انبیاء کیوں معصوم ہیں ؟

115

گناہ و خطا سے پاک ہو نابلا شک وشبہہ ہر نبی کے لئے ہرچیز سے پہلے تمام لوگوں کا اعتماد حاصل کر نا ضروری ہے تاکہ لوگ اس کی بات کے بارے میں جھوٹ اور غلطی کا احتمال تک نہ دیں ورنہ اس کی رہبری کا منصب متزلزل ہو جا ئے گا۔اگر انبیاء معصوم نہ ہوں تو بہانہ تراشی کر نے والے اس وجہ سے کہ انبیاء غلطی کرتے ہیں اور حقیقت پسند لو گ ان کی دعوت کی باتوں میں غیریقینی حالت کی وجہ سے ا ن کی دعوت کو قبول کر نے سے اجتناب کریں گے یا کم از کم اعتماد واطمینان کے ساتھ ان کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔اس دلیل کو ہم”اعتماد کی دلیل”کہہ سکتے ہیں اور یہ عصمت انبیاء کے دلائل میں سے ایک اہم دلیل ہے۔دوسرے الفاظ میں: یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند متعال ایک انسان کی بلا قید و شرط اطاعت کر نے کا حکم دیدے جبکہ ممکن ہے وہ انسان خطا یا گناہ کا مرتکب ہو جائے؟ کیا اس حالت میں لوگ اس کی اطاعت کر سکتے ہیں ؟اگر وہ اطاعت کریں تو ان کی اطاعت خطا و گناہ کی پیروی ہو گی اور اگر اطاعت نہ کریں تو اس کی رہبری کا منصب متزلزل ہو گا،خاص کر جبکہ انبیاء کی رہبری دوسروں کی رہبری سے مکمل طور پر متفاوت ہے ،کیونکہ لوگ اپنے تمام اعتقادات اور زندگی کے اصول و قوانین میں ان ہی انبیاء سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب عظیم مفسرین قرآن مجید کی آیہ شریفہ:”اطیعوا اللّہ واطیعواالرسول واولی الامر منکم “(سورہ نساء/۵۹)”اللہ کی اطاعت کرو اور رسول وصاحبان امر کی اطاعت کرو۔”پر پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں:کس قید وشرط کے بغیر اطاعت کر نے کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ نہ صرف انبیاء معصوم ہیں بلکہ”اولی الامر”بھی معصوم ہیں۔اولوالامر سے مقصود وہ ائمہ ہیں جوپیغمبرکی طرح معصوم ہیں وگر نہ خداوند متعا ل بے قید وشرط ان کی اطاعت کر نے کا حکم نہیں دیتا ۔ایک دوسرا طریقہ،جس سے انبیاء کے ہر گناہ کے مقابلہ میں معصوم ہو نے کو ثابت کیا جاسکتا ہے،یہ ہے کہ”انبیاء کے وجود میں گناہ کے عوامل واسباب کا میاب نہیں ہو تے ہیں۔”اس کی وضا حت یوں کی جاسکتی ہے کہ جب ہم اپنے اندر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہم بھی بعض گناہوں یا برے کاموں کے مقابلہ میں تقریباًمعصوم ہیں۔درج ذیل مثالوں پر غور فر مائیے:کیا آپ کسی ایسے عاقل انسان کو پیدا کر سکتے ہیں جوآگ کو کھالے؟یاکوڑا کرکٹ اور کسی گندی چیز کو نگل لے؟کیا آپ کسی باشعور کو بالکل برہنہ ہو کر گلیوں اور بازاروں میں گھومتے ہو ئے پیدا کر سکتے ہیں؟یقینا کسی با شعورانسان کو ایسا کام کر تے ہوئے پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اگر ہم کسی شخص کو ایسا کرتے دیکھیں تو یقین پیدا کریں گے کہ اس کا دماغ ٹھیک نہیں ہے اور وہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے ورنہ عام طور پر محال ہے کہ کوئی عاقل شخص اس قسم کا کوئی کام انجام دے۔جب ہم اس قسم کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے اعمال کی برائی ہمارے لئے اس قدر واضح ہے کہ کوئی بھی عاقل انسان ان کاموں کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔یہاں پر ہم ایک مختصر جملہ میں اس حقیقت کو مجسم کر کے بتا سکتے ہیں کہ ہر عاقل اور صحیح وسالم شخص بعض بُرے اور ناشائستہ کا موں کی نسبت “محفوظ”یادوسرے الفاظ میں ایک طرح “معصوم “ہو تا ہے۔اس مرحلہ سے آگے بھی ہم بعض ایسے اشخاص کو پاتے ہیں جو کئی دوسرے برے کاموں کے مقابلہ میں بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں جبکہ عام لوگوں سے ایسا ممکن نہیں ہے۔مثال کے طور پر ایک آگاہ اور ماہر طبیب جو جراثیم کے مختلف انواع و اقسام کو بخوبی جانتا ہے ،ہر گز ایسے آلودہ پانی کو نہیں پیتا جس میں خطرناک متعدی بیماریوں میں مبتلا بیماروں کے کپڑے دھوئے گئے ہوں،جبکہ ممکن ہے ایک ان پڑھ اور ناآگاہ شخص اس قسم کی چیز کو اہمیت نہ دے۔بہر حال ہم ایک سادہ تجزیہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ایک موضوع کے بارے میں جس قدر انسان کی آگاہی زیادہ ہو وہ برے کاموں سے زیادہ محفوظ رہ سکتا ہے۔اس حساب سے اگر کسی کے”ایمان”اور “علم وآگاہی”کی سطح اس قدر بلند ہو جائے کہ وہ خداوند متعال اور اس کی عدالت کے بارے میں ایسا اعتقاد ویقین پیدا کرے کہ گویا انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے حاضر وناظر مشاہدہ کر رہا ہے ،تو ایسا انسان تمام گناہوں کے مقابلہ میں محفوظ رہے گا اور اس کے سامنے ہر برا کام ویسا ہی ہو گا ،جیسا ہماری نظروں میں کوچہ و بازار میں مادر زاد ننگا گھومنا ہے۔اس کے لئے حرام مال بالکل آگ کے شعلہ کے مانند ہو گا ،جس طرح ہم آگ کو اپنے منہ میں نہیں ڈالتے ،وہ بھی حرام مال کو اپنے منہ کی طرف نہیں لے جاتا ہے۔اس گفتگو سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ انبیاء اپنے غیر معمولی علم وآگاہی کے پیش نظرگناہ کے عوامل پرکنٹرول رکھتے ہیں اور گناہ کے ہیجان انگیز ترین عوامل بھی ان کی عقل وایمان پر حاوی نہیں ہو سکتے،اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ انبیاء معصوم ہیں اور ہر قسم کے گناہوں سے پاک ومنزّ ہیں۔عصمت کا مرتبہ کیسے فضیلت کا سبب بن سکتا ہے؟بعض افراد جو عصمت کے مفہوم اور گناہوں سے بچنے کے عوامل کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے ،اعتراض کرتے ہیں کہ اگر خداوند متعال کسی کو گناہ سے بچائے اور گناہ کے عوامل کو اس میں ختم کردے تو یہ اس کے لئے کوئی فضیلت نہیں ہو سکتی ہے !کیونکہ یہ ایک جبری عصمت ہے اور جبری عصمت فضیلت شمار نہیں ہوتیلیکن ہماری مندرجہ بالا وضا حت کے پیش نظر اس اعتراض کا جواب مکمل طور پر واضح ہو گیا ہے :انبیاء کی عصمت میں کسی بھی قسم کا اجباری پہلو نہیں ہے بلکہ ان میں موجود قوی ایمان ،محکم اور غیر معمولی علم وآگاہی ان کے لئے عصمت کی ایک عظیم فضیلت حاصل ہو نے کا سبب بنتے ہیں ۔اگر ایک آگاہ و ماہر طبیب بیماری پھیلانے والے عوامل کے مقابلہ میں شدید پرہیزکا مظاہرہ کرے تو کیا یہ اس کی مجبوری شمار کی جائے گی ؟!اگر ایسا شخص حفظان صحت کے اصولوں کی پوری طرح رعایت کرے تو کیا یہ کام اس کی ایک فضیلت شمار نہیں ہوگی؟اگر ایک قانون دان کسی خطرناک جرم کے عدالت میں ہولناک نتائج کے پیش نظر اس سے سخت پرہیز کرتا ہے تو کیا یہ اس کی فضیلت شمار نہیں ہوگی ؟پس ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انبیاء کے معصوم ہو نے میں نہ صرف اختیاری پہلو ہے بلکہ یہ ان کے لئے ایک بڑی فضیلت بھی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.