جاذبہ علی علیہ السلام کی قوت
طاقت ور جاذبہخاتم پیمبران (ص) کی پہلی جلد کے مقدمہ میں تعلیمات کے بارے میں ہم یوں پڑھتے ہیں:انسانیت کے درمیان ظاہرہونے والی تعلیمات ساری یکساں نہ تھیں اور یہ کہ ان کی تاثیر کا دائرہ بھی ایک جیسا نہیں تھا۔بعض تعلیمات اور فکری نظاموں کا صرف ایک ہی پہلو ہے اور انکی پیشرفت ایک ہی جانب ہے۔ اپنے زمانے میں ایک وسیع سطح کو اپنی لپیت میں لیا، لاکھوں کی تعداد میں پیروکاروں کی جماعت پیدا کی، لیکن ان کا زمانہ ختم ہونے کے بعد ان کی بساط ہستی لپیٹ دی گئی اور وہ طاقِ نسیان میں ڈال دی گئیں۔بعض تعلیمات اور فکری نظاموںکے دو پہلوہیں، ان کی روشنی دو سمتوںمیں آگے بڑھی جس نے ایک وسیع سطح کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اسی طرح بعد کے زمانوں میںبھی پیش رفت کی یعنی صرف ”مکان ” کا ہی پہلو نہ تھا بلکہ ”زمان ” پربھی وہ حاوی تھیں۔اور بعض (تعلیمات اور فکری نظاموں) نے مختلف پہلوؤں سے پیش رفت کی ہے۔ وسیع سطح پر انسانی گروہوں کو لپیٹ میں لے کر اپنے زیر اثر کیا ہے۔ چنانچہ ہم دنیا کے ہر براعظم میں ان کا اثر و نفوذ دیکھتے ہیں اور ” زمان،، کا پہلو بھی۔ یعنی ایک عصر یا ایک زمانے سے مخصوص نہیں بلکہ صدیوں تک پورے اقتدار کے ساتھ ان کی حکمرانی رہی ہے۔ ان کی جڑیں انسانی روح کی گہرائیوں میں ہیں۔انسانی ضمیر کے رازوں پر ان کا قبضہ ہے۔ قلب کی گہرائیوں پران کی حکمرانی ہے اور احساس کی نبض پران کا ہاتھ ہے۔ یہ سہ پہلو تعلیمات سلسلہئ انبیاء کے ساتھ مخصوص ہیں۔ایسا کون سا فکری یا فلسفی مکتب پیدا کیا جا سکتا ہے جس نے دنیا کے بڑے ادیان کی مانند، کروڑوں انسانوں پر تیس، بیس، یا کم از کم چودہ صدیاں حکومت کی ہو اور انسانی ضمیر کو جھنجھورا ہو؟؟!جاذبے بھی اسی طرح ہیں۔ یعنی کبھی یک پہلو۔ کبھی دو پہلو اور کبھی سہ پہلو۔علی (ع) کا جاذبہ آخری قسم (سہ پہلو) سے ہے۔ انسانی جمعیت کی ایک وسیع سطح کو اپنا دیوانہ بھی بنایا اور یہ بھی کہ ایسا صرف ایک یا دو صدیوں کے لیے نہیں، وہ وقت کے ساتھ باقی رہا بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو صدیوں اور عصروں سے درخشاں ہے اوراس طرح دل کی گہرائیوں اورباطن کو پنہائی میں پیوستہ ہے کہ صدیوں بعد بھی جب ان کو یاد کرتے ہیں اور ان کی اخلاقی بلندیوں کے بارے میں سنتے ہیں تو اشک شوق بہاتے ہیں اور ان کے مصائب پر گریہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دشمن بھی متاثر ہو جاتے ہیں اور آنسو بہانے لگتے ہیں۔ یہ انتہائی طاقتور جاذبہ ہے۔یہاں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دین کے ساتھ انسان کا رشہ کمروز مادی رشتوں کی طرح نہیں ہے بلکہ ایک ایسا رشتہ ہے کہ انسانی روح کے ساتھ اس طرح کا کوئی دوسرا رشتہ نہیں۔ علی(ع) اگر خدا کے رنگ میں رنگے ہوئے اور مرد خدا نہ ہوتے تو فراموش ہوچکے ہوتے۔ انسانی تاریخ میں ایسے بہت سے سپتوں کا سراغ ملتا ہے۔ میدان خطابت کے سپوت، مردان علم و فلسفہ، قدرت و سلطنت کے داتا، میدان جنگ کے ہیرو، لیکن یاان کو انسان نے بھلا دیا ہے یا سرے سے پہچانا ہی نہیں۔ مگر علی (ع) نہ صرف یہ کہ قتل ہونے کے باوجود نہیں مرے بلکہ آپ (ع) زندہ تر ہوگئے۔ خود فرماتے ہیں :ھلک خزان الاموال و ھم احیاءٌ و العماء باقون ما بقی الدھر اعیانھم مفقودۃ و امثالھم فی القلوب موجودۃ۔ (١)مال جمع کرنے والے زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہیں اور علماء باقی ہیں جب تک زمانہ باقی ہے۔ ان کے جسم نظروں سے اوجھل ہیں لیکن ان کے آثار دلوں میں موجود ہیں۔اپنی ذات کے بارے میں فرماتے ہیں:غدا ترون ایامی و یکشف لکم عن سرائری، و تعرفو ننی بعد خلو مکانی و قیام غیری مقامی۔ (2)کل تم میرے ایام دیکھو گے اور میری وہ خصوصیات تمہارے اوپر آشکار ہو جائیں گی جنہیں (آج) نہیں پہچانا گیا اور میری جگہ کے خالی ہونے اور میری جگہ پر میرے غیر کے بیٹھنے کے بعد تم مجھے پہچانو گے۔
عصرِ من ، دانندہئ اسرار نیستمیرا زمانہ اسرار کو جاننے والا نہیں
یوسف من بہر این بازار نیستمیرا یوسف اس بازار کے لیے نہیں ہے
نامید استم ز یا ران قدیممیںاپنے پرانے دوستوںسے مایوس ہوں
طور من سوزدکہ می آید کلیممیرا طور کلیم کے انتظار میں جل رہا ہے
قلزم یاران چوشبنم بی خروشدوستوںکاسمندرشبنم کی طرح خاموش ہے
شبنم من مثل یمّ طوفان بہ دوشمیری شبنم موجوں کی طرح طوفانی ہے
نغمہئ من ازجہان دیگر استمیرا نغمہ کسی اور ہی سے دنیا ہے
این جرس راکاروان دیگر استیہ صدائے جرس کسی اور ہی کارواں کی ہے
ای بسا شاعر کہ بعد از مرگ زادبہت سے شاعر مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں
چشم خود بربست و چشم ماگشادوہ اپنی آنکھوں بند کر کے ہماری آنکھیں کھولتے ہیں
رخت ناز از نیستی بیرون کشیدان کا حسن نیستی سے نکھرتا ہے
چون گل از خاک مزار خود دمیداپنے مزار کی خاک سے پھولوں کی طرح کھلتے ہیں
درنمی گنجد بہ جو عمان منمیرا عمان ندی میں نہیں سماتا
بحرہا باید پی طوفان منمیرے طوفان کو سمندروں کی ضرورت ہے
برقہا خوابیدہ درجان من استمیرے دل میں بجلیاں سو رہی ہیں
کوہ و صحرا باب جولان من استپہاڑاور بیابان میری دوڑ کےلئے دروازے ہیں
چشمہئِ حیوان کردہ اندانہوں نے مجھے آب حیات بخشا ہے
محرم راز حیاتم کردہ اندانہوں نے مجھے زندگی کا راز سمجھا دیا ہے
ہیچ کس رازی کہ من گفتم نہ گفتجوراز میں نے بتایا وہ کسی نے نہ بتایا
ہم چو فکر من در معنی نہ سفتمیری فکر کی طرح کسی نے معنی کے موتی نہ پروئے
پیرگردون با من این اسرار گفتبوڑھے آسمان نے مجھے یہ راز سمجھائے
از ندیمان راز ہا نتوان نہفت(3)دوستوںسے کوئی چیزپوشیدہ نہیںرکھی جا سکتی
درحقیقت علی علیہ السّلام قوانین فطرت کی طرح ہیں جو جاودانی ہیں۔ وہ فیض کا ایسا سرچشمہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ دن بہ دن بڑھتا جاتا ہے اور بقول جبران خلیل جبران ” وہ ان شخصیتوں میں سے ہیں جو اپنے وقت سے پہلے ہی دنیا میں آگئیں۔”بعض لوگ صرف اپنے زمانے کے رہنما ہیں۔ بعض اپنے بعد بھی تھوڑے سے عرصے کے لیے رہنما ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی رہنمائی یاد سے محو ہوجاتی ہے۔ لیکن علی علیہ السّلام اور گنے چنے انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہادی اور رہنما ہیں۔
تشیّع ۔ مکتب عشق و محبتتمام مذاہب میں مذہب شیعہ کوجو سب سے بڑا امتیاز حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اس کی اساس اور بنیاد محبت پر ہے۔ خود نبی اکرم(ص) کے زمانے سے، جب سے اس مذہب کی بنیاد پڑی ہے، یہ محبت اور دوستی کا سرچشمہ رہا ہے ۔جہاں ہم رسول اکرم (ص) کی زبان سےعلی و شیعتہ ھم الفائزون (4) ” علی (ع) اور ان کے شیعہ کامیاب ہیں ” سنتے ہیں وہاں ایک ایسے گروہ کو ان کا گروہ دیکھتے ہیں کہ جو ان کا عاشق، ان کے ساتھ گرم جوشی رکھنے والا اور ان کا دیوانہ ہے۔ اس لحاظ سے تشیع عشق و شیفتگی کا مذہب ہے، ان حضرت (ع) کے ساتھ تو لا، عشق و محبت کا مکتب ہے۔ محبت کے عنصر کو تشیع میں مکمل دخل ہے۔ تشیع کی تاریخ عاشقوں، شیدائیوں، جانبازوں اور دیوانوں کے ایک سلسلے کا دوسرا نام ہے۔علی(ع) وہ ہستی ہیں جو لوگوںپر خدائی حدود جاری کرتے، انہیں تازیانہ مارتے اور یقینی شرعی حد کے مطابق کسی کا ہاتھ کاٹتے لیکن اس کے باوجود لوگ ان سے منہ نہ پھیرتے اور ان کی محبت میں کوئی کمی نہ آتی۔ آپ (ع) خود فرماتے ہیں:لو ضربت خیشوم المؤمن بسیفی ھذا علیٰ ان یبغضنی ما ابغضنی، واگر تو دیکھے کہ میں اپنی اس تلوار سے مومن کو ماروں کہ وہ میرا دشمن ہو جائے تب بھی وہ میرے ساتھ دشمنی نہیں کرے
لو صببت الدنیا بجماتھا علی المنافق علی ان یحبّنی ما احبنی، و ذٰلک انہ قضی فانقضی علی لسان النبی الا می انہ قال: یا علی لا یبعضک مؤمن و لا یحبک منافق۔(5)گا اور اگر ساری دنیا کسی منافق کو دے دوں کہ وہ مجھے دوست رکھے تب بھی ہرگز میرے ساتھ محبت نہیں کرے گا کیونکہ یہ بات گزر چکی اور پیغمبر امی (ص) کی زبان پر جاری ہو چکی ہے۔ فرمایا: اے علی( ع ) مومن تجھ سے دشمنی نہیں رکھے گا اور منافق دوستی نہیں رکھے گا ۔علی(ع) فطرتوں اور طینتوں کی پرکھ کے لیے ایک معیار اور میزان ہیں۔ جس کی فطرت صحیح اور طینت پاکیزہ ہو وہ ان سے ناراض نہیں ہوتا خواہ ان کی شمشیر اس پر ٹوٹے اور جو آلودہ فطرت رکھتا ہے ا سے ان سے محبت نہیں ہوتی اگرچہ وہ اس پر احسان بھی کریں۔ کیونکہ وہ مجسم حقیقت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔امیر المؤ منین (ع) کے دوستداروں میں ایک شریف اور ایماندار شخص تھا بدقسمتی سے ایک لغزش اس سے سرزد ہوگئی اور اس پر حد جاری کرنا ضروری ہوگیا۔ امیرالمؤمنین(ع) نے اس کا داہنا ہاتھ قطع کیا۔ اس نے اس (قطع شدہ ہاتھ) کو بائیں ہاتھ سے پکڑا۔ خون بہ رہا تھا اور وہ جارہا تھا۔ ابن الکواء باغی خارجی نے اس موقعہ سے اپنے گروہ کے حق میں اور علی (ع) کے خلاف فائدہ اٹھانا چاہا، ہمدردانہ قیافہ بنا کر نزدیک گیااور کہا: تیرا ہاتھ کس نے قطع کیا؟ اس نے کہا:قطع الیمینی سیّد الوصین و قائد الغر المحجلین و اولی الناس بالمؤمنین علی ابن ابی طالب، امام الہدیٰ، السابق الی جنات النعیم ،مصادم الابطال، المنتقم من الجھال معطی الزکاۃ،میرا ہاتھ پیغمبروں کے جانشینوں کے سردار، قیامت کے دن سرخرو ہونے والوں کے پیشوا، مؤمنوں پر سب سے زیادہ حق رکھنے والے علی ابن ابی طالب علیہ السّلام، ہدایت کے امام، نعمت والی جنتوں کی طرف پہل کرنے والے، بہادروں کا مقابلہ کرنے والے، جاہلوںالھادی الی الرشاد، و الناطق بالسّداد، شجاع مکی، جتحجاج و فیسے انتقام لینے والے، زکوٰۃ ادا کرنے والے، رشد و کمال کا راستہ دکھانے والے، سچ بات کہنے والے، مکہ کے شجاع اور بزرگوار وفا نے قطع کیا ہے۔
ابن الکواء نے کہا:افسوس ہے تجھ پر!اس نے تیرا ہاتھ قطع کیا اور تو اس کی اس طرح تعریفیں کرتا ہے؟کہا: میں کیونکر اس کی تعریف نہ کروں۔ اس کی محبت میرے گوشت اور خون میں سرایت کرچکی ہے۔ خدا کی قسم اس نے میرا ہاتھ قطع نہیں کیا ہے مگر یہ کہ خدا کے مقرر کردہ قانون کے تحت۔اس قسم کے عشق اور اس طرح کی محبتیں جو علی(ع) اور ان کے دوستوں کی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں، ہمیں عشق و محبت کے مسئلہ اور اس کے آثار کی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔٭٭٭٭٭
اکسیرِ محبتفارسی زبان کے شعراء نے عشق کو اکسیر کا نام دیا ہے۔ کیمیا گروں کا اعتقاد تھا کہ دنیا میں ایک ایسا مادہاکسیر(7) یا کیمیاکے نام سے موجود ہے جو ایک مادہ کو دوسرے مادہ میں تبدیل کر سکتا ہے۔ صدیوں وہ اس کے پیچھے پھرتے رہے۔شعراء نے اس اصطلاح کو مستعاراور کہا ہے کہ حقیقت میں وہ اکسیر جو (ایک مادہ کو دوسرے مادہ میں) تبدیل کرسکتا ہے وہ عشق و محبت ہے۔ جو (کسی شئے کی) ماہیت کو تبدیل کر سکتا ہے۔ عشق مطلقاً اکسیر ہے اور اس میں کیمیا کی خاصیت ہے۔ یعنی ایک دھات کو دوسری دھات میں تبدیل کر دیتا ہے۔ انسان بھی مختلف دھات ہیں:الناس کمعدن الذھب و الفضۃ ۔انسان سونے اور چاندی کے معدن کی طرح ہیں۔عشق ہی دل کو دل بناتا ہے۔ اگر عشق نہیں تو دل ہی نہیں آب و گل ہے۔ہرآںدل را سوزی نیست دل نیستجس دل میں درد نہیں وہ دل ہی نہیںدل افسردہ غیر از مشت گل نیستافسردہ دل مٹھی بھر مٹی کے علاوہ اور کچھ نہیںلہٰی! سینہئِ دہ آتش افروزخدایا! ایک بھڑکتا ہوا سینہ دےدر آں سینہ دلی و ان دل ہمہ سوز(8)اور اس سینے میں سلگتا ہوا دل دےطاقت و قدرت عشق کی پیداوار ہیں۔ محبت طاقت پیدا کرتی ہے اور بزدلوں کو بہادر بنا دیتی ہے۔ ایک پالتو مرغی جب تک تنہا ہے اپنے بال و پر اپنی پشت پر جمع کرلیتی ہے۔ آہستہ آہستہ چلتی ہے۔ اپنی گردن موڑ کر کوئی مکوڑا تلاش کرتی ہے تاکہ اسے کھائے۔ ذرا سی آواز سن کر بھاگ جاتی ہے۔ ایک کمزور بچے سے مقابلہ کرنے کی ہمت بھی اپنے اندر نہیں پاتی۔ لیکن یہی مرغی جب چوزے نکالتی ہے اور عشق و محبت اس کے پیکر وجود میں گھر کرتی ہے تو اس کی حالت ہی بدل جاتی ہے۔ پشت پر جمع شدہ بال و پر دفاع کے لیے اپنی آمادگی کی علامت کے طور پر نیچے گرا دیتی ہے، اپنے اوپر جنگ کی سی حالت طاری کردیتی ہے، یہاں تک کہ ا س کی آواز کا آہنگ بھی پہلے سے طاقت وراور دلیرانہ ہو جاتا ہے۔ پہلے کسی خطرے کے خیال سے ہی بھاگ جاتی تھی لیکن اب خطرے کے احتمال سے ہی حملہ کر دیتی ہے، دلیرانہ حملہ کرتی ہے۔ یہ محبت اور عش ہے جو ڈرپوک مرغی کو ایک دلیر جانور کا روپ دیتا ہے۔عشق و محبت کاہل اور سست کو چالاک اور ذہین بنا دیتی ہے حتیٰ کہ کاہل کو تیز فہم بنا دیتی ہے۔وہ لڑکا اور لڑکی جو شادی سے پہلے کسی چیز کے بارے میں نہیں سوچتے تھے سوائے ان چیزوں کے جو براہ راست ان کی اپنی ذات سے مربوط ہوں، وہی جونہی ایک دوسرے سے دل وابستگی پیدا ہوئی اور انہوں نے خاندان کا ادارہ تشکیل دیا، پہلی بار کسی اور کی قسمت کے بارے میں دلچسپی لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی دلچسپیوں کا دائرہ وسیع تر ہو جاتا ہے اور جیسے ہی ان کے ہاں بچے نے جنم لیا ان کی فطرت بالکل بدل جاتی ہے۔ اب وہی سست اور کاہل لڑکا چالاک اور فعال ہوگیاہے اور وہی لڑکی جوبزور بھی اپنے بستر سے نہیں جاگتی تھی اب اپنے گہوارہ نشین بچے کی آواز سنتے ہی بجلی کی طرح لپکتی ہے۔ وہ کون سی طاقت ہے جس نے سستی ا ور کاہلی کو ختم کیا اور اس جوان کو اس قدر حساس بنا دیا؟ وہ عشق و محبت کے علاوہ کچھ نہیں۔عشق ہی ہے جو بخیل کو سخی اور کمزور اور بے صبرے کو متحمل (مزاج) اور صابر بناتا ہے۔ یہ عشق کا ہی اثر ہے کہ ایک خود غرض مرغی جو صر ف اپنے لیے سوچتی تھی کہ کوئی دانہ جمع کرے اور اپنی حفاظت کرے، اب ایک سخی وجود بن گئی ہے کہ جب کوئی دانہ پیدا کیا اپنے چوزوں کو آواز دیتی ہے یا ایک ماں کو جو کل تک ایک بے نام صرف کھانے اور سونے والی زود رنج اور کمزور لڑکی تھی، بھوک، بے خوابی اور جسمانی تھکاوت کے مقابلے میں صبر اور تحمل کی عظیم قوت دی اور ممتا کی تمام زحمتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیا۔روح کی سختی و تندخوئی ختم کرکے نرمی و رقت کا پیدا ہونااور دوسرے لفظوں میں (دوسروں سے) مہربانی و نرم خوئی سے پیش آنا اور اسی طرح صلاحیتوںکے انتشار و افتراق کو ختم کرے انہیں یکجا کرنااور اس یکجہتی کے نتیجے میں قدرت و طاقت کا حصول سب عشق و محبت کے آثار ہیں۔شعر و ادب کی زبان میں عشق کے جس اثر کا بیشتر ذکر ہم دیکھتے ہیں وہ وجدان اور عشق کی فیاضی ہے۔
بلبل از فیض گل آموخت سخن ورنہ نہ بوداین ہمہ قول و غزل تعبیہ در منقارش(9)
بلبل نے نغمہ سنجی گل کے فیض سے سیکھی ورنہ یہ فصاحت و نغمگی اس کی منقار میں نہ ہوتیفیض گل اگرچہ ظاہری لفظ کے اعتبار سے بلبل کی ذات سے خارج ایک امر ہے لیکن در حقیقت خود عشق کی قوت کے علاوہ کچھ نہیں۔
تو مپندار کہ مجنون سر خود مجنون شداز سمک تابہ سماکش کشش لیلیٰ بود (10)
یہ خیال نہ کرنا کہ مجنوں خود بہ خود مجنون بن گیا بلکہ لیلیٰ کی کشش نے سمک (مچھلی) سے سماء (آسمان) تک پہنچایاعشق خوابیدہ صلاحیتوں کوبیدار اور بند جکڑی ہوئی قوتوں کو آزاد کر دیتا ہے جس طرح ایٹم کے پھٹنے پر ایٹمی توانائیاں آزاد ہوجاتی ہےں۔عشق وجدان عطا کرتااور ہیرو پیدا کرتا ہے۔ کتنے ہی شاعر، فلسفی اور ہنرمند ایک طاقت ور عشق و محبت کی پیداوار ہیں۔عشق روح کی تکمیل کرتااور حیرت انگیز باطنی صلاحیتوں کو آشکار کرتا ہے۔ ادارک کی قوتوں کے نقطہئ نگاہ سے یہ وجدان عطا کرتااور احساس کی قوتوں کے نقطہئ نظر سے ارادہ اور ہمت کو تقویت دیتا ہے اور جب یہ عروج کی طرف بڑھتا ہے تو کرامت اور معجزہ ظاہر کرنے لگتا ہے۔ روح کو بیماریوں اور آلودگیوں سے پاک کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عشق صفائی (باطن) کرنے والا ہے۔ خود غرضی سے پیدا ہونے والی پست صفات یا بخل، کنجوسی، بزدلی، کاہلی، تکبر و خود پسندی جیسے ٹھنڈے جذبات کو ختم کر دیتا ہے۔ آپس کی نفرتوں اور کینوں کو زائل کرتا ہے۔اگرچہ عشق میں محرومیت اور ناکامی کابھی امکان ہے۔ تب یہ مشکلات اور عداوتیں پیدا کرتا ہے۔
از محبت تلخہا شیرین شوداز محبت مسہا زرین شود(11)
محبت تلخیوں کو شیرینی میں بدل دیتی ہے۔ محبت تانبے کو سونے میں بدلتی ہے۔عشق کا اثر روح کے لیے اس کی آبادی اور شادابی ہے اور جسم کے لیے زوال اور خرابی ہے۔ جسم کے لیے عشق ویرانی کا باعث اور چہرے کی زردی، جسم کی کمزوری، ہاضمے کی خرابی اور اعصاب کے لےے تناؤ کا موجب ہے۔ شاید جسم کے لےے تمام آثار تخریبی ہوں، لیکن روح کے لےے ایسا نہیں ہے۔پھر عشق کا موضوع کیا ہو؟ اور کس طرح ایک شخص اس سے فائدہ اٹھائے؟اس کے اجتماعی آثار سے قطع نظر، روح اور فرد کے نقطہئ نظر سے یہ تکمیلی ہے کیونکہ یہ قوت، نرمی، صفا، یکجہتی اور ہمت پیدا کرتا ہے۔ کمزوری، زبونی، کدورت، افتراق اور کاہلی کو ختم کر دیتا ہے۔ آلودگیوں جنہیں قرآن دسَّ کا نام دیتا ہے، ختم کرتا، آمیزشوں کو زائل کرتااور فریب کو خلوص سے بدل دیتا ہے۔
شاہ جان مرجسم را ویران کنددل کا بادشاہ جسم ویران کرتا ہے
بعد ویرانش آبادان کنداور اس کے بعد اسے آباد کرتا ہے
ای خنک جانی کہ بھر عشق و حالنیک دل وہ ہے جو عشق اور خوشی کی خاطر
بذل کرد او خان و مان و ملک و مالاپنا گھر بار جائداد اور مال صرف کرے
کرد ویران خانہ بہر گنج زراس نے اپنا گھر خزانہ کے لیے ویران کیا
و ز ہمان گنجش کند معمور تراور اسے مزید زر سے بھر دیا
آب را ببرید و جو را پاک کردوہ پانی لے گیا اور نہر کو خالی کیا
بعد ازاں در جو رواں کرد آب خوردپھرپانی کو نہر میں جاری کر دیا اور پانی پیا
پوست را بشگافت پیکان را کشیداس نے پوست کو شگافتہ کیا اور پیکان کھینچا
پوست تازہ بعد از آتش برومیداس کے بعد اس پر تازہ پوست اسے پہنچایا
کاملان کز سرّ تحقیق آ گھندکامل لوگ جو تحقیق کے رازکو جانتے ہیں
بی خود حیران و مست و والہ اندوہ بے خود، حیران اور مست ہیں
نہ چنین حیران کن پشتش سوی اوستبل چنان حیران کہ غرق و مست دوست(12)
اس طرح حیران نہ ہو کہ اس کی پشت تیری طرف ہوبلکہ اس طرح حیران کردہ محبوب کی محبت میں غرق ہو۔—————————————————————–(١)نہج البلاغہ حکمت: ١
(2) نہج البلاغہ خطبہ: ١٤٩
(3)کلیات اشعار فارسی علامہ اقبال ص ٦۔ ٧
(4)جلال الدین سیوطی درمنشور میں سورہئ مبینہ کی آیت ٧ کے ذیل میں ابن عساکر سے اور وہ جابر عبد اللہ انصاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم پیغمبر (ص)کے دربار میں حاضر تھے کہ علی(ع) بھی حضور (ص) کی خدمت میں پہنچے ۔ حضور (ص) نے فرمایا: والذی نفسی بیدہ ان ھذا و شیعتہ ھم الفائزون یوم القیٰمۃ یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضہئ قدرت میں میری جان ہے یہ شخص اور اس کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہوں گے ۔ مناوی کنوز الحقائق میں اسے دو روایتوں سے نقل کرتے ہیں اور ہیثمی مجمع الزوائد میں اور ابن حجر صواعق محرقہ میں اسی مضمون کو دوسرے طریقے سے نقل کرتے ہیں۔
(5)بحار الانوار ج۔٤٠، ص ٢٨١۔٢٨٢، جدید ایڈیشن و تفسیر کبیر فخر رازی ذیل آیت ٩، سورہئ کہف ام حسبت…
(7) برہان قاطع میں اکسیر کے بارے میں کہا گیا ہے: ”ا یک جوہر ہے جو پگھلانے، آمیزش اور کامل کرنے والا ہے ” یعنی تانبے کو سونا بناتا ہے اور فائدہ مند دواؤں اور مرشد کامل کی نظر کو بھی مجازاً اکسیر کہتے ہیں۔ اتفاق سے عشق میں بھی یہ تینوں خصوصیات موجود ہیں۔ پگھلانے والا بھی ہے، آمیزش بھی ہوتی ہے اور کامل کنندہ بھی ہے لیکن مشہور و معروف وجہ شبہ تیسری ہی ہے۔ یعنی مکمل بدل دینا اور اسی لیے شعراء نے کبھی عشق کو طبیب، دوا، افلاطون اور جالینوس بھی کہا ہے۔ مولانا روم مثنوی کے دیباچے میں کہتے ہیں:شادباش ای عشق خوش سودای مااے ہمارے عشق خوش سودا تو خوش رہای طبیب جملہ علتہای مااے ہماری تمام بیماریوں کے طبیبای دوای نخوت و ناموس مااے ہمارے فحر اور وقار کی دواای تو افلاطون و جالینوس مااے ہمارے افلاطون اور جالینوس
(8) وحشی کرمانی
(9) لسان الغیب حافظ(10) علامہ طباطبائی
(11) مثنوی معنوی
(12) مثنوی معنوی