نظام خلقت کے چند نمونے

198

ملک بدن کی حکمرانی کا مرکز
ہماری کھوپڑی کے اندر خاکی رنگ کا ایک مادہ ہے ،جسے ہم مغز کہتے ہیں ۔یہ مغزہمارے بدن کے اہم ترین اور دقیق ترین حصہ کو تشکیل دیتا ہے ،کیو نکہ اس کاکام بدن کے تمام قوا کو فر مان جاری کرنا اور ہمارے جسم کے تمام اعضاء کو کنٹرول کرنا ہے۔اس عظیم مرکز کی اہمیت کو بیان کر نے کے لئے مناسب ہے پہلے آپ کے لئے یہ خبر بیان کریں:جرائد میں یہ خبر نقل کی گئی تھی کہ ایک شیرازی طالب علم کو خوزستان میں ایک ٹریفک حادثہ کے نتیجہ میں مغز پر چوٹ لگ گئی تھی ،بظاہروہ سالم نظر آتا تھا ۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی تمام یاد داشتیں کھو بیٹھا تھا۔اس کا دماغ بخوبی کام کر تا تھا ۔مطالب کو سمجھتا تھا،لیکن اگر اپنے ماں یا باپ کو دیکھتا تو انھیں نہیں پہچانتا تھا۔جب اس سے کہتے تھے کہ یہ تمھاری ماں ہے ،وہ تعجب کرتا تھا ۔اسے اپنے گھر شیراز لے جایا گیا اور اس کی دستکاری۔۔جو اس کے کمرہ کی دیوار پر نصب تھی ۔۔اسے دکھائی گئی تو وہ تعجب سے ان پر نگاہ کر نے کے بعد کہتاتھا کہ میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔معلوم ہوا کہ اس مغزی چوٹ کے نتیجہ میں اس کے دماغ کی خلیوں کا ایک حصہ، جو حقیقت میں فکر اور حافظہ کے مخزن کے در میان رابطہ کے تار کا رول ادا کرتا ہے ،بیکار ہوا ہے اور جیسے بجلی کا فیوزاڑ جانے کے نتیجہ میں بجلی منقطع ہو کر تاریکی پھیل جاتی ہے ،اسی طرح اس کی سابقہ یادوں کا ایک بڑا حصہ فرا موشی کی تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔شاید اس کے مغز کا بیکار شدہ حصہ ایک پن کی نوک سے زیادہ نہیں ہوگا ،لیکن اس نے اس کی زندگی پر کس قدر اثر ڈالا ہے !اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے مغز کا سسٹم کس قدر پیچیدہ ہے اور اہم ہے۔مغز و اعصاب کا سلسلہ دواہم حصوں سے تشکیل پاتا ہے :۱۔ارادی اعصاب :ہمارے بدن کے تمام اختیاری حرکات،جیسے:راہ چلنے دیکھنے ،باتیں کر نے و….کا سرچشمہ اعصاب کا یہی حصہ ہے ۔۲۔غیر ارادی اعصاب:اعصاب کا یہ حصہ ،دل کی دھڑکن،معدہ وغیرہ جیسے اعضاء کا کنٹرول کرتا ہے۔مغز کے اس حصہ کا ایک ذرہ بیکار ہو نے کے نتیجہ میں ممکن ہے انسان کا قلب یاکوئی دوسرا عضو مختل ہو کر رہ جائے۔
دماغ کا ایک عجیب وغریب حصہ:”مخ”(بھیجا)دماغ کا وہ چھوٹا حصہ ہے جو دماغ کے دوحصوں کے در میان واقع ہے ،مغز کا یہ بالکل چھوٹاحصہ ہوش ،ارادہ اور شعور کا مرکز ہے۔یہ مغز کا ایک اہم ترین حصہ ہے بہت سے جذباتی رد عمل ،جیسے غضب اور ترس وغیرہ اسی سے مربوط ہیں ۔اگر کسی جانور کا “مخ”الگ کر دیا جائے ،لیکن اس کے باقی اعصاب اپنی جگہ پر صحیح وسالم ہوں تو وہ جانور زندہ رہتا ہے لیکن فہم وشعور کو بالکل ہی کھو دیتا ہے۔ایک کبو تر کا “مخ”نکالا گیا ۔وہ ایک مدت تک زندہ رہا۔لیکن جب اس کے سامنے دانہ ڈالتے تھے وہ اسے تشخیص نہیں دے سکتا تھا اور بھوکا ہو نے کے باوجود اسے نہیں کھاتا تھا ۔اگر اسے اڑاتے تھے ،تو وہ پرواز ہی کرتا رہتا تھا ،یہاں تک کہ کسی چیز سے ٹکراکرگر جاتا تھا۔
دماغ کا ایک اور حیرت انگیز حصہ،”حافظہ” ہے۔کیا آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ ہماراقوئہ حافظہ کس قدر حیرت انگیز ہے؟اگر ایک گھنٹہ کے لئے ہم سے حافظ چھین لیا جائے تو ہم کس مصیبت سے دو چار ہو جائیں گے؟!حافظ کا مرکز ،جو ہماے دماغ کا ایک چھوٹا حصہ ہے ،ہماری پوری عمر کی یادوںکو تمام خصوصیات کے ساتھ ریکارڈکرتا ہے ۔جس شخص نے بھی ہم سے رابطہ قائم کیا ہو،اس کی تمام خصوصیات جیسے،قد،شکل وصورت،رنگ ،لباس،اخلاق اور جذبات کو ریکارڈ کر کے محفوظ رکھتا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک الگ فائل تشکیل دیتا ہے۔لہذا جوں ہی ہم اس شخص سے روبرو ہو تے ہیں ،ہماری فکر تمام فائلوں میں سے اس شخص کی فائل کو نکال کر فوری طور پر اس کا مطالعہ کرتی ہے ۔اس کے بعد ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اس کے مقابلہ میں کون سا رد عمل ظاہر کریں۔اگر وہ دوست ہے تو اس کا احترام کریں اور اگر دشمن ہے تو اظہار نفرت کریں۔ لیکن یہ تمام کام اس قدر سرعت کے ساتھ انجام پاتے ہیں کہ وقت کے ذراسا بھی فاصلہ کا احساس تک نہیں ہو تا۔اس مسئلہ پر تعجب اس وقت اور زیادہ ظاہر ہو تا ہے جب ہم اپنے حافظ میں موجود چیزوں کو تصویر کے ذریعہ کاغذپر تر سیم کر نا چاہیں یا انھیں کیسٹ میں ضبط کر نا چاہیں تو ہم بیشک کاغذ اور کیسٹ کی بڑی تعداد کو مصرف میں لاتے ہیں جو ایک انبار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔عجیب تر یہ ہے کہ ان کیسٹوں اور کاغذات میں سے ایک کو باہر نکالنے کے لئے ہمیں بہت سے مامورین کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے ،جبکہ ہمارا حافظہ ان تمام کاموں کو آسانی کے ساتھ فی الفور انجام دیتا ہے۔
بے شعورطبیعت کیسے باشعورچیزوں کی تخلیق کرسکتی ہے؟انسان دماغ کے عجائبات کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان میں سے بعض کاکالجوں اور یونیورسٹیوںکی کتابوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔کیا اس پر باور اور یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ غیر معمولی ،انوکھا،دقیق،پیچیدہ اورپر اسرار دماغ کسی بے شعور طبیعت کی تخلیق ہوگی؟اس سے بڑھ کر کوئی بات تعجب انگیز نہیں ہوسکتی ہے کہ ہم بے عقل طبیعت کو عقل کا خالق جانیں!قرآن مجید فر ماتا ہے:<وفی اٴنفسکم اٴفلا تبصرون>(ذاریات/۳۱)”خود تمھارے اندر بھی (خدا کی عظمت اور قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں)کیاتم نہیں دیکھ رہے ہو؟”
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.