امامت
امام كے صفاتعصمتنبي كي طرح امام كو بھي احكام دين اور اس كي تبليغ و ترويج ميں خطا و غلطى، سھو و نسيان سے منزہ ھونا ضروري ھے، تاكہ ديني احكام كسي كمي اور زيادتي كے بغير كامل طور پر اس كے پاس موجود رھے اور لوگوں كو سيدھے راستے پر چلنے اور حق تك پھنچنے كا جو فقط ايك راستہ ھے اس كو مخدوش نہ ھونے دے، پس امام كا گناھوں سے محفوظ رھنا اور جو كچھ كھے اس پر عمل پيرا ھونا ضروري ھے تاكہ اس كے قول كي اھميت اور، بات كا بھرم باقي رھے اور لوگوں كا اعتماد اس سے زائل نہ ھو اگر امام گناہ كا مرتكب ھوگا تو اس كي يہ سيرت لوگوں كے لئے سر مشق عمل ھوگي جس سے نبي اور امام كے بھيجنے كا مقصد فوت ھوجائے گا نيز ان كا يہ كردار لوگوں كو اللہ كي معصيت پر ابھارنے كا باعث بنے گا، لہذا امام كے لئے ضروري ھے احكام اسلام پر سختي سے عمل كرے اپنے ظاھر و باطن كو اسلام كے سانچے ميں ڈھالے تاكہ اس سے خطا اور غلطي كا امكان نہ رہ جائے ۔مختصر يہ كہ امام كا معصوم ھونا ضروري ھے نيز امام كا دين كے تمام احكام سے واقفيت اور ھر وہ مطالب جو لوگوں كي راھنمائي اور رھبري كے لئے سزاوار ھيں اس كا جاننا ضروري ھے تاكہ انسان كے لئے سعادت و ھدايت كي شاہ راہ ھميشہ كھلي رھے ۔
كمال اور فضيلتپھلي بحث ميں ذكر ھوا، امام بھي نبي كي طرح دين كے تمام احكام پر عمل اور اس كے جملہ اصول پر چل كر ايك نماياں فرد اور كامل انسان ھوتے ھيں، لہذا وہ سيدھے راستے پر خود بھي چلتے اور دوسروں كو بھي ساتھ ميں راھنمائي و ھدايت كرتے ھيں، يہ الٰھي معارف و حقائق كي گھٹيوں كو بخوبي درك كرتے ھيں دين كا شاھكار اور كامل ترين نمونہ ھوتے ھيں ۔
معجزہاخبار و احاديث سے استفادہ ھوتا ھے كہ ائمہ طاھرين (ع) بھي تمام انبياء كي طرح صاحب اعجاز ھوتے ھيں، فرد بشر جس كام سے عاجز ھو اس كو يہ با آساني انجام دے سكتے ھيں، نبي كي طرح ان كے لئے بھي امكان پايا جاتا ھے كہ اپني عصمت و امامت كو ثابت كرنے كے لئے معجزہ كو بروئے كار لائيں اور اپني حجت لوگوں پر تمام كريں ۔ہاں اگر كوئي مزيد تحقيق كرنا چاھے تو حديث اور تاريخي كتابوں كي طرف رجوع كرے، اس پر حقيقت كھل كر آشكار ھو جائے گي كہ ائمہ اطہار (ع) نے كتنے مقامات پر معجزہ سے كام ليا ھے، البتہ جتنے معجزات و مطالب ائمہ (ع) كي طرف منسوب كئے گئے ھيں ھم ان سب كي حقيقت كا دعويٰ نھيں كرتے كيونكہ مجھول مطالب كا بھي امكان پايا جاتا ھے ۔
امام كي پہچانامام كو دو راستوں سے پہچانا جا سكتا ھے:پھلا راستہ:نبي يا امام خود اپنے بعد آنے والے امام كي پہچان بيان كرے اور لوگوں كے درميان اپنے جانشين كے عنوان سے مشخص كرے، اگر خود امام يا نبي اس فريضہ كو انجام نہ ديں تو لوگ امام كو معين نھيں كر سكتے اس لئے كہ عصمت اور اعلميت كے مصداق كو فقط خدا يا اس كے نمائندے ھي جانتے ھيں اور دوسروں كو اس كي خبر نھيں دي گئي ھے ۔دوسرا راستہ:(معجزہ) اگر امام اپني امامت كو ثابت كرنے كے لئے معجزہ اور (خارق عادت) چيزوں كي نشان دھي كرے تو اس كي امامت ثابت ھو جائے گي كيونكہ اگر وہ اپنے امامت كے دعوے ميں جھوٹا ھے تو سوال يہ ھے كہ خدا نے معجزہ سے اس كي مدد كيوں فرمائي ؟
امام اور نبي ميں فرقامام اور نبي ميں چند جہات سے فرق پايا جاتا ھے ۔پھلا:نبي دين اور اس كے احكام كو لانے والے ھوتے ھيں، ليكن امام اس كا محافظ اور معاشرے ميں اس كو اجرا كرنے والا ھوتا ھے ۔دوسرا:نبي يا پيغمبر (ص) شريعت،اور احكام كو وحي كے ذريعہ حاصل كرتے ھيں نيز نبي كا رابطہ خدا سے براہ راست ھوتا ھے، ليكن امام چونكہ شريعت لانے والے نھيںھوتے اس لئے احكام ان كے لئے وحي كي صورت ميں نھيں آتے،بلكہ وہ احكام كو نبي سے دريافت كرتے ھيں اور نبي كے علم ميں ھدايت و راھنمائي كے عنوان سے دخالت ركھتے ھيں ۔
تشخيصِ امام اور امام كي تعدادجو شخص كسي قوم يا معاشرے ميں نفوذ ركھتا ھو يعني صاحب منصب و سرپرستي كے عنوان سے لوگوں كي راھنمائي كي باگ ڈور اپنے ہاتھوں ميں ركھتا ھو اگر وہ كچھ دنوں كے لئے جانا چاھے تو اس كے لئے ضروري ھے كہ كسي كو اپنا نائب مقرر كرے اور اس نائب و جانشين ميں ساري وھي ذمہ دارياں پائي جاني چاھيے جو اس سے پھلے اصل شخص ميں موجود تھيں، يعني پورے معاشرے كي سرپرستي اس كے ہاتھ ميں ھو، اس طرح كا كوئي بھي شخص بغير كسي جانشين كے نھيں جاتا ھے، جس سے لوگوں كے تمام كام مفلوج ھو كر رہ جائيں چہ جائيكہ پيغمبر اسلام (ص) كہ آپ كو اس كا بخوبي علم تھا اور آپ اس كي اھميت كے بھي زيادہ قائل تھے كيونكہ جب بھي كوئي ديہات يا شھر فتح ھوتا تو آپ فورا ً وہاں پر ايك گورنر معين فرماتے تھے ۔ اور جب بھي كھيں،جنگ كے لئے لشكر بھيجتے تو اس كے لئے كمانڈر اور يكے بعد ديگرے كئي فرد كو معين فرماتے تاكہ ايك شھيد ھوجائے تو اس كي جگہ پر دوسرا رھے، اور آپ بھي كھيں سفر كے لئے جاتے تو اپنا جانشين كسي كو معين فرماتے جس پر مدينہ كے تمام كاموں كي ذمہ دارياں ھوتي تھيں ۔كيا يہ ھوسكتا ھے كہ چھوٹے اور معمولي سفر كے لئے اپنا جانشين معين كرےں ليكن جب ھميشہ كے لئے جا رھے ھوں تو كسي كو اپنا جانشين مقرر نہ فرمائيں؟ اور نئے مسلمان كہ جن كي بنياد ابھي مضبوط بھي نھيں ھونے پائي تھي كہ آپ ان كو اس حالت پر چھوڑ كر چلے جائيں، كيا يہ كوئي سونچ سكتا ھے كہ آں حضرت (ص) اپني پوري زحمت كو بے سہارا چھوڑ كر چلے جائيں گے؟ جب كہ آپ كو پھلے سے معلوم تھا كہ مسلمان بغير معصوم راھنما كے زندہ اور اسلام تابندہ نھيں رہ سكتا ھے ۔اس لئے قطعي طور پر كھاجا سكتا ھے كہ حضرت رسول خدا (ص) نے اپني زندگي ميں اسلام اور مسلمانوں كي خدمت كرنے ميں ايك پَل كے لئے بھي فروگذاشت نھيں فرمائي اور جو بھي موقع آپ كو حاصل ھوا، دامے درمے، قدمے سخنے ھر طرح سے بخشش كرتے رھے، جو رسول (ص) اپني زندگي كے ايك لمحہ كو اسلام اور مسلمين كے لئے تشنہ نہ چھوڑے ھميشہ كے لئے اتنا بڑا داغ اپنے سينہ پر ركھ كر كيسے سو سكتا ھے؟ ! ۔ھم نے اس سے پھلے ثابت كيا تھا رسول (ص) كے لئے امام كا معين كرنا نہايت ضروري ھے اس لئے كہ خدا اور رسول (ص) كے علاوہ عصمتِ باطني سے كوئي واقفيت نھيں ركھتا ھے اگر ايسا نھيں كرتا تو گويا دين اسلام كو ناقص چھوڑ كر جارھاھے، ھمارا عقيدہ ھے كہ رسول خدا (ص) نے مسلمانوں كے لئے اپنا جانشين معين فرمايا ھے، حضرت نے نہ صرف اپنے بعد خليفہٴ بلا فصل كو معين كيا ھے بلكہ اماموں كي تعداد (بارہ ھوں گي) اور بعض روايات ميں ان كے اسمائے گرامي كا بھي تذكرہ كيا گيا ھے ۔حضور اكرم (ص) كا ارشاد گرامي ھے: ميرے بعد قريش سے بارہ خليفہ ھونگے ان كا پھلا شخص علي (ع) اور آخري مھدي (ع) موعود ھوگا، اور جابر كي روايت ميں نام بہ نام اماموں كي تصريح موجود ھے ۔26
پھلے امام حضرت علي ابن ابي طالب عليھما السلامولادت با سعادت: ۱۳ رجب المرجب ھجرت سے ۲۳ سال پھلے ۔محل ولادت: خانہ كعبہ ۔والد كا نام: عمران، ابو طالب (ع) ۔والدہ كا نام: فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليھا۔سن مبارك: ۶۳ سال ۔شہادت: ۱۹ رمضان كو ضربت اور ۲۱ رمضان سن ۴۰ ھجري ۔محل: مسجد كوفہ ۔مدفن: نجف اشرف ۔
رسول خدا (ص) نے آغاز بعثت سے لے كر اپني وفات كے آخري لمحات تك نہ معلوم كتني مرتبہ حضرت علي ابن ابيطالب (ع) كو اپنا جانشين اور مسلمانوں كے لئے امام و خليفہ كے عنوان سے تعارف كرايا ۔اپني عمر كے آخري سال ميں حج كے مناسك كو انجام دينے كے لئے مكہ تشريف لے گئے اور حج سے واپسي كے وقت مقام غدير خم پر خداوند عالم كي طرف سے آيت نازل ھوئى، اے رسول (ص) ! جو حكم تمھارے پروردگار كي طرف سے تم پر نازل كيا گيا ھے پھنچادو، اور تم نے ايسا نہ كيا (تو سمجھ لو كہ) تو تم نے اس كا كوئي پيغام ھي نھيں پھونچايا اور (تم ڈرو نھيں) خدا تم كو لوگوں كے شر سے محفوظ ركھے گا، خدا ھر گز كافروں كي قوم كو منزل مقصود تك نھيں پھونچاتا۔ 26حضرت اس مقام پر ٹھھر گئے اور لوگوں كو بھي وھيں قيام كا حكم ديا اس وقت حضرت كے چاروں طرف ستر ہزار كا مجمع تھا حكم ھوا منبر بنايا جائے، فوراً اونٹوں كے كجاوہ كا منبر بنايا گيا، لوگوں سے آشنائي كرانے كے لئے حضرت (ص) منبر پر اپنے ساتھ علي بن ابي طالب (ع) كو بھي لے گئے اور ايك تفصيلي خطبہ كے بعد فرمايا، (لوگوں آگاہ رھو) ميں جس كا موليٰ ھوں علي (ع) اس كے موليٰ ھيں اے خدا! جو علي (ع) كو دوست ركھے تو اسے دوست ركھ اور جو ان سے بغض ركھے تو اس كو دشمن ركھ ۔لوگوں ميں سب سے پھلے حضرت عمرۻ نے آپ كے ہاتھوں پر بيعت كي اور كھا: اے علي (ع) !آپ كو مبارك آپ ھمارے اور جملہ مومنين و مومنات كے سر پرست اور اولي بالتصرف ھوگئے اس كے بعد لوگوں نے آپ كي بيعت كرني شروع كردي پھر تين دن تك بيعت ھوتي رھي ۔حضور سروركائنات نے شديد گرم ھوا جلانے والے سورج اور تپتي ھوئي زمين حجاز پر اسلام كے اس مھم كام كو انجام ديا اور آں حضرت (ص) نے علي ابن ابي طالب (ع) كي رسمي طور پر تاج پوشي فرمائي اور علي (ع) خلافت و امامت كے عظيم عھدہ پر فائز ھوئے 27يہ پر اھميت واقعہ اٹھارہ ذي الحجہ سن دس ھجري ميں واقع ھوا، شيعيان اھلبيت (ع) اس دن كو عيد زھرا اور جشن و مسرت كا دن جانتے ھيں اور اس دن جشن ولايت اور محافل كے عنوان سے بہ كثرت پروگرام منعقد كرتے ھيں ۔حضرت رسول خدا (ص) نے اپني لخت جگر حضرت فاطمہ سلام اللہ عليھاكي شادي آپ سے كي اوراصحاب كبار كے ايك گروہ نے غدير خم كے واقعہ كي روايت كي ھے، اور يہ روايت متواتر و قطعي ھے، اور سني و شيعہ كي معتبر كتابوں ميں اس كا تذكرہ موجود ھے، اور مذكورہ حديث غاية المرام ميں اھلسنت كے ۸۹ طريقوں سے نقل ھوئي ھے اور شيعوں كي كتابوں ميں ۴۳ طريقوں سے منقول ھے۔آپ (ع) آں حضرت (ص) كے داماد ھو گئے، حضرت علي (ع) كے كمالات اور آپ كي خدمات، اسلام ميں اس قدرزيادہ ھيں جن كو اس كتاب ميں بيان كرنا محال ھے بلكہ دريا كو كوزے ميں سمونے كے مترادف ھے آپ اسلام كي مدد، خدا كي عبادت، ترويج دين كے لئے جہاد كرتے آپ تمام جنگوں ميں آگے آگے كسي دشمن خدا سے نھيں ڈرتے تھے حتيٰ سخت مواقع، خطرناك حوادث ميں فداكاري و جانثارى سے ايك پل كے لئے بھي دريغ نھيں كرتے تھے، شجاعت و مردانگي ميں آپ كا كوئي ثاني نھيں تھاعبادت پروردگار ميں خود اپني مثال اور يگانہٴ روزگار تھے علم و فھم ميں بے مثال، خازن علوم نبي (ص) تھے حضرت (ع) زراعت اور كھيتي كو پسند فرماتے تھے نيز زمين كو زندہ كرنے اور اس پر درخت لگانے اور جگہ جگہ پاني كے كنويں كھودنے كو بھت دوست ركھتے تھے ۔اس جہان فاني سے آنحضرت (ص) كي آنكھ بندھوتے ھي منافقوں كي گندي سياست آپ كے فضائل و كمالات سے چشم پوشي آنحضرت (ص) كے حكم كي صريح مخالفت كے بعد كھنے كو رہ گيا، علي (ع) جوان ھيں اور حكومت كے امور بھت مشكل! اور علي (ع) نے دشمنان اسلام كے سر براھوں كا قلع قمع كيا ھے لہذا وہ آپ سے حسد كرتے ھيں، اور آپ كو حكومت كے لئے پسند نھيں كرتے، ايسے ھي بے بنياد مضحكہ آميز بہانے كي آڑ ميں حضرت كو خلافت سے سبكدوش كر ديا ۔حضرت علي (ع) پچيش سال خلفا كے دور حكومت كي تنہائي اور گوشہ نشين زندگي ميں اپنے لائق چاھنے والوں كي تعليم و تربيت ميں مصروف رھے، عثمان كے قتل ھوتے ھي لوگوں نے آپ كي بيعت كي اور چار سال نو مھينے ظاھري خلافت پر فائز رھے ۔حضرت علي (ع) ترسٹھ سال اس دنيا ميں رھے اور انيس رمضان سن ۴۰ ھجري ابن ملجم كي ضربت سے مجروح ھوئے اور ۲۱ رمضان المبارك كو جام شہادت نوش فرمايا:
پھلا واقعہحضرت علي (ع) كے دور حكومت كا واقعہ ھے، آپ كے خزانہ دار بيان كرتے ھيں خزانہ ميں ايك مرواريد كا ہار تھا آپ كي ايك بچي عيد الاضحي (بقرہ عيد) كے دن پھننے كے لئے عاريتاً لے گئي اس شرط كے ساتھ كہ تين دن ميں واپس اور اگر گم ھوگيا تو اس كي قيمت ادا كرے گي ۔ حضرت علي (ع) بچي كے گلے ميں ہار ديكھ كر پہچان گئے اور ميرے پاس آكر كھنے لگے مسلمانوں كے مال ميں تم نے خيانت كيوں كي ھے؟ ميں نے پوري تفصيل آپ كے سامنے بيان كردي اور كھاكہ آپ كي بيٹي نے واپس كرنے كي ضمانت لي ھے، اور ميں خود بھي اس كا ذمہ دار ھوں۔فرمايا: ابھي اسے واپس لے لو اور آ ئندہ تم نے ايسا كام كيا تو ميں تجھے سزا دونگا، آپ (ع) كي بيٹي نے كہا: بابا جان !كيا بيت المال سے ھميں اتنا بھي حق نھيں پھونچتا كہ ايك ہار چند دن كے لئے عاريہ كے طور پر لے سكيں؟!حضرت علي (ع) نے فرمايا: بيٹي اپنے حق سے تجاوز نہ كرو ! كيا عيد كے دن زينت كے لئے مہاجرين كي عورتيں ايسا ھي ہار ركھتي ھيں؟ 28
دوسرا واقعہحضرت امير المومنين (ع) نے ايك عورت كو ديكھا جو سر پر مشكيزہ لئے چلي جارھي ھے آپ (ع) نے فرمايا: مشك مجھے ديدے تاكہ ميں تيرے گھر تك پھونچادوں اس سے مشك ليا اور راستہ ميں احوال پرسي كرنے لگے اسي اثنا ميں اس نے كہا: علي بن ابي طالب (ع) نے ميرے شوھر كو ملك كي فلاں سرحد پر بھيجا تھا اور وہ وہاں قتل ھوگيا اس نے وارث ميں چھوٹے چھوٹے يتيم بچے چھوڑے ھيں جو كھانے اور پھننے كے بھي محتاج ھيں لہذا ميں مجبور ھو كر ان كے لئے محنت و مزدوري كر كے كھانے كا بندوبست كرتي ھوں، حضرت مشك اس كے گھر پھونچا كر بيت الشرف تشريف لائے اور نہايت كرب و پريشاني كي حالت ميں رات بسر فرمائي ۔صبح ھوتے ھي كھانے كي بوري اٹھا كر اس بيوہ كے گھر لے گئے اور دروازہ كھٹكھٹايا عورت ديكھ كر پہچان گئي اور كھاخدا تم سے راضي و خوش ھو اور اللہ ميرے اور علي (ع) كے درميان فيصلہ كرے،آپ نے اس عورت سے فرمايا: كيا تو روٹي بنائے گي ميں بچوں كو بھلاؤں اگر تو بچوں كو بھلائے تو ميں روٹي بناؤں، عورت نے كھا: تم لاؤ ميں روٹي بناتي ھوں، حضرت يتيم بچوں كو بھلانے اور خوش كرنے ميں مشغول ھوگئے يہاں تك كہ اس نے كھانا پكا كر تيار كر ديا، تو آپ اپنے ہاتھوں سے بچوں كے منھ ميں روٹي اور گوشت و كھجور كے لقموں كو ڈالتے اور كھتے جاتے تھے، اے ميري آنكھوں كے نور نظر كھاؤ اور علي (ع) سے راضي ھو جاؤ پڑوس كي عورت نے حضرت كو ديكھ كر پہچان ليا اور بيوہ عورت سے كھايہ شخص امير المومنين (ع) ھيں وہ بيوہ عورت دوڑي ھوئي حضرت كي خدمت ميں آئي اور معذرت كے ساتھ كھنے لگى: يا امير المومنين (ع) !ميں آپ سے شرمندہ ھوں، حضرت (ع) نے فرمايا: تم علي (ع) كو معاف كردو كہ ميں نے تيري خبر گيري نھيں كي علي (ع) تم سے بھت شرمندہ ھے ۔ 29
دوسرے امام حسن بن علي عليھما السلامولادت با سعادت: ۱۵ رمضان المبارك سن۳ ھجرىمحل ولادت: مدينہ منورہوالد كا نام: حضرت علي ابن ابي طالب (ع)والدہ كا نام: فاطمہ بنت رسول خدا (ص)سن مبارك: ۴۷ سالشہادت: ۲۷ صفر المظفر سن ۵۰ھجرىمحل شہادت: مدينہمدفن: قبرستان بقيع (جنت البقيع)
حضرت علي (ع) نے اپنے فرزند امام حسن (ع) كو خدا كے حكم سے منصب امامت كے لئے معين فرمايا ۔ 30حضرت رسول خدا (ص) (امام حسن و حسين (ع) ) كو بھت چاھتے اور ان كے متعلق فرمايا كرتے تھے يہ دونوں جنت كے جوانوں كے سردار ھيں ۔ 31حضرت امام حسن (ع) اپنے والد ماجد كي شہادت كے بعد مسند خلافت و حكومت پر جلوہ افروزھوئے ليكن معاويہ كي شديد مخالفت اور اس كے حيلہ و فريب كے سبب جنگ كي نوبت آگئي اور وہ وقت يہاں تك آ پھونچا كہ معاويہ كي فوج حضرت امام حسن (ع) كے روبرو كھڑي ھو گئي جب امام حسن (ع) نے اپنے سپاھيوں كے حالات اور ان كي كاركردگي كا معاينہ كيا تو ان ميں اكثر كو خيانت كے جال ميں پھنسا ھوا پايا لہذا آپ (ع) جنگ سے منصرف ھوكر معاويہ سے صلح كرنے پر مجبور ھوگئے ۔امام حسن (ع) كے صلح كي بنيادي دو وجھيں تھيں:
پھلي وجہالف) حضرت كے فوجيوں كي تعداد زيادہ تھي ليكن متفرق اور غير منظم تھے اور ان ميں اكثر يت ايسے افراد كي تھي جو ظاھر ميں آپ كے ساتھ اور باطن ميں معاويہ كے طرفدار تھے، معاويہ سے يہاں تك طے ھوچكا تھا كہ” ھم امام حسن (ع) كو پكڑ كر تمہارے حوالے كر ديں گے ” حضرت امام حسن (ع) نے ديكھا اگر اس حال ميں ان سپاھيوں كے ساتھ جنگ كي جائے تو شكست يقيني ھے ۔ب) اگر ان سے جنگ كا ارادہ كريں تو ان منافقوں سے داخلي جنگ اور آپس ھي ميں خون خرابہ شروع ھوجائے گا اور اس اختلاف ميں علي (ع) كے چاھنے والے كثرت سے شھيد ھو جائيں گے نتيجہ ميں مسلمانوں كي طاقت كمزور ھوجائے گي ۔
دوسري وجہمعاويہ لوگوں كو فريب اور دھوكہ دينے كے لئے اپنے كو دين كا حامي و مددگار مظلوموں سے دفاع كرنے كا نعرہ بلند كرتا تھا اور كھتا تھا ميرا مقصد اس جنگ سے اسلام كي ترويج اور قرآن كا بول بالا كرنے كے سوا اور كچھ نھيں ھے۔حضرت كو اطلاع تھي كہ معاويہ جھوٹ بولتا ھے، اور اس كو حكومت اور رياست كے علاوہ كسي چيز سے سروكار نھيں ھے مگر اس مطلب كو آساني سے لوگوں كو سمجھايا نھيں جا سكتا تھا۔ان دو وجوہ كے علاوہ اور دوسرے اسباب كي بنا پر صلح كے لئے آمادہ ھوگئے، تاكہ معاويہ كي مكاري اور اس كي خباثت لوگوں پر آشكار ھوجائے اور تمام لوگ معاويہ اور سيرت بني اميہ كو خوب پہچان ليں تاكہ آنے والے انقلاب كے لئے ايك بھترين راہ فراھم ھوسكے ۔حضرت نے روح اسلام اور اصل دين كي بقا كے لئے صلح كا اقدام فرمايا اور صلح نامہ ميں اپنے تمام شرائط كو اس سے باور كرايا تھا ليكن معاويہ نے ايك شرط كو بھي پورا نہ كيا، سن پچاس ھجري ميں معاويہ كے حكم سے جعدہ بنت اشعث نے حضرت امام حسن (ع) كو زھر دے كر شھيد كر ڈالا۔
امام حسن (ع) كا واقعہايك شامي نے حضرت كو ديكھ كر گالياں دينا شروع كر ديا جب وہ خاموش ھوا تو آپ اس كي طرف متوجہ ھو كر سلام كر كے مسكرا دئے اور فرمايا: مجھے معلوم ھے كہ تو مسافر ھے اور ميري حقيقت تجھ پر روشن نھيں ھے، اگر تو معافي مانگے گا تو تجھ سے راضي ھو جاؤنگا، اگر كوئي چيز طلب كرے گا تو عطا كرونگا، اگر راھنمائي چاھتا ھے تو راھنمائي كرونگا، اگر بھوكا ھے تو تجھے سير كرونگا، اگر لباس نھيں ركھتا ھے تو لباس دونگا، اگر فقير ھے تو غني كردونگا، اگر بھاگ كر آيا ھے تو تجھے پناہ دونگا، اگر كوئي حاجت ھے تو حاجت روائي كرونگا، ميرا گھر وسيع اور ميرے پاس بھت مال ھے اگر تو ميرا مھمان ھوگا تو تيرے لئے بھتر ھے ۔جب شامي نے حضرت (ع) سے يہ تمام باتيں سنيں، گريہ كرنے لگا اور رو كر كھنے لگا: ميں گواھي ديتا ھوں كہ آپ اللہ كے خليفہ اور لوگوں كے امام ھيں بيشك خدا بھتر جانتا ھے خلافت و امامت كو كہاں قرار دے، يابن رسول (ص) اللہ !آپ كي ملاقات سے پھلے ميں آپ كا اور آپ كے والد كا سخت ترين دشمن تھا، اور آپ كو تمام لوگوں ميں پست ترين آدمي سمجھتا تھا، ليكن اب آپ (ع) سے بے انتھامحبت كرتا ھوں اور آپ كو لوگوں ميں بھترين شخص جانتا ھوں پھر وہ شخص حضرت كے بيت الشرف آيا اور جب تك مدينہ ميں تھا حضرت كا مھمان رھا 32
تيسرے امام حضرت حسين ابن علي (ع)ولادت با سعادت: ۳شعبان سن ۴ ھجريمحل ولادت: مدينہ منورہوالد كا نام: حضرت علي ابن ابي طالب (ع)والدہ كا نام: حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (ص)سن مبارك: ۵۷ سالشہادت: ۱۰ محرم الحرام سن ۶۱ ھجريمحل شہادت: كربلائے معلىمدفن: كربلائے معلى
حضرت امام حسن (ع) نے خداوند عالم كے حكم سے اپنے بھائي امام حسين (ع) كو منصب امامت و خلافت كے لئے منتخب فرمايا: 33حضرت امام حسن (ع) معاويہ كے زمانے ميں نہايت سختيوں اور مشكلات كي زندگي بسر كر رھے تھے اس لئے كہ معاويہ دين اسلام كے احكام كو اپنے پيروں تلے روند رھاتھا اللہ اور اس كے رسول (ص) كے حكم پر اپنا حكم مقدم كئے ھوئے تھا، دوسرے معاويہ حضرت (ع) كے چاھنے والوں كو بلا عذر قتل، اور آپ كو اور آپ كے دوستوں كي ھلاكت كے لئے كسي بھي كام سے دريغ نھيں كرتا تھا ۔يہاں تك كہ معاويہ فوت ھوا يزيد اس كا جانشين تخت حكومت پر آتے ھي مدينہ كے گورنر (وليد) كو حكم ديا كہ حسين (ع) سے ميري بيعت لے لي جائے اور اگر بيعت نہ كريں تو ان كا سر ميرے پاس بھيجدو، اس حكم كو پاتے ھي وليد نے آپ كو طلب كيا اور يزيد كا يہ پيغام آپ كے گوش گذار كيا، آپ (ع) نے غور و فكر كرنے كے لئے ايك شب كي مھلت مانگي حضرت نے يزيد كي بيعت اور اس كي تصديق ميں اسلام كي بھلائي نہ ديكھي اپني جان كو خطرہ ميں ديكھ كر مدينہ سے كوچ كرنے كا ارادہ فرمايا، خدا كے حرم مكہ معظمہ ميں پناہ لينے كے لئے اٹھائيس رجب كو روانہ ھوئے اور تين شعبان كو مكہ پھنچ گئے۔
امام حسين (ع) كے ساتھ يزيد كے برتاؤ كي خبر عراق ميں پھيلي اور كوفہ كے مع افراد جو حكومت معاويہ و يزيد سے تنگ آچكے تھے حضرت كے لئے كثير تعداد ميں خط لكھا اور اس ميں آپ كو عراق آنے كي دعوت دي اور ادھر حضرت بھي ديكھ رھے تھے كہ يزيد دين اسلام كے ساتھ كيا بد سلوكي سے پيش آرھاھے، اپني حكومت كو محفوظ ركھنے كے لئے اللہ و رسول (ص) كي مخالفت سے كوئي لمحہ فرو گزاشت نھيں كيا، اور اس بات كا پورا پورا خوف موجود ھے قانون اسلام كو مسخ كر كے اپنے گندے افعال كو اس كي جگہ پر ركھے، اور يہ وقت بھي آگيا ھے كہ فرزند رسول (ص) سے اپني حكومت و سلطنت كي تصديق چاھے اور ادھر يزيد نے حاجيوں كے لباس ميں منافقين كو بيت اللہ حضرت كو قتل يا اسير كرنے كے لئے بھيج ركھا ھے، لہذا حضرت (ع) نے حج كو عمرہ سے بدل كر حرم خدا كي عزت كا پاس و لحاظ ركھتے ھوئے وہاں سے كوفہ كے لئے روانہ ھو گئے (يہ كوفہ وھي جگہ ھے جہاں حضرت نے پھلے مسلم بن عقيل كو بھيجا تھا اور اس ميں آپ كے چاھنے والوں كي تعداد زيادہ تھي اور انھيں لوگوں نے آپ كو كوفہ آنے كي دعوت اور مدد كرنے كا وعدہ كيا تھا) يزيدي فوج نے كربلا كے مقام پر آپ كو گھير ليا آپ نے كوفہ كے لئے كھاتو ادھر سے يزيد كا حكم آپھونچا جہاں ھيں وھيں روك لو، ان سے بيعت لے لو، اگر بيعت كرتے ھيں تو ٹھيك ھم آئندہ كے لئے غور و فكر كريں گے اور اگر بيعت نھيں كرتے تو ان سے جنگ كر كے ان كا سر ميرے پاس بھيج دو، حضرت نے ذلت و رسوائي كے مقابلے ميں شہادت كو ترجيح دى، اور اپني مختصر سي فوج لے كر ٹڈي دل لشكر كے مقابلہ ميں اٹھ كھڑے ھوئے اور كمال شجاعت كے ساتھ بھت سے دشمنوں كو جھنم كے حوالے كيا۔آخر كار آپ، بھائيوں، بھتيجوں، بھانجوں انصار و اصحاب كے ساتھ جام شہادت نوش فرما كر ابدي نيند سو گئے ھم اھل بيت (ع) كے دوست دار اس دن كو غم و اندوہ كا دن قرار ديتے ھيں، حضرت (ع) اور ان شھيدوں كے غم كو تازہ ركھنے كے لئے مجلس عزا اور عزاداري برپا كرتے ھيں، تاكہ ھم ميں اور ھماري نسلوں ميں فداكاري ظلم كے سامنے استقلال اور حريمِ اسلام كے دفاع كے جذبات زندہ اور باقي رھيں كيونكہ حضرت نے اپني شہادت انھيں مقاصد كے لئے دي ھے لہذا ھم بھي اس كو كبھي نھيں بھوليں گے، حضرت امام حسين (ع) نے ذلت سے سر بہ تسليم ھونے كے بجائے مسلمانوں كو فداكارى، جانثارى، دشمنوں كے مقابل قيام، دين سے دفاع، اور عزت كے ساتھ مرنے كا عملي درس ديا ھے۔بني اميہ اور يزيد جو جانشينِ رسول (ص) كے نام پر حكومت كرتے تھے ان كو ذليل اور گھناؤنا كردار ذليل كثيف اعمال پر خط بطلان كھينچ ديا، حكومت بني اميہ كو جھنجھوڑ كر ركھ ديا نيز ان كے برے ارادہ كو نقش بر آب كر ديا ۔مجلس و عزاداري نوحہ و ماتم گريہ و زاري حضرت كے عظيم ھدف كو پورا كرنے كے لئے نہايت ضروري ھے اور ھم كو ان كے ھدف و مقصد پر چلنے كي دعوت ديتے ھيں ۔
چوتھے امام حضرت علي بن حسين زين العابدين عليھما السلامولادت با سعادت: ۱۵ جمادي الثاني سن ۳۸ ھجريمحل ولادت: مدينہ منورہماں كا نام: شھر بانو سلام اللہ عليھابنت يزد جرد (بادشاہ ايران)والد كانام: امام حسين (ع)سن مبارك: ۵۷ سالوفات: ۲۵ محرم سنہ ۹۵ ھجرىمحل وفات: مدينہ منورہمدفن: قبرستان بقيع (جنت البقيع)
حضرت امام حسين (ع) نے خدا وند عالم كے حكم سے اپنے فرزند حضرت علي بن الحسين زين العابدين (ع) كو منصب خلافت و امامت كے لئے منتخب فرمايا 34حضرت امام سجاد (ع) عبادت خدا ميں اس قدر سجدہ كرتے تھے كہ آپ كا لقب سجاد (ع) اور زين العابدين (ع) ھو گياآپ واقعہ كربلا ميں موجود تھے ليكن بيماري كے سبب جنگ ميں شركت نہ كر سكے ۔كربلا كي واپسي پر كوفہ و شام ميں آپ (ع) نے اپنے خطبہ كے درميان اپنے والد كي حقانيت اور ان كے مقدس ھدف كي وضاحت فرمائي ھے اور ان شھيدوں كے راستہ كو حقانيت و ديانت كا راستہ بتايا ھے ۔ حضرت امام زين العابدين (ع) چونكہ ھميشہ سختي اور عملي آزادي نہ ھونے كي وجہ سے علوم اور معارف اسلام كو لوگوں تك نہ پھونچا سكے اس لئے مجبوراً گوشہ نشين اور عبادت ميں مشغول ھوگئے نيز دين اسلام كي ترويج اور تعليم و تربيت كا ايك دوسرا راستہ اختيار فرمايا، اور وہ دعا ھے كہ جس ميں دين اسلام كي تمام مھم چيزوں كو وضاحت سے بيان فرمايا ھے، اور معارف علوم اسلامي كا ايك دريا صحيفہٴ سجاديہ كي صورت ميں لوگوں كے اختيار ميں قرار ديا ھے جو آپ كي دعاؤں كا مجموعہ ھے كہ جسے زبور آل محمد (ص) بھي كھاجاتا ھے ۔حضرت كا پسنديدہ مشغلہ يتيم و مسكين و نادار و مجبور اور بے سرپرست افراد كے ساتھ دسترخوان پر بيٹھ كر كھانا كھانا تھا اور گاھے اوقات تو خود اپنے ہاتھوں سے ان كو كھلاتے تھے مدينہ كے بھت سے ضرورتمند گھرانوں ميں كھانا اور لباس دينا آپ كا خاص وطيرہ تھا، اور اكثر جب لوگ سوجاتے تو آپ رات كي تاريكي ميں چھرے كو ڈھاكے ھوئے دوش پر كھانوں كا گٹھر اٹھائے غريبوں اور فقيروں ميں تقسيم كيا كرتے تھے، جس دن دير ھوجاتي فقرا و مساكين آپ كے انتظار ميں بيدار رھتے جب آپ كي زيارت ھوتي تو آپس ميں كھتے تمھيں مبارك ھو وہ شخص آگيا ان كو نھيں معلوم تھا كہ يہ كھانا پھونچانے والا كون شخص ھے؟ جب حضرت كي وفات ھوئي اور كئي دن گذر گئے (اور كھانا ان كو نہ ملا) تو سمجھے كہ راتوں ميں كھانا پھونچانے والے امام زين العابدين (ع) كے سوا كوئي اور نہ تھا، بس رونا اور پيٹنا شروع كر ديا 35
پانچويں امام حضرت محمد بن علي الباقر عليھما السلامولادت با سعادت: ۳صفر ۵۷ ھجريمحل ولادت: مدينہ منورہوالد كا نام: علي بن الحسين (ع)والدہ كا نام: فاطمہ بنت امام حسن (ع)سن مبارك: ۵۷ سالشہادت: ۷ ذي الحجہ سن ۱۱۴ ھجريمحل وفات: مدينہ منورہمدفن: قبرستان بقيع
حضرت امام زين العابدين (ع) نے خدا كے حكم سے اپنے فرزند امام محمد باقر (ع) كو منصب امامت و حكومت كے لئے منتخب فرمايا 36آپ كي علمي قابليت اس قدر زيادہ تھي كہ لوگ آپ كو باقر العلوم (ع) كے لقب سے پہچانتےتھے۔ تمام علمي طبقوں ميں آپ كو قابل قدر نگاھوں سے ديكھا جاتا تھا اور تمام حضرات آپ كے سامنے نہايت فروتني اور انكساري كے ساتھ مثل طفلِ مكتب دوزانوں ھو كر بيٹھتے تھے اور اپني مشكلات كو بيان كرتے اور كافي و شافي جواب لے كر رخصت ھوتے تھے، حضرت كو وہ فرصت حاصل ھوئي جو آپ سے پھلے اماموں كے لئے فراھم نہ تھي لہذا اس موقع كو غنيمت سمجھتے ھوئے اسلامي معارف و شريعت كے احكام اور علمي مطالب كا دريا بھاديا اس دور ميں كثرت سے حديثيں اور مفيد اقوال لوگوں تك پھونچے كہ جس طرف سنتے “قال الباقر” اور” قال الصادق” كي صدا ھي سنائي ديتي تھى، اپنے ہاتھوں زراعت اور حصول رزق ميں زحمت كرنا آپ كا خاص مشغلہ تھا ۔محمد بن منكدر كھتے ھيں:ميں ايك دن اطراف مدينہ ميں حضرت امام محمد باقر عليہ السلام كو زراعت كرنے كي حالت ميں پورا بدن پسينہ سے تر ديكھا ميں نے سوچا محترم اور مع شخصيت، فرزند رسول كو كھيتي كرتے ھوئے زيب نھيں ديتا كہ حصول دنيا ميں اس قدر عرق ريزي اور اس گرمي ميں گھر سے باھر كھيت كي سختي كو برداشت كريں لہذا ميں ابھي چل كر ان كو نصيحت كرتا ھوں، آپ كے نزديك جا كر سلام كيا آپ نے سلام كا جواب ديا ميں نے عرض كى: يابن رسول اللہ! آپ كو اس وقت اور اتني شديد گرمي ميں حصول دنيا كے لئے عرق ريزي كرنا زيب نھيں ديتا ھے، اگر اس وقت آپ كو موت آجائے تو پھر كيا كريں گے؟ حضرت ٹيك لگا كر كھنے لگے: خدا كي قسم اگر اس وقت مجھے موت آجائے تو يہ موت بھي عبادت كي موت ھوگى، اور پھر خدا كي معصيت ميں مشغول رھوں تو موت سے ڈروں، ميں اس لئے يہ زحمت برداشت كر رھاھوں تاكہ تم اور تمہارے جيسے دوسرے لوگوں كا محتاج نہ رھوں ۔ميں نے كھا: يابن رسول اللہ ! ميں آيا تھاآپ كو نصيحت كرنے كے لئے، ليكن خود آپ سے نصيحت لے كر جا رھاھوں 37
چھٹے امام حضرت جعفر بن محمد الصادق عليھما السلامولادت با سعادت: ۱۷ ربيع الاول سن ۸۳ ھجريمحل ولادت: مدينہ منورہوالد كا نام: امام محمد باقر (ع)والدہ كا نام: ام فروہ سلام اللہ عليھابنت قاسم بن محمد بن ابي بكرسن مبارك: ۶۵ سالشہادت: ۱۵ رجب يا ۲۵ شوال ۱۴۸ ھجريمحل شہادت: مدينہمدفن: مدينہ، قبرستان بقيع
حضرت امام محمد باقر (ع) نے خدا كے حكم سے اپنے فرزند امام جعفر صادق (ع) كو اس منصب امامت و خلافت كے لئے معين فرمايا 38حضرت امام جعفر صادق (ع) كے زمانہ ميں بني اميہ و بني عباس كے درميان اختلاف اور باھمي كشمكش پورے شباب پر تھي چونكہ بني اميہ كي موجودہ حكومت كمزوري اور تزلزل كا شكار تھي بني عباس، بني اميہ كي مخالفت اور اھل بيت (ع) كي طرفداري كا دعويٰ كرتے تھے ۔حضرت امام صادق (ع) نے اس فرصت كے موقع سے خوب استفادہ كيا اور معارف دين كي تعليم اور احكام شريعت كے پھيلانے ميں بھرپور كوشش كى، كلاس كي صورت ميں اچھے اور لائق شاگردوں كي تربيت فرمائي اور لوگوں كے درميان حلال و حرام كے مسائل اور ان كي تعليم و تعلم كو خوب فروغ ديا ۔مكتب امام جعفر صادق (ع) ميں تقريباً چار ہزار (۴۰۰۰) شاگردوں نے تربيت و پرورش حاصل كي تھى39 جس كي بركت سے عظيم كتابيں اور حديثوں كا خزانہ عالم اسلام كے ہاتھ آيا اور آپ ھي كي وجہ سے مذھب شيعہ مذھب جعفري كے نام سے مشھور ھوا ۔سفيان ثوري كھتے ھيں:ايك دن امام صادق (ع) كي خدمت ميں حاضر ھوا ديكھا آپ كے چھرے كا رنگ متغير ھے ميں نے اس كي وجہ دريافت كي تو حضرت نے فرمايا: ميں نے گھر والوں كو منع كيا تھا كہ كوئي چھت پر نہ جائے ليكن جب ميں گھر آيا تو ديكھا ايك كنيز بچے كو لئے ھوئے سيڑھي كے اوپر ھے، جب اس كي نگاہ مجھ پر پڑي بھت حيران و پريشان ھوئي اور لرزتے ھوئے ہاتھوں سے بچہ چھوٹ كر زمين پر گر گيا اور مر گيا، اب اس كنيز كے بے انتھاخوف و دھشت كي وجہ سے غمگين ھوں، اس وقت آپ (ع) نے كنيز سے فرمايا: ميں نے خدا كي راہ ميں تجھے آزاد كيا تم جہاں چاھو جا سكتي ھو 40
ساتويں امام حضرت موسيٰ بن جعفر الكاظم عليھما السلامولادت با سعادت: ۷ صفر سن ۱۲۸ ھجريمحل ولادت: ابواء (مكہ و مدينہ كے درميان واقع ھے)والد كا نام: امام جعفر صادق (ع)والدہ كا نام: حميدہ سلام اللہ عليھاسن مبارك: ۵۵ سالشہادت: ۲۵ رجب سن ۱۳۸ ھجريمحل شہادت: زندان سندي بن شاھكمدفن: كاظمين، بغداد
حضرت امام جعفر صادق (ع) نے خدا كے حكم سے اپنے فرزند امام كاظم (ع) كو منصب امامت و خلافت كے لئے منتخب فرمايا 41آپ اس قدر عبادت گذار اور پرھيز گار تھے كہ لوگ آپ كو عبد صالح سے خطاب كرتے تھے، بھت بردبار و حليم تھے كبھي كسي غير پسنديدہ چيز پر غصہ اور ناراض نھيں ھوتے تھے اس لئے آپ كا نام كاظم ھو گيا تھا ۔امام (ع) اپنے زمانہ ميں ھميشہ سختيوں اور دشواريوں سے دوچار رھے اس لئے اسلامي علوم پھيلانے اور اسكي نشر و اشاعت كا مناسب موقع ہاتھ نہ آيا پھر بھي بھت زيادہ لوگوں نے آپ سے كسب علم و فيض كيا، اور كثرت سے آپ سے منقول احاديث كتابوں ميں موجود ھے ۔ہارون نے ۱۷۹ ھجري ميں حضرت كو مدينہ سے عراق بلانے كا حكم ديا اور بصرہ و بغداد كے زندان ميں بيشتر مدت تك قيد ركھا آخر كار زندان سندي بن شاھك ميں آپ كو زھر دے كر شھيد كر ڈالا ۔
واقعہمدينہ ميں ايك شخص امام موسيٰ كاظم (ع) كو اذيت اور حضرت علي (ع) كو گالياں ديا كرتا تھا آپكے بعض اصحاب نے عرض كي كہ اگر آپ كا حكم ھو تو اس كو قتل كر ڈاليں، حضرت نے ان كو منع كرتے ھوئے فرمايا: وہ كہاں ھے؟ جواب ديا كہ وہ مدينہ كے اطراف ميں زراعت كرتا ھے، حضرت اس كے كھيت كي طرف گئے جب اس كے نزديك پھونچے خندہ پيشاني كے ساتھ اس كے پاس بيٹھ كر بغير كسي تكلف كے باتيں كرنا شروع كيں آپ نے اس سے دريافت كيا اس زراعت ميں تو نے كس قدر خرچ كيا ھے؟ اس نے جواب ديا: سو اشرفى، اور اسے فائدہ كي تجھے كس قدر اميد ھے؟ اس نے كھا: دو سو اشرفى، پس حضرت نے اشرفي كي تھيلي نكالي جس ميں تين سو اشرفى تھي اس شخص كو ديا اور فرمايا: يہ زراعت بھي تيري ھي ھے، وہ شخص ان تمام اذيت كے مقابلے ميں اس احسان كو ديكھ كر اٹھااور حضرت (ع) كے سر كا بوسہ لينے لگا اور بھت زيادہ آپ سے معذرت خواھي كى، امام (ع) نے اسے معاف فرمايا اور مدينہ كي طرف واپس چلے آئے، ميں نے دوسرے دن اس شخص كو مسجد ميں ديكھا كہ اس كي نگاہ جب امام كاظم (ع) پر پڑي تو كھنے لگا: خدا بھتر جانتا ھے كہ رسالت و امامت كو كہاں قرار دے، لوگ تعجب كرتے ھوئے اس كے اس رويہ كے متعلق پوچھنے لگے تو وہ شخص حضرت كے فضائل و مناقب اور آپ كے حق ميں دعا ئے خير كرنے لگا، اس وقت امام كاظم (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمايا: يہ كام اچھا ھوا يا جو تم لوگ پسند كرتے تھے؟ ميں نے تھوڑے پيسہ سے اس كي برائي ختم كر دي اور اس كو اھل بيت (ع) كا چاھنے والا بنا ديا 42
آٹھويں امام حضرت علي بن موسيٰ الرضا عليھما السلامولادت با سعادت: ۱۱ ذيقعدہ ۱۴۸ ھجريمحل ولادت: مدينہ منورہوالد كا نام: امام موسيٰ كاظم (ع)والدہ كا نام: جناب نجمہ خاتون خاتون سلام اللہ عليہاسنِ مبارك: ۵۰ سالشہادت: ۲۹ صفر ۲۰۳ ھجريمحل شہادت: طوسمدفن: مشھد (خراسان)
حضرت امام موسيٰ كاظم (ع) نے خدا كے حكم سے اپنے فرزند امام علي رضا (ع) كو منصب امامت و حكومت كے لئے منتخب فرمايا 43حضرت امام علي رضا (ع) دنيا كے تمام افراد ميں سب سے افضل اور ميدان علم و عمل ميں آپ كا كوئي نظير نہ تھا، لہذا اس زمانے كے علماء و عقلا آپ سے احكام ديني و معارف اور دوسرے مختلف علوم كے متعلق دريافت كرتے تو آپ ھر ايك كو ان كے متعلق جواب عنايت فرماتے تھے ۔ آپ نے مختلف طبقات فكر سے مباحثہ اور مناظرہ بھت ھي دلچسپ انداز سے كيا ھے جو اسلامي كتابوں ميں مذكور ھے، آپ كا ايك خاصہ يہ تھا كبھي بھي مباحثہ و مناظرہ كي ميز پر كسي مسئلہ ميں عاجز و حيران نھيں ھوتے تھے بلكہ ھر ايك كے سوال كا جواب انھيں كے مطابق عنايت فرماتے تھے ۔آپ لوگوں كے درميان بھت زيادہ محترم اور (عالم آل محمد (ص) ) آل محمد (ص) كے عالم كے نام سے پہچانے جاتے تھے، مامون عباسي نے سن ۲۰۰ ھجري ميں حضرت كو مدينہ سے “مر و ” بلايا جب آپ تشريف لائے تو اس نے زمام حكومت آپ كے سپرد كرنے كي كوشش كي ليكن حضرت نے قبول نہ فرمايا، جب اس كا اسرار حد سے زيادہ ھوا تو آپ نے ولي عھدي كا عھدہ قبول فرمايا، اور اس كي ولي عھدي قبول كرنے كا دو راز تھا ۔پھلا:حضرت چاھتے تھے كہ اس ولي عھدي كے ذريعہ مامون كي حكومت ميں ديني اور اسلامي رنگ سادات اور شيعہ حضرات كو اپني طرف متوجہ اور اس طرح ان كے آپسي اختلاف اور افتراق كو دور كيا جا سكتا ھے ۔دوسرا:مامون چالاكي كرنا چاھتا تھا كہ امام كو اپنے سے قريب كر كے حكومت كے كاموں ميں لگا دے جس سے آپ كے چاھنے والے بد ظن اور آپ سے دوري اختيار كرنے لگيں، ليكن امام تو مامون كے شكم كي چيزوں سے بھي باخبر تھے كہ جو حكومت كے لئے اپنے بھائي كو نہ چھوڑے وہ اتني آساني سے كسي كو حكومت و ولي عھدي كيسے دے سكتا ھے، لہذآپ نے ولي عھدي سے بھي انكار كيا ليكن مامون كے شديد اصرار كي بنا پر مجبوراً قبول كرنے كے لئے شرائط كے ساتھ راضي ھوگئے اور فرمايا: ولي عھدي كي شرط يہ ھوگي كہ ميں حكومت كے كسي كام ميں اور حكام كے ركھنے اور معزول كرنے ميں دخالت نھيں كرونگا ۔امام كي اس شرط كا مطلب مامون سمجھ گيا ميں نے تو ان كو خوار كرنے كے لئے يہ كام سپرد كيا تھا ليكن يہ تو مزيد عزت اور توقير كا باعث ھوجائے گا، لہذا اب دوسري فكر ميں پڑ گيا كہ كيسے امام كو قتل كيا جائے آخر كار آپ كو زھر دے كر شھيد كر ڈالا ۔
واقعہايك شخص بيان كرتا ھے ميں نے حضرت امام رضا (ع) كو دسترخوان پر سفيد و سياہ غلاموں كے ساتھ بيٹھے غذا تناول فرماتے ھوئے ديكھا تو ميں نے كھا: يابن رسول اللہ !كاش آپ نے غلاموں كو دسترخوان سے الگ اور جدا بيٹھايا ھوتا امام غضبناك ھوگئے اور فرمايا: خاموش ھوجا، ھمارا خدا ايك، دين ايك، اور ھمارے ماں باپ ايك ھيں ھر شخص قيامت ميں اپنے اعمال كا بدلہ پائے گا 44
نويں امام حضرت محمد ابن علي التقي عليھما السلامولادت با سعادت: ۱۰ رجب يا ۱۹ رمضان سن ۱۹۵ ھجريمحل ولادت: مدينہ منورہوالد كا نام: امام علي رضا (ع)والدہ كا نام: جناب سبيكہ خاتون سلام اللہ عليھاسن مبارك: ۲۵ سالشہادت: آخر ذيقعدہ سنہ ۲۲۰ ھجريمحل شہادت: بغدادمدفن: كاظمين
حضرت امام علي رضا (ع) نے خدا كے حكم سے اپنے فرزند امام محمد تقي (ع) كو منصب امامت كے لئے معين فرمايا: 45حضرت امام محمد تقي (ع) اپنے والد ماجد كے بعد منصب امامت پر جلوہ افروز ھوئے اس وقت آپ كي عمر مبارك بھت كم تھي اور بلوغ كے حدود ميں بھي قدم نھيں ركھا تھا، چونكہ علم و فھم خدا كي طرف سے تھا لہذا لوگوں كي تمام ديني مشكلات، كو بآساني حل كرنے پر قادر تھے بسا اوقات آپ سے امتحان كے طور پر دين اسلام كے مشكل مسائل كو دريافت كيا گيا تو آپ نے اس كا جواب كافي و شافي عنايت فرمايا، آپ كي علمي صلاحيت ھر طبقے كے تعليم يافتہ حضرات كے لئے زباں زد تھي وہ آپ پر تعجب و حيرت كي نگاھوں سے ديكھتے تھے، اور عبادت و پرھيزگاري ميں اس مقام پر فائز تھے كہ آپ كا لقب ھي تقي ھوگيا تھا اور كثرت جود و سخا كي بنا پر لوگ جواد بھي كھتے تھے ۔
دسويں امام حضرت علي بن محمد النقي عليھما السلامولادت با سعادت: ۱۵ ذي الحجہ ۲۱۲ ھجري يا ۲ رجب سنہ ۲۱۲ ھجريمحل ولادت: صريا (مدينہ)والد كا نام: محمد تقي (ع)والدہ كا نام: سمانہ سلام اللہ عليہاسن مبارك: ۴۲ سالوفات: ۲۷ جمادي الثاني يا ۳ رجب ۲۵۴ ھجريمحل شہادت: سامرہ (سر من راي)مدفن: سامرہ (سر من راي)امام محمد تقي (ع) نے خدا كے حكم كے مطابق اپنے فرزند امام علي نقي (ع) كو منصب امامت كے لئے منتخب فرمايا 46والد ماجد كي وفات كے وقت آپ كي عمر آٹھ سال تھي اس كم سني كے عالم ميں آپ منصب امامت و خلافت پر رونق افروز ھوئے، اسي كے ساتھ الٰھي علوم سے كاملاً بھرہ مند تھے ۔علم و ذكاوت كے اعتبار سے آپ كا كوئي نظير نہ تھا، حسن اخلاق كثرت علم اور پرھيزگاري اور حددرجہ عبادت كي وجہ سے آپ لوگوں ميں بھت زيادہ محبوب تھے ۔متوكل عباسي كو خطرہ محسوس ھوا كہ ايسا نہ ھو كھيں لوگ حضرت امام نقي (ع) كے يہاں زيادہ رفت و آمد اور آپ كے اطراف جمع ھو كر حكومت كے لئے كسي دشواري اور خطرے كا باعث بنيں ۔اس وجہ سے آپ كو سن ۲۴۳ ھجري ميں مدينہ سے سامرہ بلايا اور اپنے زير نگراني قرار ديا حضرت امام علي نقي (ع) خلفاء بني عباس كي سختيوں اور ان كي مصيبتوں پر تحمل و صبر كرتے ھو ئے زندگي كے آخري لمحات كو پورا كيا، اور ستائيس جمادي الثاني سن ۲۵۴ ھجري سامرہ ميں وفات پاگئے ۔
گيارھويں امام حضرت حسن بن علي العسكري عليھما السلامولادت با سعادت: ۸يا ۴ ربيع الثاني سن ۲۳۲ ھجرىمحل ولادت: مدينہ منورہوالد كا نام: امام علي نقي (ع)والدہ كا نام: حُديث سلام اللہ عليہاوفات: ۸ ربيع الاول سن ۲۶۰ ھجريمحل وفات: سامرہ (سر من راي)سن مبارك: ۲۸ سالمدفن: سامرہ (سر من راي)
حضرت امام علي نقي (ع) نے خداوندعالم كے حكم سے اپنے فرزند امام حسن عسكري (ع) كو منصب امامت كے لئے معين فرمايا 47امام حسن عسكري (ع) بھي اپنے والد ماجد علي نقي (ع) كي طرح سامرہ شھر ميں زير نظر، زنداني كي زندگي بسر كرنے پر مجبور تھے، لوگ آپ سے آزاد ملاقات نھيں كر سكتے، آپ كے علم سے فيض نھيں اٹھا سكتے تھے، ان سختيوں كے باوجود آپ نے اپني يادگار كے طور پر بھت ساري حديثوں اور مفيد مطالب كو لوگوں كے درميان چھوڑا جو كتابوں كي زينت بنے ھوئے ھيں، اھل فھم رجوع كر كے اس سے استفادہ كرتے ھيں، آپ كے اخلاق حميدہ پاك سيرت علم و فضل و پرھيزگاري اور عبادت خدا كسي پر مخفي نھيں ھے۔
بارھويں امام حضرت محمد بن حسن (صاحب الزمان) عليھما السلامولادت با سعادت: ۱۵ شعبان سن ۲۵۵ ھجريمحل ولادت: سامرہ (سر من راي)والد كا نام: امام حسن عسكري (ع)والدہ كا نام: نرجس سلام اللہ عليہاحضرت امام حسن عسكري (ع) نے خدا اور اس كے رسول (ص) كے حكم سے خلافت و امامت كے لئے اپنے فرزند مھدي (ع) كو منتخب فرمايا۔ 48مھدي (ع)، قائم (ع)، صاحب الزمان (ع)، امام عصر (ع)، اور حجة (ع) اللہ و بقية (ع) اللہ وغيرہ آپ كے القاب ھيں ۔بھت زيادہ روايتوں ميں حضرت رسول خدا (ص) سے منقول ھے كہ آںحضرت (ص) نے فرمايا: امام حسين (ع) كي نسل كي نويں فرد ميرا ھمنام، مھدي (ع) موعود ھوگا، ھر ايك امام نے اپنے زمانہ ميں خبر دي ھے كہ ھمارا كونسا فرزند مھدي (ع) موعود ھوگا آنحضرت (ص) اور آپ كے اھل بيت (ع) نے خبر دي ھے كہ امام حسن عسكري (ع) كے فرزند مھدي (ع) موعود ھيں ۔اور اس كي غيبت بھت طولاني ھوگي جب خدا چاھے گا ان كو ظاھر كرے گا، وہ دنيا كي اصلاح كرينگے اور عدل و انصاف سے دنيا كو بھر دينگے پوري زمين پر انھيں كي حكومت ھوگى، اللہ كي توحيد اور اس كي عبادت كو پوري دنيا ميں پھيلائيں گے دين اسلام كو دين حقيقت كے عنوان سے دنيا والوں كے لئے ثابت كرينگے ۔رسول خدا (ص) اور ائمہ طاھرين (ع) كے فرمان كے مطابق اللہ تبارك و تعاليٰ، امام حسن عسكري (ع) كو ايك فرزند عطا كرے گا، جس كا نام آنحضرت (ص) كے نام پر محمد (ص) ھوگا معتبر و معتمد اصحاب نے اس فرزند كو ديكھ كر گواھي دي ھے ۔امام زمانہ (ع) اپنے والد ماجد كي وفات كے وقت پانچ سال كے تھے، اور امام (ع) كے بعد آپ (ع) كے جانشين و امام ھوئے بني عباس كے خلفا نے جو روايات آنحضرت (ص) اور ائمہ طاھرين (ع) سے سنا اور پڑھا تھا كہ ايك فرزند امام حسن (ع) سے پيدا ھوگا جو مھدي موعود دنيا سے ظلم و جور كو ختم كر كے عدل و انصاف سے بھر دے گا، يعني ظالموں اور سركش افراد سے جنگ نيز ظالم حكومتوں كو نيست و نابود كر دے گا، فقط خدا كا دين اور اس كا عدل و انصاف ھوگا ان لوگوں نے جب امام كے مذكورہ تمام علائم اور آثار و نشانياں ديكھيں تو آپ كے سخت ترين دشمن ھو گئے اور قطعي طور پر فيصلہ كيا كہ حضرت امام مھدي (ع) كو قتل كر ڈاليں اور اس خطرہ كو راستہ سے دور كرديں، انھيں اسباب كے تحت امام لوگوں كي نگاھوں سے غائب ھو گئے اور پوشيدہ زندگي گذارنے لگے ليكن لوگوں سے آپ كا رابطہ بالكل منقطع نھيں ھوا تھا، بلكہ آپ كے خاص نائبين ھوتے تھے جن كے ذريعہ رابطہ برقرار ھوتا، اور وہ ان لوگوں كي مشكلات كو حل فرماتے تھے ۔حضرت امام زمانہ (ع) كے خاص نواب چار تھے:
۔ عثمان بن سعيد۔ محمد بن عثمان۔حسين بن روح۔ علي بن محمد سمري ۔
ان چاروں حضرات ميں سے يكے بعد ديگرے امام (ع) كي نيابت كے لئے منصوب ھوئے يہاں تك كہ غيبت صغريٰ كے دن تمام ھوئے اور امام زمانہ (ع) سے ملاقات كے روابط منقطع ھوئے اور غيبت كبريٰ كا آغاز ھوا ۔ابھي امام زمانہ (ع) غيبت كي زندگي بسر كر رھے ھيں لوگوں كے رفت و آمد ان كے اجتماع اور جلسہ ميں شركت كرتے ليكن خود اپني آشنائي نھيں كراتے ھيں يھي حال باقي رھے گا يہاں تك كہ آپ كے ظھور كے حالات مساعد اور اسلامي حكومت كي بنياد ركھنے كے لئے تمام راھيں ھموار ھوجائيں، اور پوري دنيا كے افراد اس نظام كائنات اور وقتي حكومتوں سے تنگ آكر بس خدا كي حاكميت اور اس كي حكومت كو چاھنے لگيں، دنياوي پريشانيوں اور ظلم و ستم و برائيوں سے لوگ تنگ آكر فقط خدائي قانون كو سائباں اور اپني مشكلات كا حل سمجھيں، اس وقت امام زمانہ عجل اللہ تعاليٰ فرجہ الشريف، ظھور فرمائيں گے احكام الٰھي كو نافذ كرنے كے لئے اپنے ساتھ طاقت و قدرت لائيں گے اس كے تحت ظلم و بربريت اور فساد كو نيست و نابود اور پورے جہان كو عدل و انصاف سے بھر ديں گے ۔ھم شيعيان حيدر كرّار كي اس غيبت كبريٰ كے زمانہ ميں ذمہ داري ھے كہ ولي ّبرحق كے ظھور كا انتظار اور آپ كے تعجيلِ ظھور كے لئے دعائيں كريں، قرآن مجيد كے اجتماعي احكام اور اس كے پروگرام كو دنيا كے تمام افراد كو سنائيں، اور اس احكام و قوانين كي بلندي و امتيازات اور اس كے فائدہ كو لوگوں كے سامنے پيش كريں، لوگوں كے ذھن اوران كے دل و دماغ كو ان احكام كي طرف متوجہ، اور باطل و بے سود خرافاتي عقائد كا ڈٹ كر مقابلہ اور اسلامي و جہاني امام كي حكومت كے لئے (حتي المقدور) تمام اسباب كو فراھم كريں اور دنياوي مشكلات كو حل كرنے كے لئے قرآن و حديث سے استفادہ كرتے ھوئے بھترين لائحہٴ عمل اور پروگرام تيار كريں اور اس كو مبلغين اور صلح و مصالحت كرنے والوں كے ہاتھوں ميں ديں تاكہ وہ فكروں كو اندھيرے سے روشنائي كي طرف موڑيں، اور ھم اپنے امام (ع) كے ظھور اور آپ كي عدل و انصاف سے پُر حكومت كے لئے آمادہ رھيں ۔
ائمہ طاھرين (ع) كے متعلق ھمارا عقيدہ1) بارہ امام عليھم السلام، ھر طرح كے گناہ اور نسيان (بھو ل چوك) سے معصوم ھيں ۔2) وہ حضرات خداوند عالم كے تمام احكام و قوانين كو جانتے ھيں اور جتني چيزيں (علوم اور اطلاعات) لوگوں كي ھدايت اور انكي راھنمائي كے لئے ضروري ھے خداوندعالم نے ان كے اختيار ميں دے ركھا ھے ۔3) دين اسلام ميں كوئي بھي حكم اپني طرف سے نھيں ديتے اور نھيں كسي نئي چيز كو دين ميں شامل كرتے ھيں ۔4) دين اسلام كے تمام احكام پر عمل كرتے ھيں اور ھر صحيح عقيدہ كا اعتقاد ركھتے ھيں، اخلاق حسنہ سے مزين لوگوں ميں بھترين افراد اور اسلام كے كامل شاھكار اور بھترين نمونہ ھوتے ھيں ۔5) لوگوں كي طرحوہ بھي انسان اور اللہ كے بندے اور اس كي مخلوق ھيں ان كو بھي موت اور بيماري لاحق ھوتي ھے، وہ خدا كي طرح موجودہ چيزوں كو پيدا كرنے والے نھيں ھيں ۔6) ان ميں سے گيارہ افراد كو موت آچكي ھے بارھويں امام، يعني امام حسن عسكري (ع) كے فرزند امام مھدي (ع) ابھي زندہ ھيں، ھم ان كے ظھور كا انتظار كر رھے ھيں ۔
شيعہجو لوگ حضرت علي ابن ابي طالب (ع) كو رسول خدا (ص) كا بلا فصل جانشين و خليفہ مانتے ھيں ان كو شيعہ كھاجاتا ھے ۔شيعہ اماميہ حضرت علي (ع) اور آپ كے گيارہ معصوم فرزندوں كو امام اور راھنما و رھبر مانتے ھيں اور ان كي رفتار و گفتار ميں پيروي كرتے ھيں، اور واقعي شيعہ وھي شخص ھے جو حضرت علي (ع) اور آپ كے معصوم فرزندوں كي اتباع و فرمانبرداري كرے اور ان كے طور طريقے اخلاق و اعمال كو اپنے لئے نمونہٴ عمل قرار دے، حضرت امام محمد باقر عليہ السلام جابر ۺ سے ارشاد فرماتے ھيں:اے جابر! فقط اتنا كہہ دينا كہ ھم اھل بيت (ع) سے دوستي و محبت ركھتے ھيں كيا شيعہ ھونے كے لئے كافي ھے؟ خدا كي قسم وہ ھمارا شيعہ نھيں ھے، مگر جو پرھيزگار اور خدا كي اطاعت كرنے والا ھو، اے جابر ! پھلے ھمارے شيعہ ان صفات سے پہچانے جاتے تھے تواضع، امانتدارى، خدا كا ذكر، روزہ، نماز، والدين كے ساتھ احسان، پڑوسى، اور ناتوان يتيم و قرضدار (اور بے چاروں) كي ركھوالي اور ان كي مدد، صداقت، قرآن كي تلاوت، لوگوں كے متعلق اچھائي كے سوا كچھ نھيں كھتے، اور لوگوں كے لئے امين تھے جابر نے عرض كي يابن رسول اللہ ! اس زمانہ ميں كسي كو ان صفات كا حامل نھيں پاتا ھوں فرمايا: اے جابر مختلف راھيں تمھيں حيران و سرگرداں نہ كر ديں اور تم كسي غلطي ميں گرفتار نہ ھوجاؤ ۔انسان كي نجات اور چھٹكارے كے لئے كيا بس يھي كھنا كافي ھے كہ ميں علي (ع) كو دوست اور ان سے محبت كرتا ھوں اور اللہ كے فرمان پر عمل پيرا نہ ھو؟ اگر كوئي كھے، ميں حضرت رسول (ص) خدا سے محبت كرتا ھوں اور آںحضرت (ص) كے دستور و اخلاق كي پيروي نہ كرے تو كيا رسول خدا (ص) كي يہ دوستي اس كو چھٹكارا دلا سكتي ھے ؟” نھيں ” جب كہ مسلّم ھے آنحضرت (ص) حضرت علي (ع) سے افضل تھے ۔اے شيعو ! اللہ سے ڈرو اور اس كے احكام كي اتباع كرو اللہ تعاليٰ كسي سے قرابتداري و رشتہ داري نھيں ركھتا ھے، خداوند عالم كے نزديك با عزت اور سب سے محترم شخص وہ ھے جو سب سے زيادہ پرھيزگار اور اس كے بتائے ھوئے احكام پر عمل كرنے والا ھو، اے جابر !خدا كي قسم ! اللہ سے نزديكي اور تقرب كے لئے اطاعت و فرماں برداري كے علاوہ كوئي راستہ نھيں ھے جھنم سے آزادي دلانا ھمارے اختيار ميں نھيں ھے، جو اللہ كا مطيع ھے وہ ھمارا دوست ھے اور جو اللہ كے حكم سے روگرداني و سر پيچي كرے وہ ھمارا دشمن ھے، ھماري ولايت و محبت سوائے عمل صالح اور پرھيز گاري كے حاصل نھيں ھوتي ھے 49امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: (اے شيعو) پرھيزگار اور صاحب تقويٰ بنو، اپنے نفس كي اصلاح اور نيك كام (عمل صالح) كي كوشش كرو، حق كھو، امانتدار اور خوش اخلاق ھوجاؤ، پڑوسىوں سے اچھا برتاؤ كرو، اپنے اخلاق و عمل سے لوگوں كو دين حق كي طرف دعوت دو، ھماري عزت اور سربلندي كا باعث بنو، گندے كاموں كے ذريعہ ھماري شرمندگي اور پشيماني كا سامان فراھم نہ كرو، اپنے ركوع اور سجود كو طول دو اس لئے جب خدا كا بندہ ركوع اور سجدہ كو طولاني كرتا ھے تو شيطان ناراحت ھوتا ھے اور اس حال ميں فرياد كرتا ھے اے، واي يہ لو گ اللہ كي اطاعت كرتے ھيں، ليكن ميں نے اللہ كي نافرماني كي يہ لوگ سجدہ كرتے ھيں اور ميں نے سجدہ سے روگرداني كي 50امام صادق (ع) فرماتے ھيں: حضرت عيسيٰ (ع) كے شيعہ اور حواري لوگ ان كے دوستدار تھے، ليكن ان كے دوستدار ھمارے شيعوں سے بھتر و افضل نھيں تھے اس لئے كہ ان لوگوں نے مدد كرنے كا وعدہ كيا تھا مگر ان كي مدد نھيں كي اور اللہ كي راہ ميں جہاد نھيں كيا، ليكن ھمارے شيعوں نے حضور اكرم (ص) كي وفات كے وقت سے آھماري مددكرنے سے انكار نھيں كيا ھے، ھمارے لئے فداكاري و جانثارى كرتے ھيں، آگ ميں جلائے گئے، قيد و زندان كي سخت سے سخت مصيبتيں برداشت كيں اپنے گھروں سے نكال دئے گئے (شھر بدر كيا) ليكن پھر بھي ھماري مدد و نصرت كرنے سے دريغ نھيں كيا51
مسلمانوں كے متعلق ھمارا عقيدہاس حال ميں كہ ھم اھل سنت سے مسئلہ خلافت و جانشيني ميں اختلاف نظر ركھتے ھيں اس كے باوجود تمام مسلمانوں كو اپنا بھائي اور ھم مسلك سمجھتے ھيں، اس لئے كہ ھمارا خدا ايك، ھمارا دين، ايك قرآن اللہ كي كتاب ايك، اور ھمارا قبلہ بھي ايك ھے ۔ان كي عزت و ترقي كو ھم اپني ترقي اور سربلندي جانتے ھيں ان كي كاميابي اور غلبہ كو ھم اپني كاميابي و تسلط سمجھتے ھيں، ان كے مغلوب اور ذلت و شكست كھانے كو ھم اپني شكست اور پستي مانتے ھيں، ھم سب زندہ و مردہ، خوشي و غم اور شادي و بياہ ميں باھم شريك ھيں، اس مسئلہ ميں ھم اپنے پھلے امام حضرت علي (ع) كي اتباع و فرمانبرداري كرتے ھيں، كہ اگر آپ اپنے شرعي حق كا دفاع اور خلافت كو لينا چاھتے تو لے سكتے تھے ليكن دين اسلام كي مصلحت اور اپني اصل خودداري اور ديانتداري كو ان پر ترجيح دى، نہ فقط خلفا سے جنگ نہ كي بلكہ حساس اور سخت وقت ميںنيز ضرورت و مجبوري ميں ان كي مدد بھي كرتے رھے اور مسلمانوں كو فائدہ پھونچانے سے كبھي بھي دريغ نھيں فرمايا، ھم اعتقاد ركھتے ھيں كہ دنيائے اسلام اس صورت ميں ايك زندہ اور طاقتور ملت كے عنوان سے اپني گذري ھوئي عظمت و شان و شوكت، بزرگي و برتري اور اجنبيوں كے تحت تسلط رھنے سے نجات حاصل كر سكتي ھے شرط يہ ھے كہتمام مسلمان اپنے اختلافات و پراگندگي اور انفراديت سے دوري اختيار كريں، اور پوري طاقت ايك طرف صرف كرديں اور سب كي سب دين اسلام كي راہ ميں اس كي عظمت و ترقي كے لئے قدم جماديں ۔
________________________________________
26. مائدہ (۶۷) < يا اَيھَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اُنزِلَ اِلَيكَ مِن رَبِّكَ وَاِن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَہ وَاللّٰہُ يعصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا يھدِي القَومَ الكَافِرِينَ>27. البدايہ و النہايہ، ج۵، ص ۲۰۸۔28. مناقب ابن شھر آشوب، ج۲، ص ۱۰۸ ۔29. بحار الانوار، ج۴۱، ص ۵۲ ۔30. اثباة الھداة، ج۵، ص ۱۲۱ ۔31. ينابيع المودة، ص ۳۷۳ ۔32. مناقب شھر آشوب، ج۴، ص ۱۹ ۔33. اثباة الھداة، ج۵، ص ۱۶۹ ۔34. اثباة الھداة، ج۵، ص ۲۱۲۔ ارشاد مفيد، ص ۲۳۸ ۔35. مناقب ابن شھر آشوب، ج۴، ص ۱۵۳ ۔36. اثباة الھداة، ج۵، ص ۲۶۳۔ ارشاد مفيد، ص ۲۴۵ ۔37. كشف الغمہ، طبع تبريز، ج۲، ص ۳۳۷ ۔38. اثباة الھداة، ج۵، ص ۳۲۸۔ ارشاد مفيد ۺ،ص ۲۵۴ ۔39. ارشاد مفيد، ص ۲۵۴۔40. مناقب ابن شھر آشوب، ج۴، ص ۲۷۴ ۔41. اثباة الھداة، ج۵، ص ۴۶۷ ا۔رشاد مفيد، ص ۲۷۰ ۔42. كشف الغمہ، ج ۳، ص ۱۸ ۔43. اثباة الھداة، ج۶، ص۲ ۔ارشاد شيخ مفيد، ص ۲۸۵ ۔44. وافى، ج۳، ص ۸۷ ۔45. اثباة الھداة، ج۶، ص ۱۵۵ ۔ ارشاد شيخ مفيد ۺ، ص ۲۹۷ ۔46. اثبات الھداة، ج۶، ص ۲۰۸ ۔ ارشاد مفيدۺ، ص ۳۰۸ ۔47. اثباة الھداة، ج۶، ص ۲۶۹ ۔ ارشاد مفيد ۺ، ص ۳۱۵ ۔48. اثبات الھداة، ج۶، ص ۳۵۲ ۔ ارشاد مفيد ۺ، ص ۳۲۷۔49. وافى، ج۱، تيسرا حصہ، ص۳۸۔50. وافى، ج ۱، تيسرا حصہ، ص۶۰۔51. سفينة البحار، ج ۱، ص ۷۳۔