ہدایت وگمراہی خدا کے ہاتھ میں ہے
۱۔ہدایت و گمراہی کی اقسام:ایک مسا فر ایڈرس ہاتھ میں لئے ہو ئے آپ کے پاس آتا ہے اور آپ سے راہنمائی کا تقاضا کرتا ہے ۔آپ کے پاس اسے مقصد تک پہنچانے کے لئے دو راستے ہیں:ایک یہ کہ اس کے ساتھ جاکر کمال نیکی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے منزل مقصود تک پہنچادیں اور خدا حافظ کہہ کر واپس آجائیں۔دوسرا یہ کہ ہاتھ کے اشارہ اور مختلف نشانیوں کے ذریعہ اسے مطلوبہ جگہ کی طرف راہنمائی کریں۔بیشک آپ نے دونوں صورتوں میں منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے اس کی راہنمائی کی ہے ۔لیکن ان دونوں طریقوں میں ایک واضح فرق ہے۔دوسرا طریقہ صرف راستہ دکھاناہے جبکہ پہلاطریقہ”مطلوبہ مقصد تک پہنچانا”ہے ۔قرآن مجید اور اسلامی روایات میں “ہدایت”مذکورہ دونوں معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ایک اور اعتبار سے کبھی ہدایت صرف “تشریعی “صورت کی حامل ہوتی ہے یعنی قوانین اور دستورار کے طریقہ سے واقع ہوتی ہے اور کبھی”تکوینی”صورت کی حامل ہو تی ہے ،یعنی خلقت کے نظام کی راہوں سے ہدایت کی جا تی ہے ،جیسے ایک مکمل انسان بننے کے لئے نطفہ کی مختلف مراحل میں ہدایت۔یہ دونوں معانی بھی قرآن مجید اور روایات میں ذکر ہوئے ہیں ۔ہدایت کی اقسام واضح ہو نے کے بعد ہم اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں۔(ہدایت کے مقابلہ میں گمراہی بھی اسی طرح ہے)۔ہم بہت سی آیات میں پڑھتے ہیں کہ ہدایت اور گمراہی خدا کا کام ہے۔بیشک “راستہ دکھانے”کا تعلق خدا سے ہے ،کیونکہ اس نے انبیاء کو بھیجا ہے اور آسمانی کتا بیں نازل کی ہیں تاکہ انسان کی راہنمائی کریں۔لیکن جبری طور پر “مقصد تک پہنچانا”یقیناارادہ و اختیار کی آزادی کے خلاف ہے۔ چونکہ خدا وند متعال نے منزل مقصود تک پہنچا نے کی تمام قوتیں ہمارے اختیار میں دے رکھی ہیںاور ہمیں توفیق بخشنے والا وہی ہے ،لہذا ہدایت کے یہ معنی بھی خداوند متعال کی طرف سے ہیں،یعنی خدا وند متعال نے تمام عوامل اور مقدمات کو انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے تا کہ وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے۔۲۔ایک اہم سوالیہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کی بہت سی آیات میں پڑھتے ہیں: “خدا وند متعال جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کر تا ہے:جیسے یہ آیت:<فیضلّ اللّٰہ من یشاء ویھدی من یشاء وھو العزیز الحکیم> (سورہ ابراھیم/۴)”خدا جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی۔”۱#بعض افراد قرآن مجید کی دیگر آیات اور خود آیتوں کی ایک دوسرے کی تفسیر کو مد نظر رکھے بغیر ،اس قسم کی آیات کا مشاہدہ کر کے اعتراض کی زبان کھولتے ہیں اور سوال کرتے ہیں :یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا جسے چاہے ہدایت کرے اور جسے چاہے گمراہ کرے؟پس ہمارا کیا قصور ہے؟!اہم بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر کے وقت ہمیشہ دوسری آیات کے ساتھ ان کے رابطہ کو مد نظر رکھنا چاہئے تا کہ ہم ان کے اصلی اور حقیقی مفہوم سے آشنا ہو جائیں۔ہم یہاں پر ہدایت و گمراہی سے مربوط چند دوسری آیات کی نمونہ کے طور پر وضاحت کرتے ہیں تاکہ انھیں مذ کورہ آیت کے ساتھ ملا کر آ پ خود ضروری اور اصلی مطلب کو حاصل کر سکیں :سورئہ ابراھیم کی آیت نمبر ۲۷ میں آیا ہے:<ویضلّ اللّٰہ لظّلمین>”خدا وند متعال ظالمین کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے ۔”۱# اس آیہ شریفہ کا ترجمہ اگر یوں کیا جائے تو مذکورہ اشکال دور ہو جائے گا :”خدا اسے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے جو(گمراہی)چاہتا ہے اور اسے ہدایت دیتا ہے جو”ہدایت”چاہتا ہے ۔توجہ فر مائیے۔ہم سورہ غافر کی آیت نمبر ۳۴ میں پڑھتے ہیں :<کذلک یضلّ اللّہ من ھو مسرف مرتاب>”خدا زیادتی کر نے والے اور شکی مزاج انسانوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے”سورئہ عنکبوت کی آیت نمبر ۶۹ میں ہے:<والّذین جاھدوا فینا لنھد ینّھم سبلنا>”اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے”جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ خدا وند متعال کی مشیت اور اس کا ارادہ بلاوجہ نہیں ہے ،نہ وہ کسی کو بلا وجہ ہدایت کی تو فیق عطا کر تا ہے اور نہ کسی سے بلا وجہ سلب توفیق کر تا ہے۔جو لوگ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہین ،جنگ کی مشکلات کو برداشت کرتے ہیں ،اپنی نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرتے ہیں ،خدا کے دشمنوں کے خلاف ثابت قدمی کا ثبوت دیتے ہیں ،خدا وند متعال نے انھیں ہدایت کر نے کا وعدہ دیا ہے اور یہ وعدہ عین عدالت ہے۔لیکن جو لوگ ظلم وستم کی بنیاد ڈالتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں زیادتی ،شک وشبہہ اور وسواس ایجاد کر نے کی کوشش کرتے ہیں ،خدائے متعال ان سے ہدایت کی تو فیق کو چھین لیتا ہے اور ان اعمال کے نتیجہ میں ان کا دل تاریک اور سیاہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ سعادت کی منزل تک پہنچنے سے محروم ہو جاتے ہیں ۔خدا کی طرف سے گمراہ کر دینے کے معنی یہی ہیں کہ خداوند متعال ہمارے اعمال کے نتیجہ کو ہمارے اختیار میں دے دیتا ہے اور یہ بھی عین عدالت ہے (توجہ فر مائیں!)۳۔کیا خدا کا ازلی علم گناہ کی علت ہے؟!آخری مطلب جو جبر واختیار کی بحث میں بیان کر ناضروری ہے ،وہ جبری عقیدہ کے قائل بعض لوگوں کا “خدا کے ازلی علم”کے عنوان سے پیش کیا جانے والا بہانہ ہے۔وہ کہتے ہیں:کیا خدا وند متعال جانتاتھا کہ فلاں شخص فلاں وقت کسی کو قتل کرنے یاشراب پینے کے جرم کا مرتکب ہو گا؟ اگر آپ کہیں خدا نہیں جانتاتھا ،تو آپ خدا کے علم کا انکار کرتے ہیں ،اور اگر کہیں کہ وہ جانتا تھا تواس شخص کووہ کام ضرور انجام دینا چاہئے ورنہ خدا کا علم واقع کے خلاف ہو گا ۔لہذا خداوند متعال کے علم کو سچ ثابت کر نے کے لئے گناہ گاروں کومجبوراًمرتکب گناہ ہو نا چاہئے اور اطاعت کرنے والوں کو مجبوراً اس کی اطاعت کرنی چاہئے۔لیکن ایسے افراد اپنے گناہوں اور خطاؤں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بہانہ تراشیاں کرتے ہیں ۔حقیقت میں وہ ایک نکتہ سے غافل ہیں کہ ہم کہتے ہیں خداوند متعا ل ازل سے ہی جانتاتھا کہ ہم اپنے ارادہ واختیار سے اطاعت یاگناہ انجام دیتے ہیں،یعنی ہمارا اختیار وارادہ بھی خدا کے علم میں ہے۔پس اگر مجبور ہو جائیں توخدا کا علم جہل میں تبدیل ہو جائے گا ۔(توجہ فر مائیں)اس بات کی مزید وضاحت کے لئے ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں:فرض کیجئے ایک معلم جانتا ہے کہ فلاں شاگرد اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے فیل ہو جائے گا ۔اس کا یہ علم سو فیصد صحیح ہے کیونکہ یہ اس کے کئی برسوں کے تجربوں پر مبنی ہے۔کیا فیل ہو نے کی صورت میں وہ شاگرد اپنے معلم کا گریبان پکڑ کر کہہ سکتا ہے کہ آپ کی پیشین گوئی اور علم نے مجھے فیل ہونے پر مجبور کیا؟!اس سے بھی بہتر مثال یہ کہ فرض کریں ایک نیک اور بے خطا انسان ایک برے حادثہ کے وقوع سے پہلے اس کے بارے میں آگاہ ہو جاتا ہے اور کسی مصلحت کی بناء پر اس معاملہ میں مداخلت نہیں کرتا ہے ،کیا اس نیک اور بے گناہ انسان کاعلم مجرم کی ذمہ داری کو سلب کرے گا اور اسے جرم کا مرتکب ہو نے پر مجبور کرے گا ؟!(دقت فر مائیں)یا فرض کریں کہ ایک ایسی جدید مشین ایجاد ہو جو آئندہ رونما ہو نے والے حادثہ کے بارے میں چند گھنٹے پہلے ہمیں خبر دے ۔ہمیں یہ مشین دقیق اطلاع دیتی ہے کہ فلاں شخص اپنے مکمل اختیار و ارادہ سے فلاں وقت فلاں کام انجام دے گا ۔کیا یہ پیشین گوئی کسی کے لئے جبر و زبر دستی کا سبب بن سکتی ہے ؟!مختصر یہ کہ علم خدا ہرگز کسی کو کسی کام پر مجبور نہیں کرتا ہے۔