شجاعت حضرت علي عليہ السلام

175

آج ميں يہ سوچ رہا تھا کہ اگر ميں فضائل و مناقب اميرالمومنين عليہ السلام کو نسبتاً جامع طور پر پيش کرنے کي کوشش کروں تو مجھے کہاں سے آغاز سخن کرنا ہوگا، البتہ آپ کے جوہر ملکوتي اور وجود حقيقي کہ جو آپ کا الہيٰ وجود ہے۔ميں اس کے بارے ميں نہيں عرض کر رہا ہوں کہ جس تک ہم جيسے لوگوں کي رسائي بھي نہيں ہے بلکہ ميري مراد آپ کے وسيع وجود کا وہ حصہ ہے کہ جس تک پہنچنا ممکن ہے اور اس کے بارے ميں غور و فکر کيا جا سکتا ہے بلکہ آپ کو زندگي کے ليے نمونہ بنايا جا سکتا ہے۔پھر مجھے احساس ہو ا کہ يہ بھي، ايک خطبہ يا ايک گھنٹہ ميں ممکن نہيں اس ليے کہ آپ کي شخصيت کے تہہ در تہہ پہلو ہيں،” لا ہوا سجر من اي النواحي اتيتہہ‘‘(١) جس طرف سے بھي وارد ہوئے فضائل و مناقب کا ايک سمندر ہے اس ليے کوئي مختصر جامع تصور مخاطب کے حوالے نہيں کيا جاسکتا کہ کہا جائے: يہ ہيں اميرالمومنين عليہ السلام ۔البتہ يہ ممکن ہے کہ آپ کے مختلف پہلوؤں کو اپني فکر و ہمت کے مطابق پيش کر سکوں اور ميں نے جب اس لحاظ سے تھوڑاسوچا تو ديکھا شايد آپ کي ذات ميں ١٠٠ سو صفات ۔کہ يہي سو ١٠٠ کي تعبير روايات ميں بھي وارد ہوئي ہيں ۔اور سو ١٠٠ خصوصيات کو تلاش کيا جا سکتا ہے وہ چاہے آپ کي روحاني ومعنوي خصوصیات ہوں جيسے آپ کا علم، تقويٰ زہد حلم و صبر کہ يہ سب کے سب انسان کے نفساني اور معنوي خصال وجمال ميں سے ہيں يا رفتار و عمل جيسے اميرالمومنين عليہ السلام بحیثیت باپ، بحیثیت شوہر يا بحیثیت ايک باشندہ، سپاہي و مجاہد ، سپہ سالار جنگ، حاکم اسلامي و بحیثیت خليفہ وقت يا پھر لوگوں کے ساتھ تواضع و انکساري کے ساتھ پيش آنا، آپ کا بعنوان ايک ماضي ، عادل اور مدبر کہ شايد اس طرح حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کي سو ١٠٠ خصوصيات کو شمار کيا جا سکتا ہے اور اگر کوئي انہيں صفات کو لے کر گويا اور رسا انداز ميں ايک جامع بيان پيش کر سکے تو گويا اس نے حضرت اميرالمومنين کا ايک مکمل مگراجمالي خاکہ لوگوں کے سامنے پيش کيا ہے، مگر ان صفات کا دائرہ اس قدر وسيع اور دامن گستردہ ہے کہ ہر ايک صفت کے ليے کم از کم ايک کتاب درکار ہے۔مثال کے طور پر حضرت علي عليہ السلام کے ايمان کو پورا مدنظر رکھيں؟۔ البتہ ميں جس خصوصيت کو يہاں بيان کرنا چاہتا ہوں وہ ايمان کے علاوہ ايک دوسري خصوصيت ہے جس کو ميں بعد ميں بيان کروں گا۔بہرحال آپ ايک مومن کامل تھے يعني ايک فکر، ايک عقيدہ اور ايک ايمان يہ آپکے وجود مبارک ميں راسخ تھا ذرا آپ اب خود ہي بتائیے کہ آخر کس کے ايمان سے حضرت عليہ السلام کے ايمان کا موازنہ کيا جائے کہ عظمت ايمان اميرالمومنين عليہ السلام کا اندازہ لگايا جا سکے، خود وہ فرماتے ہين ” لو کشف الغطائ ما ازددتُ يقينا ‘‘(2)يعني اگر غيب کے سارے پردے ہٹا ديے جائيں مراد ذات مقدس خداوند، فرشتگان الہيٰ، جہنم اور وہ تمام باتيں جيسے دين لانے والے بعنوان غيب بيان کر چکے ہيں۔ اور ميں اپني انہي آنکھوں سے ان سب کا مطالعہ کروں تو ميرے يقين ميں کوئي اضافہ نہيں ہوگا!گويا آپ کا يقين اس کے یقین کے مانند ہے کہ جس نے ان ساري چيزوں کو اپني ظاہر ي آنکھوں سے ديکھا ہے! يہ ہے آپ کا ايمان اور اس کا رُتبہ ومقام کہ ايک عرب شاعر کہتا ہے ”اگر ساري مخلوقات کے ايمان کو ترازو کے ايک پلڑے ميں رکھ ديا جائے اور ايمان علي عليہ السلام کوترازو کے دوسرے پلڑے ميں رکھ ديا جائے تو پھر بھي علي عليہ السلام کے ايمان کو تولنا ممکن نہيں ہے!يا آپ کے سابق الاسلام ہونے کو ہي لے ليجئے کہ نوجواني اور کمسني ہي سے خدا پر ايمان لائے اورا س راستہ کو دل و جان سے قبول کر ليا اور آخر عمر تک اس پر ثابت قدم رہے ، جو ايک عظيم اور وسيع پہلووں کو اپنے اندر سميٹے ہوئے ہے کہ جسے ايک کلمہ ميں نہيں بيان کيا جاسکتا!۔ہم لوگوں نے بہت سے بزرگوں کو ديکھا ہے يا آپ کے بارے ميں کتابوں ميں پڑھا ہے کہ انسان جب امیر المومنین عليہ السلام کي شخصيت کے بارے ميں تصور کرتا ہے تو خود کو ان کے مقابل حقير و ذليل پاتا ہے۔جيسے کہ کوئي آسمان ميں،چاند،ستارہ، زہرہ ،مشتري،زحل يا مريخ کو ديکھے مگر اسکے باوجود اندربہت نورانيت اور چمک پائي جاتي ہے وہ اپني جگہ بہت بڑے ہيں مگر اس کے باوجود ہماري نزديک ديکھنے والي آنکھيں،اپني کمزوري و ضعف کي وجہ سے يہ اندازہ نہيںلگا سکتيں کہ مثلاً ستارہ ،مشتري، يا زھرہ ميں کيا فرق ہے ، يا وہ ستارہ جن کو ٹيلي اسکوپ کي مدد سے ديکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے اندرکئي ملين نوري سالوں کا ايک دوسرے کے درميان فاصلہ پايا جاتا ہے، ہم نہيں ديکھ سکتے جب کہ دونوں ستاروں ميں اور ہماري آنکھيں آسمان ميں ان دونوں کو تاحد نظر ديکھتيں ہيں،مگر يہ کہاں اور وہ کہاں! اور اسي طرح چونکہ ہم لوگ عظمتوں سے کوسوں دور ہيں حضرت اميرالمومنين عليہ السلام اور ديگر تاريخ بشريت يا تاريخ اسلام کے اکابرين، بزرگان اعظم کے درميان تاريخ بشريت يا تاريخ اسلام کہ جن کا کتابوں اور دنيائے علم يا ديگر ميدانوں ميں سراغ ملتا ہے صحيح طريقہ سے موازنہ کرنے پر قدرت و طاقت نہيں رکھتے حقيقتاً،ذات اميرالمومنين عليہ السلام ايک حيرت انگيز شخصيت ہے!مشکل تويہاں پيش آتي ہے،کہ ہم اور آپ شيعہ علي ابن ابي طالب ہونے کي حيثيت سے انکے پيروکہے جاتے ہیں؛اور اگر ہم آپ کي ذات گرامي کے مختلف پہلوؤں سے واقف نہ ہوں تو پھر اپني شناخت مجروح ہونے لگتي ہے اس ليے کہ جو دعويدار محبت نہيں ہے اس ميں اور ہم میں فرق ہے اور چونکہ ہم دعويدار ہيں ہم ”علوي‘‘ بن کر رہنا چاہتے ہيںاور ہم چاہتے ہيں کہ ہمارا معاشرہ،علوي معاشرہ کہلائے لہذا ہم شيعان علي عليہ السلام سے پہلے درجہ ميں اور غير شيعہ مسلمان دوسرے درجہ ميں اس مشکل سے بہرحال روبرو ہيں اس ليے کہ سبھي علي عليہ السلام کو مانتے ہيں فقط فرق يہ ہے کہ ہم شيعہ علي ابن ابي طالب عليہ السلام سے ايک خاص عقيدت و احترام رکھتے ہيں۔
شجاعت ايک عظيم اور تعميري صفت:آج ميں اميرالمومنين عليہ السلام کي جس خصوصيت کو بيان کرنا چاہتا ہوں وہ ہے آپ کي شجاعت۔ خود شجاعت ايک بہت عظيم اور تعميري صفت ہے اسي صفت کي وجہ سے انسان خطرات سے بے خوف ہو کر ميدان جنگ ميں کود پڑتا ہے جس کے نتيجہ ميں دشمن پر غلبہ حاصل کر ليتا ہے۔عام لوگوں کي نگاہ ميں شجاعت کے يہي ايک معني ہيں،مگر ميدان جنگ کے علاوہ ديگر اور ميدانوں ميں بھي يہ صفت بہت اہميت رکھتي ہے ۔جيسے حق و باطل سے ٹکراو کے وقت خود زندگي ميں معرفت کے ميدان ميں حقائق کي دو ٹوک توضيح کي ضرورت کے وقت اور زندگي کے ديگر ميدان،جہاں انسان کو اپنے موقف کي وضاحت کرنے کي ضرورت پڑتي ہے اس صفت کا ہونا لازمي ہے۔يہاں پر شجاعت اپنا اثر دکھاتي ہے ، کہ جب ايک بہادر و شجاع انسان حق کو پہچان جاتا ہے اور پھر اس کي پيروي کرتا ہے پھر اُس راستہ مين بيجا شرم و حيا ئ اور خود غرضي وغيرہ کو آڑے نہيں آنے ديتا۔ يہ ہے حقيقي شجاع اور بہادر کہ دشمن يا مخالفت کي ظاہري قوت و طاقت اس کے ليے رکاوٹ نہيں بن پاتي اور کبھي کبھي شجاع بن کر ابھرنے والے بعض لوگوں کي شجاعت کي قلعي(خصوصاً يہ افراد اگر معاشرے ميں کسي پوسٹ و منصب کے حامل ہوتے ہيں)بھي کھل جاتي ہے اور وہ شجاع ہونے کے بجائے بزدل ثابت ہوتے ہيں ، شجاعت اس جيسي صفت کا نام ہے۔کبھي کبھي يہ بھي ہوتا ہے کہ ايک مسّلم حق کسي شخص کي بزدلي کي وجہ سے ناحق بن جاتا ہے يا ايک باطل کہ جس کے بارے ميں کسي کو جرآت اظہار کرنا چاےئے تھا، خود حق کا سوانگ بھر ليتا ہے اسے اخلاقي شجاعت اجتماعي جرآت اور زندگي ميں ہمت و بہادري سے تعبير کرتے ہيں کہ جو ميدان جنگ کي شجاعت سے بھي ايک بلند و بالا قسم کي شجاعت ہے۔اميرالمومنين عليہ السلام ميدان جنگ کے ليے بے بديل بہادر و شجاع تھے ہر گز کبھي بھي اپنے دشمن کو پشت نہيں دکھائي ،يہ کوئي معمولي بات نہيں ہے آپ کے بارے ميں جنگ خندق کے قصے مشہور ہيں کہ جہاں پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صحابياپني جگہ پر آنے والے نمائندہ کفر سے لرز رہے تھے اور آپ آگے بڑھے ، بدر و احد فتح خيبر و خندق و حنين وغيرہ جس جنگ کو بھي آپ اٹھا کر ديکھ ليں علي عليہ السلام کي شجاعت کا سکہ چلتا ہوا نظر آتا ہے جب کہ اس ميں سے بعض وہ جنگيں بھي ہيں جس ميں آپ کل چوبيس ٢٤ سال يا بعض ميں پچيس ٢٥ ،تيس ٣٠ سال سے زيادہ عمر نہيں رکھتے تھے گويا ايک ٢٧، ٢٨ سالہ جوان نے اپني شجاعت و بہادري کے بل بوتے پر جنگ کے ميدان ميں اسلام کي کاميابي و کامراني کیسے کیسے گل کھلائے ہيں ،يہ تو رہي ميدان جنگ ميں آپ کي شجاعت و بہادري کي داستان۔مگر ميں يہاں اميرالمومنين عليہ السلام کي خدمت ميں عرض کروں گا کہ اے عظيم و بزرگ و الاعلي عليہ السلام ، اے محبوب خدا، آپ کي زندگي اور ميدان زندگي کي شجاعت ميدان جنگ کي شجاعت سے کہيں ارفع و اعليٰ دکھائي ديتي ہے،مگر کب سے؟ نوجواني سے ۔آپ يہي سابق الاسلام ہونے کو ہي لے ليجئے ۔آپ نے ايسے پر آشوب ماحول ميں دعوت پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو قبول کيا کہ جب سبھي آپ کي دعوت کو ٹھکرا رہے تھے اور کوئي جرآت و ہمت نہيں کرتا تھا کہ اس دعوت کو قبول کرے اور دعوت پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا قبول کر لينا خود اپني جگہ ايک شجاعانہ عمل ہے البتہ ايک ہي واقعہ ممکن ہے مختلف زاويوں سے ديکھا جائے اور اس واقعہ ميں مختلف پہلو پائے جاتے ہوں مگر يہاں پر آپ کي شجاعت و بہادري کو پيش نظر رکھتے ہوئے ميں نے اس واقعے کو پيش کيا ہے۔نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اپنے معاشرے کو ايک ايسا پيغام دے رہے ہيں جو اس معاشرے پر قابض اسباب و عوامل کے بالکل برخلاف ہے، لوگوں کي جہالت، نخوت و کدورت اشرافيت، ان کے طبقاتي اور مادي منافع و مصلحتیںيہ ساري چيزيں اس پيغام کے برخلاف اور اس کي ضد ہيں ذرا اب کوئي بتائے کہ ايک ايسے معاشرے ميں ايسے پيغام کي کيا ضمانت ہے؟۔ابتداً آپ آيۃ ” و انذر عشيرتک الا قربين‘‘ (شعرائ٢١٤) پر عمل کرتے ہيں اور وقت کے يہ مستکبرين نخوت و غرور کا مکمل مظاہرہ کرتے ہوئے ہر حرف حق کا تمسخراڑاتے ہيںاسکے باوجود کہ دعوت دينے والا يہ (پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) خود انھيں کے جسم و تن کا ايک ٹکڑا ہے ۔جب کہ يہ وہي لوگ ہيں جو خاندان کے ہيں اور ان کے اندر رگ حميت و عصبيت پھڑک رہي ہے جو کبھي کبھي ايک دو نہيں دس سال تک تنہا خانداني ناطے اور رشتہ داري کي وجہ سے دشمن سے برسر پيکار رہا کرتے تھے! مگر يہاں (ذوالعشيرہ) ميں جب ان کے خاندان کے ايک شخص نے اس مشعل کو اپنے ہاتھوں ميں لے کر بلند کيا تو ان لوگوں نے اپني آنکھيں بند کرليں، اپنے منہ پھير ليے۔ بے اعتنائي سے کام ليا اھانت وتحقير کي اور صرف مذاق اڑايا!ايسے موقع پر يہ نوجوان اٹھا اور پيغمبر سے خطاب کرکے کہتا ہے اے ميرے ابن عم ميں آپ پر ايمان لاتا ہوں، البتہ آپ پہلے ايمان لا چکے تھے يہاں صرف اس ايمان کا اعلان کر رہے ہيں اور حضرت اميرالمومنين عليہ السلام ان مومنوں ميں سے ہيں کہ ابتدائي چند دنوں کے علاوہ تيرہ ١٣ سالہ مکے کي زندگي ميں ہرگز آپ کا ايمان ڈھکا چھپا نہيں تھا۔ جب کہ سارے مسلمان چند سالوں تک اپنے ايمان کو چھپائے ہوئے تھے مگر يہ سب جانتے تھے کہ اميرالمومنين علي (عليہ السلام) ابتدائ ہي سے آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر ايمان لا چکے ہيں لہذا کسي پر بھي آپ کا ايمان پوشيدہ نہيں تھا۔ذرا آپ اپنے ذہنوں ميں اس کا صحيح طورپر تصورکريں،کہ پڑوسي توہين کر رہے ہيں،معاشرے کے بڑے بڑے اشخاص تحقير و تذليل کر رہے ہيں، شاعر،خطيب ، ثرو ت مند سب کے سب مذاق اڑا رہے ہيں،پست و ذليل اور بے مايہ ہر ايک توہين آميز القاب سے پکار رہا ہے اور ايک انسان اس طوفان حوادث کے درميان تن تنہا ايک کوہ محکم کي طرح ثابت و استوار کھڑا ہوا ببانگ دہل يہ اعلان کر رہا ہے۔يہ اميرالمومنين عليہ السلام کي منطق تھي۔يعني منطق شجاعت اس ميں کوئي مبالغہ نہيں ہے کہ آپ کي پوري زندگي اور آپ کي حکومت (کہ جس کي مدت پانچ ٥ سال سے کم تھي)ميں ہميشہ يہي منطق کار فرما رہي۔اگر آپ نظر دوڑائيں تو يہي چيز روز اول اور يہي بيعت کے وقت بھي دکھائي دیتي ہے یہاں تک کہ آپ کي خلافت سے قبل جو بيت المال کا غلط مصرف ہو چکا تھا اس کے بارے ميں فرمايا:” واللہ لو وجدتہ تزوج بہ النسائ ملک بہ الامام‘‘ وغيرہ ۔۔۔ بخدا وہ پيسہ جومیري خلافت سے پہلے ناحق کسي کو ديا گيا ہے چاہے وہ عورتوں کي مہر قرار دے ديا گيا ہو يا اس سے کنيزيں خريدي گئي ہوں يا اس سے شادياں رچائي گئي ہوں ہر حالت ميں اسے بھي بيت المال ميں لوٹا کر رہوں گا! اور تنہا کہا ہي نہيں بلکہ سختي سے اس پر عمل کرنا شروع کيا جس کے نتيجہ ميں دشمني کا ايک سيلاب آپکے حق ميں امنڈ پڑا!کيا اس سے بڑھ کر بھي کوئي شجاعت ہو سکتي ہے؟ سخت اورضدي ترین افراد کے مقابل اٹھ کھڑے ہونا، ايسے لوگوں کے خلاف عدالت کي آواز اٹھانا جو معاشرے ميں نام نمود رکھتے تھے ان سے مقابلہ کيا جو شام کي پٹي ہوئي دولت و ثروت کي مدد سے ہزاروں سپاہيوں کو آپ کے خلاف ورغلا سکتے تھے، مگر جب خدا کے راستے کو اچھي طرح تشخيص دے ديا تو پھر کسي کي کوئي پرواہ نہ کي، يہ ہے شجاعت علي عليہ السلام۔ کيا تو ايسے شخص سے دشمني رکھتا ہے جس کا ايک جرآت مندانہ اقدام دنيا و مافيہا سے بلند و برتر ہے؟!يہ وہ بزرگ اميرالمومنين عليہ السلام ہيں، يہ وہ تاريخ ميں چمکنے والے علي عليہ السلام ہيں۔وہ خورشيد جو صديوں چمکتا رہا اور روز بروز درخشندہ تر ہوتا جا رہا ہے۔جہاں جہاں بھي جوہر انساني کا مظاہرہ ضروري تھا۔يہ بزگوار وہاں وہاں موجود تھے چاہے اس جگہ کوئي اور نہ رہا ہو مگر يہ موجود تھے آپ کا ہي يہ فرمان تھا ”لا تستوحشوا في طريق الھديٰ لقلّۃ اھلہ‘‘(3) ترجمہ” راہ ہدايت ميں ساتھيوں کي کمي سے خوف و ہراس کو اپنے دل ميں جگہ بھي نہ دو‘‘ اور خود آپ بھي اسي طرح تھے يعني جب تم نے صحيح راستے کو پا ليا ہے تو صرف اس ليے کہ تم اقليت ميں ہو، چونکہ دنيا کے سارے لوگ تم کو توجہ کي نگاہ سے ديکھتے ہيں چونکہ دنيا کي اکثريت تمہارے راستے کو قبول نہيں رکھتي و حشت نہ کرو اس راستے کو ترک نہ کرو بلکہ اپنے پورے وجود سميت اس راستے پر چل پڑو۔يہاں سب سے پہلے جس نے اٹھ کر حضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي آواز پر لبيک کہي اور عرض کيا ” اے رسول خدا ميں آپ کے ہاتھ پر بيعت کرتا ہوں کوئي اور نہيں يہي نوجوان تھا! ايک بيس ،پچيس سالہ جوان نے اپنے ہاتھ بڑھا دئے اور کہتا ہے ميں آپ کے ہاتھ پر مو ت تک کي بيعت کرتا ہوں۔آپ کے اس شجاعانہ عمل کے بعد دوسرے مسلمانوں ميں بھي جرآت پيد اہوئي يکے بعد ديگرے لوگ بيعت کے ليے اٹھ کھڑے ہوئے” لقد رضي اللہ عن المومنين اذيبا يعونک تحت الشجرۃ فعلم ما في قلوبھم۔،،(فتح ١٨) اسے شجاعت کہتے ہيں ۔پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں جہاں جہاں بھي انساني جوہر کے مظاہرے کا وقت آتا تھا آپ کي ذات والاصفات سامنے ہوتي تھي ہر مشکل کام ميں پيش پيش رہا کرتے تھے!ايک دن ايک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آکر کہتا ہے! ميں علي عليہ السلام سے دشمني رکھتا ہوں۔جيسے اس کا خيال تھا کہ يہ لوگ آپس ميں خانداني دشمن ہيں شايد وہ اپنے اس بيان سے عبداللہ بن عمر کو خوش کرنا چاہتا تھا ۔عمر کے بيٹے عبداللہ نے اس سے کہا،” ابغضک اللہ‘‘ خد اتم کودشمن رکھے، اصل عبارت يہ ہے ” فقال ابغضک اللہ!فبغض و يحک اجلاً سابقۃ من سوابقہ خير من الدنيا بما فيھا‘‘(4)” ميں نے خدا اور اس کے راستے کو پہچان ليا ہے اور تاحيات اس پر قائم رہوںگا‘‘ يہ ہے شجاعت اسے کہتے ہيں ہمت ۔
زندگي کے تمام مراحل ميں شجاعت:اميرالمومنين عليہ السلام کي زندگي کے تمام مراحل ميں يہي شجاعت نظر آتي ہے مکے ميں يہي شجاعت تھي، مدينے اور حضوراکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے بيعت کرتے وقت يہي شجاعت تھي، حضور اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم،نے مختلف مناسبتوں سے مکرراً بيعت لي اس ميں سے ايک بيعت جو شايد سخت ترين بيعت تھي، حديبيہ کے موقع پر بيعت الشجرہ۔بيعت رضوان ۔ہے جيسا کہ سارے مورخين نے لکھا ہے کہ جب معاملہ ذرا سخت ہو گيا اور حضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپنے ايک ہزار١٠٠٠ سے کچھ زيادہ اصحاب جو آپ کے اطراف ميں تھے سب کو جمع کيا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا: ميں تم لوگوں سے موت پر بيعت ليتا ہوں ،کہ تم ميدان جنگ سے ہرگز فرار نہيں کرو گے! اور اس قدر تم کو جنگ کرنا ہے کہ يا تو اس راہ ميں قتل ہو جاو يا پھر کاميابي تمہارا نصيب ہو۔ميرا خيال ہے کہ حضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے سوائے اس موقع کے کہيں اور اس قدر سخت انداز ميں اصحاب سے بيعت نہيں لي ہے ظاہر ہے کہ اس مجمع ميں ہر قسم کے لوگ موجود تھے، سست ايمان بلکہ منافق صفت نيز اس بيعت ميں شامل تھے! جب کہ تاريخ ميں نام تک مذکور ہيںوغيرہ سب کچھ ظاہري اور غير واقعي تھا، تنہا دين کي طرف لوگوں کي تحريک و تشويش ايک عمومي اور واقعي شي تھي کہ جسے بغض و نفرت آميز نگاہ سے ديکھا جاتا تھا اور اس تحريک کے مقابلے ميں ذرا پھيکے رنگ و بو کے ساتھ وطن پرستي کے نام پر ايک اور احساس بھي ملک کے گوشہ و کنار ميں دکھائي دے رہا تھا۔اور قوم کے ليے اس قسم کي صورتحال پيدا کر دي تھي پھر آپ نے ہي بنيادي اور اساسي اقدام کر کے قوم کي ہر چيز کو از سر نو تعمير کيا ہے ۔آج اس حکومت ميں علم و صنعت، يونيورسٹي کي تعليم، وغيرہ سب ارتقائ حاصل کر رہي ہيں،لوگوں کي شخصيتيں،ان کے خيالات ،رشد و نمو پا رہے ہيں،آزادي اپنے حقيقي معني و مفہوم ميں ترقي پا رہي ہے۔اس قوم کي تحريک آہستہ آہستہ وہاں تک پہنچ رہي ہے کہ اب دنيا ميں خود اس کے خريدار پيدا ہونے لگے ہيں، کل تک ملت ايران اس پوزيشن ميں نہيں تھي کہ لوگ اس کي طرف توجہ کرتے مگر آج اس کے برعکس ہے، آج آپ ايک اہم قوم کي حيثيت رکھتے ہيں آپ کي رائے آپ کي حمايت آپ کي ممانعٰت اہميت رکھتي ہے آپ نے ايک مسئلے کي مخالفت کي ہے وہ ابھي تک دنيا ميںکسي بھي علاقے ميں يا کسي کوہ و صحرا ميں بھي کسي ايراني کو امريکا نواز دکھائي دے جائے تو لوگ اس کے سائے تک کو تير باران کرنے کے لئے تيار ہيں۔!اس ملک ميں ايک دن قوم و ملت کي کوئي حيثيت نہيں تھي،ان کو حق رائے دہي حاصل نہيں تھا،انتخابات اور پارليمنٹ کا اتہ پتہ بھي نہيں تھاملک ميں جو کچھ بھي تھا وہ سب غير واقعي اور بناوٹ سے زيادہ، کوئي حيثيت نہيں رکھتا تھا، حقيقتاًپہلوي بادشاہت کا زمانہ عجيب و غريب زمانہ تھا بالکل اسي طرح کہ جيسے کوئي بڑے سے ہال ميں ايک بہت بڑا کارخانہ لگائے اور ديکھنے والا اس کي عظمت ،بزرگي سے متاثر ہوئے بغير نہ رہ سکے۔مگر جب اس کے نزديک سے اس کا نظارہ کرے تو اسے پتہ چلے کہ اس کي ساري چيزيں، پلاسٹک کا ايک بازيچہ ہے يا مثلاً کوئي شخص ايک بلند و بالا عمارت بنائے کہ دور سے ديکھنے والے کو وہ ايک عظيم محل لگے مگر جب وہ اس کے نزديک جانے سے تو ايسے معلوم ہو کہ يہ تو برف سے بنا ہوا ہے ايک محل ہے۔بالکل اسي طرح اس ملک کي ساري چيزيں غير حقيقي تھيں، يونيورسٹي، روشن خيال طبقہ ،روزنامہ، مجلّات، پارليمنٹ، حکومت ميں رکاوٹ بننے والي ايک ایک چيز کم ہو گئي،اور اس طرح سے يہ لوگ اپنے مقصد کي راہ ميں موجودہر رکاوٹ کو اپنے راستے سے ہٹاتے ہيں!جہاں پر ہر شيعہ علي ابن ابي طالب عليہ السلام ، بلکہ ہر اس مسلمان کو جو علي عليہ السلام پر ايمان رکھتا ہے اور دل سے معتقد ہے علي عليہ السلام کي شخصيت سے درس شجاعت لينا چاہتے ہيں کہ جن کا فرمان ہے” تم کو راہ ہدايت ميں افراد کي کمي سے ہراساں نہيں ہونا چاہيے‘‘ دشمن کے پشت کرنے اوراس کے منہ موڑنے سے تم کو ڈرنا نہيں چاہيے احساس تنہائي نہ کرو،دشمن کے تمسخر اور اس کے مزاق اڑانے سے تمہارے ہاتھوں ميں جو گوہر ہے ۔اس کے سلسلہ ميں تمہارے عقيدے ميں کوئي سستي نہ آنے پائے،اس ليے کہ تم لوگوں نے ايک عظيم کام انجام ديا ہے ايک ايسا خزانہ اپني مملکت ميں تم لوگوں نے کشف کر لياہے،جو تمام ہونے والا نہيں ہے ،تم نے اسلام کي برکت سے آزادي حاصل کي استقلال حاصل کيا، اور شاطر طاقتوں کے پنجے سے رہائي حاصل کي ہے۔ايک دن وہ بھي تھا جب يہ مملکت و سلطنت، يہ يونيورسٹي، يہ دار الحکومت(تہران) يہ فوجي مراکز،يہ فوجي اورحفاظتي دستے،يہ حکومتي ادارے،اوپر سے لے کر نيچے تک سب کے سب امريکاکے ہاتھوں ميں تھے مگر آج انقلاب اسلامي کي برکت کے نتيجہ ميں مملکت سے دور رہ کر شراب سے دوري کا اور حدود الہيٰ وغيرہ کے نفاذکا مذاق اڑاتے ہيں! کبھي کبھي يہي تحقير و تذليل يہي مذاق اور توہين اچھے اچھوں کے لئے شک و ترديد ميں پڑ جانے کا سبب بن جاتا ہے اور ان کي استقامت جواب دے جاتي ہے اور وہ اپني ہم فکر جماعت کوہي ہرانے پر مجبور ہو جاتے ہيں وہ کہتے ہيں آخر ہم کيا کريں اب سب کچھ برداشت سے باہر ہے ، اور اس وقت يہ عالمي طاقتيں اپني اس کاميابي پر چھپ چھپ کر قھقھہ مار کر ہنستي ہيں اس لئے کہ انہيں اپنے راستے ميں موجود ايک رکاوٹ کے ختم کرنے کي خوشي ہے! ان کي روش يہي ہے کہ وہ ايک انقلابي تحريک يا اقدام کو اس قدر ہلکا بنا کر پيش کريں،اس کے خلاف پروپيگنڈہ کريں کہ آخر کار اس کے اصلي چہرے دل برداشتہ ہو کر اسے واپس لے ليں! يا وہ خود اس کا مذاق اڑانے لگيں! عالمي ميدان سياست ميں کچھ آپ کو ايسے چہرہ نظر آجائيں گے جو کل تک دشمن کے مقابل ڈٹے ہوئے تھے اور آج خود اپنے اعمال و رفتار کامذاق اڑاتے ہوئے دکھائي ديتے ہيں جو دشمن کي ہنسي اور خوشحالي کا سبب ہے، يہ اپنے اعمال و رفتار کا مذاق صرف اسلئے اُ ڑاتے تھے کہ يہ صاحب بھي اپني جماعت میں شامل ہوسکیں البتہ وہ عالمي طاقتيں اس کي تشويش بھي کرتي ہيں اور کہتي ہيں ” سبحان اللہ‘‘ آپ کس قدر متمدن ہيں اور يہ صاحب بھي خوشحال ہوتے ہيں مگر يہ جو کچھ بھي پيش آيا ہے حقيقتاً ان سياسي بازیگروں کي راہ ہے کہ جس نظام حکومت کو چاہتے ہيں بروئے کار لے آتے ہيں اور جس نظام کو چاہتے ہيں ختم کر ديتے ہيں ! آج يہي مکارو دغا باز و فريب کار عالمي طاقتيں پوري طرح ،جمہوري اسلامي کي طرف متوجہ ہيں اور ان کي ايک سياست يہ ہے کہ وہ کسي نہ کسي طرح سے جمہوري اسلامي اور ايراني عوام کا مذاق اڑائيں،انہيں شک و شبہ ميں ڈاليں ! اور انہيں يہ پڑھائيں کہ تم لوگ جو بين الاقوامي عرفيات کے خلاف ہو کر اپني سياست و حکومت چلا رہے ہو غلطي کر رہے ہو۔تم غلط کر رہے ہو جو عالمي سياست اور امريکي بين الاقوامي پاليسيوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ،وہ مسئلہ فلسطين ہو يا پھر مسئلہ بوسنيا، يا ديگر اسلامي مسائل وغيرہ اور جو تم دوسروں کي آواز سے آواز نہيں ملاتے غلط کر رہے ہو تم کو تو دنيا والوں کے ساتھ ہونا چاہيے ۔آج کي سياست يہ ہے اور آج کي ہي نہيں بلکہ ابتدائے انقلاب سے ان کي سياست يہي تھي کہ ايراني قوم کے ذمہ داران مملکت اور ہر وہ شخص جو ان کا واقعي مخالف ہے اس کامذاق اڑائيں اسے زيادہ سے زيادہ شک و ترديد ميں ڈاليں اور جس کام سے بھي انہيں زيادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ محسوس ہو اس کا زيادہ سے زيادہ مذاق اڑائيں،عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا مضحکہ،يونيورسٹي کا مذاق ،عبادت نماز جماعت کا مضحکہ ليکن اقتدار تسلط يہي ہے۔آج ہم اور آپ اس شجاعت علوي کے ضرورتمند ہيں، ايراني عوام اس کي ضرورت مند ہے ،اس مملکت ميں جو کوئي بھي کسي عہدے يا منصب پر فائز ہے اسے اس صفت کي زيادہ ضرورت ہے، مسلمانوں کے بيت المال تک جس کي بھي رسائي ہے وہ اس شجاعت و ہمت کا زيادہ ضرورت مند ہے آج مجموعاً ،ايراني قوم، اور فرداً فرداً ہر شخص اس شجاعت کا محتاج ہے اور جس شخص پر لوگ زيادہ بھروسہ رکھتے ہيںاور وہ لوگوں کا اطمینان مورداعتماد و اطمینان ہے دوسروں کي نسبت اس شجاعت علوي اور جرآت و ہمت کا زيادہ سے زيادہ محتاج وضرورت مند ہے۔
حضرت علي عليہ السلام کي شجاعت سے درس عمل:آج کي دنيا ابولہب و ابوجہل جيسے ہٹ دھرم جاہلوں کي نہيں ہے بلکہ آج دنيا کے کفّار ،معاندين،دنيا کے چالاک ترين و ہوشيارترين لوگ ہيں ايسے ہيں جو دنيا کے بڑے بڑے سياسي مسائل اور پروپگنڈہ مشينري کو اپنے ہاتھوں ميں لئے ہوئے گردش کر رہے ہيں اور ديگر قوموں اور ملتوں کي تقدير بدلتے ہيں غير ملکوں ميں اپني پسند سے حکومتيں بناتے ہيں يا بني بنائي حکومتوں کو گرا ديتے ہيں، دنيا کو اپني گرفت ميں لئے ہوئے ہيں اس سے جس طرح چاہتے ہيں نفع اٹھاتے ہيں ،جنگ و جدال چھيڑتے ہيں پھر جنگ ختم کرتے ہيں!اميرالمومنين عليہ السلام فرماتے ہيں واللہ لو ان الحسن والحسين فعلا مثل الذي فعلت ما کانت لھما عندي ھوادہ لاظفرا مني با رادہ حتي آخذا الحق منھما و از يسح الباطل ان مظلمتھما‘‘(5)قسم بخدا يہي فعل جو تم نے انجام ديا ہے اگر ميرے بيٹے حسن عليہ السلام و حسين عليہ السلام انجام ديتے تو اس سلسلے ميں ميرے لئے کوئي عذرقابل قبول نہيں ہوتا! اور ان کے نفع ميں کوئي عمل سر زد نہ ہوتا یہاں تک کہ ان سے بھي حق کو لے ليتا!۔
حضرت علي عليہ السلام کا اقتدار نفس:اميرالمومنين عليہ السلام کو بخوبي معلوم ہے کہ حسن عليہ السلام و حسين عليہ السلام معصوم ہيں مگر پھر بھي فرماتے ہيں کہ اگر ان دونوں ميں سے کسي سے بھي يہ عمل ۔کہ ہر گز سرزد نہيں ہو سکتا ۔سر زد ہوجائے ،تو ميں اس سلسلے ميں ان پر بھي رحم نہ کرتا،يہ بھي شجاعت ہے جو اگرچہ ايک زاويہ سے عدل بھي ہے اور قانون کي بالادستي اور اس کا احترام بھي ہے، اس کے مختلف عنوانات ہو سکتے ہيں،مگر جس زاويے سے ميں نے اسے عرض کيا ہے وہ شجاعت بھي ہے بلکہ يہ ايک ايسا منصب ہے جس تک ہر کس و ناکس کي رسائي نہيں البتہ تم کوشش کرو کہ اس راہ ميں قدم اٹھاو اور پارسائي و خدا کي اطاعت کے ذريعے اپنے امام کي اتباع ميں نزديک سے نزديک تر ہو، عبداللہ بن عباس حضرت کے سچے چاہنے والے ہيں اور ديگر اصحاب کي نسبت آپ کے قريبي،محب،مخلص اور ہمراز بھي ہيں مگرزندگي ميں ايک خطا آپ سے ہو گئي جس کي بنائ پر اميرالمومنين عليہ السلام نے آپ کو ايک خط لکھا جس ميں آپ کي اس خطا کو خيانت سے تعبير کرتے ہوئے فرمايا کہ تم نے اپنے اس عمل سے خيانت کي ہے! والي اسلامي کي حيثيت سے ان کے خيال ميں کچھ دولت ان کا حق بنتي تھي اس ليے انہوں نے اپنا حق سمجھ کر اُسے لے ليا تھا اور راہي مکہ ہو گئے تھے۔ اور اميرالمومنين عليہ السلام نے اسي لغزش کي بنياد پر اس قدر سخت خط لکھا کہ اسے پڑھ کر جسم کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہيں !۔آخر يہ کيسا انسان ہے! يہ کيسا عظيم المرتبت شخص ہے ! کہ عبداللہ بن عباس جو کہ آپ کے چچا زاد بھائي بھي ہيں ان سے خطاب کر کے فرماتے ہيں”لا فانک ان لم تفعل ثم امکنني اللہ منک لا عذرن اليٰ اللہ فيک و لا فربنّک بسيفي الذي ماضربت بہ احداً الا دخل النائ‘‘ (6) حضرت امام سجاد عليہ السلام سے خود آپ کي عبادت اور حضرت علي عليہ السلام کي عبادت کے سلسلے ميں گفتگو چھڑ گئي،تو امام سجادعليہ السلام آب ديدہ ہو گئے اور فرمايا! ميں کہاں؟ اور جناب اميرالمومنين عليہ السلام کي ذات والا صفات کہاں؟خود امام سجادعليہ السلام کہ جنہيں زين العابدين کہا جاتا ہے، نے فرمايا،کيا يہ ممکن ہے کہ مثل علي عليہ السلام کوئي بننے کا دعويٰ کر سکے؟! آج تک دنيا کے بڑے بڑوں ميں بھي يہ ہمت نہ ہو سکي کہ ان کے مثل ہونے کا دعويٰ کر سکيں نہ ہي ايسي کوئي فکر کرتا ہے اور نہ ہي ايسي کوئي غلطي کسي کے ذہن ميں آج تک خطور ہوئي کہ وہ اميرالمومنين عليہ السلام کے مثل ہونے يا ان کي طرح کام کر سکنے کا دعويٰ کرے! البتہ جو چيز اہميت کي حامل ہے وہ يہ ہے کہ ،راستہ اور سمت سفر،وہي ہو جو حضرت اميرالمومنين عليہ السلام کا راستہ تھا جيسا کہ گذشتہ گفتگو کے دوران اس پر روشني ڈالي جا چکي ہے ۔خود آنجناب نے عثمان بن حنيف کو ايک خط کے ذريعے اپني سادہ زيستي کا ذکر کرتے ہوئے کہ” الا و ان اما مکم قداکتفيٰ من دنياہ بطمريہ‘‘(7)ميں اس طرح زندگي بسر کرتا ہوں فرمايا؛ ”الا وانکم لا تقدرون علي ذلک‘‘؛(8) يعني ميں ضرور اس طرح زندگي گزار رہا ہوں مگر تم خيال نہ کرنا کہ ميري طرح تم بھي ہو سکتے ہو۔آپ کي شخصيت مجروح کرنے کے لئے حديثيں گڑھي گئيں يا آپ کے افکار و خيالات کے برخلاف فکريں پيش کي گئيں مگر ان تمام زہر افشانيوں اور دشمنيوں کے باوجود سالھا سال گذر جانے کے بعد بھي آخر کار ان اتہمات و خرافات کے دبيز پردوں کے پيچھے سے خود کو پھر سے پہچنوايا اور اپني شخصيت کو منوانے ميں کامياب ہو گئے،يہ تھي آپ کي شخصيت اور آپ کے اندر موجود کشش۔
گلِ گلاب:علي عليہ السلام کي طرح کاکوئي بھي گوہر ہو جو ايک پھول کي طرح چمن انسانيت ميں ہميشہ ہميشہ کے ليے خوشبو ديتا ہے اور خار و کانٹے خس و خاشاک اور بدبو دار چيزيں اسے آلودہ نہ کر سکيں تو اس کي قيمت ميں کبھي بھي کمي نہ آئے گي اگر آپ ہيرے کا کوئي ٹکڑا کيچڑ ميں بھي ڈالديں تو وہ بہرحال ہيرا ہي رہے گا اور جب بھي مٹي ہٹے گي تو وہ خود چمک کر اپنا وجود ظاہر کرے گا،تو پھر گوہر بننا ہو تو اس طرح بنیے۔ ہر مسلمان فرد پر لازم ہے کہ وہ ذات علي عليہ السلام کو اپني زندگي کا نصب العين بنا کر نظروں کے سامنے رکھے اور اسي سمت زندگي کے سفر کا آغاز کرے۔کوئي بھي دعويٰ نہيں کر سکا ہے کہ ہم علي ابن ابي طالب عليہ السلام کي طرح ہيں،خواہ مخواہ ان سے اور ان سے نہ کہا جائے کہ آخر آپ علي عليہ السلام کي طرح کيوں نہيں عمل کرتے آپ اس پر غور تو کريں ان باتوں کا کہہ دينا تو آسان ہے، مگر اس پر عمل کرنابہت مشکل ہے،ميں يہاں پر اس حقيقت کا خود اعتراف کر رہا ہوں کہ ايک دن ميں علي عليہ السلام کو نمونہ زندگي کے طور پر پيش کرتا تھا، مگر اس کي تہہ تک نہيں اترا تھا مگر آج جب مملکت اسلامي کي باگ ڈور ہم جيسے لوگوں کے ہاتھوں ميں ہے تو پھر ان باتوں کا صحيح معنوں ميں ادراک و احساس ہوتا ہے اور اب معلوم ہوتا ہے کہ علي عليہ السلام واقعاً کتنے بزرگ و عالي مرتبت تھے!…………..١۔بحارالانوار۔ج ٧،ص ١١2۔بحارالانوار، ج ٤،ص ١٥٣3۔نہج البلاغہ۔خطبہ ٢٠١4۔بحارالانوار ج ٢٢،ص٢٢٧5۔نہج البلاغہ ۔نامہ ٤١6۔نہج البلاغہ۔نامہ ٤١7۔نہج البلاغہ ،نامہ ٤٥،8۔نہج البلاغہ۔نامہ ٤٥
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.