پیغمبر اسلام (ص) کی حقّانیت پر ایک اور دلیل

129

۱۔اخلاقی خصوصیات اور اجتماعی ریکارڈ۔۲۔دعوت کے ماحول پر چھائے ہوئے حالات۔۳۔زمانہ کے حالات۔۴۔دعوت کے مطالب۔۵۔نفاذ واجراء کے اصول وضوابط اور مقصد تک پہنچنے کے وسائل۔۶۔معاشرے پر دعوت کے اثرات کا اندازہ۔۷۔مقصد کے بارے میں داعی کے ایمان وفداکاری کا اندازہ۔۸۔انحرافی تجویزوں اور مشوروں کی موافقت نہ کر نا ۔۹۔عمومی افکار پر تیزی سے اثر انداز ہو نا۔۱۰۔ایمان لانے والے لوگوں کے بارے میں تحقیق کر نا کہ وہ کس قسم کے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں؟!حقیقت میں اگر ہم ہر مدعی کے بارے میں مذکورہ دس مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر اور بحث و تحقیق کریں تو ہم اس کے سچ اور جھوٹ کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔مندرجہ بالا بیان شدہ مطالب کے پیش نظر ہم مذکورہ دس مسائل کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ایک مختصر تحقیق و تجزیہ پیش کریں گے اگر چہ ان کے بارے میں متعدد کتابیں تالیف کرنے کی ضرورت ہے۔۱۔دوست اور دشمن کی لکھی گئی تاریخوں سے جو کچھ ہمیں پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجتماعی سر گر میوں کے دوران آپ کی اخلاقی خصوصیات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے ،وہ یہ ہے کہ آپ اس قدر پاک و پاکیزہ اور ایماندار تھے کہ حتی جاہلیت کے زمانے میں بھی آپ کو “امین “کا لقب دیا گیا تھا۔تاریخ کہتی ہے:مدینہ کی طرف ہجرت کرتے وقت آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مامور فر مایا تھا کہ آپ کے مدینہ روانہ ہونے کے بعد لوگوں کی امانتوں کو ان تک پہنچادیں۔آپ کی شجاعت ،استقامت ،حسن اخلاق،وسعت قلبی ،جوانمردی اور عفو وبخشش جیسی خصوصیات کا مشاہدہ جنگ وصلح کی حالت میں کیا جاسکتاہے بالخصوص فتح مکہ کے موقع پر آپ کی طر ف سے شکست خور دہ خونخوار دشمنوں کے حق میں عام معافی کا اعلان ان خصوصیات کی ایک زندہ مثال ہے۔۲۔سب جانتے ہیں کہ عام لوگ،حتی غیرمعمولی ذہانت کے مالک لوگ بھی،خواہ نخواہ ماحول کے حالات سے متاثر ہو تے ہیں ،البتہ بعض لوگ زیادہ اور بعض کم تر۔اب ذراغور کیجئے کہ جس شخص نے اپنی زندگی کے چالیس سال جہل و بت پرستی کے ماحول میں گزارے ہوں،ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزاری ہو کہ جس کے لوگوں کی تہذیب وتمدن کے تانے بانے شرک و خرافات کی بنیاد پر مستحکم ہوئے ہوں ،اس کے لئے کیسے ممکن ہے کہ وہ فقط توحید کا دم بھرتے ہوئے شرک کے تمام مظاہر سے مقابلہ کرے؟!یہ کیسے ممکن ہے کہ جہالت کے ماحول سے علم کے اعلیٰ ترین جلوے نمودار ہو جائیں؟!کیا یہ قابل یقین ہے کہ ایک “ماورائے طبیعت”تائید الہٰی کے بغیر ایسا عجیب مظہر وجود میں آئے ؟!۳۔ہمیں دیکھنا چاہئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہورکس زمانے میں ہوا ہے؟ایک ایسے زمانے میں کہ دنیا قرون وسطیٰ کے دور سے گزر رہی تھی ،وہ مطلق العنانیت ،استبداد،امتیازی سلوک اور قومی و طبقاتی ظلم کا دور تھا۔بہتر ہے ہم اس سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام کی زبان سے سنیں ،جو ظہور اسلام سے پہلے اور بعد والے دور کے عینی شاھد تھے،آپ(ع) فر ماتے ہیں:”خداوندمتعال نے آپ کو ایک ایسے زمانے میں رسالت پر مبعوث فر مایا،جب دنیا کے لوگ حیرت کی وادی میں گمراہ ودربدر تھے،ان کی عقلیں جان لیواہواوہوس کی تابع تھیں ۔غرور و تکبر نے انھیں زوال سے دوچار کر دیا تھا ۔جاہلیت کی تاریکیوں نے انھیں گمراہ کر دیا تھا اور وہ جہل واضطراب کی حالت میں سر گرداں و پریشان تھے۔” (نہج البلاغہ،خطبہ نمبر۹۱ )اب ذرا غور کیجئے کہ جس دن کا لائحہ عمل انسانوں کی مساوات ،قومی اور طبقاتی تعصبات کو ختم کر نا اور”انّما المومنون اخوة”(مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں)ہو،وہ دین اس زمانے کے حالات سے کیا مطابقت رکھتا ہے؟۴۔آپ کی دعوت کا موضوع ،تمام جہات میں توحید،تمام ظالمانہ امتیازات کو ختم کر نا ،عالم انسانیت کا اتحاد ،ظلم وستم سے مقابلہ کر نا،ایک عالم گیر (عادلانہ) حکومت کا منصوبہ ،مستصعفین کا دفاع اور انسانی اقدار کے اہم ترین معیار کے طور پر تقویٰ،پرہیز گاری ،پاکیزگی اور امانت داری کا پر چار تھا ۔۵۔آپ نے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کسی صورت میں بھی اس نا معقول نظریہ پر عمل نہیں کیا کہ” مقصد وسیلہ کی توجیہ کرتا ہے “۔کہ آپ اپنے مقدس مقاصد تک پہنچنے کے لئے مقدس وسائل سے استفادہ کرتے تھے۔آپ دوٹوک الفاظ میں فر ماتے تھے:<ولا یجرمنّکم شنان قوم علی الّا تعدلوا>(سورہ مائدہ/۸)”اور خبر دارکسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف ترک کردو”میدان جنگ میں اخلاقی اصولوں کی رعایت کر نے،غیر فوجیوں (عام انسانوں) کو اذیت و تکلیف نہ دینے ،درختوں اور نخلستانوں کو نابود نہ کرنے،دشمن کے لئے پینے کے پانی کو آلودہ نہ کر نے ،جنگی قیدیوں سے محبت سے پیش آنے اور اس قسم کے دسیوں مسائل کے بارے میں آپ کے احکام اس حقیقت کے واضح ثبوت ہیں۔۶۔اس معاشرے میں آپ کی دعوت کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ اسلام کے دشمن ،لوگوں کے آپ کے قریب آنے سے گھبراتے تھے ،کیونکہ وہ آپ میں غیر معمولی قوت جاذبہ اورآپکے کلام میں نفوذ کا اثر دیکھتے تھے ۔بعض اوقات آپ کی گفتگو کے دوران شور وغل بر پا کرتے تھے تاکہ لوگ آپ کے کلام کو سن کر آپ کے گرویدہ نہ ہو جائیں ،اسی لئے آپ کے معجز نما اثر و رسوخ پر پردہ ڈالنے کے لئے آپ کو “ساحر” اور آپ کے کلام کو “سحر” سے تعبیر کرتے تھے کہ یہ بذات خودآپ کی دعوت کے غیر معمولی اور عجیب اثر کا اعتراف تھا۔۷۔اپنی دعوت کی راہ میں آپ کی جاں نثاری کے پیش نظر معلوم ہو تا ہے کہ آپاپنے لائے ہوئے دین کے بارے میں دوسروں سے زیادہ مؤمن و پابند تھے۔بعض جنگوں کے میدانوں میں، جہاں تازہ اسلام لائے ہوئے افراد بھا گ گئے لیکن آپ انتہائی سختی سے دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے رہے۔اور جہاں پر دشمن لالچ اوردھمکی،مختصر یہ کہ ہر راہ سے سامنے آتاتھا آپ ان تمام مسائل کی پروا کئے بغیر اپنے عقیدہ پر سختی سے ثابت قدم رہتے تھے اور کمزوری اور شک و شبہہ سے دوچار ہوکر ہرگز آپ کے قدم نہیں ڈگمگاتے تھے۔۸۔ کئی بارکوشش کی گئی کہ آپ کو منحرفین کی سازش کے جال میں پھنسا یا جائے، لیکن آپ کبھی نہ پھنسے، آپ فرماتے تھے: “اگر سورج کو میرے ایک ہاتھ میںاورچاند کو دوسرے ہاتھ میں دیدیا جائے(یعنی پورے نظام شمس کو میرے قبضہ میں دے دیاجائے تا کہ میں اپنے مقصد سے دست بردار ہوجاؤں) تو بھی میں اپنے مقصد سے دست بردار نہیں ہوں گا۔”۹۔ آپ کی دعوت کا عام لوگوں کے افکار پر اثر نہ صرف عجیب تھا بلکہ اس کی سرعت بھی معجزنما تھی۔ جن لوگوں نے اسلام کے بارے میں مغربی مستشرقین کی لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان تمام مستشرقین نے اسلام کے تیزی کے ساتھ پھیلنے پر تعجب کیاہے مثال کے طور پر ” تاریخ تمدن عرب اور مشرق میں اس کی بنیادیں” نام کی کتاب لکھنے والے مشہور تین مغربی مصنفین اس حقیقت کا صریحی طور سے اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:” اس بات کو جاننے کے لئے اسلام کیسے اس قدر تیزی سے ترقی کرکے ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں اس زمانہ کی متمدن دنیا کے اکثر علاقوں پر چھاگیا؟ اب تک کی گئی تمام کوششوں کے باوجود بھی یہ راز ایک لاینحل معمے کی صورت میں باقی ہے۔”جی ہاں حقیقت میں یہ ایک معما ہے کہ اس زمانہ کے وسائل کے ساتھ اسلام کس ژرح اتنی تیزی اور سرعت کے ساتھ کروڑوں انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں نفوذ کرگیا اور بہت سی تہذیبوں اورثقافتوں کو ختم کرکے ایک نئی تہذیب و تمدن کو وجود میں لایا؟۱۰۔ آخر میں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آپ کے دشمن کفر و استکبار کے سردار، ظالم اور خود خواہ سرمایہ دار تھے، جبکہ آپ پر ایمان لانے والے اکثر پاک دل جوان حق کے متلاشی ، محروم ، مظلوم اور حتی غلام تھے۔ یہ ایسے افراد تھے جن کا سرمایہ سچائی اور پاک دلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور وہ حق کے پیاسے تھے۔ان بحثوں کے مجموعہ سے کہ جس کی شرح بہت تفصیلی ہے، ہم آسانی کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچتے، ہیں کہ آپ کی دعوت ایک الہی دعوت تھی، ایک ایسی دعوت تھی جس کا سرچشمہ ماورائے طبیعت تھا، یعنی ایک ایسی دعوت جس کو پروردگار عالم نے انسانوں کو برائی، تباہی، جہالت ، شرک، ظلم اور ستم سے نجات دلانے کے لئے بھیجاتھا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.