تقیہ کا مقصد کیا ہے؟
تقیہ کا مقصد کیا ہے؟
تقیہ ایک دفاعی ڈھال
یہ صحیح ہے کہ انسان کبھی بلند مقاصد ، شرافت کے تحفظ اور حق کی تقویت اور باطل کے تزلزل کے لئے اپنی عزیز جان قربان کرسکتا ہے، لیکن کیا کوئی عاقل یہ کہہ سکتا ہے کہ انسان کے لئے بغیر کسی خاص مقصد کے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا جائز ہے ؟!
اسلام نے واضح طور پر اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر انسان کی جان، مال اور عزت خطرہ میں ہو اور حق کے اظہار سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو، تو وقتی طور پر اظہار حق نہ کرے بلکہ مخفی طریقہ سے اپنی ذمہ داری کو پورا کرتا رہے، جیسا کہ قرآن مجید کے سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۲۸/ اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے (1) یا دوسرے الفاظ میں سورہ نحل میں ارشاد ہوتا ہے: <مَنْ کَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِہِ إِلاَّ مَنْ اٴُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَان>(2) ”جو شخص بھی اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کر لے علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کر دیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو “۔
(۱ )< لاَیَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ اٴَوْلِیَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنْ اللهِ فِی شَیْءٍ إِلاَّ اٴَنْ تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاةً> (سورہ آل عمران ، آیت ۲۸)”خبردار صاحبان ایمان ؛مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی و سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگامگر یہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے“
کتب احادیث اور تواریخ میں جناب ”عمارۻ یاسر“ اور ان کے والدین کا واقعہ سب کے سامنے ہے، جو مشرکین اور بت پرستوں کے ہاتھوں اسیر ہوگئے تھے، ان کو سخت تکلیفیں پہنچا ئی گئی تھیں تاکہ اسلام سے بیزاری کریں،اسلام کو چھوڑ دیں، لیکن جناب عمار کے ماں باپ نے ایسا نہیں کیا جس کی بنا پر مشرکین نے ان کو قتل کردیا، لیکن جناب عمارۻ نے ان کی مرضی کے مطابق اپنی زبان سے سب کچھ کہہ دیا، اور خوف خدا کی وجہ سے روتے ہوئے پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے ، (واقعہ بیان کیا) تو آنحضرت (ص) نے ان سے فرمایا: ”إنْ عَادُوا لَکَ فَعَدّلَہُم“ اگر پھر کبھی ایسا واقعہ پیش آئے تو جو تم سے کہلائیں کہہ دینا، اور اس طرح آنحضرت (ص) نے ان کے خوف و پریشانی کو دور کردیا۔
مزید توجہ کا حامل ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تقیہ کا حکم سب جگہ ایک نہیں ہے بلکہ کبھی واجب، کبھی حرام اور کبھی مباح ہوتا ہے۔
تقیہ کرنا اس وقت واجب ہے جب بغیر کسی اہم فائدہ کے انسان کی جان خطرہ میں ہو، لیکن اگر تقیہ باطل کی ترویج، لوگوں کی گمراہی اور ظلم و ستم کی تقویت کا سبب بن رہا ہو تو اس صورت میں حرام اور ممنوع ہے۔
اس لحاظ سے تقیہ پر ہونے والے اعتراضات کا جواب واضح ہوجاتا ہے، در اصل اگر تقیہ پر ا عتراض کرنے والے تحقیق و جستجو کرتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ یہ عقیدہ صرف شیعوں کا نہیں ہے بلکہ تقیہ کا مسئلہ اپنی جگہ پر عقل کے قطعی حکم اور انسانی فطرت کے موافق ہے۔(3)
کیونکہ دنیا بھرکے تمام صاحبان عقل و خرد جس وقت ایک ایسی جگہ پہنچتے ہیں جہاں سے دو راستہ ہوں یا تو اپنے اندرونی عقیدہ کے اظہار سے چشم پوشی کریں یا اپنے عقیدہ کا اظہار کرکے اپنی جان و مال اور عزت کو خطرہ میں ڈال دیں، توایسے موقع پر انسان تحقیق کرتا ہے کہ اگر اس عقیدہ کے اظہارسے اس کی جان و مال اور عزت کی قربانی کی کوئی اہمیت اور فائدہ ہے تو ایسے موقع پر اس فدا کاری اور قربانی کو صحیح مانتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں کہ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے تو اپنے عقیدہ کے اظہار سے چشم پوشی کرتے ہیں۔
تقیہ یا مقابلہ کی دوسری صورت
مذہبی، اجتماعی اور سیاسی مبارزات اور تحریک کی تاریخ میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ جب ایک مقصدکا دفاع کرنے والے اگر علی الاعلان جنگ یا مقابلہ کریں تو وہ خود بھی نیست و نابود ہوجائیں گے اور ان کے مقاصد بھی خاک میں مل جائیں گے یا کم سے کم ان کے سامنے بہت بڑا خطرہ ہوگاجیسا کہ غاصب حکومت بنی امیہ کے زمانہ میں حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں نے ایسا ہی کردار ادا کیا تھا، ایسے موقع پر صحیح اور عاقلانہ کام یہ ہے کہ اپنی طاقت کو یونہی ضائع نہ کریں اور اپنے اغراض و مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے غیر مستقیم اور مخفی طریقہ سے اپنی فعالیت و تحریک جاری رکھیں، در اصل تقیہ اس طرح کے مکاتب اور ان کے پیرووٴں کے لئے ایسے موقع پر جنگ و مبارزہ کی ایک دوسری شکل شمار ہوتا ہے جو ان کو نابودی سے نجات دیتا ہے اوروہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تقیہ کو نہ ماننے والے افراد نامعلوم اس طرح کے مواقع پر کیا نظر یہ رکھتے ہیں؟ کیا ان کا نابود ہونا صحیح ہے یا صحیح اور منطقی طریقہ پر اس مبارزہ کو جاری رکھنا؟ اسی دوسرے راستہ کو تقیہ کہتے ہیں جبکہ کوئی بھی صاحب عقل اپنے لئے پہلے راستہ کو پسند نہیں کرتا۔(4)
حقیقی مسلمان ، اور پیغمبر اسلام کا تربیت یافتہ انسان دشمن سے مقابلہ کا عجیب حوصلہ رکھتا ہے، اور ان میں سے بعض ”عمار ۻیاسر کے والد“ کی طرح دشمن کے دباؤپر بھی اپنی زبان سے کچھ کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اگرچہ ان کا دل عشق خدا و رسولۻ سے لبریز ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس راستہ میں اپنی جان بھی قربان کردیتے ہیں۔
ان میں سے بعض خود ”عمارۻ یاسر“ کی طرح اپنی زبان سے دشمن کی بات کہنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر خوف خدا طاری ہوتا ہے، اور خود کو خطا کار اور گناہگار تصور کرتے ہیں، جب تک خود پیغمبر اسلام (ص) اطمینان نہیں دلا دیتے کہ ان کا یہ کام اپنی جان بچانے کے لئے شرعی طور پر جائز ہے؛ اس وقت تک ان کو سکون نہیں ملتا!
جناب ”بلالۻ “ کے حالات میں ہم پڑھتے ہیں کہ جس وقت وہ اسلام لائے اور جب اسلام اور پیغمبر اکرم (ص) کی حمایت میں دفاع کے لئے اٹھے تو مشرکین نے بہت زیادہ دباؤ ڈالا، یہاں تک کہ ان کو تیز دھوپ میں گھسیٹتے ہوئے لے جاتے تھے اور ان کے سینہ پر ایک بڑا پتھر رکھ دیتے تھے اور ان سے کہتے تھے: تمہیں ہماری طرح مشرک رہنا ہوگا۔
لیکن جناب بلالۻ اس بات پر آمادہ نہیں ہوتے تھے حالانکہ ان کی سانس لبوں پر آچکی تھی لیکن ان کی زبان پر یہی کلمہ تھا: ”احد، احد“ (یعنی اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے) اس کے بعد کہتے تھے: خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس کلام سے ناگوارتر تمہارے لئے کوئی اور لفظ ہے تو میں وہی کہتا!(5)
اسی طرح ”حبیب بن زید“ کے حالات میں ملتا ہے کہ جس وقت ”مسیلمہ کذاب“ نے ان کو گرفتار کرلیا اور ان سے پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد رسول خدا ہیں؟ تو اس نے کہا : جی ہاں!
پھر سوال کیا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں؟ تو حبیب نے اس کی بات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ میں نے تیری بات کو نہیں سنا! یہ سن کر مسیلمہ اور اس کے پیروکاروں نے ان کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، لیکن وہ پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہے۔(5)
اس طرح کے دل ہلا دینے والے واقعات تاریخ اسلام میں بہت ملتے ہیں خصوصاً صدر اسلام کے مسلمانوں اور ائمہ علیہم السلام کے پیرووں میں بہت سے ایسے واقعات مو جود ہیں۔
اسی بنا پر محققین کا کہنا ہے کہ ایسے مواقع پر تقیہ نہ کرنا اور دشمن کے مقابل تسلیم نہ ہونا جائز ہے اگرچہ ان کی جان ہی چلی جائے کیونکہ ایسے مواقع پر، پرچم اسلام اور کلمہ اسلام کی سرفرازی مقصود ہے، خصوصاً پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے آغاز میں اس مسئلہ کی خاص اہمیت تھی۔
لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کے مواقع پر تقیہ بھی جائز ہے اور ان سے زیادہ خطرناک مواقع پر واجب ہے، اور کچھ جاہل اور نادان لوگوں کے بر خلاف تقیہ (البتہ خاص مواقع پر نہ سب جگہ) نہ تو ایمان کی کمزوری کا نام ہے اور نہ دشمن کی کثرت سے گھبرانے کا نام ہے اور نا ہی دشمن کے دباؤ میں تسلیم ہونا ہے بلکہ تقیہ انسان کی حفاظت کرتا ہے اور مومنین کی زندگی کو چھوٹے اور کم اہمیت موضوع کے لئے برباد نہ ہونے نہیں دیتا۔
یہ بات پوری دنیا میں رائج ہے کہ مجاہدین اور جنگجو لوگوں کی اقلیت؛ ظالم و جابر اکثریت کا تختہ پلٹنے کے لئے عام طور پر خفیہ طریقہ پر عمل کرتی ہے، اور انڈر گراؤنڈ کچھ لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے اور مخفی طور پر منصوبہ بندی ہو تی ہے، بعض اوقات کسی دوسرے لباس میں ظاہر ہوتے ہیں، اور اگر کسی موقع پر گرفتار بھی ہوجاتے ہیں تو ان کی اپنی گروہ کے اسرار کو فاش نہ کرنے کی پوری کوشش ہوتی ہے ، تاکہ ان کی طاقت فضول نیست و نابود نہ ہونے پائے، اور آئندہ کے لئے اس کو ذخیرہ کیا جاسکے۔
عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مجاہدین کی ایک اقلیت اپنے کو ظاہری اور علی الاعلان پہچنوائے، اور اگر ایسا کیا تو دشمن پہچان لے گا اور بہت ہی آسانی سے ان کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔
اسی دلیل کی بنا پر ”تقیہ“ اسلامی قانون سے پہلے تمام انسانوں کے لئے ایک عقلی اور منطقی طریقہ ہے جس پر طاقتور دشمن کے مقابلہ کے زمانہ میں عمل ہوتا چلا آیا ہے اور آج بھی اس پر عمل ہوتا ہے۔
اسلامی روایات میں تقیہ کو ایک دفاعی ڈھال سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ”التقیة ترس الموٴ من والتقیة حرز الموٴمن “(6) ”تقیہ مومن کے لئے ڈھال ہے، اور تقیہ مومن کی حفاظت کا سبب ہے“۔
(محترم قارئین ! اس بات پر توجہ رہے کہ یہاں تقیہ کو ڈھال سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ معلوم ہے کہ ڈھال کو صرف دشمن کے مقابلہ اور میدان جنگ میں استعمال کیاجاتا ہے)
اور اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ احادیث اسلامی میں تقیہ کو دین کی نشانی اور ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے اور دین کے دس حصوں میں سے نو حصہ شمار کیا گیا ہے، تو اس کی و جہ یہی ہے۔
البتہ تقیہ کے سلسلہ میں بہت زیادہ تفصیلی بحث ہے جس کا یہ موقع نہیں ہے، ہمارا مقصد یہ تھا کہ تقیہ کے سلسلہ میں اعتراض کرنے والوں کی جہالت اور نا آگاہی معلوم ہوجائے کہ وہ تقیہ کے شرائط اور فلسفہ سے جاہل ہیں، بے شک بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں تقیہ کرنا حرام ہے ، اور وہ اس موقع پر جہاں انسان کی جان کی حفاظت کے بجائے مذہب کے لئے خطرہ ہو یا کسی عظیم فساد کا خطرہ ہو، لہٰذا ایسے مواقع پر تقیہ نہیں کرنا چاہئے اس کا نتیجہ جو بھی ہو قبول کرنا چاہئے۔(7)
(1) سورہ نحل ، آیت ۱۰۶
(2) اقتباس ، کتاب آئین ما، صفحہ ۳۶۴
(3) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ ۳۷۳
(4) تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۴
(5) تفسیر فی ظلال ، جلد ۵، صفحہ ۲۸۴
(6) وسائل الشیعہ ، جلد ۱۱حدیث ۶ ، باب ۲۴ /از ابواب امر بالمعروف
(7) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۱، صفحہ