فضائلِ امام علی علیہ السلام احادیث کی نظر میں۔(حصہ اول)

310

ان مختصر سے ابتدائی کلمات میں یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ جیسے پچھلے ابواب میں اہلِ سنت کی کتب سے اسناد پیش کی گئیں، اس باب میں بھی اُسی طرح اہلِ سنت کی کتب سے اسناد پیش کی جائیں گی۔ یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ برادرانِ اہلِ سنت کی کتب سے حوالہ جات لکھنے کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ شیعہ علماء نے ان روایات کے بارے میں کچھ نہیں لکھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام روایات کو شیعہ علماء نے اپنی کتب میں واضح طور پر بیان کیا ہے اور اُن کی نظر میں یہ سب معتبر اور تسلیم شدہ ہیں۔ ان کے بارے میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔لہٰذا ان وجوہات کے پیش نظر شیعہ علماء اور کتب ِ شیعہ سے کوئی حوالہ نہیں لکھا جارہا۔ صرف چند ایک جگہوں پر اشارتاً ذکر کیا گیا ہے۔اصل مدعا یہ ہے کہ وہ لوگ جو آپ کو صرف مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ مانتے ہیں اور اُن کو رسول اللہ کا خلیفہٴ بلافصل نہیں مانتے، آپ کے فضائل اُن کی زبانی سنے جائیں۔ اس طرح ایک تو مسلمانانِ عالم کو صحیح راستہ دکھا سکیں گے اور دوسرے اہلِ تشیع کے ایمان نسبت بہ محمد و آلِ محمدکومزید تقویت پہنچاسکیں گے،انشاء اللہ۔
پہلی روایتعلی سب سے پہلے نبوت اورکلمہ ٴتوحید کی گواہی دینے والے ہیںعَنْ انس ابن مالک قَالَ: قَالَ رَسُوْل اللّٰہِ:صَلّٰی عَلیَّ الْمَلٰا ئِکَةُ وَعَلٰی عَلِیِّ سَبْعَ سِنِیْنَ وَلَمْ یَصْعُدْ اَوْلَمْ یَرْتَفِعْ۔بِشَھٰادَةِ اَنْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مِنَ الْاَرْضِ اِلَی السَّمَاءِ اِلَّا مِنِّی وَمِنْ علی ابنِ ابی طالب۔”انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے سات سال تک مجھ پر اور علی علیہ السلام پر درود بھیجتے رہے(یہ اس واسطے کہ ان سات سالوں میں) خدا کی وحدانیت کی گواہی زمین سے آسمان کی طرف سوائے میرے اور علی کے علاوہ کسی نے نہ دی”۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے اسلام لانے کے بارے میں اہلِ سنت اور شیعہ کتب سے کافی روایات ملتی ہیں۔ جیسے زید بن ارقم کہتے ہیں “اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِی1″سب سے پہلے جو اسلام لائے وہ علی تھے۔ اس کے کچھ حوالہ جات نیچے بھی درج کئے گئے ہیں۔ اسی طرح انس بن مالک کہتے ہیں: 2″بُعِثَ النَّبِیُّ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَاَسْلَمَ عَلِیٌّ یَوْمَ الثلا ثا”یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیر کے روز مبعوث برسالت ہوئے اور علی علیہ السلام نے منگل کے روز اسلام قبول کیا۔
حوالہ جاتِ روایت اہلِ سنت کی کتب سے1۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ،باب شرح حالِ امام علی ،جلد1،ص70،حدیث116۔2۔ ابن مغازلی کتاب مناقب ِ امیرالمومنین ،حدیث 19،ص8،اشاعت اوّل،ص14پر3۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب12،صفحہ68۔4۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث 786اور 819۔5۔ سیوطی، کتاب اللئالی المصنوعہ،ج1،ص169و(صفحہ166اشاعت بولاق)6۔ متقی ہندی، کنزالعمال،ج11،ص616(موٴسسة الرسالہ بیروت،اشاعت پنجم)۔
حوالہ جاتِ روایت زید بن ارقم ۱1۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ،جلد7،صفحہ335(باب فضائلِ علی علیہ السلام)۔2۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب،باب25،صفحہ125۔3۔ سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ166(بابِ ذکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام)۔
حوالہ جاتِ روایت انس بن مالک 21۔ خطیب،تاریخ بغداد میں،جلد1،صفحہ134(حالِ علی علیہ السلام،شمارہ1)۔2۔ حاکم ،المستدرک میں، جلد3،صفحہ112(بابِ فضائلِ علی علیہ السلام)۔3۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد3،صفحہ26۔4۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء،صفحہ166(بابِ ذکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام)۔5۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب12،صفحہ68اورباب59،ص335۔6۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ، حالِ امیر الموٴمنین امام علی ،جلد1،ص41،حدیث76۔
دوسری روایتعلی پیغمبر کے ساتھ اورپیغمبرعلی کے ساتھ ہیںعَنْ علی ابنِ ابی طالب قَالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہ وآلہ وسلَّمْ:یَا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَامِنْکَ۔”علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:یا علی ! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں”۔
حوالہ جاتِ روایت اہلِ سنت کی کتب سے1۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد3،صفحہ120۔2۔ ذہبی، میزان الاعتدال،جلد1،صفحہ410،شمارہ 1505،ج3،ص324،شمارہ66133۔ ابن ماجہ سنن میں، جلد1،صفحہ44،حدیث119۔4۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد7،صفحہ344(بابِ فضائلِ علی علیہ السلام)۔5۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب حالِ امیر الموٴمنین ،ج1،ص124،حدیث1836۔ سیوطی،تاریخ الخلفاء،صفحہ169۔7۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث275،صفحہ228،اشاعت اوّل۔8۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب 67،صفحہ284۔9۔ شیخ سلیمان قندوزہ حنفی ،کتاب ینابیع المودة، صفحہ277،باب7،صفحہ60۔10۔ بخاری، کتاب صحیح بخاری میں، جلد5،صفحہ141(عن البراء بن عازب)۔11۔ نسائی الخصائص میں، صفحہ19اور51اور حدیث133،صفحہ36۔12۔ ترمذی اپنی کتاب میں، جلد13،صفحہ167(عن البراء بن عازب)۔13۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال ،جلد11،صفحہ599،اشاعت پنجم بیروت۔
تیسری روایتپیغمبر اور علی کی خلقت ایک ہی نور سے ہےعَنْ جٰابِرِبْنِ عَبْدُاللّٰہِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِی(رسول اللّٰہ) یَقُوْلُ لِعَلیٍّ:النّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتّیٰ وَاَنَاوَاَنْتَ مِنْ شَجَرَةٍ وٰاحِدَةٍ ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ”۔”جابرابن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ خدا سے سنا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب تھے اور فرمارہے تھے “سب لوگ سلسلہ ہائے مختلف(مختلف اشجار)سے پیدا کئے گئے ہیں لیکن میں اور تو(علی ) ایک ہی سلسلہ(شجرئہ طیبہ) سے خلق کئے گئے ہیں اور پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ”۔(سورئہ رعد:آیت:13)”اور انگوروں کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ایک ہی جڑ میں سے کئی اُگے ہوئے اور علیحدہ علیحدہ اُگے ہوئے کہ یہ سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں”۔
حوالہ جاتِ روایت اہلِ سنت کی کتب سے1۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث 400اور حدیث90،297میں۔2۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین،باب4،حدیث17۔3۔ حاکم، کتاب المستدرک،جلد2،صفحہ241۔4۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،شرح حالِ علی ،ج1،ص126،حدیث178،شرح محمودی۔5۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں،جلد4،صفحہ51اور تاریخ الخلفاء،صفحہ171۔6۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، بابِ مناقب70،حدیث37،صفحہ280۔7۔ حافظ الحسکانی،کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث395۔8۔ متقی ہندی، کنزالعمال،جلد6،صفحہ154،اشاعت اوّل ،جلد2،ص608(موٴسسةالرسالہ بیروت، اشاعت پنجم)۔
چوتھی روایتعلی ہی دنیا وآخرت میں نبی کے علم بردار ہیںعن جابر ابنِ سَمْرَةَ قَالَ: قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ یَحْمِلُ ٰرایَتَکَ یَوْمَ القِیٰامَةِ؟ قٰالَ: مَنْ کَانَ یَحْمِلُھَا فِی الدُّ نْیٰاعلی۔”جابر ابن سمرہ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا کی خدمت میں عرض کیا گیا:’یا رسول اللہ! قیامت کے روز آپ کاعَلَم کون اٹھائے گا؟‘آپ نے فرمایا جو دنیا میں میرا علمبردارہے یعنی علی “۔
حوالہ جاتِ روایت اہلِ سنت کی کتب سے1۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ، جلد7،صفحہ336(بابِ فضائل حضرت علی )۔2۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، شرح حالِ علی ، ج1،ص145،حدیث209،شرح محمودی۔3۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین علیہ السلام میں، حدیث237،صفحہ200۔4۔ علامہ اخطب خوارزمی، کتاب مناقب،صفحہ250۔5۔ علامہ عینی، کتاب عمدة القاری،16۔216۔6۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں، جلد13،صفحہ136۔
انچویں روایتپیغمبر اکرم اور علی ایک ہی شجرئہ طیبہ سے ہیںعَنْ ابنِ عباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ حُبُّ عَلِیٍّ یَأ کُلُ السِّیِّاتِ کَمٰا تَاکُلُ النَّارُالخَطَبَ۔”ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’علی کی محبت گناہوں کو ایسے کھاجاتی ہے جیسے خشک لکڑی کو آگ‘ ۔”
حوالہ جاتِ روایت اہلِ سنت کی کتب سے1۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ،بابِ شرح حالِ امیر الموٴمنین ، ج2،ص103حدیث6072۔ خطیب ،تاریخ بغداد شرح حالِ احمد بن شبویة بن معین موصلی، ج4،ص194،شمارہ1885۔3۔ متقی ہندی، کنزل العمال، ج15،ص218،اشاعت دوم، شمارہ1261(بابِ فضائلعلی ) اور دوسری اشاعت ج11،ص421(موٴسسة الرسالة بیروت، اشاعت5)4۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، بابِ مناقب سبعون، صفحہ279،حدیث33اور باب56صفحہ211اور 252۔5۔ سیوطی دراللئالی المصنوعہ، جلد1،صفحہ184،اشاعت اوّل۔
چھٹی روایتدرِ علی کے علاوہ تمام درِ مسجد بند کرنے کا حکمعَنْ زَیْداِبْنِ اَرْقَم قالَ: کَانَ لِنَفَرٍ مِنْ اَصْحٰابِ رَسُولِ اللّٰہِ اَبْوابٍ شَارِعَةٍ فِی الْمَسْجِدِ قَالَ: فَقٰالَ(النَّبِیُّ) یَوْمًا: سُدُّ وا ھٰذِہِ الاَ بْوَابَ اِلَّا بَابَ عَلی۔قٰالَ: فَتَکَلَّمَ فِیْ ذٰالِکَ اُنَاسٍ قٰالَ: فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَحَمَدَ اللّٰہَ وَأَ ثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قٰالَ أَمَّا بَعْدُ فَاِنِّی اُمِرْتُ بِسَدِّ ھٰذِہِ الْاَبْوَابِ غَیْرَ بَابِ عَلِیٍّ فَقٰالَ فیہِ قَاعِلُکُمْ،وَاِنِّی وَاللّٰہِ مَاسَدَدْتُ شَیْئًا وَلَا فَتَحْتُہ وَلَکِنِّی اُمِرْتُ بِشَیءٍ فَاتَّبِعُہ۔”زید بن ارقم کہتے ہیں کہ چند اصحابِ رسولِ خدا کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ ایک دن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام دروازوں کو (سوائے حضرت علی علیہ السلام کے دروازے کے) بند کردیاجائے۔ چند لوگوں نے اس پر چہ میگوئیاں کرنا شروع کردیں۔ پس رسولِ خدا کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا شروع کردی اور فرمایا کہ جب سے میں نے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے ،اُس کے بعد سے کچھ لوگوں نے باتیں کی ہیں(اس کے بارے میں صحیح رائے نہیں رکھتے)۔ خدا کی قسم! میں نے کسی دروازے کو اپنی طرف سے بند کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی کسی کے کھلنے کا حکم اپنی طرف سے دیا ہے، لیکن خدا کی طرف سے مجھے حکم ملا اور میں نے حکمِ خدا کو جاری کردیا ہے”۔
حوالہ جاتِ روایت اہلِ سنت کی کتب سے1۔ ابن عساکرتاریخ دمشق ، باب شرح حالِ امام علی ، ج1،احادیث323تا335۔2۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث302،صفحہ253۔3۔ ابونعیم ، کتاب حلیة الاولیاء، باب شرح حالِ عمروبن میمون۔4۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ125،حدیث63،بابِ مناقب علی علیہ السلام۔5۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ343،اشاعت بیروت۔6۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب50،صفحہ201۔7۔ بہیقی، کتاب السنن الکبریٰ، جلد7،صفحہ65۔8۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،ینابیع المودة، باب مناقب السبعون ، ص275،حدیث11اور باب17،صفحہ99۔9۔ محب الدین طبری، کتاب ذخائر العقبی،صفحہ102۔10۔ ابن حجر،کتاب فتح الباری،جلد8،صفحہ15۔11۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد11،صفحہ598و617،اشاعت بیروت۔12۔ احمد بن حنبل، کتاب المسند،جلد1،صفحہ175۔13۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،جلد9،صفحہ173۔14۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں ، جلد9،صفحہ115۔
ساتویں روایتعلی کا مقام و منزلتعَنْ اِبْنِ عباس، عَنِ النَّبِی قٰالَ لِاُمِّ سَلَمَة:یَااُمِّ سَلَمَةَ اِنَّ عَلِیًّا لَحْمُہُ مِنْ لَحْمِیْ وَدَمُہُ مِنْ دَمِیْ وَھُوَ بِمَنْزِلَةِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی۔حدیث ِمنزلت ِامام علی علیہ السلام ایک نہایت ہی اہم اور معتبر ترین حدیث ِ پیغمبر اسلام ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی شان ،مقامِ عالی اور منزلت کا پتہ دیتی ہے۔ البتہ یہ حدیث کئی اور ذرائع اور مختلف طریقوں سے بھی بیان کی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنابِ اُمِ سلمہ سے مخاطب ہیں۔ لیکن ابوہریرہ سے یہ روایت(اس روایت کو ابن عساکر نے ترجمہ تاریخ دمشق ،جلد1،حدیث412میں اس طرح نقل کیا ہے)اس طرح سے منقول ہے:اِنَّ النَّبی قٰالَ بِعَلِیٍّ عَلَیْہِ السَّلَام: یَاعَلِیُّ اَنْتَ بِمَنْزِلَةِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا النَّبُوَّةَ۔”پیغمبر اسلام نے حضرت علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا:’یا علی ! آپ کی نسبت مجھ سے ایسی ہے جیسی ہارون کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی، سوائے نبوت کے”۔
ترجمہ”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنابِ اُمِ سلمہ سے فرمایا :’اے اُمِ سلمہ! بے شک علی کا گوشت میرا گوشت ہے، علی کا خون میرا خون ہے اور اُس کی نسبت محمد سے ایسی ہے جیسی ہارون کی موسیٰ سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا”۔
حوالہ جاتِ روایت اہلِ سنت کی کتب سے1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق،شرح حالِ امام علی ، جلد1،حدیث406،336سے لے کر456تک۔2۔ احمد بن حنبل، مسند سعد بن ابی وقاص ، جلد1،صفحہ177،189اورنیز الفضائل میں،حدیث79،80۔3۔ ابن ماجہ قزوینی اپنی کتاب میں، جلد1،صفحہ42،حدیث 115۔4۔ بخاری،صحیح بخاری میں،جلد5،صفحہ81،حدیث225(فضائلِ اصحاب النبی )۔5۔ ابی عمریوسف بن عبداللہ، استیعاب ،ج3،ص1097اورروایت1855کے ضمن میں6۔ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء ، جلد7،صفحہ194۔7۔ بلاذری، کتاب انصاب الاشراف، ج2،ص95،حدیث15،اشاعت اوّل بیروت8۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب6،صفحہ56،153۔9۔ ابن مغازلی،کتاب مناقب میں،حدیث40،50،صفحہ33۔10۔ حاکم، المستدرک میں، جلد3،صفحہ108۔11۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ ،جلد8،صفحہ77۔12۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب37،صفحہ167۔13۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد2،صفحہ3،حدیث2586۔14۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث656۔15۔ سیوطی،کتاب اللئالی المصنوعة،جلد1،صفحہ177،اشاعت اوّل۔16۔ ابن حجر عسقلانی،کتاب لسان المیزان میں، جلد2،صفحہ324۔
آٹھویں روایتحدیث ِ ولایت اور مقامِ علیعَنْ عَمْروذی مَرَّ عَنْ عَلی اَنَّ النَّبِی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم قٰالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، اَلَّلھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عٰادٰاہُ۔حدیث ِ ولایت بھی ایک اہم ترین حدیث ہے جو شانِ علی اور مقامِ علی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ حدیث بھی مختلف ذرائع اور مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے لیکن اصلِ مفہوم وہی ہے۔”عمروذی حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ پروردگار! تو اُس کودوست رکھ جو علی علیہ السلام کو دوست رکھے اور تو اُس کو دشمن رکھ جو علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے”۔
حوالہ جاتِ روایت اہلِ سنت کی کتب سے1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حالِ امام علی ، جلد2،ص30،حدیث532۔2۔ احمد بن حنبل ،المسند،جلد4،ص281،حدیث12،جلد1،ص250،حدیث950،961،964۔3۔ حاکم،المستدرک میں، حدیث8،باب مناقب ِعلی ،،جلد3،صفحہ110اور116۔4۔ سیوطی، تفسیرالدرالمنثور،جلد2،صفحہ327اوردوسری اشاعت جلد5،صفحہ180اورتاریخ الخلفاء صفحہ169۔5۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث36،صفحہ18،24،26،اشاعت اوّل۔6۔ ہیثمی،کتاب مجمع الزوائد میں، جلد9،صفحہ105،108اور164۔7۔ ابن ماجہ سنن میں،جلد1،صفحہ43،حدیث116۔8۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ ،استیعاب ، ج3،ص1099،روایت1855کے ضمن میں9۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ335،344،366۔10۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب4،صفحہ33۔11 خطیب”حالِ یحییٰ بن محمد ابی عمرالاخباری”،شمارہ7545،کتاب تاریخ بغداد میں،جلد14،صفحہ236۔12۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں،جلد2،صفحہ108،اشاعت اوّل،حدیث45اور باب شرح حالِ امیر الموٴمنین علیہ السلام میں۔13۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب میں، باب1،صفحہ58۔14۔ نسائی، کتاب الخصائص میں، حدیث8،صفحہ47اورحدیث75،صفحہ94۔15۔ ابن اثیر، کتاب اسدالغابہ میں ،جلد4،صفحہ27اور ج3،ص321اورج2،ص39716۔ ترمذی اپنی کتاب صحیح میں، حدیث3712،جلد5،صفحہ632،633۔
نویں روایتعلی کی محبت جہنم سے بچاؤاور جنت میں داخلے کی ضمانت ہےعَنْ اِبْنِ عباس،قٰالَ: قُلْتُ لِنَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھَلْ لِلنَّارِ جَوازٌ؟قٰالَ نَعَمْ قُلْتُ وَمَاھُوَ؟ قٰالَ حُبُّ علیِّ۔
ترجمہ”ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا جہنم سے عبور کیلئے کوئی جواز یا پروانہ ہے؟ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’ہاں‘۔ میں نے پھر عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا:’علی سے محبت‘۔”اس طرح کی دوسری مشابہ حدیث بھی ابن عباس سے روایت کی گئی ہے:عَنْ ابنِ عباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ: علیٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ عَلَی الْحَوْضِ لَایَدْخِلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ جَاءَ بِجَوَازمِنْ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب۔
ترجمہ روایت”ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علی علیہ السلام قیامت کے دن حوضِ کوثر پر ہوں گے اور کوئی بھی جنت میں داخل نہ ہوسکے گا مگر جس کے پاس علی علیہ السلام کی جانب سے پروانہ ہوگا”۔
حوالہ جاتِ روایت ہلِ سنت کی کتب سے1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حالِ علی ،جلد2،صفحہ104،حدیث608اورجلد2صفحہ243،حدیث753۔2۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث156،صفحہ119،131اور242۔3۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة، باب56،ص211اور باب37،ص133،245،301۔4۔ سیوطی، اللئالی المصنوعة ، جلد1،صفحہ197،اشاعت اوّل(آخر ِ مناقب ِعلی )۔5۔ محب الدین طبری، کتاب ریاض النضرةمیں،جلد2،صفحہ177،211اور244۔
دسویں روایت
قیامت کے روز حُبِّ علی اور حُبِّ اہلِ بیت کے بارے میں سوال کیا جائے گاعَنْ اَبِی ذَر قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ لَا تَزُوْلُ قَدَمٰا اِبْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ حَتّیٰ یُسْأَلَ عَنْ اَرْبَعٍ،عَنْ عِلْمِہ مٰا عَمِلَ بِہ،وَعَنْ مٰااکْتَسَبَہُ،وَفِیْمٰااَنْفَقَہُ،وَعَنْ حُبِّ اَھْلِ الْبَیْتِ فَقِیْلَ یٰا رَسُوْلَ اللّٰہِ،وَمَنْ ھُمْ؟ فَأَوْمَأَ بِیَدِہِ اِلٰی عَلِیِّ۔”ابوذر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن کوئی انسان اپنا قدم نہ اٹھاسکے گا جب تک اُس سے چار سوال نہ کئے جائیں گے:اُس کے علم کے بارے میں کہ کس طرح اُس نے عمل کیا؟اُس کی دولت کے بارے میں کہ کہاں سے کمائی؟وہ دولت کہاں خرچ کی؟اہلِ بیت سے دوستی کے بارے میں۔عرض کیا گیا :’یا رسول اللہ! آپ کے اہلِ بیت کون ہیں؟آپ نے اپنے ہاتھ سے علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور کہا:علی ابن ابی طالب علیہ السلام‘۔”
حوالہ جاتِ روایت، اہلِ سنت کی کتب سے1۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب911،صفحہ324۔2۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،بابِ حالِ امیر الموٴمنین ،،جلد2،ص159،حدیث644۔3۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،باب32،ص124،باب37ص133،2714۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد10،صفحہ326۔5 ۔ ابن مغازلی، حدیث157،مناقب میں صفحہ120،اشاعت اوّل۔6۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، حدیث574،باب62۔7۔ خوارزمی، کتاب مقتل میں،جلد1،باب4،صفحہ42،اشاعت اوّل۔
یارہویں روایتعلی سے اللہ اور اُس کے رسول محبت کرتے ہیںعَنْ دٰاوٴدبنِ علیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عباس، عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ ابنِ عباس قٰالَ: اُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ بِطٰائِرِ فَقَالَ: اَلَّلھُمَّ اِئْتِنِیْ بِرَجُلٍ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ،فَجٰاءَ عَلِیٌّ فَقٰالَ: اَلَّلھُمَّ وٰالِ۔
ترجمہ”ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک مرغ بطور طعام پیش کیا گیا۔ آپ نے دعافرمائی کہ پروردگار! ایسے شخص کو میرے پاس بھیج جس کو خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں(تاکہ اس کھانے میں میرے ساتھ شریک ہوجائے)۔پس تھوڑی دیر بعد ہی علی وہاں پہنچے ۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:پروردگار! توعلی علیہ السلام کودوست رکھ۔علی پیغمبر اسلام کے ساتھ بیٹھے اور آپ نے پیغمبر کے ساتھ وہ کھانا تناول فرمایا”۔مندرجہ بالا حدیث ایک اہم اور متواتر حدیث ہے جو کتب ِ اہلِ سنت اور شیعہ میں مختلف صورتوں میں بیان کی گئی ہے۔ ماجراکچھ اس طرح ہے کہ ایک دن پیغمبر خدا کی خدمت میں طعامِ مرغ پیش کیا گیا۔پیغمبر خدا نے اُس وقت دعا مانگی کہ پروردگار!ایسے شخص کو میرے پاس بھیج دے جس کو خداا و رسول محبوب رکھتے ہوں(تاکہ میرے ساتھ طعام میں شامل ہوسکے)۔کچھ ہی دیر بعد امیر الموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام وہاں پہنچے۔ آپ خوش ہوئے۔
حوالہ جاتِ روایت اہلِ سنت کی کتب سے1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، بابِ حالِ امیر الموٴمنین ،ج2،ص631،حدیث622اورج2،حدیث609تا642(شرح محمودی)۔2۔ ابن مغازلی، مناقب میں حدیث189،صفحہ156،اشاعت اوّل۔3۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب8،صفحہ62۔4۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ351اور اس کے بعد۔5۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد3،صفحہ130(بابِ فضائلِ علی علیہ السلام)۔6۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب33،صفحہ148۔7۔ ذہبی، میزان الاعتدال ، باب شرح حال ابی الہندی،ج4،صفحہ583،شمارہ10703اورتاریخ اسلام میں جلد2،صفحہ197۔8۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد9،صفحہ125اور جلد5،صفحہ199۔9۔ خطیب، تاریخ بغداد ، باب شرح حال طفران بن الحسن بن الفیروزان،ج9،صفحہ369،شمارہ4944۔10۔ ابو نعیم،حلیة الاولیاء میں،جلد6،صفحہ339۔11۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں، باب شرح حالِ علی ،حدیث140،ج2،صفحہ142،اشاعت اوّل از بیروت۔12۔ خوارزمی، کتاب مناقب ، باب 9،صفحہ64،اشاعت تبریز اور اشاعت دوم ،صفحہ59۔13۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ میں، باب شرح حالِ امیر الموٴمنین میں،جلد4،صفحہ30۔14۔ طبرانی،معجم الکبیر میں، باب مسند ِ انس بن مالک، جلد1،صفحہ39۔15۔ نسائی، کتاب الخصائص میں ، حدیث12،صفحہ51۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.