خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ

162

ب۔بیرونی راستہہم جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں،اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ کائنات درہم برہم نہیں ہے بلکہ تمام موجودات ایک معیّن راہ پرگا مزن ہیں اور کائنات کا نظم ایک بڑی فوج کے مانند ہے جو مختلف اور منظم یونٹوں میں تقسیم ہو کر ایک معین مقصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔مندر جہ ذیل نکات اس سلسلہ میں ہر شبہہ کو دور کرسکتے ہیں:۱۔ہر زندہ مخلوق کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کے لئے ضروری ہے کچھ خاص قوا نین اور حالات ایک دوسرے سے جڑُے ہوئے پائے جائیں ۔مثلاً ایک درخت کے وجود میں آنے کے لئے:زمین،مناسب آب وہوا اور ایک معیّن دھوپ اور گر می کی ضرورت ہو تی ہے تا کہ بیج کو ڈالا جائے اور وہ اچھی طرح سے غذا حاصل کرے ،تنفس کرے ،سبز ہو جائے اور نشو ونما پائے ۔ان حالات کے بغیر اس کی نشو ونما ممکن نہیں ہے ،ان حالات کو منتخب کر نے اور ان مقد مات کو فراہم کر نے کے لئے عقل اور علم ودانش کی ضرورت ہے۔۲۔ہر مخلوق کا اپنا ایک خاص اثر ہو تا ہے ،پانی اور آگ میں سے ہر ایک کا اپنا خاص اثر ہے ،جو ان سے کبھی جدا نہیں ہو تا ہے بلکہ ہمیشہ ایک ثابت اور پائدار قانون کی پیروی کر تا ہے ۔۳۔زندہ مخلوقات کے تمام اعضاء آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کر تے ہیں مثال کے طور پر یہی انسان کا بدن جو بذات خود ایک عالم ہے ،عمل کے وقت اس کے تمام اعضاء شعوری اور لا شعوری طور پر ایک خاص ہماہنگی سے کام کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کسی خطرہ سے دوچار ہو جائے تو تمام اعضاء دفاع کے لئے متحد ہو جاتے ہیں ۔یہ نزدیک رابطہ اور تعاون،کائنات کے نظم کی ایک اور علامت ہے ۔۴۔کائنات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ایک زندہ مخلوق کے اعضاء وجسم بلکہ کائنات کی تمام مخلوقات بھی آپس میں ایک خاص ہماہنگی رکھتی ہیں۔ مثلاً زندہ مخلوقات کی نشو ونماکے لئے سورج چمکتا ہے ،بادل برستا ہے ،ہوا چلتی ہے ،زمین اور زمین کے منابع اس کی مدد کرتے ہیں ۔یہ کائنات میں ایک معین نظام کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔
“نظم وضبط”اور “عقل”کا رابطہیہ حقیقت ہر انسان کے ضمیر پر واضح ہے کہ جہاں کہیں بھی نظم پایا جاتا ہو وہ”عقل،فکر،نقشہ اور مقصد”کی دلیل ہے۔کیونکہ انسان جہاں کہیں بھی ایک ثابت نظم وضبط اور قوانین کا مشاہدہ کرے وہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی علم وقدرت کے ایک مبدا کی بھی تلاش اور جستجو کر نی چاہئے اور اپنے ضمیر کے اس ادراک میں کسی استدلال کی ضرورت کا احساس بھی نہیں کرتا ہے۔وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ایک اندھا اوران پڑھ شخص ہر گز ایک ٹائپ مشین سے ایک اچھا مضمون یاایک اجتماعی و تنقیدی مقالہ نہیں لکھ سکتا ہے ،اور ایک دوسال کا بچہ کاغذ پر نامنظم صورت میں قلم چلاکر ہر گز ایک اچھی اور گراں قیمت نقا شی نہیں کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر ہم ایک اچھا مضمون یا گراں قیمت مقالہ دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ اور عقل و شعور والے کسی شخص نے اسے لکھا ہے ،یااگر کسی نمائش گاہ میں نقاشی کا ایک اچھا نمو نہ دیکھتے ہیں تو اس بات میں شک وشبہہ نہیں کرتے ہیں کہ اسے ایک ہنر مند نقاش نے بنایا ہے ،اگر چہ ہم نے کبھی اس ہنر مند نقاش کو نہ دیکھا ہو۔اس لئے جہاں کہیں بھی نظم وضبط پا یا جائے اس کے ساتھ عقل و ہوش ضرور ہو گا اور یہ نظم جس قدر بڑا،دقیق تر اور دلچسپ ہو گا ،جس علم و عقل نے اسے خلق کیا ہے وہ بھی اسی قدر بڑا ہو گا ۔بعض اوقات اس بات کو ثابت کر نے کے لئے کہ ہر منظم چیز کے لئے عقل ودانش کے سر چشمہ کی ضرورت ہے ،ریاضیات عالی میں ذکر شدہ “احتمالات کے حساب”سے مدد لی جاتی ہے اور اس طریقہ سے ثابت کرتے ہیں کہ مثلاًایک ان پڑھ شخص اگر ٹائپ مشین کے ذریعہ اتفاقی طور پر مشین کے بٹن دبا نے سے ایک مقالہ یا چند اشعار کو لکھنا چاہے تو”احتمالات کے حساب “کے مطابق اس میں اربوں سال لگ جائیں گے کہ حتی کرئہ زمین کی پوری عمر بھی اس کے لئے کافی نہیں ہوگی ۔(اس کی مزید وضاحت کے لئے کتاب”آفرید گار جہان”یا کتاب “در جستجو خدا”کا مطالعہ فر مائیں)قرآن مجید فر ماتا ہے:<سنریھم آیٰتنا فی الاٰفاق وفی اٴنفسھم حتّیٰ یتبیّن لھم اٴنّہ الحقّ اٴو لم یکف بربّک اٴنّہ علیٰ کل شیءٍ شھید>(سورہ فصلت/۵۳)”ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تا کہ ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ برحق ہے اور کیا تمھارے پرور دگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے۔کہ وہ ہرشے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے۔”
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.