امام موسیٰ کاظم- اور سیاست

297

امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آگ کی توجہ اس نکتہ کی طرف مبذول کراوٴں کہ آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی زندگی میں آپ کو اکثر واقعات بار بار پڑھنے کو ملتے ہیں اسکی وجہ یہ کہ آئمہ(علیہم السلام)کی سیاسی زندگی تقریباً ایک جیسی تھی کیونکہ ہر خلیفہ وقت کا ہدف ایک تھا اور وہ یہ کہ ان شخصیات کو کسی نہ کسی طرح لوگوں سے جدا کردیا جائے۔یہ شخصیات عوام سے اپنا رابطہ مضبوط نہ کرسکیں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔اس کے مقابلے میں آئمہ(علیہم السلام)کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح راستے کی نشاندہی کردی جائے ان کو کمال کا راستہ بتادیا جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آئمہ(علیہم السلام)نے کبھی بھی حکومت کو اپنے اور عوام کے درمیان روکاوٹ نہ بننے دیا آئمہ(علیہم السلام)نے چھوٹی ملاقاتوں میں جزئی مسائل کے جواب میں بھی لوگوں کی ہدایت فرمائی جیسا کہ پہلے امام صادق کا امیرالمومنین کے نام والا قصہ بیان کیا گیا کہ جس میں امام صادق نے ایک جزئی مسئلہ پر ایک کلی موضوع کوبیان کیا۔ان تمام اہداف اور مقاصد میں آئمہ(علیہم السلام)کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عوام کو بتایا جائے کہ یہ حکومت غیر قانونی ہے۔یہ خلیفہ غاصب ہیں اور اس منصب کے حق دار نہیں ہیں۔امام موسیٰ کاظم- کی زندگی میں بھی ہمیں ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں جو کہ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے سلسلے میں تھے۔مثال کے طور پر امام موسیٰ کاظم کا ایک ماننے والا جن کا نام صفوان تھا ان کے پاس اس زمانے میں اونٹ ہوا کرتے تھے جس کو وہ قافلے والوں کو کرائے پر دیتے تھے ایک دفعہ حج کے زمانے میں ہارون رشید نے ان اونٹوں کوکرائے پر لیا امام کوجب اسکی خبرملی تو امام نے صفوان کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے اپنے اونٹ ہارون رشید کو کرائے پر دئیے ہیں صفوان نے کہا جی مولا۔امام نے فرمایا کہ پھر تو ضرور تمہاری یہ دعا ہوگی کہ جب تک اونٹوں کا کرایہ نہ مل جائے ہارون رشید اور اس کے دربار والے زندہ رہیں؟ صفوان نے جواب دیا جی مولا۔امام- نے فرمایا:”جو بھی ان کی بقاء کی دعا کرے گا وہ ان میں سے ہے اور جو ان میں سے ہے اسکا ٹھکانہ جہنم ہے”صفوان نے جب یہ سنا تو چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا توبہ کی اور اپنے اونٹ کسی کو بیچ دئیےہارون رشید کوجب اس کی خبرملی تو ہارون نے کہا کہ اگر صفوان سے پرانی دوستی نہ ہوتی تو اس کو پھانسی پر لٹکا دیتا۔(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ۱۳۱۔۱۳۲)اسی کے ذیل میں امام صادق اور امام کاظم- کا ایک واقعہ ذکر کروں گا اور پھر جو چیز مقدمہ کے طور پر عرض کی گئی اس سے متعلق کچھ نتیجہ اخذ کریں گے۔ایران کے شہر کا گورنر نجاشی تھا جو کہ شیعان اہل بیت میں سے تھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر اور پریشان ہوکر امام صادق- کو خط لکھا اور اس میں حکومت کے ظلم وستم اورخلیفہ کی زیادتیوں کے بارے میں لکھا اور آخر میں امام سے درخواست کی کہ:”میں یہ گورنری چھوڑنا چاہتا ہو ں کیونکہ ڈرتاہوں کہ میری آخرت کا کیا ہوگا آپ مجھ کو اجازت دیجئے کہ میں اس مقام کو چھوڑدوں”امام- نے جواب میں تحریر فرمایا کہ:تمہارا خط ملنے سے مجھے خوشی بھی ہوئی اور میں پریشان بھی ہوا خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ:”خدا سے امیدوار ہوں کہ خدا تمہارے ذریعے سے آل محمدکے بے آسرالوگوں کوپناہ دے آل محمد کے بے بس لوگوں کو تمہارے ذریعے سے عزت دے آل محمد کے غریب لوگوں کو تمہارے ذریعے سے غنی کرے، ضعیف لوگوں کو قوی کرے اور دشمن کی آگ کو ان کی نسبت تمہارے ذریعے سے کم کرے”میری پریشانی کا سبب یہ کہ:”سب سے چھوٹی چیز جس کی وجہ سے میں پریشان ہو ں وہ یہ ہے کہ خدا نہ کرے کہ تم ہمارے دوستوں میں سے کسی سے بھی برا سلوک کرو اور اسکے نتیجہ میں خطیرہ القدس کی خوشبو سے بھی محروم ہوجاوٴ”(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ ۱۵۲)امام موسیٰ کاظم- کے ماننے والوں میں علی بن یقطین نامی ایک شخص تھا جو کہ خلیفہ کے دربار میں وزیرتھا ایک دفعہ خلیفہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر امام موسیٰ کاظم- کو ایک خط لکھا کہ:”خلیفہ کے ظلم وستم کی انتہا ہوچکی ہے میری برداشت سے باہرہے یہاں پر مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے میں روز قیامت کے حساب وکتاب کے بارے میں سوچ کر اور پریشان ہوجاتا ہوں اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہاں سے فرار ہوجاوٴں اور کہیں چھپ جاوٴں۔”امام موسیٰ کاظم- نے اسکے جواب میں تحریر فرمایا کہ:”تم کو اجازت نہیں دوں گا کہ تم اس کام کو چھوڑدو جوکہ تم انکے دربار میں انجام دے رہے ہو بس خدا کو مت بھولنا”(وسائل الشیعہ جلد ۱۲ صفحہ۱۴۳)اگر ہم پچھلے صفحوں پر ایک نظر ڈالیں تو ہم کو ایسے واقعات نظر آئیں گے کہ جس میں آئمہ(علیہم السلام)نے اپنے ماننے والوں کو خلفاء سے رابطہ برقرار کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن ان دو واقعات کی طرف نگاہ ڈالیں تو امام صادق- اور امام موسیٰ کاظم -گورنر اور وزیر کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ حکومت چھوڑدیں وہ شخص جس نے اپنے اونٹ فقط کرائے پردے رکھے ہیں اس کواتنی مہلت بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنے اونٹوں کا کرایہ لینے تک انتظار کرلے یا اگر کوئی کسی ذریعے سے وزیروں کے لئے کام کررہا ہے تو فرماتے ہیں کہ اسکی جگہ دوذج میں ہے آخر اسکا کیا سبب ہے؟آیا یہ دومخالف سوچیں ہیں؟ آیا یہ ایک دوسرے کے مخالف عمل ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اسکا جواب کیا ہے؟ان سوالوں کے جواب میں چند نکات بیان کروں گا جس کی بناء پر آئمہ اطہار(علیہم السلام) کے عمل میں یہ اختلافی چیزیں نظرآتی ہیں ان کی وجہ سے آئمہ(علیہم السلام)کے عمل میں کسی قسم کا کوئی تضادنہیں۔وہ شخص جو کہ دربار میں یا حکومت کے ساتھ کام کررہاہے اسمیں مندرجہ ذیل صفات ہونی چاہئیں۔۱۔ متقی اور پرہیز گارہونا۔۲۔ ولایت آئمہ(علیہم السلام)پر ایمان ہونا۔۳۔ غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرنا۔ٍ ۴۔ صاحبان ایمان کادفاع اور ان کی حفاظت کرنا۔ٍ ۵۔ راز دار رہنا۔اسی ضمن میں ایک اوراہم نکتہ کی طرف اشارہ کرتا چلوں اور ایک اورواقعہ حضرت امام موسیٰ کاظم- کی زندگی کے بارے میں بیان کروں ۔خلفاء بنی عباس کی تاریخ کے اندر ہمیں کچھ ایسے خلفاء بھی ملتے ہیں جو بڑے نرم دل تھے، اور انہوں نے جو مال ان سے پہلے والے خلفاء نے غصب کیا تھا وہ واپس کردیا تھا، من جملہ ان میں فدک بھی تھا جو کہ انہوں نے واپس کرنے کی حامی بھری اس سلسلے میں واقعہ بعد میں بیان کروں گا۔ جس نکتہ کی طرف آپکی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں ہے بلکہ وہ یہ کہ ان خلفاء کی نرمی اس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ آئمہ اطہار(علیہم السلام) سے محبت کرتے تھے بلکہ پے درپے ظالم حکمرانوں کی وجہ سے عوام کے اندر غصہ بھرچکا تھا اور مختلف جگہوں سے حکومت کے خلاف تحریکیں شروع ہوگئی تھیں ان تحریکوں اور ان مخالفتوں کود بانے کے لئے خود حکومت کے مشیر ایسے خلیفہ کو چنتے تھے جو کہ کم ظلم کرے اور لوگوں کے غصب شدہ حقوق ان کو واپس دے دے،’اور یہی افراد جب دیکھتے تھے کہ عوام کا غصہ کم ہوگیا تو خود ہی اس خلیفہ کو زہر دے کرماردیتے تھے۔مہدی عباسی(بنی عباس کا تیسرا خلیفہ)نے اپنے آباء واجداد کے گناہ پرپردہ ڈالنے کیلئے اور آزادی کی تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے تخت پر بیٹھنے کے بعدعام اعلان کیا کہ اگر کسی کا حق میری گردن پر ہے وہ آکر اسکا مطالبہ کرے تو اسکا حق اس کو واپس لوٹادیا جائیگا۔امام موسیٰ کاظم- نے جب یہ اعلان سنا تو مہدی عباسی کے پاس گئے اس وقت مہدی عباسی لوگوں کے حقوق ان کو واپس کرنے میں مشغول تھا۔امام- نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا:”کیا ہمارے چھنے ہوئے حقوق ہم کو واپس نہیں دیئے جائیں گے؟مہدی عباسی نے کہا: آپ کے حقوق کون سے ہیں ۔امام- نے جواب میں فرمایا کہ “فدک”مہدی نے کہا کہ فدک کی حدود معین کر دیں تو میں فدک آپ کو واپس پلٹا دوں گا۔امام موسیٰ کاظم- نے اس کے جواب میں فرمایا :” فدک کی پہلی حدا حد کا پہاڑ ہے اس کی دوسری حد عریش مصر ہے اس کی تیسری حد خزر کے ساحل تک ہے اور اس کی چوتھی حد عراق اور شام ہے۔ (یعنی تمام حکومت اسلامی) “مہدی عباسی نے تعجب سے پوچھا کہ یہ فدک کی حدود ہیں!امام کاظم- نے فرمایا :ہاںیہ سن کر مہدی عباسی اس قدر غصہ میں آیا کہ غصہ کے آثار اس کے چہرے سے عیاں تھے کیونکہ امام موسیٰ کا ظم- اس جواب کے ذریعے سے اس کو سمجھانا چاہتے تھے کہ حکومت اسلامی کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں ہو نی چاہیے مہدی عباسی وہاں سے اٹھ کر جانے لگا اور زیر لب کہہ رہا تھا کہ یہ حدیں بہت زیادہ ہیں اس کے بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا۔ (بحار الانوار جلد ۴۸ صفحہ ۱۵۶)
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.