(صلی الله علیه واله والسلم) کا خاتم الانبیاء ہونا
خاتمیت کا صحیح مفہوم(صلی الله علیه واله والسلم) خداوند متعال کے آخری نبی ہیں اور نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوتاہے۔ یہ “دین اسلام کی ضروریات” میں سے ہے۔”ضروری” کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ جو بھی شخص مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوجائے، جلدی ہی سمجھ لے گا کہ تمام مسلمان اس مطلب کا عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ ان کے نزدیک واضح اور مسلّم ہے۔یعنی جس طرح کوئی شخص مسلمانوں سے سروکار رکھتاہو،تو وہ جانتا ہے کہ مسلمان مذہبی لحاظ ہے”توحید” کی اصل پر سختی سے قائل ہیں، اسی طرح وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تمام مسلمان (صلی الله علیه واله والسلم) کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ پر اتفاق رکھتے ہیںا ورمسلمانوں کا کوئی گروہ کسی نئے نبی کے آنے کا منتظر نہیں ہے۔حقیقت میں انبیاء کی بعثت کے ساتھ قافلہ بشریت نے اپنے تکامل کے مختلف مراحل کو یکے بعد دیگرے طے کیا ہے اور بالآخر انسان رشد وتکامل ایک ایسی منزل پر پہنچ گیاہے، جہاں پر وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتاہے۔ یعنی”اسلام کی جامع تعلیمات” سے استفادہ کرکے اپنی مشکلات کو حل کرسکتاہے۔دوسرے الفاظ میں، اسلام کمال بشریت کے دور کا آخری اور جامع قانون ہے۔ عقائد کے لحاظ سے دینی بصیرت کا مکمل نمونہ اور عمل کے حوالے سے بھی ایسا منظم قانون ہے جو ہر زمان و مکان میں انسان کی تمام ضروریات کے مطابق ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کی دلیلاس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے دلائل ہمارے پاس کئی موجود ہیں کہ ان میں سے واضح تر درج ذیل تین دلیلیں ہیں:۱۔ اس مسئلہ کا ضروری ہونا: ہم نے کہا کہ جو بھی شخص دنیا کے مسلمانوں سے جہاں کہیں بھی رابطہ قائم کرے، اسے معلوم ہوگا کہ وہ (صلی الله علیه واله والسلم) کے خاتم الانبیاء ہونے کے قائل ہیں۔ اس لئے اگر کوئی شخص اسلام کو دلیل و منطق کی بنیاد پر قبول کرے، تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ (صلی الله علیه واله والسلم) کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو بھی قبول کرے، کیونکہ ہم نے گزشتہ اسباق میںاس دین کی حقانیت کو بہت سی دلیلوں کے ذریعہ ثابت کیا ہے، لہذٰ (صلی الله علیه واله والسلم) کے خاتم الانبیاء ہونے کے عقیدہ کو بھی قبول کرنا چاہئے، کیونکہ یہ اس دین کی ضروریات میں سے ہے۔۲۔ قرآن مجید کی آیات بھی (صلی الله علیه واله والسلم) کے خاتم الانبیاء ہونے پر واضح اور روشن دلیل ہیں ، جیسے سورہ احزاب کی آیت نمبر۴۰ میں ارشادہواہے:< ما کان محمد ابااحد من رجا لکم ولکن رسول اللّٰہ و خاتم النّبیّن>” محمد تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں”قرآن مجید نے یہ تعبیر اس وقت پیش کی ہے جب عربوں میں منہ بولابیٹا بنانے کا رواج تھا۔ وہ کسی دوسرے ماں باپ کے بچے کو اپنے بیٹے کے طور پر لے لیتے تھے اور وہ ایک حقیقی فرزند کے عنوان سے اس خاندان میں داخل ہوتاتھا، محرم ہوتاتھا اور وارث بن جاتاتھا۔لیکن اسلام نے اس جاہلانہ رسم کو ختم کرتے ہوئے فرمایا:” لے پالک بچے ہرگز حقیقی فرزندوں کی طرح شرعی اور حقوقی قوانین مین شریک نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے ایک “زید” بھی تھے جن کی پرورش آنحضرت (ع) نے فرمائی تھی، وہ بھی آپ کے فرزند کہے جا تے تھے۔ لہٰذا قرآن مجید فرماتاہے: بجائے اس کے کہ تم لوگ (صلی الله علیه واله والسلم) کو ان لوگوں مین سے کسی کے باپ کے عنوان سے پکارو آنحضرت کو دو اصلی اور حقیقی اوصاف یعنی”رسالت” و ” خاتمیت” کے عنوان سے پکارو۔اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاخاتم الانبیاء ہو نا آپکی رسالت کے مانند سبوں کے لئے واضح،ثابت اور مسلّم تھا۔صرف یہ سوال باقی ہے کہ”خاتم”کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟”خاتم””ختم”سے بنا ہے۔اس کا معنی ختم کر نے والا اور وہ چیز ہے جس کے ذریعہ کسی کام کو ختم کیا جائے ۔مثلاًہر خط کے اختتام پر لگائی جانے والی مہرکو ” ختم” کہتے ہیں ۔انگوٹھی کو بھی اس لئے “ختم”کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں انگوٹھی کا نگینہ کو مہر کی جگہ پر استعمال کیا جاتاتھا ،ہر ایک اپنے خط کے آخر پر اپنی انگوٹھی کے نگینہ سے مہر لگاتاتھا ،جس پر اس کا نام یاکوئی اور نقش کندہ ہوتاتھا ،ہر ایک کی انگوٹھی کا نقش اس شخص سے مخصوص ہوا کرتاتھا۔اسلامی روایات میں مذکورہے:جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس زمانہ کے کسی بادشاہ یا حکمراںکو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خظ لکھنا چاہتے تھے ،تو آپ کی خد مت میں عرض کی گئی کہ عجم کے بادشاہ مہر کے بغیر خط کو قبول نہیں کرتے ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک بالکل سادہ اور مہر کے بغیر خط تحریر فر ماتے تھے ۔اس تجویز کے بعد آپ نے حکم فر مایا کہ آپ کے لئے ایک ایسی انگوٹھی بنائی جائے جس کے نگینہ پر کلمہ “لا الہ الا الّلہ محمّٰد رسول اللّٰہ “نقش ہو ۔اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے تمام خطوط پر یہ مہر لگائی جاتی تھی۔اس لئے “خاتم”کا اصلی معنی ختم کر نے والا آخر تک پہنچانے والا ہے۔۳۔بہت سی ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جن سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہو نا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے ۔ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں:الف:جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کی گئی ایک معتبر حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا :”انبیاء کے در میان میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک خوبصورت عمارت تعمیر کی ہو ،لیکن اس عمارت میں ایک جگہ صرف ایک اینٹ لگانا باقی ہو ،جو بھی اس عمارت میں داخل ہو تا ہے ،اس خالی جگہ پر نظر ڈالتے ہی کہتا ہے:کتنی خوبصورت ہے یہ عمارت لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے ۔میں وہی آخری اینٹ ہوں اور نبوت کا سلسلہ مجھ پر ختم ہو گیا ہے۔” (تفسیر مجمع البیان )حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں:”حلال محمد حلال اٴبداًالیٰ یوم القیامة وحرامہ حرام اٴبداً الیٰ یوم القیامة۔””حلال محمدہمیشہ ہمیشہ قیامت تک حلال ہے اور حرام محمد ہمیشہ ہمیشہ قیامت تک حرام ہے” (اصول کافی ،ج۱،ص۵۸)شیعہ اورسنّی راویوں سے نقل کی گئی ایک مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فر مایا:”انت منیّ بمنزلة ھارون من موسیٰ الاّ اٴنہ ّ لا نبیّ بعدی۔””آپ کی میرے ساتھ وہی نسبت ہے ،جو ہارون کی حضرت موسیٰ سے تھی ،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔”اس قسم کی دسیوں احادیث موجود ہیں ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہو نے کے سلسلہ میں کچھ سوالات ایسے ہیں جن پر غور کر نا ضروری ہے :
پہلاسوال:بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر انبیاء کی بعثت خدا کی طرف سے ایک بڑا فیض ہے،تو ہمارے زمانے کے لوگ کیوں اس عظیم فیض وبر کت سے محروم ہیں ؟اسی زمانہ کے لوگوں کی ہدایت و رہنما ئی کے لئے کیوں ایک نئے راہنما کو نہیں بھیجا جاتا؟جواب:ایسا کہنے والے حقیقت میں ایک اہم نکتہ سے غافل ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے زمانہ میں کسی نبی کے مبعوث نہ ہو نے کا سبب اس زمانہ کے لوگوں کا بے لیاقت اور نا اہل ہو نا نہیں ہے،بلکہ اس لئے ہے کہ قافلہ بشریت علم و فکر کے لحاظ سے ایک ایسی منزل تک پہنچ گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے استفادہ کر کے خود آگے بڑھ سکتا ہے۔اس بات کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں پر ایک مثال پیش کرتے ہیں: اولو العزم نبی،یعنی صاحب شریعت اور صاحب کتاب نبی،پانچ ہیں:”حضرت نوح(ع)، حضرت ابراھیم(ع)،حضرت موسیٰ(ع)،حضرت عیسیٰ(ع)،اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ علیہم السلام”۔ان میں سے ہر ایک نے ایک خاص زمانے میں لوگوں کی ہدایت اور ان کے رشد و تکامل کے لئے انتھک کوششیں کی ہیں اور قافلہ بشریت کو ایک مرحلہ سے گزار کر دوسرے مرحلہ میں ایک دوسرے اولوالعزم پیغمبر کے حوالے کیا ہے۔یہاں تک کہ یہ قافلہ اپنی آخری منزل تک پہنچ کر اس قابل ہو گیا کہ خود اپنے راستے پر آگے بڑھ سکے ۔اس کی مثال اس طالب علم کی ہے جو اپنی تعلیم کے مختلف پانچ مراحل طے کر کے فارغ التحصیل ہو تا ہے:(البتہ فارغ التحصیل ہو نا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ اس سے مراد اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر سفر کو جاری رکھنا ہے)تعلیم کے یہ پانچ مراحل حسب ذیل ہیں :پرائمری ،مڈل،ہائرسیکنڈری، گریجویشن(بی اے اورایم اے) اور ڈاکٹریٹ۔اگر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کیا ہواایک شخص سکول یا یونیورسٹی نہیں جاتا ہے،تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ اس قدر علم وآگاہی رکھتا ہے کہ جس کی مدد سے وہ اپنی علمی مشکلات کو حل کرسکتا ہے اور اپنے مطالعات کو جاری رکھتے ہوئے ترقی کے مراحل طے کر سکتا ہے۔
دوسراسوال:چونکہ انسانی معاشرہ ہمیشہ تغیر وتبدّل کی حالت میں ہوتا ہے ،اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے مستقل،ثابت اور یکساں قوانین معاشرے کی ضروریات کا حل پیش کر سکیں؟جواب:اسلام میں دو قسم کے قوانین ہیں :پہلی قسم ان قوانین پر مشتمل ہے جو انسان کی خاص صفات کے مانند مستقل اور ثابت ہیں ،جیسے:توحید پر اعتقاد،عدالت کے اصول کا نفاذ،اور ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے مقابلہ کرنا وغیرہ۔ان قوانین کی دوسری قسم کلی اور جامع اصولوں کے ایک سلسلہ پر مشتمل ہے جو موضوعات میں تبدیلی پیدا ہونے سے نئی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ہر زمانے کی تغیر پذیر ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔مثلاًاسلام میں “اوفو ابالعقود” کے عنوان سے ایک کلی قاعدہ ہے۔(یعنی اپنے عہد و پیمان کی وفاداری کرتے ہوئے انھیں پورا کرو)زمانہ کے گزر نے کے ساتھ یقینا نئے اور مفید تجارتی،سیاسی اور اجتماعی معاہدات و معاملات پیش آتے ہیں۔انسان مذکورہ کلی قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید مسائل کا جواب دے سکتا ہے۔اسی طرح ایک دوسرا قائدہ بنام”قائدہ لاضرر” ہے۔اس قائدہ کے مطابق جو بھی حکم اور قانون انسان یا معاشرہ کے لئے مضر ہو اسے محدود ہو نا چاہئے۔آپ نے ملاحظہ فر مایا کہ اسلام کے یہ کلی قاعدے کس قدر مسائل کو حل کر نے میں کار ساز ہیں ۔اسلام میں اس قسم کے قاعدے کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ہم انہی کلی قواعد اور اصول سے استفادہ کر کے عظیم اسلامی انقلاب کے بعد (بلکہ ہمیشہ)پیچیدہ ترین مسائل اور مشکلات کو حل کرسکتے ہیں۔
تیسرا سوال:بیشک ہمیں اسلامی معاشرے میں مختلف مسائل کے سلسلہ میں رہبر کی ضرورت ہے۔پیغمبر کی عدم موجودگی اور ان کے جانشین کی غیبت کے پیش نظر رہبری کا مسئلہ معطّل ہو کر رہ گیا ہے ،اور خاتمیت کے اصول کے پیش نظر کسی دوسرے نبی کے مبعوث ہو نے کی امید بھی نہیں کی جا سکتی ہے،کیا یہ امر اسلامی معاشرہ کے لئے نقصان دہ نہیں ہے؟جواب:اس زمانہ کے لئے بھی اسلام میں ضروری راہ حل کو مدنظر رکھا گیا ہے،یعنی “ولایت فقیہ”کے ذریعہ اسلامی معا شرے کی رہبری کی ذمہ داری جامع الشرائط اور اعلیٰ سطح پر علم وتقویٰ اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ایک فقیہ کے ذمہ رکھی گئی ہے۔ایسے رہبر کی پہچان کا طریقہ بھی اسلامی قوانین میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے ،لہذا اس سلسلہ میں بھی کسی قسم کی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔اس بناپر “ولایت فقیہ”سلسلہ انبیاء واوصیاء ہی کی ایک کڑی ہے۔”جامع الشرائط فقیہ کی رہبری “اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی معاشرہ سر پرست اور رہبر سے محروم نہیں ہے۔(اس سلسلہ میں مزید تفصیلات کے لئے مصنف کی فارسی کتاب”طرح حکومت اسلامی”کا مطالعہ فر مائیں)۔