ولایت فقیہ
عربی میں ولا یت کے دومعنی بیان کئے گئے ہیں ١۔رہبری اور حکومت ٢ ۔ سلطنت (١)جب ولایت کسی فقیہ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنی معاشرہ کی راہنمائی اور ان کی رہبری ہے اگر اسلام کے سیاسی نظام کی شرح کی جائے اور اس کے سیاسی پہلوئوں کو اجاگر کیاجائے تواس صورت میں ولایت فقیہ غیبت امام زمان میں اس مذہب کا ایک اہم رکن ہوگا ۔اہل تشیع کے نزدیک عصر غیبت میںولایت فقیہ ائمہ معصومین کی ولایت کی تکمیل واستمرار ہے جس طرح ائمہ کی امامت رسول کی ولا یت کا دوام ہے اس عقیدہ کااصل مقصد یہ ہے کہ اسلامی حکومت کی کلید باگ ڈور سنبھالنے کے لئے ایک صدر مقام ہو اور وہ ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہوجواسلام کی صحیح شناخت رکھتا ہو اگر عصر معصوم ہے تو خود معصوم اس کی نظارت فرمائیں اور ان کی عدم موجودگی میں فقیہ جامع الشرائط اس عہدہ کو ذمہ دار ہو گا۔چونکہ اسلام کی نظرمیں حکومت کا اصل کام ضروریات اسلام اوراحکام اسلامی کو لوگوں کے درمیان نافذ کرنا ہے۔اور اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ حکم کوقطعی اور حتمی صورت دینے والا شخص دین کی مکمل شناخت رکھتاہو ۔
ولایت فقیہ پر دلیل
ولایت فقیہ پرعقلی دلیل اس میں کو ئی شک نہیں کہ ہرسماج اورہر حکومت کے لئے رہبر کا ہونا ضروری ہے، اگر کسی سماج میں اسلامی حکومت وسلطنت ہو تو عقل کا تقاضا ہے کہ اس حکومت کی باگ ڈور ایسے ہاتھ میںہوجو احکام وقوانین اسلامی کومکمل طور سے جانتا ہو، اب اگر امام معصوم لوگوں کے درمیان ہے تو وہ اس منصب کا حقیقی حقدار ہے ۔لیکن زمانہ غیبت میں معاشرہ کی رہبریت کی صلا حیت رکھنے والا فقیہ عادل اس مقام کامستحق ہے۔دوسرے لفظوںمیں یوں کہاجائے کہ اسلامی قوانین اوراحکام اسلامی کوجاری کرنے والے کے لئے تین شرطوں کاہونا ضروری ہے ۔١۔”بہترین قانون شناس ہو” ٢۔” قوانین اسلام کابہترین مفسر ہو” ٣۔”قوانین اسلام کا بہترین عالم اور نافذ کرنے والاہو او ر کسی قسم کے اغراض ومقاصد کے تحت مخالفت کاقصدنہ رکھتا ہو ”۔اس خصوصیت کا حامل اس زمانہ غیبت میںولی فقیہ ہے ۔ولایت فقیہ :یعنی ایسے اسلام شناس عادل کی طرف رجو ع کرناجو سب سے زیادہ امام معصوم سے قریب ہو ۔دلیل نقلی:ولایت فقیہ کے اثبات کے لئے بہت ساری روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں بعض کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔١۔ توقیع شریف جیساکہ صدوق نے اسحاق بن یعقوب سے نقل کیاہے کہ امام زمانہ نے ان کے سوال کے جواب میں جوخط لکھا تھا وہ یہ حکم تھا۔ ” وأمّا الحوادث الواقعة فارجعوا فیھا اِلیٰ رواة أحَادیثنا فأِنّھُم حُجَّتِی علیکم وأنا حُجّة اللّہِ علیھم”اگر کو ئی مسئلہ درپیش ہوتو ہما رے راویان حدیث کی طرف رجو ع کریں کیونکہ وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں اور ہم اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہیں۔(2) مرحوم شیخ طوسی نے بھی کتاب ”الغیبة” میں اس حدیث کونقل کیا ہے فقط” اَنَا حُجّةُ اللّہِ علیھم”کی جگہ” اناحجة اللہ علیکم”کالفظ استعمال کیاہے کہ (میں تم پر حجت خداہوں )اس حدیث سے اس طرح استدلال کیاجائیگاکہ اس حدیث میں امام زمانہ نے دوجملوں” فأِنّھُم حُجَّتِی علیکم وأنا حُجّة اللّہِ” اس طرح بیان فرمایا جو بالکل روشن ہے راویا ن حدیث جویہی فقہاء ہیں ان کا حکم امام کے حکم کے مانند ہے یعنی فقہاء لوگوں کے درمیان امام کے نائب ہیں ۔٢۔وہ حدیث جو امام صادق ںسے نقل ہوئی ہے اور مقبولہ محمد بن حنظلہ کے نام سے مشہور ہے ”مَنْ کا ن منکم قَد رویَ حدیثنا ونظر فیِ حلالنا وحرامنا وعرف أحکامنا فلیرضوا بہ حکماً فاِنِّی قد جعلتہ علیکم حاکماً فاِذا حَکم بحکمنا فلم یقبلہ منہ فانما استخف بحکم اللّہ وعلینا ردّ والرّاد علینا کالرّاد علیٰ اللّہ وھو علیٰ حدّ الشِّرک باللِّہ” (3)تم میں جو بھی ہماری حدیثیں بیان کرے اور جو ہمارے حلال وحرام میں صاحب نظر ہو اور ہمارے احکام کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اس کی حاکمیت سے راضی ہو کیونکہ ہم نے ان کو تم سب پر حاکم قرار دیاہے اگر انھو ں نے ہمارے حکم کے مطابق حکم کیا اور قبول نہیں کیا گیا تو حکم خدا کو ہلکا سمجھنا ہے اور ہمارے قول کی تردید ہے اور ہماری تردید حکم خدا کی تردید ہے اور یہ شرک کے برابر ہے ۔آج کی اصطلاح میں فقیہ اس شخص کو کہتے ہیں جوحدیث کی روشنی میں حلال وحرام کو درک کرسکے ۔اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب امام معصوم کی موجود گی میں امام تک پہنچنا ممکن نہ ہو اور امام معصوم کی حکومت نہ ہو تو ایسی صورت میں لوگوں کاکام فقیہ جامع الشرائط کی طرف رجوع کرناہے اس زمانہ غیبت امام میں جبکہ کوئی امام موجود نہیںہے تولوگو ں کی یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ فقیہ جامع الشرا ئط کی طرف رجو ع کریں ۔٣۔شیخ صدوق امیر المومنین ںسے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا:”اللَّھمَّ ارحم خُلفائِ الّذین یأ تون مِن بعدیِ یرون حدیثیِوسنتیِ” (4)خدا یا!ہمارے خلفاء پر رحم فرما آپ سے پوچھا گیا آپ کے جانشین کون ہیں ؟تو آپ نے فرمایا جو ہمارے بعد آئیں گے اورہماری سنت واحادیث کو نقل کریں گے ۔اس حدیث سے ولا یت فقیہ کے اثبات میںدو نکتہ پر غور کرنا ضروری ہے ۔الف ) رسول اسلام تین چیزوں کے لئے مبعوث کئے گئے تھے۔١۔ آیات الٰہی کی تبلیغ احکام شرعی کی تو ضیح وتفسیر اور لوگو ں کی ہدایت کے لئے۔٢۔ اختلافات اور تنازع کے وقت قضاوت کے لئے۔٣۔ حکومت اسلامی کی تشکیل اور اس کی حسن تدبیر یعنی ولایت کے لئے۔ب) جو رسول کے بعد آئیں گے اور ان کی سنت واحادیث کو بیان کریں گے ان سے مراد فقہاء ہیں ۔راویان ومحدثین مراد نہیں ہیں کیونکہ راویان حدیث فقط حدیث نقل کرتے ہیںاور ان کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ یہ حدیث یاسنت خود رسول اکرم ۖکی ہے بھی یانہیں ؟کو ن سی حدیث میں تعارض (ٹکرائو) ہے اور کون سی مخصصّ ہے ان تمام چیزوں کو وہی جانتا ہے جو مقام اجتہاد اور درجہ فقہاہت تک پہنچ چکا ہوتا ہے ان دو نکتوں کی جانب توجہ کرنے کے بعد اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فقہا پیغمبر ۖکے جانشین ہیں اور وہ تمام چیزیں جوپیغمبر اسلامۖ کے لئے تھیں (جیسے تبلیغ دین ، فیصلہ، حکومت وولایت ) ان کے لئے بھی ہیں ۔ولی فقیہ کے شرائط ١۔اجتہاد وفقاہت: دینی واسلامی حکومت میں سماج ومعاشرہ کی زمامداری اسلامی قوانین کی بنا ء پر ہو تی ہے لہٰذا جو شخص اس منزل و مقام پر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی قانون کو اچھی طرح جا نتا ہو تاکہ معاشرہ کی رہبری کے وقت اس کے قانو ن کی مخالفت نہ ہو ۔ اور ان قوانین کا علم اجتہاد ی منزل میں ہو نا چاہئے ۔٢۔ عدالت وتقوی :اگر عالم وفقیہ عدالت وتقوی سے دور ہوگا تواقتدار ومسند نشینی اس کو تباہ کردے گی بلکہ اس بات کا امکا ن ہے کہ ذاتی یاخاندانی منفعت کوسماجی وملی منفعت پر مقدّم کردے۔ولی فقیہ کے لئے پرہیزگا ری،امانتداری،اور عدالت شرط ہے تاکہ لوگ اعتما د اوراطمینا ن کے ساتھ مسند ولایت اس کے حوالے کردیں ۔٣۔سماجی مصلحت کی شناخت اور اس کی درجہ بندی : یعنی مدیر ومدبر ہو ۔ قال علی :”أَیُّھا النّاس أِنَّ أحقّ النَّاس بھذا الأمر أقواھم علیہ وأعلمھم بأمرِ اللّہ فیہ”(5) اے لوگو ! حکومت کامستحق وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ شجاع ہو اور احکا م الٰہیہ کا تم میں سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔ (6)…………..(١) قاموس المحیط ص،١٧٣٢ مصباح المنیر ج،٢ ص ٣٩٦ تاج العروس ج،١٠ ص ٣٩٨ ۔ (2)اکمال الدین صدوق ج،٢ص ٤٨٣
(3) اصول کافی ج١، ص ٦٧(4) من لا یحضر ہ الفقیہ ج،٤ص ٤٢٠ وسائل الشیعہ ج ،١٨ ص ٦٥ (5)نہج البلاغہ خطبہ ١٧٣(6) ولایت فقیہ کی بحث کو مصباح یزدی ہادوی تہرانی ، کی بحثوں سے اقتباس کیا ہے۔