معاد اور فلسفہء خلقت

149

قرآن کی تقریباًسو آیتوںمیں خدا کو لفظ حکیم سے یاد کیا گیا ہے ۔اور ہم اس کی حکمت کی نشانیوں کودنیابھر میں دیکھتے ہیں ۔اگر ہم فرض کریں کہ موت زندگی کے خاتمہ کانام ہے اورمرنے کے بعد قیامت نہیں ہے تو خلقت بیکار وعبث ہو جا ئے گی اور حکیم خداکبھی بھی بیکار کام انجام نہیں دیتا ،کیا کوئی سونچ سکتاہے کہ وہ تمام حکمتیں جوخدا نے دنیا کی خلقت کے لئے قرار دی ہیں و ہ سب عبث ہیں اور اس دنیا کا اختتام فنا ونا بودی ہے؟ کیایہ یقین کرنے کے قابل ہے کہ خدا اس دنیا کے دستر خوان کوبچھائے اور دنیا کی تما م ضروریا ت زندگی کو مہیا کرے اور اس کے بعد موت کی وجہ سے یہ ساری چیزیں ختم ہوجائیں اور یہ دنیا کابچھا ہو ا دستر خوان سمٹ جا ئے (رَبَّنَا مَاخَلقَتَ ھذا بَاطِلاً) (١) خد ایا! تونے اس کا ئنات کو بیکا ر وعبث خلق نہیں کیا ہے ۔
لہٰذا حکیم وعلیم خدا پرایمان رکھنا موت کے بعد کی زندگی پر ایمان رکھنے کے برابر ہے یعنی اگرکو ئی وحدانیت کاقائل ہے تو ضروری ہے کہ وہ قیامت پر بھی ایمان رکھتا ہو اس سلسلہ میںبہت ساری آیتیں ہیں جن میں سے بعض کو بطور نمونہ پیش کررہے ہیں ۔(أَفَحَسِبتُم اِنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثاً وَأَنَّکُم اِلَینا لَا تُرجعُونَ)”کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار خلق کیاہے اورتم ہماری طرف پلٹ کرنہیں آئوگے”۔ (2)( وَمَاخَلقَنا السَّمائَ وَالأرَضَ وَمَا بَینَھُمَا بَاطِلاً ذلِک ظَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیل لِلّذِینَ کَفَرُواْ مِنَ النّارِ)”میںنے آسمان وزمین اوراس کے درمیان کی چیزوںکو بیکا ر خلق نہیں کیاہے یہ ان لوگوں کا گمان ہے جو کا فر ہوگئے ہیں پس کافروں کے واسطے جہنم کی آگ ہے”۔ (3) (وَمَا خَلَقَنا السَّمَواتِ وَالأَرضَ وَمَا بَینَھُما اِلّا بِالَحقِّ واِنَّ السَّاعَة لآتِیَةُ فَاصفَح الصَّفَح الجَمِیلَ) ”میں نے آسمان وزمین او ر اس کے درمیان کی چیزوں کو خلق نہیں کیا مگر حق پر اور قیا مت یقینی ہے”۔(4)(أَیَحسَبُ الأَِنسانُ أَنْ یُترک سُدیً أَلَم یَکُ نُطفَةً مِنْ مَنٍِ یُمنیٰ ثُمَّ کَانَ عَلَقةً فَخَلقَ فَسوَّیٰ فَجَعلَ مِنہُ الزَّوجِین الذَّکَرَ وَالأُنثیٰ أَلَیسَ ذَلِک بِقادرٍ علیٰ أَن یُحیَی المَوتیٰ)(5)” کیاانسان کاخیال ہے کہ اسے اس طرح آزاد چھو ڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ اس منی کا قطرہ نہیںتھا جسے رحم میں ڈالا جاتاہے ۔پھر علقہ بناپھر اس کو خلق کر کے برابر کیاپھر اس سے عورت اور مرد کاجوڑا تیار کیا ۔کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے۔؟قرآن میں قیامت کے عینی نمونہعزیر یا ارمیا ی پیغمبر کاقصہ 🙁 أَوکالَّذِ مَرَّعلیٰ قَریةٍ وَھِیَ خَاویةُ علیٰ عُرُوشِھا قاَلَ أَنّی یُحییِ ھذہِ اللَّہُ بَعَدَ مَوتِھا فأَماتہُ اللَّہ مِائةَ عام ثُمَّ بَعَثہُ قَالَ کَم لَبِثتَ قَالَ لَبِثتُ یَوماً أَوبَعضَ یَومٍ قَالَ بَل لبِثتَ مِائةَ عامٍ فَانظُر اِلیٰ طَعامِک وَشَرَابِک لَمْ یَتسنَّہ وَأنظُر اِلیٰ حِمَارِک وَلِنَجعَلک آیةً للنَّاسِ وَانظُر اِلیٰ العِظَامِ کَیفَ نُنشزُھَا ثُمَّ نَکَسُوھَا لَحمًا فَلمَّا تَبَیّنَ لَہُ قَالَ أَعلمُ أَنَّ اللَّہَ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ) (6)”جنا ب عزیر کا ایک دیہات سے گزر ہوا آپ نے دیکھا کہ وہ تباہ وبرباد پڑا ہو اہے ۔ کہا خدا ان مردوں کو کیسے زندہ کریگا خدانے انہیں سوسال کی موت دیدی پھر انہیںزندہ کیا پوچھاکتنے دن تک سوئے رہے کہا ایک دن یا اس سے کم خدا نے کہاتم یہا ں سوسال تک سوتے رہے ہو ذرا اپنے کھانے اورپینے کی طرف دیکھو جو ختم ہوچکا ہے اپنے گدھے کی طرف دیکھو جو خاک میں مل چکا ہے تاکہ میں تمہیں لوگوں کے لئے نشانی قرار دوں اپنی ہڈیوں کیطرف دیکھو کہ انہیں جمع کرکے ان پر گوشت چڑھا یا چونکہ یہ بات ان کے واسطے واضح ہوچکی تھی کہا: جانتا ہو ں خد اہر چیز پر قدرت وطاقت رکھتا ہے ”وہ برباد شہر جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ (بیت المقدس ) تھا اور یہ تباہی بخت النصر کے ذریعہ ہوئی ہے۔حضرت عزیر جب کھانا پانی لے کر اپنے گدھے پر سوار اس شہر سے گذرے دیکھا گھر تباہ اور ا ن کے رہنے والے مٹی میں مل چکے ہیں ان کی ہڈیا ں پرانی ہوکر زمین میں بکھری پڑی ہیں اس المناک منظر نے پیغمبر کوسونچنے پر مجبورکردیا اور خود سے کہنے لگے خدایا! انہیں کب اور کیسے زندہ کرے گا؟۔خدا نے انہیں عملی جواب دیا انہیں اوران کے گدھے کو سوسال تک کے لئے موت دی اس کے بعد پہلے انہیں زندہ کیاتاکہ خد اکی طاقت کا وہ خود اندازہ لگائیں کہ کھانا جو جلدی خراب ہوجاتا ہے تبدیل نہیںہوا اور مردوں کو زندہ ہو تے وہ خو د دیکھ لیں ۔حضرت عزیر نے جیسے ہی اپنی سواری کو زندہ ہو تے دیکھا کہا کہ جانتا ہو ںخدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے یہ آیة اور یہ پیغمبر کا قصہ معاد جسمانی کو ثابت کرنے کے لئے بہترین دلیل ہیں ۔حضرت ابراہیم کاقصہ :(واِذ قَالَ اِبراھیمُ رَبِّ أَرنِی کَیفَ تُحییِ المَو تیٰ قَالَ أَولَم تُؤمِن قَالَ بَلیٰ وَلَکِن لِیَطمَئِنَّ قَلبِی قالَ فَخُذْ أَربعةً مِنَ الطَّیرِ فَصُرھُنَّ اِلِیک ثُمَّ اجعَلْ علیٰ کُلِّ جَبَلٍ مِنھُنَّ جُزأً ثُمَّ ادعُھُنَّ یَأتِینَک سَعیًا وَأَعلمْ أَنَّ اللَّہَ عَزَیزُحَکیمُ)(7) ”جناب ابراہیم نے عرض کیا بارالہا! مجھے دکھا دے کیسے مردوں کو زندہ کرے گا؟ خدا نے کہامگر تمہیں ہم پرایمان نہیں ہے کہا ہے تو مگر چاہتا ہو ں دل کو سکون مل جائے کہا چار طرح کے پرندوں کو جمع کرو (مرغ ،مور ،کبوتر ، کوا،)انہیں ذبح کرکے گوشت پہا ڑ پر رکھد و او ر ان کے ہر جزء کو اللہ کے نام پر بلا ئو وہ دوڑے چلے آئیں گے اورجان لو کہ خدا بڑی حکمت والا ہے” ۔مفسرین نے اس آیة کے ذیل میں لکھا کہ حضرت ابراہیم دریا کے کنارے سے گذر رہے تھے ایک مردے کو دیکھا کہ جو دریا کے کنارے پڑا ہے مردہ خور جانور اس کے چاروںطر ف جمع ہیں اورکھا رہے ہیں جب حضرت ابراہیم نے اس منظر کودیکھا تو مردوں کے زندہ ہونے کے بارے میںسونچنے لگے کہ وہ کس طرح زندہ کئے جا ئیں گے (کیونکہ اس مردہ کا گوشت دوسرے کا جزء بن چکا تھا ) جبکہ جناب ابراہیم کو علم الیقین تھا کہ خد امردوں کو زندہ کرے گا لیکن اسے آنکھو ں سے زندہ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے ۔
مقتول بنی اسرائیل کاقصہ:(واِذَ قَتَلتُم نَفسًا فَادَّارَأتُم فِیھَا واللَّہ ُمخرِجُ مَاکُنتُم تَکتُمُونَ فَقُلنَا اَضرِبُوہُ بِبَعضِھَا کَذَلِک یُحیِی اللَّہُ المَوتیٰ وَیُرِیکُم آیاتِہِ لَعلَّکُم تَعقِلُونَ )(8)”جب تم لوگو ں نے ایک شخص کو قتل کرکے اس کے سلسلے میں اختلاف کیا کہ کس نے قتل کیا ہے جسے تم چھپانا چاہتے تھے خدااسے ظاہر کرتاہے پس ہم نے کہا اس گائے کا کچھ حصہ اس مقتول کے بدن پر مارو خدا مردوں کو اس طرح زندہ کرتاہے آیت خود تمہیں دکھا رہی ہے شاید عقل سے کام لو ”۔بنی اسرائیل کا ایک آدمی مخفیانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا اس کے قاتل کے سلسلے میں اختلاف ہوا ہر قبیلہ دوسرے قبیلے پر الزام لگا رہا تھا قریب تھاکہ ایک جنگ چھڑ جائے ان لوگوں نے جنا ب موسی سے مدد چاہی جناب موسی نے لطف خدا سے ان کی مددکی حکم خدا کے مطابق گائے کو ذبح کرکے اس کے گوشت کومقتول کے جسم پرمارا وہ شخص تھوڑی دیر کے لئے زندہ ہوگیا اور قاتل کی شناخت کی یہ معا د اور مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بھی دلیل ہے ۔قوم موسی ٰسے ستر آدمیوںکا زندہ ہو نا :(وَاِذ قُلتُم یَامُوسیٰ لَن نُؤمِنَ لَک حتیٰ نَرَیٰ اللَّہَ جَھَرةً فَاَخذتکُم الصَّاعِقَةُ وَأَنتُم تَنظُرُونَ ثُمّ بَعَثناکُم مِن بَعدِ مَوتِکُم لَعلَّکُم تَشکُرُونَ) جب تم لوگو ں نے موسی سے کہا کہ ہم اس وقت تک خدا پرایمان نہیں لائیں گے جب تک اپنی آنکھو ں سے دیکھ نہ لیں پھر بجلی نے (موت ) تم سب کواپنی لپیٹ میں لے لیا اورتم دیکھتے رہے پھر ہم نے تم سب کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا تاکہ تم شکر گذار بن جائو ،بنی اسرائیل کے سرکردہ افراد جنا ب موسی کے ساتھ کو ہ طور پر گئے تھے اور خداکو اپنی آنکھو ں سے دیکھنے کی بات دہرائی موت کی بجلی چمکی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوا حضرت موسی ٰبے ہو ش ہو گئے بنی اسرائیل کے نمائندوں کو موت نے اپنی آغوش میں لیا پھر خدا نے انہیں زندہ کیا تاکہ اس کی نعمت کا شکریہ اداکریں۔ (9)قیامت کو ثابت کرنے کے لئے قرآ ن کی دوسری دلیل ہے جس میں مردے کوزندہ کیاگیاہے ۔…………..(١) آل عمران ١٩١ (2) مومنون آیة: ١٥ ١(3) سورہ ص آیة: ٢٧(4) سو رہ حجر آیة: ٨٥(5) سورہ قیامت آیة: ٣٦۔٤٠ (6)سورہ بقرہ آیة :٢٥٩ (7) سورہ بقرہ :٢٦٠ (8) سورہ بقرہ آیة٧٢ تا٧٣ (9) سو رہ بقرہ آیة ٥٥

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.