جبر و اختیارکا مسئلہ

203

۱۔جبر کے عقیدہ کا سرچشمہہرشخص اپنے وجود کی گہرائیوں میں احساس کر تا ہے کہ وہ اپنے ارادہ میںآزاد ہے،مثال کے طورپر فلاں دوست کی وہ مالی مدد کرے یا نہ کرے یا یہ کہ پیاس کی حالت میں اگر اس کے سامنے پانی رکھا جائے تو وہ اسے پئے یا نہ پئے۔اگر کسی نے اس کے خلاف کوئی ظلم کیا ہو تو وہ اسے بخش دے یا نہ بخشے۔یا یہ کہ ہر شخص بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے کانپنے والے ہاتھ اور اپنے ارادہ سے حرکت کر نے والے ہاتھ کے در میان فرق کرسکتا ہے۔آزادی ارادہ کا مسئلہ انسان کا ایک عام احساس ہو نے کے باوجود کیوں انسانوں کا ایک گروہ جبر کا عقیدہ رکھتاہے؟!اس کے مختلف اسباب ہیں کہ ہم ان میں سے ایک اہم سبب کو یہاں پر بیان کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان مشاہدہ کر تا ہے کہ ماحول افراد پر اثر ڈالتا ہے ،تربیت بھی ایک دوسری علت ہے اسی طرح پروپیگنڈے،ذرائع ابلاغ اور سماجی ماحول بھی بلا شبہ انسان کی فکرو روح پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کبھی اقتصادی حالات بھی انسان میں تبدیلیاں ایجاد کر نے کا سبب بنتے ہیں ۔وراثت کے سبب ہو نے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔یہ تمام عوامل اس کا سبب بنتے ہیں کہ انسان یہ خیال کرے کہ ہم با اختیار نہیں ہیں بلکہ ہمیں داخلی اور خارجی ذاتی عوامل اکھٹے ہو کر مجبور کرتے ہیں کہ ہم کچھ ارادے اور فیصلے کریں،اگر یہ عوامل نہ ہو تے تو ہم سے بہت سے کام سرزد نہیں ہوتے۔یہ ایسے امور ہیں، جنھیںماحول کے جبر ،اقتصادی حالات کے جبر ،تعلیم وتربیت کے جبر اور وراثت کے جبر سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ان عوامل میں سے “مکتب جبر”فلاسفہ کی زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہے۔۲۔جبریوں کی غلط فہمی کی اصل وجہلیکن جو لوگ ایسا خیال کرتے ہیں وہ ایک بنیادی بات سے غافل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بحث”محر کات و عوامل”اور “علت ناقصہ”کے بارے میں نہیں ہے بلکہ بحث”علت تامّہ”میں ہے۔دوسرے الفاظ میں :کوئی شخص انسان کی فکر اور اس کے عمل میں ماحول،تہذیب وتمدن اور اقتصادی اسباب کے اثر انداز ہو نے سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔اصل بحث اس میں ہے کہ ان تمام اسباب کے باوجود فیصلہ کا اختیار ہم ہی کو ہے۔کیونکہ ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ سابقہ شہنشاہی نظام جیسے ایک غلط اور طاغوتی نظام میں بھی گمراہ ہو نے کے مواقع فراہم تھے ،لیکن ہم اس کے لئے مجبور نہیں تھے۔ ہمارے لئے اسی نظام اور ماحول میں بھی ممکن تھا کہ ہم رشوت لینے سے پر ہیز کریں، فحاشی کے مراکز کی طرف رخ نہ کریں اور آزادروی سے پرہیز کریں۔لہذا ان مواقع کو”علت تامّہ”سے جدا کر نا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے افراد غیر مہذب گھرانوں اور برے ماحول میں پرورش پانے یا نامناسب وراثت کے مالک ہو نے کے باوجود اپنے لئے صحیح راہ کا انتخاب کرتے ہیں،یہاں تک کہ بعض اوقات یہی افراد اس قسم کے ماحول اور نظام کے خلاف انقلاب برپا کر کے اسے بدل دیتے ہیں، ورنہ اگر یہ ضروری ہوتا کہ تمام انسان ماحول،تہذیب و تمدن اور پروپیگنڈے کے تابع ہوں تو دنیا میں کبھی کوئی انقلاب برپا نہیں ہو سکتا اور تمام افراد ماحول کے سامنے ہتھیار ڈال کر جدید ماحول پیدا کر نے سے قاصر رہتے۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ تمام مذکورہ عوامل میں سے کوئی ایک بھی “تقدیر ساز”نہیں ہے بلکہ یہ اسباب صرف مواقع فراہم کرتے ہیں اور انسان کی تقدیر کو صرف اس کا ارادہ اور عزم بناتا ہے۔یہ ایساہی ہے کہ ہم ایک انتہائی گرم موسم میں خدا کی اطاعت کرتے ہوئے روزے رکھنے کا عزم کریں جبکہ ہمارے وجود کے تمام ذرات پانی کی خواہش کرتے ہیں لیکن ہم خدا کی اطاعت میں ان کی پروا نہیں کرتے جبکہ ممکن ہے کوئی دوسرا شخص حکم خدا کے باوجود اس خواہش کو قبول کر کے روزہ نہ رکھے۔نتیجہ کے طور پر ان تمام “اسباب وعوامل”کے باوجود انسان کے پاس عزم وارادہ جیسی ایک چیز ہے جس سے وہ اپنا مقدر بنا سکتا ہے۔۳۔مکتب جبر کے سماجی اور سیاسی اسبابحقیقت یہ ہے کہ ابتداسے ہی “جبر واختیار”کے مسئلہ کے بارے میں کثرت سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے۔انسان کے ارادہ کی آزادی کی “نفی”اور جبر کے عقید کی تقویت کے لئے کچھ خاص عوامل کا ایک سلسلہ بھی موثر کردار ادا کرتا رہا ہے۔ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:الف:سیاسی عواملبہت سے جابر وستمگر حکام محروم اور مستضعف لوگوں کے انقلابی جذبہ کو خاموش کر نے اور اپنی غیر قانو نی اور مطلق العنان حکومت کو باقی رکھنے کے لئے ہمیشہ اس فکر کا سہارا لیتے رہے ہیں کہ ہم خود کوئی اختیار نہیں رکھتے،تقدیر کا ہاتھ اور تاریخ کا جبر ہماری قسمت کا فیصلہ کر نے والا ہے۔اگر کوئی امیر ہے اور کوئی غریب تو یہ قضا وقدر کے حکم یا تاریخ کے جبر کے سبب سے ہے!واضح ہے کہ اس قسم کا طرز فکر کس حد تک لوگوں کے افکار کو بے حس کر سکتا ہے اور جابر حکام کی استعماری اور آمرانہ سیاست کی مدد کرسکتا ہے؟حالانکہ عقلی اور شرعی طور پر ہماری “تقدیر” خود ہمارے ہاتھوں میں ہے اور “جبر”کے معنی میں قضا وقدر کا بالکل وجود نہیں ہے ۔الہٰی قضا وقدر کی تعیین ہماری حرکات ،خواہشات ،ارادہ،ایمان،جستجو اور کوشش کے مطابق ہوتی ہے۔ب۔نفسیاتی عواملجوکاہل اور سست افراد اپنی زندگی میں اکثر نا کام رہتے ہیں وہ ہر گز اس بات کو قبول نہیں کرتے ہیں کہ ان کی سستی اور خطائیں ان کی شکست کا سبب بنی ہیں۔لہذا اپنے آپ کو بری الذمہ قراردینے کے لئے “مکتب جبر”کا سہارا لیتے ہیںاور اپنی ناکامی کو اپنی اجباری قسمت کے سر پر ڈالتے ہیں تاکہ اس طرح جھوٹا اور ظاہری سکون پیدا کر سکیں ۔وہ کہتے ہیں :کیا کریں ہماری قسمت کی چادر تو روز اول سے ہی ایسی سیاہ بنیُ گئی ہے جسے زمزم یا حوض کوثر کا پانی بھی سفید نہیں کر سکتا ۔ہم با استعداد بھی ہیں اور ہم نے کوشش بھی کی ہے لیکن افسوس ہماری قسمت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا!ج۔سماجی عوامل:بعض لوگ چاہتے ہیں کہ وہ آزادی کے ساتھ ہو اوہوس کی راہوں پر چلتے رہیںاور اپنی حیوانی خواہشات کے مطابق ہر گناہ کے مرتکب ہوتے رہیں اس کے باوجود خیال کرتے ہیں کہ وہ گناہ کار نہیں ہیں اور سماج میں بھی اس قسم کا تاثر قائم کر نے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔اس لئے وہ”عقیدہ جبر”کا سہارا لے کر اپنی ہوس رانی کی جھوٹی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :ہمیں اپنے کاموں میں کسی قسم کا اختیار نہیں ہے!لیکن بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے ،حتی اس قسم کی باتیں کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ ان کے یہ عذر بے بنیاد ہیں۔لیکن عارضی لذتیں اور ناپائیدار منافع انھیں حقیقت کا کھلم کھلا بیان کر نے کی اجازت نہیں دیتے ۔لہذا ضروری ہے کہ سماج کو اس جبری طرز فکر سے اور قسمت و تقدیر کو جبر کا نتیجہ قرار دینے کے عقیدہ سے بچانے کے لئے کوشش کی جائے۔کیونکہ اس قسم کا عقید ہسا مراجی طاقتوں کاآلہ کار اور جھوٹی ناکامیوں کے لئے مختلف بہانوں کا وسیلہ اور سما ج میں آلودگی بڑھانے کا بہت بڑا سبب بنتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.