کربلا حافظے کی امانت اور یاداشت کا سرمایہ ہے

226

واقعہ کربلا کہنے کو تو صرف واقعہ ہے مگر چودہ سو سال سے زائد عرصہ گزر جانے پر بھی اس کی تازگی‘ اضطراب جو ش اور کشش میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ داستانیں پرانی ہو جاتی ہیں‘ کہانیاں دھندلی پڑجاتی ہیں۔ آنسو چمک کھو بیٹھتے ہیں۔ حالات میلے ہو جاتے ہیں۔ مگر واقعہ کربلا روز بروز نئی جہتوں‘ نئے زاویوں‘ نئے سلیقوں سے ذہنوں پر افشا ہو رہا ہے۔اس کی داستانی کیفیت کا مزاج دلوں میں نقش بناتا اور ذہنوں میں اپنی دنیا بساتا ہے۔ کربلا حافظے کی امانت ہے۔ یاد داشت کا سرمایہ ہے کربلا آنکھوں میں گھر کرتی ہے۔ سینوں میں آباد ہوتی ہے اور دکھوں کو آباد رکھتی ہے۔ انسان کا جسم فانی ہے اور روح باقی فنا اور بقا کے درمیان رابطے کی ڈور کا نام نفس ہے۔ یہ ڈور ٹوٹ جائے تو جسم مٹی ہو اجاتا ہے اور روح خوشبو کی طرح سفر کا آغاز کرتی ہے۔ کربلا بھی اپنی کیفیت کے اعتبار سے سفر میں ہے۔ یہ نہ جسم کی طرح منجمد ہے۔ نہ نقش کی طرح ٹوٹنے کی منتظربلکہ یہ تو سفر میں ہے‘ روح کی طرح‘ روح بھی باقی ہے۔ کربلا بھی باقی ہے۔ کربلا کا مزاج انقلابی ہے۔ اس لئے منجمد اور یخ بستہ ذہنوں کو راس نہیں آتی۔ نہ ہی پتھریلے اور سنگلاخ دماغوں پر افشا ہوتی ہے۔ لہو کی بوند کی طرح جو صرف اپنے اندر کی کائنات کو بصیرتوں پر افشا کرتی ہے۔ بصارتوں پر نہیں صبح سے عصر کی نماز تک کے وقفے میں پھیلی ہوئی لمحاتی کشمکش کے دوران رونما ہونے والی طاقت اور حق کے درمیان اس جدلیاتی معرکہ آرائی نے صدیوں کو زنجیر کرلیا اور صدیوں کو کنیز بنانے کے بعد قیامت کی طرح ٹھہر نہیں گئی۔ بلکہ ہر موسم‘ ہر رُت اور ہر فصل کربلا کی فصل ہے۔ کوئی موسم بھی ایسا نہیں ہے جو کربلا سے منسوب نہ ہو یہ موضوع سمٹے تو کائنات بنتا ہے۔ اس کے پھیلاؤ میں کتنی کائناتیں آباد ہوں گی یہ کون جان سکتا ہے۔
کربلا استعارہ ہے جبر کے مقابلے میں صبر کی فتح مبین کا جہاں جبر ہو گا وہاں مقابلے میں کربلا کا آباد ہونا ضروری ہوگا۔ جہاں بھی ظلم اپنے پر پھیلائے گا وہاں کربلا کا انگڑائی لینا فطری امر ہے۔ کربلا علامت ہے طاقت کے مقابلے میں حق کی اور حق کی لغت میں نقطہ معیار حسین (ع) ہے حسین (ع) جو بلاشبہ حق ہے۔ حسین (ع) جو بلاشبہ شر کے مقابلے میں خیر کا ترجمان ہی نہیں حق کا نگہبان بھی ہے۔ کربلا کے واقعہ میں موضوع کے اعتبار سے اتنا تنوع ہے کہ اسے جتنا بھی بیان کریں اس کی وسعت طلبی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ میرے خیال میں کربلا کے موضوع پر گزشتہ ڈیڑھ ہزار برس میں سب سے زیادہ لکھا گیا‘ سوچا گیا‘ پڑھا گیا اور بولا گیا مگر یہ موضوع ہے کہ ابھی تک ”پیاسا“ ہے حسین (ع) کی طرح کربلا والوں کی طرح اس کی پیاس کوثر کی ”روشنائی“ سے ہی بجھ سکتی ہے۔ دراصل اس واقعہ نے اپنے دامن میں اتنی حقیقتیں اکٹھی کرلی ہیں کہ ان پر محیط ہونا کسی ایک ذہن کے بس کی بات نہیں۔
کربلا انسانی جبرو اختیار کے درمیان حد فاصل ہے۔ کربلا ظلم و صبر کے درمیان خط امتیاز ہے۔ کربلا پیاس کا صحرا ہے (پیاس بھی روح کی) محرومیوں کا دجلہ ہے۔ (محرومیاں بھی ادراک کی) کربلا خواہشات کا فرات ہے۔ کربلا عظمت آدم کی عینی شاہد ہے۔ انسان کے صبرو تحمل کی آخری منزل اور اضطراب حیات کا حاصل کربلا حق کے سامنے باطل کی شکست‘ شخصی حکومت کے زوال‘ لشکر و سپاہ کے غرور کی ہزیمت اور تاج و تخت کی بے وقعت ”فنا شعاری“ کا منہ بولتا ثبوت حکومتوں کے عروج و زوال کی جھوٹی سچی کہانیوں کو تاریخ کہتے ہیں اور تاریخ کربلا میں اپنا اعتبار کھو بیٹھی۔ جغرافیہ تاریخ کی مشق ستم کا محدود تختہ‘ مگر کربلا اپنی تاریخ بھی آپ ہے اور جغرافیہ بھی کربلا کے سامنے بادشاہت کی تاریخ جھوٹ نہ بول سکی‘ جغرافیہ کربلا کے سامنے غرور نہ کرسکا اس کی وجہ یہ ہے کہ
حسین (ع)اور کربلا لازم و ملزوم ہیں۔ کربلا حسین (ع)کے بغیر کچھ نہیں اور حسین (ع) کو کربلا کے سوا کہیں چین نہیں ملتا۔ جب تک انسان کا دل کربلا نہ بنے حسین (ع)اس میں اپنے آپ کو بساتا نہیں اور جب تک حسین (ع) کسی دل میں اپنے آپ کو بسانہ لے وہ کربلا نہیں بنتا۔
میرے نزدیک شاعری اس وقت تک گونگی رہتی ہے۔ جب تک اس میں دل کی دکھن حیات کی کٹھنائیاں خیرو شر کی غارت گیری کا صحیح اور واضح عکس ابھر کر سامنے نہ آئے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری وہ شاعری جس میں انسانی جذبوں کی شکست و ریخت اور ظلم و جبر کی آویزش کا واضح عکس نہیں ملتا۔ اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ مگر جس شاعری میں پیاس‘ ایذا پسندی‘ خود اذیتی صبرو تحمل اور دکھ اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ موجیں مارتا ہے۔ وہ زندہ رہتی ہے اور یہ زندگی عطا ہے کربلا کے عظیم انسان حسین (ع) کی جس نے خود کو انسانی حوصلوں کا آسمان اور دکھوں کا عرش معلی ثابت کیا اردو ادب کے تمام بڑے شاعر اپنے فن کی زندگی کیلئے کربلا اور حسین (ع) کے مقروض ہیں کہ کربلا کل کی نہیں آج کی بھی فاتح ہے۔ کربلا ماہ و سال کی دسترس سے ماورا ہے گردش دوراں کی تھکن کربلا کوسلام کہتی ہے۔ کربلا میں جلنے والے چراغ نے ہمیشہ آندھیوں سے خراج لیا ہے۔ حسین (ع) اور کربلا حدیث عشق کے دو مرحلے ہیں۔ جب بھی ظلم بڑھنے لگے۔ اپنے صبر کا قداونچا کرتے جاؤ یہی حسین (ع) کا درس ہے یہاں تک کہ ظلم تھک جائے ہار جائے چکنا چور ہو جائے کربلا میں ظلم تاریخ آدم و عالم میں سب سے زیادہ توانائیاں اوڑھ کر آیا اور صبر اپنی نا طاقتی کے باوجود ظلم کو تھکا دینے اور چکنا چور کرنے میں کامیاب ہوگیا حسین (ع) نے کائنات کے تمام ظلم کو اپنے صبر سے شکست دی۔ حسین (ع) ظلم اور صبرکے درمیان قول فیصل ہے اس لئے جب تک ظلم باقی ہے صبر فنا نہیں ہوسکتا اور ظلم و صبر کے درمیان حسین (ع) کا نام حسین (ع) کا کام اور حسین (ع) کا احترام باقی رہے گا۔ حسین (ع) شب تیرہ و تارمیں امید کا چراغ ہے اسی لئے ہم حسین (ع) کا تذکرہ کرتے ہیں کہ بارے ہوئے دلوں کو حوصلہ ملے تھکے ہوئے دماغ تازہ دم ہوسکیں ٹوٹے ہوئے دل جڑسکیں بجھی ہوئی آنکھیں پھر سے جی اٹھیں بے شناخت چہرے پھر سے پہچانے جانے لگیں۔ کسی بھی محفل میں کوئی بھرپور قہقہہ اتنا موثر نہیں ہوسکتا جتنا ایک چپ چاپ آنسو آنسو کربلا ہے۔ قہقہہ انجام سے بے پرواہ ہونے کا غماز ہے آنسو صبرہے۔ جو اپنی گرفت صدیوں کی نبض پر رکھتا ہے جبکہ آنسو رائیگاں نشاط کا کم عمر لمحہ ہے۔
ہم روتے ہیں ۔۔۔ خود پر نہیں ۔۔۔ اس مظلوم پر جس کے زخموں میں گرم ہواؤں کے تھپیٹرے تپش جگاتے رہے۔ ۔۔ ہم روتے ہیں ۔۔۔۔ اس لمحے پر جس نے حسین (ع) کی مدد نہیں کی۔۔۔ ہم آنسو بہاتے ہیں ان بے گناہ میتوں پر جن پر رونے والوں کے ہاتھ پس گردن باندھ دیئے گئے تھے۔ ہم روتے ہیں ۔۔۔ کہ رونا ہماری فطرت ہے سنا ہے بچپن کا زیور بھی رونا ہے۔ زہد و عبادت کا گہنا ہے‘ تقوی کا جھومر بھی۔۔۔ رونا ہے اور کسی مظلوم کے آنسوؤں میں شریک ہونا آنکھوں کی وہ سخاوت ہے جس سے صاحبان اقتدار بھی محروم ہوتے ہیں۔
ہم مجالس میں کربلا والوں پر ہونے والے ظلم کی داستان بیان کرتے ہیں تو پھر بھی چیخ پڑتے ہیں۔ پہاڑوں کے ماتھے پر بھی پسینہ آجاتا ہے‘ آسمان کانپنے لگتا ہے اور سننے والے وہ دل جو کربلا بن جاتے ہیں اپنی پیاس بجھانے کے لئے آنسوؤں کا سہارا لیتے ہیں ہم لشکروں کے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے کچلے جانے والے یتیموں کا ذکر کرتے ہیں تو زمین ماتم کرتی ہے‘ بے وارثوں کو رونا۔۔۔ بزدلی نہیں دلیری ہے۔۔۔ جنگ کے طبل سے ماتم کی دھمک امن کے قیام میں زیادہ معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ عشق کا مسئلہ ہے اور عشق کے تمام جذبوں کو محوتماشاہی رہ جاتی ہے‘ عشق امام ہے‘ عقل مقتدی ہے۔ عقل کے فتوؤں نے عشق کے پاؤں کب باندھے ہیں؟ ہم جنگ میں شکست کھانے والوں کو روتا دیکھیں تو شاید مسکرا پڑیں۔۔۔ مگر کسی صحرا میں بے گورو کفن لاش پر نہ رونا۔۔۔۔ انسانیت کی عظمت سے انکار ہے۔
حسین (ع) کی مجلس بھی ذکر کی مجلس ہے‘ ذکر بھی حسین (ع) کا جس کی بات چھڑ جائے تو قرآن جیسی لذت ملے۔
مگر سلوک میں تنقید کی گنجائش نہیں مسلک میں تعصب کیا؟ حسین (ع) تو تمام انسانیت کی اکائی ہے‘ حسین (ع) تو عظمت آدم کا عکاس ہے حسین (ع) تو فرشتوں پر انسان کی برتری کا استعارہ ہے۔
آؤ حسین (ع) کی مجلس سے رزق علم حاصل کریں‘ رزق شعور اور رزق آگہی حاصل کریں‘ آؤ ۔۔۔ یزید کو پہنچانیں‘ جو ہر دور میں شر کی نمائندگی کے لئے روپ بدل بدل کر خیر کے نگہبانوں سے الجھ پڑتا ہے۔ یزیدملوکیت زادہ نہیں تھا‘ بلکہ یزید تو ایک کردار ہے۔ جو ہابیل کے وقت بھی موجود تھا۔ نام بدلنے سے نوع کہاں بدلتی ہے؟
ہمارے اردگرد کتنا ظلم بکھرا پڑا ہے ہم اس سے ٹکراتے کیوں نہیں؟ کیا ہم بزدل ہیں؟ یا ہم نے اپنی سچی تاریخ کو طاق نسیان پر رکھ دیا ہے‘ ہم کہنے کو مسلمان ہیں مگر کیا اسلام دو کلمہ گو مسلمانوں کو آپس میں الجھنے کی اجازت دیتا ہے۔ جب ہم سارے حسین (ع) والے ہیں۔ تو پھر ایک دوسرے پر طنز کیا؟ ایک دوسرے پر بہتان کیوں؟ حسین (ع) تو اکائی ہے ہم نقطوں کی اس اکائی کے دائیں طرف کیوں آئیں؟
ہمیں تو منزل چاہئے اور منزل کا چراغ حسین (ع) ہے
میں ذکر حسین (ع) کرتا ہوں تو سارے منظرمیری آنکھوں کے سامنے ابھرنے لگتے ہیں فرات کی کم ظرفی لشکروں کی سنگدلی پیاسوں کے خیام صبر کے پروردگار کا عزم و حوصلہ بچوں کی تشنگی ماؤں کی ہمت اور پھر لہو لہو زمین کا خراج صاحب خاک شفا کے لئے پر روح کی گہرائیاں کربلا میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں اور کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے حسین (ع) کے حدی خوانوں پر ٹوٹتی تلواریں میرے اپنے لہو میں نیام ہورہی ہیں میں ذکر مصائب کروں تو میری آواز شام کے دھندلکوں میں ڈوبنے لگتی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.