قانونِ جذب و دفع

184

ذرّہ ذرّہ کاندرین ارض و سماستجنسِ خود را ہمچو کاہ و کہرباست اس زمین و آسمان کا ہر ذرّہ اپنی جنس کے لیے کاہ اور برق کی طرح ہےاسے چھوڑیئے، اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ گو تمام جمادات کے سلسلے میں قوتِ جاذبہ کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہتے تھے بلکہ صرف اس بات پر بحث کرتے تھے کہ زمین کیونکر افلاک کے درمیان ٹھہری ہوئی ہے۔ تاہم ان کا عقیدہ تھا کہ زمین آسمان کے وسط میں معلق ہے اور جاذبہ ہر طرف سے اس کو کھینچتا ہے اور چونکہ یہ کشش تمام اطراف سے ہے اس لیے قہراً درمیان میں کھڑی ہے اور کسی ایک طرف کو نہیں جھکتی۔ بعض کا عقیدہ تھا کہ آسمان زمین کو جذب نہیں کرتا بلکہ اس کو دفع کرتا ہے اور چونکہ زمین پریہ دباؤ تمام اطراف سے مساوی ہے نتیجتاً زمین ایک خاص نقطے پرٹھہری ہوئی ہے اور اپنی جگہ نہیں بدلتی۔نباتات اور حیوانات میں بھی سب جاذبہ و دافعہ کی قوت کے قائل تھے بہ این معنی کہ ان کے لیے تین بنیادی قوتوں جاذبہ (طلب غذا کی قوت) نامیہ (بڑھنے کی قوت) اور مولدہ (پیدا کرنے کی قوت) کو مانتے تھے اور قوہئ غاذیہ کے لیے چند فرعی قوتوں جاذبہ،دافعہ، ہاضمہ اور ماسکہ (روکنے کی قوت) کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ معدہ کے اندر جذب کی ایک قوت ہے جو غذا کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور جہاں غذا کو مناسب نہیں پاتی اس کو دفع (١) کرتی ہے۔ اسی طرح وہ کہتے تھے کہ جگر میں جذب کی ایک قوت ہے جو پانی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
معدہ نان را می کشد تا مستقرمی کشد مہ آب را تف جگر
معدہ کھانے کو اور جگر پانی کو ان کے ٹھکانوں تک کھینچ لے جاتا ہے۔انسانی دنیا میں جاذبہ و دافعہجذب و دفع سے مراد یہاں جنسی جذب و دفع نہیں ہے، اگرچہ وہ بھی جذب و دفع کی ایک خاص قسم ہے لیکن ہماری بحث سے مربوط نہیں ہے اور اپنی جگہ ایک مستقل موضوع ہے، بلکہ وہ جذب و دفع مراد ہے جو معاشرتی زندگی میں افراد انسانی کے درمیان موجود ہے۔ انسانی معاشرے میں مشترکہ مفاد کی بنیاد پر باہمی تعاون کی چند صورتیں ہیں، وہ بھی ہماری بحث سے خارج ہیں۔زیادہ تر دوستی و رفاقت یادشمنی اور عداوت سب انسانی جذب و دفع کے مظاہر ہیں۔ یہ جذب و دفع مطابقت و مشابہت ی ضدیت و منافرت کی بنیاد (٢) پر ہیں۔ درحقیقت جذب و دفع کی بنیادی علت کو مطابقت اور تضاد میں تلاش کرنا چاہے۔ جیساکہ فلسفیوں کی بحث میں مسلم ہے کہ السنخیۃ علّۃ الانضمام یعنی مطابقت یکجہتی کا سبب ہے۔کبھی دو انسان ایک دوسرے کو جذب کرتے ہیں اور ان کا دل چاہتا ہے کہ ایک دوسرے کو دوست اور رفیق بنائیں۔ اس میں ایک راز ہے اور وہ راز مطابقت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ ان دو افراد کے درمیان جب تک کوئی مشابہت نہ ہو ایک دوسرے کو جذب نہیں کرتے اور باہم دوستی کی طرف مائل نہیں ہوتے اور کلی طور پر ہر دو وجود کا ایک دوسرے کے قریب ہونا اس امری کی دلیل ہے کہ ان کے درمیان کسی طرح کی مطابقت و مشابہت موجود ہے۔مثنوی دفتر دوم میں ایک دلچسپ حکایت بیان کی گئی ہے:کسی حکیم نے ایک کوے کو دیکھا کہ وہ لک لک کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا کر اس کے ساتھ بیٹھتا ہے اور دونوں مل کر پرواز کرتے ہیں! دو مختلف نوع کے پرندے ۔ کوے اور لک لک کی شکل میں۔ کوا لک لک کے ساتھ کیونکر؟ وہ ان کے قریب گیا اور غور کیا۔ دیکھا کہ دونوں لنگڑے ہیں۔
آں حکیمی گفت دیدم ہم تکیدر بیابان زاغ را با لک لکی
در عجب ماندم بجستم حالشاں تاچہ قدرِ مشترک یابم نشان
چون شدم نزدیک و من حیران و دنگخود بدیدم ہر دو آن بودند لنگ
لنگڑے پن نے دو اجنبی حیوانوں کو ایک دوسرے سے مانوس کر دیا۔ انسان بھی بلاوجہ ایک دوسرے کے دوست اور رفیق نہیں ہوتے جس طرح کہ کبھی بھی بلاوجہ ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہوتے۔بعض لوگوں کے نزدیک اس جذب و دفع کی اصل وجہ ضرورت اور اس کا پورا کیا جانا ہے۔ انسان ایک ضرورت مند ہستی ہے جو پیدائشی طور پر محتاج ہے۔ وہ مسلسل محنت سے اپنی محرومیوں کو دور اور ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ ایک گروہ کے ساتھ پیوستہ نہ ہو اور دوسرے گروہ سے رشتہ پیوند منقطع نہ کرے تاکہ ایک گروہ سے فائدہ اٹھائے اور دوسرے کے ضرر سے اپنے آپ کو بچائے۔ ہم اس میں کوئی رجحان یا بغاوت نہیں دیکھتے مگر یہ کہ ذاتی تحفظ کے شعور نے اسے پختہ کیاہو۔ اس اعتبار سے زندگی کی مصلحتوں اور فطری ساخت نے انسان کو جاذب و دافع بنا دیا ہے کہ جہاں کوئی بہتری نظر آئے اس کے لیے تڑپے اور جہاں اپنے مقاصد کے منافی کوئی چیز دیکھے اسے اپنے سے دور کر دے اور ان کے علاوہ جو چیزیں نہ فائدے کی ہوں اور نہ نقصان دہ ہوں ان کے بارے میں کوئی احساس نہ ہو۔ درحقیقت جذب و دفع انسانی زندگی کے دو اساسی رکن ہیں۔ ان میں جتنی خامی ہوگی انسانی زندگی میں اتنا ہی خلل واقع ہوگا اور آخر میں جو خلاء کو پر کرنے کی قدرت رکھتا ہو وہ دوسروں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور جو نہ صرف یہ کہ خلا کو پر نہیں کرتا بلکہ خلا میں مزید اضافہ کرتا ہے، وہ انسانو ںکو اپنے سے دور کر دیتا ہے اور جو ان دونوں میں نہ ہو وہ اس پتھر کی طرح ہے جو کنارے پر پڑا ہے۔جذب و دفع کے سلسلے میں لوگو ںکے درمیان فرقجاذبہ و دافعہ کے اعتبار سے لوگ یکساں نہیں ہیں۔ بلکہ مختلف طبقات میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں:١۔ وہ لوگ جو نہ جاذبہ رکھتے ہیں نہ دافعہ۔ نہ کوئی ان سے دوستی رکھتا ہے اور نہ ہی دشمنی ۔ نہ عشق و تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں نہ عداوت و حسد اور کینہ و نفرت۔ وہ بے پرواہ ہو کر لوگوں کے درمیان چلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پتھر ہے جو لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے۔یہ ایک مہمل اور بے اثر وجود ہے۔ وہ انسان جو فضیلت یا رذالت کے اعتبار سے کوئی مثبت نقطہ نہ رکھتا ہو (مثبت سے مراد یہاں صرف فضیلت کا پہلو نہیں ہے بلکہ شقاوت بھی مرادہے) وہ ایک ایسا جانور ہے جو غذا کھاتا، سوتا اور انسانوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے۔ یہ اس گوسفند کی طرح ہے جو نہ کسی کا دوست ہے اور نہ کسی کا دشمن اور اگر لوگ اس کی خبر لیتے ہیں اور اسے پانی اور چارہ دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ کسی وقت اس کے گوشت سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ نہ دوستانہ جذبات پیدا کر سکتا ہے نہ مخالفانہ۔ یہ ایک گروہ ہے جو بے قیمت اور بیہودہ و محروم لوگوں کا ہے۔ کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوست رکھتا ہو اور لوگ اس کو دوست رکھتے ہوں۔ بلکہ ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دشمن رکھتا ہو اور لوگ اسے دشمن رکھتے ہوں۔٢۔وہ لوگ جو جاذبہ تو رکھتے ہیں لیکن دافعہ نہیں رکھتے بلکہ ہر ایک کے لیے گرم جوشی رکھتے ہیں اور تمام طبقات کے تمام لوگوں کو اپنا مرید بناتے ہیں۔ زندگی میں سب لوگ انہیں دوست رکھتے ہیں اور کوئی ان کا انکار نہیں کرتا۔ جب مرتے ہیں تب بھی مسلمان ان کو آب زمزم سے غسل دیتے ہیں اور ہندو ان کے جسم کو جلاتے ہیں۔
چنان بانیک و بد خو کن کہ بعد از مردنت عرفیمسلمانت بہ زمزم شوید و ہندو بسوزاند
عرفی! نیک و بد سب کے ساتھ اس طرح زندگی گزار کہ تیرے مرنے کے بعد مسلمان تجھے زمزم سے غسل دیں اور ہندو جلا دیں. اس شاعر کے اصول کے مطابق ایسے معاشرے میں جہاں آدھے لوگ مسلمان ہیں اور جنازے کااحترام کرتے ہیں اور اسے غسل دیتے ہیں اور کبھی زیادہ احترام کرتے ہوئے مقدس آب زمزم سے غسل دیتے ہیں، اور آدھے ہندو ہیں جو مردے کو جلاتے ہیں اور اس کی رکھ اڑا دیتے ہیں،اس طرح زندگی گزار کہ مسلمان تجھے اپنا سمجھیں اور مرنے کے بعد تجھے آب زمزم سے غسل دینا چاہیں اور ہندو بھی تجھے اپنا جانیں اور مرنے کے بعد تجھے جلا دینا چاہیں۔غالباً لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حسن خلق، بہترین میل جول اور جدید اصطلاح میں سوشل ہونے کا مطلب یہی ہے کہ انسان سب کو دوست بنائے لیکن ایسا کرنا ایک ہدف اور مسلک رکھنے والے انسان کے لیے جو ذاتی مفاد کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ معاشرے میں ایک فکر اور نظریے کے لیے کام کرتا ہے، آسان نہیں ہے۔ ایسا انسان چار و ناچار یک رو، صاف گو اور کٹر ہوتا ہے مگر یہ کہ وہ منافق اور دوغلا ہو۔ چونکہ تمام لوگ ایک طرح نہیں سوچتے، ایک طرح کا احساس نہیں رکھتے اور سب کی پسند ایک جیسی نہیں ہوتی لوگوں میں انصاف کرنے والے بھی ہیں اور ستم کرنے والے بھی۔ اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔معاشرے میں انصاف پسند، ظلم کرنے والے، عادل اور فاسق سب لوگ ہیں۔ وہ سب کسی ایسے انسان کو دوست نہیں رکھ سکتے جو ایک ہدف کے لیے صحیح معنوں میں کام کرتا ہو اور خواہ مخواہ ان میں سے بعض کے مفاد سے متصادم ہو۔ مختلف طبقات اور مختلف نظریات کے لوگوں کو اپنی طرف جلب کرنے میں صرف وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جو ریا کار اور جھوٹا ہو اور ہر کسی سے اس کی پسند کے مطابق بات کرے اور ریا سے کام لے۔ لیکن اگر انسان یک رو اور پختہ عقیدہ رکھتا ہو تو قہری طور پرکچھ لوگ اس کے دوست ہوں گے اور کچھ لوگ اس کے دسمن بھی۔ وہ لوگ جن کی راہ اس سے ملتی ہے اس کی طرف کھچے چلے آئیں گے اور جو لوگ اس کی راہ کے مخالف جا رہے ہیں وہ اسے اپنے سے دور پھینکیں گے اور اس کی مخالفت کریں گے۔بعض مسیحی جو اپنے آپ اور اپنے وطیرے کو محبت کا پیامی سمجھتے ہیںان کا دعویٰ ہے کہ انسان کامل فقط محبت رکھتا ہے اور بس۔ یوں صرف جاذبہ رکھتا ہے اور شاید بعض ہندو بھی اس طرح کا دعویٰ کرتے ہیں۔مسیحی اور ہندی فلسفوں میں زیادہ نمایاں تعلیم محبت ہی نظر آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر چیز سے تعلق رکھنا چاہیے اور محبت کا اظہار کرنا چاہیے اور جب ہم سب کو دوست رکھتے ہیں تو اس میں کوئی چیز مانع نہیں ہوسکتی کہ وہ بھی ہمیں دوست رکھیں۔ برے بھی ہم کو دوست رکھیں گے کیونکہ انہوں نے ہم سے صرف محبت ہی دیکھی ہے۔لیکن ان حضرات کو جان لیناچاہیے کہ صرف اہل محبت ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اہل مسلک (عقیدہ) ہونا بھی ضروری ہے اور کتاب بنام ”یہ ہے میرا مذہب” میں گاندھی کے بقول محبت کو حقیقت کاجڑواں ہونا چاہےے اور حقیقت کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلک بھی ہے اور مسلک خواہ مخواہ دشمن پیدا کرتا ہے۔ وہ ایک ایسا واقعہ ہے جو بعض کے ساتھ مقابلہ کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور بعض کو رد کردیتا ہے۔اسلام بھی قانون محبت ہے۔ قرآن رسول اکرم(ص) کی پہچان رحمۃ للعالمین کی حیثیت سے کراتا ہے۔وَ مَآ اَرْسَلْنٰاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔(3)ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر عالمین کے لیے رحمت بنا کر۔یعنی اپنے سخت ترین دشمنوں کے لیے بھی رحمت بنو اور ان سے بھی محبت کرو۔ (4) لیکن قرآن جس محبت کا حکم دیتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہم ہر شخص کی پسند اور خواہش کے مطابق عمل کریں اور اس کے ساتھ اس طرح کا چلن اختیار کریں کہ وہ ہم سے خوش ہو اور نتیجتاً وہ ہماری طرف کشاں کشاں چلا آئے۔ محبت یہ نہیں ہے کہ ہر شخص کو اس کی خواہشات میں آزاد چھوڑ دیں یاان خواہشات کی تائید کریں۔ محبت وہ ہے جو حقیقت سے مربوط ہو۔ محبت خیر خواہی ہے اور خیر خواہی کرتے ہوئے غالباً ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ دوسرے فریق کی محبت جلب نہ کی جاسکے۔ اس راہ میں بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان جن سے تعلق خاطر رکھتا ہے وہ چونکہ اس محبت کو اپنی خواہشات کے خلاف پاتے ہیں، وہ قدر دانی کی بجائے دشمنی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ منطقی اور معقول محبت وہ ہے جس میں انسانی معاشرے کی بہتری اور مصلحت ہو، نہ کہ ایک خاص فرد یا گروہ کی۔ بسااوقات افراد کے ساتھ خیرخواہی اورمحبت کرنا معاشرے کے ساتھ سراسر بدخواہی اور دشمنی کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔بڑے بڑے مصلحین کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ انسانی معاشرے کی اصلاح کے لیے کوشش کرتے تھے اور اپنے لیے تکلیفوں کا راستہ ہموار کرتے تھے لیکن لوگوں کی طرف سے دشمنی اور تکلیف کے علاوہ کوئی صلہ نہیں پاتے تھے۔ پس ایسا ہرگز نہی ہے کہ محبت ہر جگہ جاذبہ رکھتی ہو بلکہ کبھی کبھار محبت اس قدر شدید دافعہ کا جلوہ بھی دکھاتی ہے کہ انسان کی مخالفت میں جماعتیں تشکیل کی جاتی ہیں۔عبد الرحمن ابن ملجم مرادی، علی علیہ السلام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا۔ علی (ع) خوب جانتے تھے کہ یہ شخص ان کا ایک خطرناک دشمن ہے۔ دوسرے لوگ بھی کبھی کبھی کہتے تھے کہ یہ شخص خطرناک ہے، اس کی بیخ کنی کیجئے۔ مگر علی علیہ السلام کہتے: کیا ہے میں جرم سے پہلے قصاص لوں؟ اگر وہ میرا قاتل ہے تو میں اپنے قاتل کو نہیں مارسکتا۔ وہ میرا قاتل ہے، نہ کہ میں اس کاقاتل اور اسی کے بارے میں علی علیہ السلام نے کہا: ارید حیاتہ و یرید قتلی (5) یعنی میں چاہتا ہوں وہ زندہ رہے اور اس کی سعادت چاہتا ہوں اور وہ چاہتا ہے کہ مجھے قتل کر دے۔ میں اس سے محبت و تعلق رکھتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ دشمنی اور کینہ رکھتا ہے۔اور تیسری بات یہ ہے کہ محبت ہی تنہا انسانی امراض کاعلاج نہیں ہے بلکہ بعض طبقوں اورمزاجوں کے لیے سختی کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور مقابلہ، دفع اور رد کر دینا لازم ہوجاتا ہے۔ اسلام جذب و محبت کا دین ہے۔ ساتھ ہی دفع اور غضب (6) کا دین بھی۔جس طرح ایک با پ اپنے بیٹے پر اس لیے ناراض ہوتا ہے کہ اس سے محبت ہے اور اس کے مستقبل کی فکر ہے۔ اگر کوئی غلط کام کرے تو ناخوش ہوجاتا ہے اور کبھی اسے مارتا بھی ہے۔ حالانکہ دوسروں کی اس سے زیادہ نامعقول روش دیکھتا ہے لیکن وہ محسوس نہیں کرتا۔ مگر چونکہ اپنے بچے سے تعلق خاطر رکھتا تھا اس لیے ناراض ہوا اور دوسروں کے بچوں سے کوئی تعلق نہ تھا اس لیے ناراض بھی نہیں ہوا۔اور دوسری طرف تعلق خاطر کبھی غلط بھی ہوتا ہے۔ یعنی محض ایک جذبہ ہے جو حکم عقل کے تابع نہیں ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے: وَ لَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ (٢٤نور : ٢)یعنی قانون الہی کے اجراء میں تمہاری محبت و نرمی مجرم کو ڈھیل نہ دے۔ کیونکہ اسلام جس طرح افراد کے ساتھ تعلق خاطررکھتا ہے اسی طرح معاشرے کے ساتھ بھی تعلق خاطر رکھتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ وہ ہے جو انسان کی نظر میں چھوٹا ہو اور وہ اسے حقیر سمجھے امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: اشدّ الذنوب ما استھان صاحبہ۔(نہج البلاغہ حکمت : ٢٤٠) ”سب سے شدید گناہ وہ ہے جسے گناہگار آسان اور ناچیز سمجھے” گناہ کی اشاعت ہی وہ چیز ہے جس سے گناہ کی شدت نظروں سے کم ہو جاتی ہے اور فرد کی نظر میں اسے حقیر ظاہر کرتی ہے۔اس لیے اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور وہ گناہ مکمل طور پر پردے میں نہ ہو اور لوگ اس سے باخبر ہوجائیں تو گناہ گار کو ہر صورت میں مورد سیاست قرار پانا چاہےے یا حد کی سزا کھائے یا تعزیر کی۔ اسلامی فقہ میں کلی طور پر کہا گیا ہے کہ ہر واجب کے ترک اور ہر حرام کی بجاآوری پر اگر حد کا تعین نہ کیا گیا ہو تو اس کے لیے تعزیر ہے۔ ”تعزیر” ”حد” سے کمتر سزا ہے جس کا حاکم (شرع) اپنی صوابدید کے مطابق تعین کرتا ہے۔ ایک فرد کے گناہ اور اس کی اشاعت پر معاشرہ ایک قدم گناہ کے نزدیک ہوا اور یہ اس (معاشرہ) کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ پس گناہگار کو اس کے گناہ کی اہمیت کے مناسب سزا دی جانی چاہیے تاکہ معاشرہ اپنی راہ پر واپس آجائے اور گناہ کی شدت نظروں سے کم نہ ہو۔اس بناء پر سزا اور عذاب ایک ایسی ححبت ہے جو معاشرے کے لیے فراہم کی جاتی ہے۔٣۔وہ لوگ جو دافعہ رکھتے ہیں لیکن جاذبہ نہیں رکھتے۔جو صرف دشمن بناتے ہیں لیکن دوست نہیں بناتے۔ یہ بھی ناقص لوگ ہیںاوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں مثبت انسانی خصلتیں مفقود ہیں۔ کیونکہ اگر وہ انسانی خصائل کے حامل ہوتے تو ہر چند تھوڑی تعداد میں ہی سہی، ایک گروہ ایسا ضرور رکھتے جو ان کا طرفدار اور ان سے تعلق خاطر رکھنے والا ہو۔ کیونکہ لوگوں کے درمیان اچھے لوگ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد کم ہو، لیکن کبھی سب لوگ برے نہیں ہوتے۔ جس طرح کہ کسی زمانے میں بھی سارے لوگ اچھے نہیں ہوتے۔ اس لیے لازمی طورپر کسی سے اگر سب کو دشمنی ہو توخرابی اس کی اپنی ہے۔ ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک انسان کی روح میں خوبیاں ہوں اور وہ کوئی دوست نہ رکھتا ہو۔ اس قسم کے لوگ اپنے وجود میں کوئی مثبت پہلو نہیں رکھتے حتیٰ کہ شقاوت کا پہلو بھی۔ ان کا وجود سراسر تلخ ہے اور سب کے لیے تلخ ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کم از کم بعض کے لیے شیریں ہو۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:اعجز الناس من عجز عن اکتساب الاخوان، اعجز منہ من ضیّع من ظفر بہ منھم۔ (7)لوگوں میں درماندہ وہ ہے جو اپنی عمر میں کچھ بھائی اپنے لیے حاصل نہ کر سکے اور اس سے بھی زیادہ درماندہ وہ ہے جو پا کر اسے کھو دے۔٤۔لوگ جو جاذبہ بھی رکھتے ہیں اور دافعہ بھی ۔ وہ باصول لوگ جو اپنے مسلک اور عقیدے کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں، چند گروہوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، دلوں میں محبوب اور مقصود کی حیثیت سے گھر کر جاتے ہیں اور چند گروہوں کو اپنے سے دفع اور رد بھی کرتے ہیں۔ دوست بھی بناتے ہیں اور دشمن بھی۔ موافق پرور بھی ہیں اور مخالف پرور بھی۔ان کی بھی چند قسمیں ہیں کیونکہ کبھی جاذبہ و دافعہ دونوں قومی ہیں، کبھی دونوں ضعیف اور کبھی ایک قوی اور دوسرا ضعیف۔ باوقار لوگ وہ ہیں جو جاذبہ و دافعہ ہر دو قوی رکھتے ہوں اور اس کاتعلق اس بات سے ہے کہ ان کی روح میں مثبت یا منفی (اقدار) کی بنیادیں کس قدر مضبوط ہیں۔ البتہ قوت کے بھی مراتب ہیں، یہاں تک کہ ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ مجذوب دوست اپنی جان فدا کردیتے ہیں اور اس کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں اور دشمن بھی اس قدر سخت ہو جاتے ہیں کہ اس راہ (دشمنی) میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں اور یہ (صورت حال) اتنی قوی ہو جاتی ہے کہ ان کے مرنے کے بعد بھی صدیوں تک ان کے جذب و دفع (کی شدت) انسانی روحوں میں کار فرما ہوتی ہے اور ایک وسیع حلقے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور یہ سہ پہلو جذب و دفع صرف اولیاء کے لیے مختص ہے، جس طرح کہ سہ پہلو دعوت (مشن) پیغمبروں کے لیے مختص ہے۔ (8)دوسری جانب یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کن عناصر کو جذب اور کن عناصر کو دفع کرتے ہیں۔ مثلاً کبھی ایسا ہتا ہے کہ دانا عنصر کو جذب اور نادان عنصر کو دفع کرتے ہیں اور کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کبھی شریف اور نجیب عناصر کو جذب اور پلید اور خبیث عناصر کو دفع کرتے ہیں اور کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ لہذا دوست اور دشمن، جذب ہونے والے اور دور پھینکے جانے والے اس (جذب و دفع کرنے والے) کی ماہیت پر قطعی دلیلیں ہیں۔کسی کی شخصیت کے قابل ستائش ہونے کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ جاذبہ و دافعہ رکھتی ہے یا یہ کہ قوی جاذبہ و دافعہ رکھتی ہے،بلکہ یہ تو اصل شخصیت کی دلیل ہے اور کسی کی محض شخصیت کسی کی خوبی کی دلیل نہیں ہے۔ دنیا کے تمام رہنما اور لیڈر حتیٰ کہ چنگیز خان، حجاج اور معاویہ جیسے جرائم پیشہ لوگ بھی جاذبہ اور دافعہ دونوں رکھتے تھے اور جب تک کسی کی روح میں مثبت نقطے موجود نہ ہوں، ممکن نہیں ہے کہ ہزاروں سپاہیوں کو وہ اپنامطیع اور اپنے ارادے کا تابع بنا لے۔ جب تک رہنمائی کی طاقت نہ رکھتا ہو، آدمی اتنے لوگوں کو اپنے گرد جمع نہیں کر سکتا۔نادر شاہ ایسے ہی افراد میں سے ایک ہے۔ اس نے کتنے سرقلم کئے اور کتنی ہی آنکھیں حلقوں سے باہر نکال دیں لیکن اس کی شخصیت غیر معمولی طاقت کی حامل ہے۔ اس نے صفوی عہد کے آخری دنوں میں شکست خوردہ اور لٹے پٹے ایران سے ایک بھاری لشکر تیار کیا اور میدان جنگ کو اس طرح اپنے گرد اکٹھا کیا جس طرح مقناطیس فولادکے ذرّوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور یوں ایران کو نہ صرف غیروں کے تسلط سے نجات دلائی بلکہ ہندوستان کے آخری حصوں کو بھی فتح کرلیا اور نئی سرحدوں کو ایرانی سلطنت میں شامل کیا۔بنابریں ہر شخصیت اپنے قبیل کے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتی ہے اور اس کے مخالف لوگوں کو اپنے سے دور کر دیتی ہے۔ انصاف پرور اور شریف شخصیت نیکی پسند اور عدالت کے طلبگار عناصر کو اپنی طرف جذب کرتی ہے اور ہوس پرستوں، زرپرستوں اور منافقوں کو اپنے سے دور پھینکتی ہے۔ جرائم پیشہ شخصیت مجرموں کو اپنے گرد جمع کرتی ہے اور نیک لوگوں کو اپنے سے دور پھینکتی ہے۔اور جس طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، ایک دوسرا فرق قوت کشش (جذب) کی مقدار کا ہے۔ جس طرح کہ نیوٹن کے ”نظریہ کشش ” کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی شئے کی جسامت اور کمتر فاصلے کی نسبت سے کشش اور جذب کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے۔ انسانوں میں جذب کرنے والی شخصیت کے اعتبار سے جذب اور دباؤ (دفع) کی مقدار میں فرق پیدا ہوتا ہے۔علی علیہ السّلام۔ دوہری قوت والی شخصیتعلی(ع) ان لوگوں میں سے ہیں جو جاذبہ بھی رکھتے ہیں اور دافعہ بھی اور ان کا جاذبہ و دافعہ سخت قوی ہیں۔ شاید تمام صدیوں اور زمانوں میں علی (ع) کے جاذبہ و دافعہ کی طرح کا قوی جاذبہ و دافعہ ہم پیدا نہ کر سکیں۔ وہ ایسے عجیب تاریخی، فداکار اور درگزر کرنے والے دوست رکھتے ہیں جو ان کے عشق میںآتش خرمن کے شعلوں کی طرح بھڑکتے اور دمکتے ہیں۔ وہ اس کی راہ میں جان دینے کواپنی آرزو اور اپنا سرمایہئ افتخار سجھتے ہیں اور جنہوں نے ان کی محبت میں ہر شئے کو بھلا دیا ہے۔ علی(ع) کی موت کو سالہا سال بلکہ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن یہ جاذبہ و افعہ اسی طرح اپنا جلوہ دکھا رہا ہے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ان کی زندگی میں ایسے شریف و نجیب، خدا پرست، فداکار، بے لوث عناصر اور عفو و درگزر کرنے والے مہربان، عادل اور خدمت خلق کرنے والے لوگ ان کی ذات کے محور پر اس طرح گھومتے تھے کہ ان میں سے ہرایک، ایک سبق آموز تاریخ رکھتا ہے اور ان کی موت کے بعد معاویہ و دیگر اموی خلفاء کے دور میں بے شمار لوگ ان کی دوستی کی پاداش میں سخت ترین شکنجوں میں کسے گئے، لیکن علی (ع) کی دوستی اور عشق میں ان کے قدم نہ لڑکھڑائے اور آخری سانس تک وہ ثابت قدم رہے۔دنیاوی شخصیتیں جب مرتی ہیں تو ان کے ساتھ ساری چیزیں مرجاتی ہیں اور ان کے جسم کے ساتھ زمین کے اندر پنہاں ہوجاتی ہیں۔ جبکہ حق والی شخصیتیں خود مر جاتی ہیںلیکن ان کا مکتب اور ان کے ساتھ لوگوں کا عشق صدیاںگزرنے کے باوجود تابندہ تر ہوجاتا ہے۔ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ علی (ع) کی موت کے سالہا سال بلکہ صدیوں بعد بھی لوگ دل و جان سے ان کے دشمنوں کے تیروں کو سینے سے لگاتے ہیں۔علی علیہ السّلام کے مجذوبین اور عاشقوں میں سے ایک میثم تمار کوہم دیکھتے ہیں کہ مولیٰ (ع)ٰؑ کی شہادت کے بیس برس بعد بھی سولی پر علی (ع) کے فضائل اور بلند انسانی اوصاف بیان کرتے ہیں۔ ان دنوں جبکہ تمام اسلامی دنیا گھٹن کا شکار ہے،تمام آزادیاں سلب ہیں، سانسیں سینوں میں بند ہیں، موت کا ساسکوت اس طرح طاری ہے جیسے چہروں پر موت کا غبار چھایا ہوا ہو، وہ تختہئ دار پر سے فریاد کرتا ہے کہ آجاؤ میں تمہیں علی (ع) کے بارے میں بتادوں! لوگ میثم کی باتیں سننے کے لیے چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں۔بنی امیہ اپنی آہنی حکومت اوراپنے مفاد کو خطرہ میں دیکھ کر حکم دیتی ہے کہ میثم کا منہ بند کر دیا جائے اور اس طرح انہوں نے چند روز میں میثم کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ تاریخ علی (ع) کے بہت سے ایسے عاشقوں کا پتہ دیتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ جذبے باقی زمانوں کو چھوڑ کر صرف کسی ایک عصر سے مختص ہوںٍ۔ ایسے طاقتور جذبوں کے جلوے ہم ہر دور میں دیکھتے ہیں کہ سخت مؤثر رہے ہیں۔ابن سکیّت عربی ادب کے بڑے علماء میں سے ایک ہیں اور آج بھی عربی ادب کے ماہرین ان کو سیبویہ جیسے لوگوں کا ہم رتبہ سجھتے ہیںٍ۔ یہ عباسی خلیفہ متوکل کے دور کاآدمی ہے۔ یعنی علی علیہ السّلام کی شہادت کے تقریباً دو سو سال بعد کا۔ متوکل کے دربار میں اس پر شیعہ ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ مگر چونکہ بہت ممتاز عالم تھا اس لیے متوکّل نے اسے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے منتخب کیا۔ ایک دن جب متوکل کے بچے اس کے دربار میں آئے تو ابن سکیّت بھی ساتھ تھا۔ اس سے پہلے اسی دن ان کا امتحان بھی ہوا تھا جس میں انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔ متوکل نے اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے یاپہلے سے اس کے ذہن میں جوبات ڈالی گئی تھی کہ اس کا میلان شیعیت کی طرف ہے، اس کی تصدیق کے لیے،ابن سکیّتسے پوچھا کہ یہ دوبچے تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہیں یا علی کے فرزند حسن اور حسین علیہم السلام؟اس جملے اور اس موازنہ سے ابن سکیت سخت برہم ہوا۔ اس کا خون کھولنے لگا اور اپنے آپ سے کہا کہ مغرور شحص کے کرتوت یہاں تک پہنچ گئے کہ اپنے بچوں کا حسن اور حسین علیہما السلام کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔ یہ میرا قصور ہے کہ ان کی تعلیم کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے، اس نے متوکل کو جواب دیتے ہوئے کہا:خدا کی قسم علی(ع) کا غلام قنبر میرے نزدیک ان دونوں بچوں اور ان کے باپ سے زیادہ محبوب ہے۔متوکل نے اسی جگہ حکم دیا کہ ابن سکیت کی زبان پشت گردن سے کھینچ لی جائے۔ تاریخ بہت سے ایسے دیوانوں کو جانتی ہے جنہوں نے اپنی جانوں کو بے اختیار علی(ع) کی محبت کی راہ میں قربان کر دیا۔ یہ جاذبہ اور کہاں ملے گا؟ سوچا نہیں جا سکتا کہ دنیا میں اس کی کوئی اور نظیر ہو۔علی (ع) کے دشمن بھی اتنے ہی شدید ہیں۔ ایسے دشمن جو ان کے نام سے پیچ و تاب کھاتے ہیں۔ علی (ع) ایک فرد کی شکل میں اب دنیا میں نہیں، لیکن ایک مکتب کی صورت میں موجود ہیں اور اسی وجہ سے ایک گروہ کو اپنی طرف جذب کرتے ہیں اور ایک گروہ کواپنے سے دور پھینکتے ہیں۔جی ہاں! علی (ع) کی شخصیت میں دوہری طاقت ہے۔—————————————————————-(١) آج کل انسان کی جسمانی ساخت کو ایک مشین کی مانند سمجھا جاتا ہے اور دفع کے عمل کو نکاسی کی مانند۔(٢)اس کے برعکس جو برقی رو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر دو ہمنام اجسام (Positive) میں داخل کی جائے تو وہ ایک دوسرے سے دفع کرتی اور ناہمنام اجسامNegetive Positiveمیں داخل کی جائے تو ایک دوسرے کو جذب کرتی ہے ۔(3) ٢١ سورہئ انبیاء آیت نمبر ١٠٧(4)بلکہ آپ (ص) ہر چیز سے محبت کرتے تھے یہاں تک کہ حیوانات اور جمادات کے ساتھ بھی ۔اسی لیے ہم آپ (ص)کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ آپ (ص) کے تمام ہتھیاروں اور روزمرہ زندگی میں استعمال کی چیزوں کے خاص نام تھے۔ آپ (ص) کے گھوڑوں، تلواروں اور عماموں کے خاص نام تھے۔ ایسا صرف اس لیے تھا کہ تمام موجودات سے آپ (ص) کو محبت تھی۔ گویا آپ (ص) ہر چیز کے تشخص کے قائل تھے۔ ان کے علاوہ تاریخ میں اس طرح کا رویہ کسی اور انسان کے بارے میں نہیں ملتا۔ یہ روش بتاتی ہے کہ در حقیقت آپ (ص) انسانی عشق و محبت کی مثال تھے۔ جب کہ آپ (ص) احد کے دامن سے گزرتے تو چمکتی آنکھوں اور محبت سے لبریز نگاہوں سے احد کو مخاطب کرکے کہتے: جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَ نحبہ۔ یعنی یہ ایسا پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ آپ (ص) ایسے انسان تھے کہ پہاڑ اور پتھر بھی آپ (ص) کی محبت سے بہرہ مند تھے۔(5) بحار الانوار جدید ایڈیشن۔ ج ٤٢، ص ١٩٣ ۔ ١٩٦(6) ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ نفرت بھی لطف و محبت کا ایک پہلو ہے۔ ہم دعا میں پڑھتے ہیں یا من سبقت رحمتہ غضبہ۔ اے وہ ذات جس کی رحمت نے اس کے غضب سے پہل کی اور چونکہ رحمت کرنا چاہتا تھا اس لیے غضب نازل کیا اور تو ناراض ہوا اور اگر محبت اور رحمت نہ ہوتی تو غضب بھی نہ ہوتا۔(7)نہج البلاغہ حکمت : ١١ (8) مقدمہ جلد اول خاتم پیامبران، ص ١١ و ١٢
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.