پیغمبر اسلام( صلی الله علیه واله والسلم ) کاسب سے بڑا معجزہ
لافانی معجزہتمام علمائے اسلام کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ قرآن مجید،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے ۔یہ جو ہم کہتے ہیں کہ یہ سب سے بڑا معجزہ ہے ،یہ اس لئے ہے کہ :۱۔قرآن مجیدایک عقلی معجزہ ہے ،جس کا لوگوں کی روح اور فکر سے سر وکار ہے۔۲۔یہ ایک ابدی،لا فانی اور ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے۔۳۔یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو گزشتہ چودہ صدیوں سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے :”اگر تم لوگ یہ کہتے ہو کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئی ہے تو اس کے مانند کوئی اور کتاب پیش کرو۔”قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کھل کر چلینج کی صورت میں اس قسم کے مقابلہ کی دعوت دی گئی ہے :ایک جگہ پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:<قل لئن اجتمعت الا نس والجن علی ان یاٴتوا بمثل ھٰذا القرآن لا یاٴ تون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیراً>(سورہ اسرار/۸۸)” آپ کہدیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لا سکتے،چاہے سب ایک دوسرے کے مدد گار اور پشت پنا ہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔”دوسری جگہ پر اس چیلنج کی شرط کو آسان تر کرتے ہوئے فر ماتا ہے :<ام یقولون افترٰیہ قل فاٴتوا بعشر سور مثلہ مفتریٰت وادعوا من استطعتم من دون اللّٰہ ان کنتم صٰدقین> (سور ہ ہود /۱۳)”کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہدیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آو۔اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگر تم اپنی بات میں سچےّ ہو۔”اس کے بعد خاص طور پر مزید فر ماتا ہے کہ اگراس دعوت کو ان لوگوں نے قبول نہیں ،تو جان لینا کہ یہ آیات خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔” ( سورہ ہود/۱۴)ایک بار اور مقابلہ کی شرائط کو کم سے کم کرتے ہوئے فر ماتا ہے:<وإن کنتم فی ریب ممّا نزّلنا علی عبدنا فاتوا بسورة من مثلہ وادعوا شھدا ئکم من دون اللّٰہ إن کنتم صٰدقین>(سورہ بقرہ/۲۳)”اگرتمھیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک ہی سورہ لے آو ۔اور اللہ کے علاوہ جتنے تمھارے مدد گار ہیں سب کو بلا لو اگر تم اپنے دعوت اور خیال میں سچےّ ہو۔”اس کے بعد والی آیت میں واضح طور سے فر ماتا ہے:<فإن لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتّقوا النّار الّتی وقودھا النّاس والحجارةُ اُعدّت للکٰفرین>( سورہ بقرة/۲۴)”اور اگر تم(کفار) ایسا نہ کر سکے اور یقینانہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافرین کے لئے مہیا کیاگا ہے۔”قرآن مجید کے منکرین کوپے در پے اس قسم کی دعوت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے معجزہ ہو نے پر زیادہ بھروسہ فر ماتے تھے۔ اگر چہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور بھی متعدد معجزات نقل ہوئے ہیں ،جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔چونکہ قرآن مجید ایک زندہ معجزہ ہے اور ہم سب کی اس تک آسانی کے ساتھ رسائی ہے ،اس لئے ہم معجزات کی بحث میں زیادہ تراسی پر تکیہ کرتے ہیں۔
اس چیلینج کے مقابلہ میں مخالفین کا عجزیہ ایک دلچسپ بات ہے کہ قرآن مجید نے مقابلہ کی دعوت کے سلسلہ میںمخالفین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا ہے،اور مختلف بھڑ کانے والی عبارتوں سے ان کو دعوت دی ہے تا کہ کسی کے لئے کوئی بہانہ اور عذر باقی نہ رہے۔جیسے:”اگر سچ کہتے ہو”ہر گز نہیں کرسکتے “،”تمام لوگوں سے مدد لے لوکم ازکم اس جیسا ایک سورہ لے آؤ۔”اور “اگر کافر ہوگئے تو جلا دینے والی آگ تمھارے انتظار میں ہے۔”یہ تعبیریں اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں۔یہ سب ایک طرف،دوسری طرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے مخالفین سے کوئی آسان مقابلہ نہیں تھا ،کیونکہ اسلام نے نہ صرف ان کے مذہب کو خطرہ میں ڈال دیاتھا،جس پر وہ سختی سے پابند تھے بلکہ ان کے اقتصادی اور سیاسی منافع حتی ان کے وجود کو بھی خطرہ میں ڈال دیا تھا۔دوسرے الفاظ میں اسلام کی ترقی اور نفوذ نے ان کی پوری زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا تھا۔لہذا وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کے لئے میدان میں آنے پر مجبور تھے۔انھیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہتّھا کر نے کے لئے ہر قیمت پر قرآن مجید کی جیسی چند آیتوں کو لانا چاہئے تھا تا کہ اس کے بعد قرآن ان کو چیلینج دے کرانھیں عاجز اور ناتوان نہ کر سکتا اور اپنی حقانیت کی سند پیش نہ کر سکتا۔انہوںنے اپنے زمانہ کے فصاحت و بلاغت میں کمال رکھنے والے تمام عربوں سے مدد طلب کی ،لیکن جب بھی قرآن مجیدکے مقا بلہ میں آئے ،توشکست سے دو چار ہو ئے اور پیچھے ہٹ گئے کہ اس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
ولید بن مغیرہ کا واقعہقرآن مجید سے مقابلہ کر نے کے لئے بلائے گئے لو گوں میں “ولید بن مغیرہ” بھی شامل تھا ۔اس کا تعلق قبیلہء “بنی مخزوم”سے تھا ۔جو اس زمانہ میں عربوں کے در میان حسن تد بیر اور فکر صائب کے لحاظ سے بڑی شہرت کا حامل تھاکفار نے اس سے درخواست کی کہ اس سلسلہ میں غور وخوض کر کے قرآن مجید کی عجیب وغریب آیات اور ان کے غیر معمولی نفوذ کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کرے۔”ولید نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ قرآن مجیدکی چند آیات کی تلاوت فر مائیں ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے “سورہ حم سجدہ”کی چند آیات کی تلاوت فر مائی ۔ان آیات نے ولید کے اندر ایسا اضطراب اور ہیجان پیدا کیا کہ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور” قبلہ نبی مخزوم”کی منعقد شدہ محفل میں جا پہنچا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا:خدا کی قسم میں نے محمد(ص) سے ایسا کلام سنا ہے کہ نہ انسان کے کلام کے مانند ہے اور نہ جن اور پریوں کے کلام کے مانند… اس کے بعد ولیدبن مغیرہ نے یوں کہا:”وان لہ لحلاوةواٴن علیہ لطلاوةواٴن اٴعلا ہ لمثمر و اٴن اسفلہ لمغدق وانہ یعلمو ولا یعلی علیہ۔”ان کے کلام میں ایک خاص مٹھاس اور زیبائی ہے ،(ایک درخت کے مانند)اس کا اوپری حصہ میوؤں سے بھرا ہوا اور اس کی جڑ مضبوط ہے۔یہ ایک ایسا کلام ہے جو ہر چیز پر غالب ہے اور کوئی چیز اسے مغلوب نہیں کر سکتی ہے۔ولید کے یہ کہنے سے قریش کے در میان یہ آواز گونجنے لگی کہ ولیدبن مغیرہ محمد کا دلداد ہ ہو گیا ہے!”ابو جہل”نے فوراً مغیرہ کے گھر جاکر قریش میں پھیلی ہوئی یہ بات اس کو بتائی اور اسے قریش کی مجلس میں آنے کی دعوت دی۔ولید بن مغیرہ نے قریش کی مجلس میں آکر کہا:”کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ (محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانہ ہو گیا ہے ؟کیا تم لوگوں نے کبھی اس میں دیوانگی کے آثار دیکھے ہیں؟!حاضرین نے کہا:”نہیں”پھر ولید نے پوچھا:کیا تم لوگ خیال کرتے ہو کہ وہ جھوٹ بولتا ہے ؟کیا اب تک وہ تم لوگوں میں ایک سچے اور امین شخص کی حیثیت سے مشہور نہیں تھے اور اسے تم صادق وامیں نہیں کہتے تھے؟!قریش کے بعض سرداروں نے کہا:پھر ہم اس کی طرف کون سی نسبت دیں؟ولید نے تھوڑی دیر غور وفکر کر کے کہا :تم لوگ کہو:وہ ساحر ہے ۔اگر چہ کفار اس تعبیر سے قرآن مجید کے چاہنے والوںکو اس سے جدا کر نا چاہتے تھے ۔لیکن یہ تعبیر “ساحر”خود اس بات پر ایک زندہ دلیل تھی کہ قرآن مجید غیر معمولی طور پر جذب کر نے والی پر کشش کتا ب ہے ،لہذا انہوں نے اس جذب کرنے والی قوت کا نام سحر رکھا،جبکہ اس کا سحر سے کوئی ربط نہیں تھا۔اس کے بعد کفار قریش نے ہر جگہ اس کازبردست پروپیگنڈا کر نا شروع کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہر جادوگر ہے اور یہ آیات اس کے جادو ہیں،اس سے دوری اختیار کریں اور اس کا کلام سننے سے پر ہیز کریں۔!لیکن تمام کو ششوں کے باوجودان کی یہ ریشہ دوانیاں کا میاب نہ ہو سکیں اور ہر گوشہ و کنار میں موجودحقیقت کے پاک دل پیاسے جوق در جوق قرآن مجید کی طرف آتے رہے اور اس الہی پیغام کے آب زلال سے سیراب ہو تے رہے ۔اس طرح قرآن مجید کے دشمن شکشت کھا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔آج بھی قرآن مجید تمام دنیا والوں کو چیلینج کرتے ہوئے مقابلہ کی دعوت دے رہا ہے اور پکار پکار کے کہہ رہاہے:اے ہر قوم و ملت کے دانشورو،اے فلاسفہ،اے ادیبو اور اے اہل قلم !اگر تم قرآن مجیدکی آیات کے بارے میں شک وشبہہ رکھتے ہو اور انھیں انسانی عقل وفکر کی اختراع سمجھتے ہو تو تم بھی اس کے مانند کلام لے آؤ!ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام کے دشمن بالخصوص عیسائی پادری(جو اسلام کو ایک انقلابی اور بامعنی دین کی حیثیت سے اپنے لئے سخت اور خطر ناک رقیب جانتے ہیں)ہر سال اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر نے پر کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور مختلف اسلامی ممالک میں گونا گوں ثقافتی ،علمی ،علاج و معالجہ اور صحت عامہ کے پرو گراموں کی آڑ میں سرگرم عمل ہیں ۔ان کے لئے بہت آسان ہو تا اگر وہ عربی زبان کے عیسائی دانشوروں،شاعروں ،اہل قلم اور فلاسفہ کو دعوت دیتے تاکہ وہ قرآن مجید کی سورتوں کے مانند چند سورتیں لکھ کر ان کی تشہیر کر کے مسلمانوں کا منہ بند کردیں!!اگر ان کے لئے یہ ممکن ہو تا توقطعاً وہ اس کام کو ہر قیمت پر انجام دینے سے گریزکرتے۔اس موضوع کے مقابہ میں ان کی ناتوانی قرآن مجید کے مخالفین کی برُی شکست اور قرآن مجید کے لا فانی معجزہ ہو نے پر واضح اور روشن دلیل ہے۔