکا سن و سال) مگر اکثر و بيشتر اسلامي معارف جو آپکي زبان مبارک سے صادر ہوئے ہيں انکا تعلق آپکي چار سال اور نو ٩ماہ يا دس١٠ ماہ کي ظاہري خلافت ميں سے ہے کہ يہ خود اپني جگہ ايک حيرت و استعجاب کا مقام ہے ، جسقدر انسان باريک بيني سے کام ليتا ہے ايسا لگتا ہے کہ جيسے کوئي ديومالائي داستان پيش ہو رہي ہو۔آپکي زندگي کے مختلف پہلو کہ جس کا تعلق آپ کي پانچ سالہ ظاہري حکومت سے ہے اس کي تصوير کشي ايک عام ذہن کے لئے نا ممکن ہے ۔ذرا آپ طول تاريخ ميں نظر اٹھا کر ديکھيں ايک حکومت اور حاکم کا کيا کردار رہا ہے اور لوگوں کا اس کے بارے ميں کيا تصور ہے؟ ايک حاکم کے ليے مطلق العناني، شمشير بدست ہونا ،من ماني کرنا اور جو بھي دنيا کي لذّات ہیں اس سے استفادہ کرنا اسکا ايک حق سمجھا جاتا رہا ہے مصلحت انديش، سياست بازي، اور غير واقع عمل کا لوگ اس سے انتظار رکھتے ہيں اور اگر وہ اسکے برخلاف کوئي عمل انجام دے تو لوگوں کو تعجب ہوتا رہے کيونکہ حکومتيں اسي طرح سے عمل کرتي رہي ہيں اور اسکے بارے ميں ايک غلط تصور قائم ہو چکا ہے۔مگر اميرالمومنين عليہ السلام کي حکومت وہ حکومت ہے جو ان ساري باتوں کو يکسر غلط ثابت کر ديتي ہے اور حکومت کے ان سارے باطل تصورات کو منسوخ کر ديتي ہے ۔البتہ مکرر آپ نے يہ اظہار فرمايا ہے کہ ميرے پاس جو کچھ بھي ہے وہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي تعليمات کا ادنيٰ سا حصہ ہے، اميرالمومنين عليہ السلام کے زہد کے بارے ميں وہ راوي يوں کہتا ہے ، کہ ميں نے ديکھا وہ بزرگوار خشک روٹي اپنے گھٹنوں سے توڑ کر تناول فرما رہے ہيں، عرض کيا يا اميرالمومنين عليہ السلام ! آپ اپنے آپ کو کيوں اسقدر زحمت ميں ڈالتے ہيں؟تو آپ نے بحالت گريہ ارشاد فرمايا: ميرے والد قربان جائيں اس ذات والي صفات پر جس نے ساري عمر دوران حکومت اپنے شکم کو گہيوں کي روٹي سے پر نہيں کيا اور مراد ذات نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم تھي۔يہ ہے اميرالمومنين عليہ السلام کي زندگي اور نبي گرامي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي نسبت سے آپ کي شاگردي کي منزل بہرصورت آپ کي حکومت کے سلسلہ سے جو کچھ بھي تاريخ ميں ہے وہ ايک حيرت انگيز شئي ہے۔اور اگر ان چند سالوں ميں آپ کي زندگي کچھ زيادہ نماياں ہوئي ہے تو اسکي ايک وجہ يہ ہے کہ دشمنوں نے آپ کے بارے ميں جان بوجھ کر عيب جوئي اور تہمت و الزام تراشي سے کام ليا ہے اور انھيں عيوب والزامات ميں سے آپکے فضائل نکل کر سامنے آگئے ہيں اور بہت سے حقائق آشکار ہوئے ہيں۔ميں آج چند جملے ان بزّرگوار کي حيات طيبہ کے بارے ميں بحیثیت ايک حاکم کے پيش کرنا چاہتا ہوں، البتہ سب سے پہلے مجھے خود آپ کي زندگي سے سبق لينا چاہیے اور اسکے بعد سارے عہدے داران مملکت کو اس سے سبق لينے کي ضرورت ہے اور ديگر حضرات اور ايک عام انسان کو بھي بہت کچھ سيکھنے اور سبق لينے کي ضرورت ہے۔
آپکي حکومت کي پہلي خصوصيت:اگر ہم اميرالمومنين عليہ السلام کي حکومتي زندگي کي خصوصيات ”يعني علي عليہ السلام بحیثیت ايک حاکم‘‘ پيش نظر رکھيں تو چند اہم خصوصيتيں آپ کي اس زندگي ميں نظر آتي ہيں۔نمبر ١۔حق کي راہ ميں اٹل ہو جانا۔ اگر اس خصوصيت کو سب سے اہم نہ بھي مانيں پھر بھي آپکي حيات ميں کم از کم ايک نماياں خصوصيت ضرور ہے آپکي حکومت مين پہلي چيز جو نظر آتي ہے وہ يہ ہے کہ حق کو پہچاننے اور اسکے تعين کے بعد، کوئي چيز بھي حق پر عمل کرنے سے آپ کے راستے ميںرکاوٹ نہيں بن سکتي ، پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلمنے آپ کے بارے ميں فرمايا تھا:”ردخشن في ذات اللہ‘‘ (١)يعني آپ کي ذات ايسي ہے کہ راہ حق ميں آپ کے لئے کوئي چيز رکاوٹ نہيں بن سکتي،جس جگہ حق کا تعين ہو گيا کسي کي پرواہ کئے بغير اسپر عمل کرتے ہيں ۔آپ اميرالمومنين عليہ السلام کي ساري زندگي اٹھا کے دیکھیںگے تويہي ايک صفت ہر جگہ کارفرما ديکھائي ديگي،حق کے لئے اٹل ہو جانا، مسند خلافت پر بيٹھتے ہي آپکي يہي صفت دکھائي ديگي يعني جب حکومت بنام خدا، برائے خدا اور احکام الہيٰ جاري کرنے کے لئے قائم ہوئي تو پھر اس راستے ميں کسي مصلحت و مفاد کے بغير کام کرنا ہے يہ وہ منطق اور اصول ہے کہ جس کو اميرالمومنين عليہ السلام اپني حکومت ميں حتي الامکان رائج کرتے ہيں۔ آپ اگر دشمنان علي بن ابي طالب عليہ السلام کو ملاحظہ کريں تو معلوم ہوگا آپ کي يہ صلاحيت اور حق پر اٹل ہو جانا کس قدراہم ہے۔
حضرت کا تين طرح کے لوگوں سے مقابلہ:اميرالمومنين عليہ السلام نے تين قسم کے لوگوں سے مقابلے کئے نمبر١ ۔مارقين يعني( دين سے نکل جانے والے)نمبر٢۔ ناکثين يعني (بيعت کر کے توڑ دينے والے)٣۔قاسطین یعني(ظلم کرنے والے) اسميں سے ايک گروہ اہل شام سے تھا يعني اصحاب معاويہ و عمر بن عاص وغيرہ کہ جس ميں کچھ تو وہ تھے جو نسبتاً مسلمان ہونے کي حيثيت سے ايک طولاني مدت بھي گذار چکے تھے اور کچھ جديد الاسلام تھے، نو مسلم تھے يعني زمانہ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دو٢ يا تين٣ سال گذار ے تھے اور آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي حيات کازیادہ حصہ نہيں دیکھا بلکہ زيادہ تر آپ کے بعد زندگي کے حصے گذارے، اور کچھ ايسے بھي تھے جو گروہ شام ہي ميں رہ کر بھي اصحاب پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ميں شمار ہونے لگے تھے اور يہ سياسي، مالي، اور امکانات و وسائل کے اعتبار سے کچھ قوي اور با حيثيت لوگ تھے اور حضرت کے مد مقابل ميں تھے ليکن حضرت نے اس سب کے باوجود ان کا کوئي پاس و لحاظ نہيں کیا تھا۔البتہ ايسا بھي نہيں تھا کہ حضرت تنہا حاکم شام کو ہي فاسق سمجھتے تھے اور اس سے جنگ کرنے کے لئے تيار تھے نہيں ايسا نہيں ہے بلکہ اس کے علاوہ بہت سے ايسے حکام اور بھي تھے جو ايمان کے لحاظ سے ضعيف تھے اور آپ کي حکومت سے قبل کہيں نہ کہيں کے حاکم تھے اميرالمومنين عليہ السلام کے زمانے میں بھي وہ اپنے منصب پر باقي رہے جيسے زيادبن ربيہ ظاھراً يہ شخص اميرالمومنين عليہ السلام کي حاکميت سے قبل اسي فارس اور کرمان ميں حاکم تھا اور حضرت کے زمانے ميں بھي حاکم رہا تھا اور جب امام حسن عليہ السلام حاکم وقت ہوئے اسوقت بھي يہ اپني جگہ برقرار رہا اور بعد ميں جا کر معاويہ سے مل گيا لہذا آپ کے ليے اصل مسئلہ ظلم و جور تھا اور مسلمانوں کي روشِ زندگي ميں تبدیلي ايجاد کرنا تھا اور اسلامي خدوخال کو معين کر کے نئي اور بھلي شکل دينے کا مسئلہ تھا اسلئے اميرالمومنين عليہ السلام ظلم و ستم کے مقابل ڈٹ گئے اور آپ اس راستے ميں کسي بھي مقام ومنصب والے سے متاثر نہيں ہوئے آپ کے سامنے اس سے بھي بڑي ايک مشکل، اصحاب جمل تھے کہ جس ميں ايک فرد مسلمانوں کے نزديک محترم المقام ام المومنين عائشہ بھي شامل ہيں اور قديم مسلمانوں ميں سے پيغمبر کے دو بزرگ صحابہ طلحہ و زبير جو پہلے اميرالمومنين عليہ السلام کے دوستوں ميںشمار ہوتے تھے۔اور ان میں سے بعض رشتہ دار بھي تھے جيسے زبير جو اميرالمومنين عليہ السلام اور حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلمکا پھوپھي زاد بھائي بھي ہے آپ کے مدمقابل جنگ کیلئے کھڑے تھے اور دوسري جانب اميرالمومنين عليہ السلام تھے مگر يہاں پر بھي آپ نے اپنے شرعي فر یضے پر عمل کيا اور اسي راہ ميں اقدام فرمايا۔ جب میں اپنے زمانے ميں اسي ميزان کو سامنے رکھ کر امام خمیني ۲کي زندگي کا مطالعہ کرتا ہوں تو پھر مجھے آپکي زندگي بھي انھيں بزرگوں کي زندگي کا عکس نظر آتي ہے، طريقہ وہي روش وہي کسي کو نظر ميں رکھے بغير عمل کرنا اميرالمومنين عليہ السلام کي زندگي کے مطابق آپ کي بھي زندگي تھي۔ علي عليہ السلام کوئي سنگدل انسان نہيں تھے ان سے زيادہ رحم دل، ان سے زيادہ دقيق القلب، گريہ و زاري کرنے والا مگر انکے لئے جو معاشرے ميں پسماندہ تھے جن کا حق مارا گيا تھا)اور کون ہو سکتا ہے۔ مگر جہاں پرحق کوچيلنج کيا جارہا ہو، اميرالمومنين عليہ السلام وہاں اٹل ہو جاتے ہيں جس کي تاريخ ميں نظير تلاش کرنا ناممکن ہے۔
مسئلہ ولايت ميں گمراہ گروہ:حقيقتاً اميرالمومنين عليہ السلام ايک بڑي مشکل سے دوچار تھے اس لئے کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں جنگ ميں دشمن کے مقابلے ميں صف آرائياں احزاب گروہ وغيرہ بالکل واضح تھے ايک طرف کفر تو دوسري طرف ايمان، ايک طرف مشرک تو دوسري طرف توحيد والے تھے ،شرک بالکل واضح تھا اگر کچھ منافقين تھے بھي تو وہ جانے پہچانے تھے پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلماپنے عصر کے منافقين کو پہچانتے تھے ، جو منافقين مدينہ ميں تھے، جو مدينہ سے بھاگ کر مکہ چلے گئے ”فمالکم في المنافقين فئیتن واللہ ارکسھم بما کسبوا۔ نسائ٨٨‘‘ مختلف رنگ و روپ کے منافقين حضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلمکے زمانے ميں بھي تھے لیکن ايک چھوٹي سي بھي غلطي کرتے تو اسکے بارے ميں آيت اتر کر دودھ کا دودھ اور پاني کا پاني کر ديتي تھي اور حقائق کھل کر سامنے آجاتے تھے آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلمبيان کرتے اور لوگ غلطي کو سمجھ جاتے تھے مگر اميرالمومنين عليہ السلام کے زمانے ميں ايک بڑي مشکل ايسے لوگوں کا مد مقابل آجانا ہے جو علي الظاہر مسلمان ہيں، اسلامي بھیس میں ہيں مگر دين کے بنيادي ترين مسئلے ميں گمراہي کا شکار ہيں يعني خود يہي لوگ جو اميرالمومنين عليہ السلام کے مد مقابل جنگ و جدال کے لئے آتے ہيں
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.