امامت کے معانی و مراتب
بنیادی طور سے امامت کے منکر نہیں ہیں وہ اسے دوسری شکل سے تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن وہ جس نوعیت سے تسلیم کرتے ہیں، اس میں امامت اصول دین کا جز ونہیں ہے بلکہ فروع دین کا جو ہے بہر حال ہم دونوں امامت کے مسئلہ میں اختلاف رکھتے ہیں وہ ایک اعتبار سے امامت کےقائل ہےیں اور ہم دوسرے اعتبار سے امامت کو تسلیم کرتے ہیں آخر یہ کیسے ہوا کہ شیعہ امامت کو اصول دین کا جزو انتے ہیں او اہل سنت اسے فروغ دین کا جزو سمجھتے ہیں ؟ اس کا سبب وہی ہے جو عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ اور ایہل سنت کے یہاں امامت کے مفہوم میں فرق ہے ۔
امام کے معنی :امام کے معنی ہیں پیشوا یا رہبر ۔ لفظ امام، پیشوا یا رہبر بذات خود کوئی مقدس مفہوم نہیں رکھتے پیشوا یارہبر سے مراد ہے،آگے آگے چلنے والا، جس کا اتباع یا پیروی کی جائے ۔ چاہے وہ پیشوا عادی، ہدایت یافتہ اور صحیح راہ پر چلنے والاہو یا باطل اور گمراہ ہو۔ قرآن نے بھی لفظ امام کو دونوں معنی میں استعمال کیا ہے۔ایک جگہ فرماتا ہے :۔”وجعلنا ھم أئمۃیھدون بامرنا”(انبیاء / ۷۳ )ہم نے ان کو امام قرار دیا ہے جو ہمارے حکم سے ہدایت و رہبری کرتے ہیں ۔دوسری جگہ فرماتا ہے :۔ائمہ یدعون الی النار (قصص /۷۱)وہ امام جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں ۔یا مثلاًفرعون کے لئےبھی امام سے ملتے جلتے مفہوم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے : یقدم قومہ یوم لاقیامۃ [1]”وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلے گا ۔” معلوم ہوا کہ لفظاامام سے مراد پیشوا یا رہبر ہے ۔ ہمیں اس وقت باطل پیشوا یا رہبر سے سروکار نہیں ہے، یہاں صرف پیشوا یا رہبر کا مفہوم عرض کرنا مقصود ہے۔پیشوائی یا امامت کے چند مقامات ہیں جن میں سے بعض مفاہیم ہیں وہ سرے سے اس طرح کی مامت کے منکر ہیں۔نہ یہ کہ وہ امامت کو توقائل ہوں مگر مصداق میں ہم سے اختلاف رکھتے ہوں ۔ جس امامت کے وہ قائل ہیں لیکن اس کی کیفیت و شکل اور افراد میں ہم سے اختلاف رکھتے ہیں اس سے مراد معاشرہ کی رہبری و سر پرستی ہے۔ چنانچہ یہی یا اس سے ملتی جلتی تعبیر زمانۂ قدیم سے متکلمین کی کتابوں میں بھی ذکر ہوئی ہے ۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنی کتاب “تجرید الاعتقاد” میں امامت کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے “ریاسۃ عامۃ “یعنی “عمومی ریاست و حاکمیت” (یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے )
رسول اکرم(ص) کی حیثیتپیغمبر اکرم، دین اسلام کی خصوصیت و جامعیت کی بنا پر قرآن اور خود اپنی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے زمانہ میں کئی حیثیتوں اور ذمہ داریوں کے حامل تھے، یعنی ایک ہی وقت میں کئی امور آپ کے ذمہ تھے اور آپ کئی نصبوں پر کام کررہے تھے چنانچہ پہلا منصب جو خداوند عالم کی جانب سے آپ کو عطاہوا تھا اور جس پر آپ عملی طور سے کاربند تھے، پیغمبری و رسالت تھی ۔ یعنی آپ الٰہی احکام و قوانین کو بیان فرماتے تھے ۔ اس سلسلہ میں قرآن کا ارشاد ہے :”ماآتاکم الرسول فخذوہ وما نھیٰکم عنہ فانتھوا [2] “یعنی جو کچھ پیغمبر تمہارے لئےلایاہے اسے اختیار کرلواور جن چیزوں سے تمہیں منع کرتا ھے انھیں چھو ڑدو ۔ یعنی پیغمبر احکام و قوانین سے متعلق جو بھی کہتا ہے خدا کی جانب سے کہتا ہے ۔ اس اعتبار سے پیغمبر صرف ان چیزوں کا بیان کرنے والا ہے جو اس پر وحی کی شکل میں نازل ہوئی ہے ۔ دوسرا منصب جس پر پیغمبر اسلام فائز تھے قضاوت کا منصب تھا یعنی وہ تمام مسلمانوں کے درمیان قاضی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ کیونکہ اسلام کی نظر میں منصب قضاوت بھی کوئی یوں ہی سا بے معنی منصب نہیں ہے کہ جہاں کہیں دو آدمی آپس میں اختلاف کریں ایک تیسرا آدمی قاضی بن کر فیصلہ کر دے ۔ قضاوت اسلامی نقطہ ٔنظر سے ایک الٰہی منصب ہے کیونکہ یہاں عدل کا مسئلہ در پیش ہے ، قاضی وہ ہے جو نزع و اختلاف کے درمیان عادلانہ فیصلہ کرے ۔ یہ منصب بھی قرآن کے مطابق خداوند عالم کی جانب سے پیغمبر اکرم کو تفوین ہوا اور آپ خدا کی جانب سے حق رکھتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ فرمائیں : فلا و ربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدو ا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما [3] “معلوم ہوا یہ بھی ایک الٰہی منصب ہے کوئی معمولی عہدہ نہیں ہے اور پیغمبر عملی طور پر قاضی بھی تھے ۔ تیسرا منصب جس پر پیغمبر قانونی طور سے فائز تھے یعنی قرآن کی رو سے آپ کو عطا کیا گیا تھا اور آپ اس پر عمل پیرابھی تھے ، یہی ریاست عامہ ہے یعنی وہ مسلمان معاشرہ کے حاکم و رہبر تھے ۔ دوسرے لفظوں میں آپ مسلمانوں کے نگرا ں اور اسلامی معاشرہ کے سر پرست تھے ۔ کہتے ہیں کہ : “اطیعو اللہ و اطیعو االرسول و اولی الامر منکم “کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر تمہارے معاشرے کا حاکم و رہبر ہے ۔ وہ تمہیں جو حکم دے اسے تسلیم کر و ۔ لہٰذا یہ تینوں صرف ظاہری اور دکھاوے کے نہیں ہیں بلکہ بنیادی طور پر پیغمبر سے ہم تک جو کچھ پہنچا ہے اس کی تین حیثیتیں ہیں ۔ ایک پیغمبر کا وہ کلام جو فقط وحی الٰہی ہے ۔ یہاں پیغمبر بذات خود کوئی اختیار نہیں رکھتے جو حکم خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ پیغمبر اسے پہنچانے کا صرف ایک ذریعہ ہیں ۔ مثال کے طور پر جہاں وہ دینی قوانین بیان کرتے ہیں کہ نمازیوں پڑھو ، روزہ ایسے رکھو وغیرہ ۔ وہاں رسول کا ارشاد حکم خدا اور وحی ہے ۔ لیکن جب لوگوں کے درمیان قضاوت کرتے ہیں اس وقت ان کے فیصلے وحی نہیں ہوتے ۔ یعنی دو آدمی آپس میں جھگڑتے ہیں، پیغمبر اسلامی قوانین کے مطابق دونوں کے درمیا ن فیصلہ فرمادیتے ہیں کہ حق مثلا اس شخص کے ساتھ ہے یا اس شخص کے ۔ اب یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ جبرءیل پیغمبر پر نازل ہوں اور وحی کے ذریعہ بتائیں کہ اے رسول آپ کہءے کہ حق اس شخص کے ساتھ ہے یا نہٰں ہے ۔ ہا ں اگر کوئی استثنائی موقع ہوتو دوسری بات ہے ورنہ کلی طور پر پیغمبر کے فیصلہ انہیں ظاہری بنیادوں پر ہوتے ہیں جن پر دوسرے فیصلے کرتے ہیں فرق یہ ہے پیغمبر کے فیصلے بہت ہی دقیق اور اعلیٰ سطح کے ہوتے ہیں آپ نے خود ہی فرمایا ہے کہ میں ظاہر پر حکم کرنے کے لئےمامور کیا گیا ہوں یعنی مثلامدعی اور مدعیٰ الیہ اکٹھا ہوں اور مدعی کے ساتھ دو عادل گواہ بھی ہوں تو پیغمبر اسی ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ صادر فرماتے ہیں یہ وہ فیصلہ ہے جو خود پیغمبر نے فرمایا ہے۔ آپ پر وہی نہیں نازل ہوئی ہے ۔تیسری حیثیت بھی جس کے بموجب پیغمبر معاشرہ کے نگراں اور رہبر ہیں اگر اس کے تحت وہ کوئی حکم دے یہ حکم بھی اس فرمان سے مختلف ہوگا جس میں پیغمبر وحی خدا کو پہچانتے ہیں ۔خدا نے آپ کو ایسی ہی حاکمیت و رہبری کا اختیار دیا ہے اور ایک حق کی صورت میں آ پ کو منصب عطا فرمایا ہے اور وہ بھی رہبر ہونے کی حیثیت سے اپنے فراءض انجام دیتے ہیں لہٰذا اکثرآپ بعض امور میں لوگوں سے مشورہ بھی فرماتے ہیں ۔ چنانچہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے بدر اور احد کی جنگوں میں ۔ نیز بہت سے دوسرے مقامات پر اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا ۔ جب کہ حکم خدا میں تو مشورہ کی گنجاءش ہی نہیں ہوتی کیا کبھی پیغمبر نے اپنے اصحاب سے یہ مشورہ بھی لیا کہ مغرب کی نماز ایسے پڑھی جائے یا ویسے ؟ بلکہ اکثر ایسے مسائل پیش آتے تھے کہ جب آپ سے ان مو ضوعات کے متعلق پو چھا جاتا تھا تو صاف فر مادیا کرتے تھے کہ مسائل کا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی جانب سے ہی ایسا ہے اور اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا لیکن (احکام خدا کے علاوہ) دوسرے مسائل میں پیغمبر اکثر مشورہ فرماتے تھے اور دوسروں کی رآئے دریافت کیا کرتے تھے اب اگر کسی موقع پر پیغمبر کوئی حکم دے کہ ایسا کرو تو یہ اس اختیار کے تحت ہے جو خدا نے آپ کو عطا فرمایا ہے ۔ ہاں اگر کسی سلسلہ میں مخصوص طور پر وحی بھینازل ہوجائے تو ایک استثنائی بات ہوگی ۔اس کو عام مسائل سے الگ سمجھا جائے گا نہ یہ کہ تمام امور اور جزئیات میں معاشرہ کا حاکم اور رہبر ہونے کی حیثیت سے معاشرہ کے لئےپیغمبر جو کام بھی انجام دیتے تھے ۔ خدا ان کے لئےان پر وحی نازل فرماتا تھا کہ یہاں یہ کرو وہاں یہ کرو اور اس طرح کے مسائل میں بھی پیغمبر صرف اک پیغام رساں کی حیثیت رکھتا رہا ہولہٰذا پیغمبر اسلام یقینی طور پر بیک وقت ان متعدد منصبو ں پر فائز رہے ہیں ۔
امامت معاشرہ کی حاکمیت کے معنیٰ میںجیسا کہ عرض کر چکا ہوں امامت کا مطلب اپنے پہلے معنی کے مطابق ریاست عامہ ہے ۔ یعنی پیغمبر کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کا وہ عہدہ جسے معاشرہ کی رہبری کہتے ہیں، خالی ہوجاتا ہے ۔ اور اس سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانی معاشرہ ایک رہبر کا محتاج ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے بعد معاشرہ کا حاکم و رہبر کو ن ہے ؟ یہ وہ مسئلہ ہے جسے بنیادی لو۔ پر شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں اور سنّی بھی ۔ شیعہ بھی کہتے ہیں کہ معاشرہ کو ایک اعلیٰ رہبر و قاعد اور حاکم کی ضرورت ہے اور سنّی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں خلافت کا مسئلہ اس شکل میں سامنے آتا ہے ۔ سیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اپنے بعد ایک حاکم و رہبر معین کردیا اور فرمایا کہ میرے بعد مسلمانوں کے امور کے امام علی کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے اور اہل سنت اس منطق سے اختلاف کرتےہوئےکم از کم اس شکل میں جس شکل میں شیعہ مانتے ہیں یہ بات قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں پیغمبر نے کسی خاص شخص کو معین نہیں فرمایا تھا ۔ بلکہ یہ خود مسلمانوں کا فرض تھا کہ پیغمبر کے بعد اپنا ایک حاکم ورہبر منتخب کرلیں چنانچہ وہ بھی بنیادی طور پر امامت و پیشوائیکو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حاکم و رہبر ضرور ہونا چاہءے بس اختلاف یہ ہے کہ ان کے نزدیک رہبر انتخاب کے ذریعہ معین ہوتا ہے اور شیعہ کہتے ہیں کہ حاکم و رہبر کو خود پیغمبر نے وحی کے ذریعہ معین فرمادیا ہے ۔اگر مسئلہ امامت یہیں تک محدود رہتا اور بات صرف پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے سیاسی رہبر کی ہوتی تو انصاف کی بات یہ ہے کہ ہم شیعہ بھی امامت کو اصول دین کے بجائے فروع دین کا جزو قرار دیتےاور سمجھتے ہیں کہ یہ بھی نماز کی طرح ایک فرعی مسئلہ ہے لیکن شیعہ جس امامت کےقائل ہیں وہ اس قدر محدود نہیں ہے کہ چونکہ علی بھی دیگر اصحاب مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان اور سیکڑوں اصحاب یہاں تک کہ سلمان و ابوذر کی طرح پیغمبر کے ایک صحابی تھے لیکن ان سب سے بر تر و افضل، سب سے زیادہ عالم، سب سے زیادہ متقی اور باصلاحیت تھے اور پیغمبر نے بھی انہیں معین فرمادیا تھا ۔ نہیں، شیعہ صرف اسی حد پر نہیں ٹھہرتے بلکہ امامت کے سلسلہ میں دو اور پہلووں کےقائل ہیں ۔ جن میں سے کسی ایک کو بھی اہل تسنن سرے سے نہیں مانتے ایسا نہیں ہے کہ امامت کی ان دوحیثیتوں کو تو مانتے ہوں لیکن علی کی امامت سے انکار کرتے ہوں، نہیں !ان میں سے یاک مسئلہ یہ ہے کہ امامت دینی مر جعیت کا عنوان رکھتی ہے ۔
امامت دینی مرجعیت کے معنی میںہم عرض کرچکے ہیں کہ پیغمبر وحی الٰہی کی تبلیغ کرنے والے اور اس کا پیغام پہونچانے والے تھے ۔ لوگ جب متن اسلامی کے بارے میں جاننا چاہتے تھے یا قرآن میں مطلب نہ پاتے تھے پیغمبر سے سوال کرتے تھے مسئلہ یہ ہے کہ اسلام جو کچھ معارف احکام اور قوانین بیان کرنا چاہتا تھا کیا وہ سب کے سب وہی ہے جو قرآن میں آگئے ہیں اور پیغمبر نے عام طور سے لوگوں کے سامنے بیان کردیا ہے ؟ یانہیں بلکہ قہری طور سے زمانہ اس کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ پیغمبر تمام قوانینوں احکام عام طور سے لوگوں میں بیان کردیں علی پیغمبر کے وصی و جانشین تھے اور پیغمبر اسلام نے اسلام کی تمام چھوٹی بڑی باتیں یا کم از کم اسلام کے تمام کلیات علی سے بیان کردئےاور انہیں ایک بے مثال عالم غیر معلم اپنے اصحاب میں سے سب سے ممتاز انہیں کی طرح اپنء باتوں میں خطا و لغزش سے میری اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والی تمام باتوں سے واقف شخصیت کے عنوان سے لوگوں کےسامنے پیش کیا ار فرمایا اے لوگوں میرے بعد دینی مسائل میں جو کچھ پوچھنا ہو میرے اس وصی و جانشین اور اس کے بعد تما م آنے والے اوصیاء سے سوال کرنا در حقیقت یہاں امامت ایک کامل اسلام شناس کی حیثیت سے سامنے آتی ہے لیکن یہ اسلام شناس ایک مجتہد کی حد سے کہیں بالا تر ہے اس کی اسلام شناسی منجانب اللہ ہے اور اءمہ علیہ السلام یعنی واقعی اسلام شناس البتہ یہ وہ افراد نہیں ہے جنھوں نے اپنی عقل اور فکر کے ذریعے اسلام کو پہچانا ہوجن کے یہاں قہری طور پر خطا اور اشتباہ کا امکان بھی پایا جاتا ہو بلکہ انھوں نے ان غیبی اور مرموز ذرائع سے اسلامی علوم پیغمبر سے حاصل کئے ہیں جو ہم پر پوشیدہ پے او ر یہ علم پیغمبر سے علی علیہ السلام تک اور علی سے بعد کے اءمہ تک پہونچا ہے اور اءمہ علیہ السلام کے پورے دور میں یہ علم خطاوں سے بری معصوم علم کی صورت میں ایک امام سے دوسرے امام تک پہونچتا رہا ہے ۔اہل سنت کسی شخص کے لئےاس منزلت و مقام کےقائلنہیں ہیں لہٰذا وہ سرے سے اس طرح کی امامت کے حامل کسی بھی امام کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ۔ یعنی وہ امامت کے ہی قائل نہیں ہیں، نہ یہ کہ امامت کے توقائل ہوں اور کہیں کہ علی امام نہیں ہیں، ابوبکر اس کے اہل ہیں، نہیں بلکہ وہ لوگ ابوبکر، عمر عثمان بلکہ کلی طور پر کسی ایک صحابی کے لئےبھی اس منصب یا مقام کو تسلیم نہیں کرتے ۔یہی سبب ہےکہ خود اپنی کتابوں میں ابوبکرعمر سے دینی مسائل میں ھزاروں اشتباہات اورغلطیاں نقل کرتے ہیں لیکن شیعہ اپنے اماموں کوخطائوں سے معصوم جانتے ہیں اور امام سے کسی خطا کےسرزدہ ونےکو محال سمجھتے ہیں (مثال کے طور پر اہل سنت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ) ابوبکرنے فلاں مقام پراشتباہ کیا اوربعد میں خود ہی کہا کہ “ان لی شیطاناً نعترینی” بلاشبہ ایک شیطان ہےجو اکثر میرے اوپر مسلط ہوجاتا ہےاور میں غلطیاں کربیٹھتا ہوں،یا عمر نےفلاں مقام پرخطااورغلطی کی اوربعدمیں کہاکہ:یہ عورتیں بھی عمر سےزیادہ عالم وفاضل ہیں۔ کہتے ہیں کی جب ابوبکر کاانتقال ہواتو ان کےاہل خاندان منجملہ ابوبکرکی صاحبزادی اورزوجہء رسول عائشہ بھی گریہ وآہ زاری کرنےلگیں۔یہ صداے گریاجب ابوبکر کے گھرسے بلند ہوئی توعمر نے پیغام کہلوایا کی جاکر عورتوںسے کہ دوکہ خاموش رہیں۔وہ خاموش نہ ہوئیںدوسری مرتبہ کہلایاکہ اگرخاموش نہ ہوئیں تو میں تازیانہ لیکرآتا ہوں یوں ہی پیغام کے بعد پیغام جاتے رہےلوگوں نے عائشہ سے کہاکہ عمرگریا کرنے پربگڑرہےہیںدھمکیاںدے رہےہیںاوررونےسےمنع کرتےہیںآپ نے کہاابن خطاب کو بلاءو،دیکھیںوہ کیا کہ رہا ہے۔عمرعائشہ کے احترام میں خودآئے،عائشہ نےپوچھاکیا بات ہےیہ باربارپیغام کییوں کہلارہےتھے؟کہنےلگےمیںنےپیغمبرص سے سناہےکہ اگر کوئی شخص مرجائےاورلوگ اس پرروءیںتو جس قدر وہ گریہ کریں گے اتنا ہی مرنے والا عذاب میں گرفتار ہوتا جائے گا، لوگوں کا گریہ اس کےلئےعذاب ہے ۔ عائشہ نے کہا : تم سمجھتے نہیں، تمہیں اشتباہ ہوا ہے ۔ مسئلہ کچھ اور ہے، میں جانتی ہوں اصل قصہ کیا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک خبیث یہودی مر گیا تھا، اس کے اعزا اس پر رورہے تھے ۔ پیغمبر نے فرمایا :یہ لوگ رورہے ہیں، جبکہ اس پر عذاب ہوریا ہے ۔ یہ نہیں فرمایا تھا کہ ان لوگوں کو رونا عذاب کا سبب بن رہاہے ۔ بلکہ فرمایا تھا کہ یہ لوگ اس پر رورہے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس پر عذاب کیا جارہا ہے ۔ آخر اس واقعہ کا اس مسئلہ سے تعلق ہے ؟!اس کے علاوہ اگر میت پر رونا حرام ہے تو ہم گناہ کررہے ہیں خدا ایک بے گناہ پر عذاب کیوں کر رہا ہے ؟!اس کا اس میں کیا گناہ ہے کہ گریہ ہم کریں اور عذاب میں وہ مبتلا کیا جائے ؟! اگر عورتیں نہ ہوتیں تو عمر ہلاک ہو گیا ہوتا ۔خود اہل سنت کہتے ہیں کہ عمر نے ستر جگہوں پر (یعنی ستر مقاما ت پر اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ایسے موارد بہت زیادہ ہے کہا لولا علی لہلک عمر اور امیر المومنین علیہ السلام ان کی غلطیوں کو درست کرتے تھے اور خود بھی اپنی خطاؤں کا اقرار کرتے تھےمختصر یہ کہ اہل سنت اس نوعیت کی امامت کےقاءل نہیں ہے اب بحث کا رخ اس مسئلہ کی طرف پلٹتا ہے بلا شبہ وحی فقط پیغمبر پر نازل ہوتی تھی ہم یہ نہیں کہتے کہ اءمہ پر نازل ہوتی ہے اسلام صرف پیغمبر نے عالم بشریت تک پہونچایا خدا نے بھی اسلام سے متعلق جو کچھ کہنا تھا پیغمبر سے فرمادیا ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اسلام کے بعض قوانین پیغمبر سے نہ کہے گئے ہوں پیغمبر سے سب کچھ کہ دیا گیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے تمام احکام و قوانین عام لوگوں تک پہونچادیے گئے یا نہیں ؟ اہل سنت کہتے ہیں کہ اسلام کے جتنے احکام و قوانین تھے پیغمبر نے اپنے اصحاب تک پہونچا دءے لیکن بعد میں جب صحابہ سے کسی مسئلہ میں کوئی روایت نہیں ملتی تو الجھ جاتے ہیں کے کیا کریں ؟ اور یہیں سے دین میں قیاس کا مسئلہ داخل ہوجاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ان مسائل کو قانون قیاس کے ذریعہ مکمل کرلیتے ہیں جس کے متعلق امیر المومنین علیہ السلام نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں گویا خدا نے ناقص دین بھیجا ہے کہ تم اسے مکمل کرو گے ؟ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہ خدانے ناقص اسلامی قوانین پیغمبر پر نازل کیے اور نہ پیغمبر نے انہیں ناقص صورت میں لوگوں تک پہونچایا پیغمبر نے کامل طور پر سب کچھ بیان کردیا لیکن جو کچھ کامل شکل مین پیغمبر نے بیان کیا سب کچھ وہی نہیں ہے جو پیغمبر نے عوام کے سامنے بیان کیا ہے کتنے ہی احکام ایسے تھے جن کی ضرورت پیغمبر کے زمانے میں پیش ہی نہیں آءی اور بعد میں ان سے متعلق سوال ا ٹھا بلکہ آپ نے خدا کی جانب سے نازل ہونے والے تمام احکام اپنے شاگرد خاص کو تعلیم کیے اور ان سے فرمادیا کہ تم بعد میں ضرورت کے مطابق لوگوں سے بیان کرنایہیں سے عصمت کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے شیعہ کہتے ہیں کہ جس طرح پیغمبر اپنے بیان و گفتگو میں عمداً یا سھوا غلطی یا اشتباہ سے دو چار نہیں ہوتے یوں ہی ان کا شاگرد خاص بھی خطا یا اشتباہ سے دوچار نہیں ہوسکتا کیوں کہ جس طرح پیغمبر کو ایک نوعیت سے تائید الٰہی حاصل تھی یوں ہی ان کے خصوصی شاگرد کو بھی غیبی و الٰہی تائید حاصل تھی اور یہ گویا امامت کا ایک اور فضل و شرف ہے ۔
امامت، ولایت کے معنیاس تیسرے مرتبہ میں اپنے امامت اپنے اوج کمال کو پہونچتی ہے ۔ اور شیعہ کتابیں اس مفہوم سے بھری پڑی ہے ۔ مزید یہ ہے کہ امامت کی یہی حیثیت تشیع اور تصّوف کے درمیان مشترک پہلو رکھتی ہے ۔ البتہ اس وجہ اشتراک کی تعبیر سے کوئی غلط مفہوم نہ لینا چاہئے ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس سلسلہ میں مستشرقین کی باتیں آپ کے سامنے آئیں جو مسئلہ کو اسی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ یہ مسئلہ عرفا کے یہاں بڑے شد و مد کےساتھ پایا جاتا ہے اور شیعوں میں بھی صدر اسلام سے ہی موجود تھا ۔ مجھے یا د ہے کہ آج سے دس سال پہلے ہنری کار بن نے علامہ طباطبائی سے ایک انٹرویوکے دوران یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ اس مسئہ کو شیعوں نے متصوفہ کے یہاں سے لیا ہے یا متصوفہ نے شیعوں سے اپنا یا ہے؟ گویا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے حاصل کیا ہے،علامہ طباطبائی نے جواب دیا تھا کہ صوفیوں نے اسے شیعوں سے لیا ہے، اس لئے کہ یہ مسئلہ شیعوں کے یہاں اس وقت سے موجود ہے جب نہ تصوفد کو یہ شکل حاصل ہوئی تھی اور نہ یہ مسائل ان کے یہاں پیدا ہوئے تھے ۔ بعد میں صوفیا کے یہاں بھی یہ تصور پیدا ہوگیا ۔ چنانچہ اگر سوال یہ اٹھے کہ ایک نے دوسرے سے اپنا یا تو یہی کیا جائے گا کہ تصور شیعوں سے صوفیوں کے یہاں پہنچا ہے ۔ یہ مسئلہ ایک انسان کا مل یا دوسرے الفاظ میں حجت زمانہ کا مسئلہ ہے ۔ عرفااور صوفیا اس مسئلہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ مولانا روم کہتے ہیںپس یہ ہر دوری و لیتی قائم استیعنی ہو دور میں ایک ایسا انسان کامل موجود ہے جو اپنے اندر انسانیت کے تمام معنویات و کمالات رکھتا ہو ۔ کوئی عہد اور کوئی زمانہ ایسے ولی کامل سے خالی نہیں ہے، جسے وہ اکثر لفظ قطب سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ اور ایسے ولی کامل کے لئے جس میں انسانیت کامل طور پر جلوہ گر ہو یہ لوگ ایسے مدارج و مراتب کے قائل ہیں جو ہمارے افکار سے بہت بعید ہیں ۔ منجملہ اس کی ایک منزلت یہ بھی ہے کہ ولی لوگوں کے ضمیروں یونی دلوں پر تسلط رکھتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی روح کلی ہے جوتمام ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یہاں بھی مولانا روم ابراہیم ادہم کی داستان میں، جو ایک افسانہ سےزیادہ حیثیت نہیں رکھتی، اس سلسلہ میں اشارہ کرتے ہیں ۔ اصل میں وہ ان افسانوں کا ذکر اپنے مطلب کی وضاحت کےلئے کرتے ہیں ان کا مقصد تاریخ بیان کرنا نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں : ابراہیم ادہم دریا کےکنا رہ گئے اور ایک سوئی دریا میں ڈال دی اور پھر آپ نے اس سوئی کو واپس طلب کیا ۔ مجھلیوں نے پانی سے منھ نکا لا توع سب کےدہن میں ایک ایک سوئی موجود تھی ۔ یہاں مولانا روم کہتے ہیںدل نگہ دار پدای بی حاصلاندر حضور حضرت صاحبدلانیہاں تک کہ فرماتے ہیں شیخ یعنی ان پیر صاحب نے ان کے افکار سے حقیقت و واقعیت معلوم کرلیشیخ واقف گشت از اندیشہ اششیخ چون شیراست و دلھا بیشہ اشہم شیعوں کے یہاں ولایت کا مسئلہ اس عامیانہ تصور کے مقابلہ میں بڑا دقیق اور عمیق مفہوم رکھتا ہے ۔ ولایت کا مطلب ہے حجت ِ زمان یعنی کوئی زمانہ اور کوئی عہد اس حجت سے خالی نہیں ہے : ولولا الحجۃ لساخت الارض باھلھا مطلب یہ ہے کہ نہ کوئی ایسا زمانہ گزرا اور نہ کوئی ایسا زمانہ ہوگا جب زمین کسی انسان کا مل یا حجت خدا سے خالی رہے ( ورنہ زمین اپنی تمام موجودات کے ساتھ ہی ختم ہوجوئے گی ) شیعہ اس انسان کامل کے لئے عظیم درجات و مراتب کے قائل ہیں ۔ ہم اپنی اکثر و بیشتر زیارتوں میں اس طرح کی ولایت و امامت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں، یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام ایسی روح کلی رکھتا ہے جوتما ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (ہم ان کلمات کو نہ صرف ہمیشہ پڑھتے ہیں بلکہ یہ ہمارے شیعی مسلمات و اصول کا جزو ہے ۔ : اشھد انک تشھد مقامی و تسمع کلامی وترد سلامی ( مزید کہ ہم یہ کلمات ان کے لئے کہتے ہیں جو مر چکے ہیں ۔ البتہ ہماری نظروں میں ان کی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اس کمال پر فائز نہ تھے، مرنے کے بعد ایسے ہوگئے ہیں ) میں گوہی دیتا ہوں کہ آپ اس وقت میرے وجود کویہاں محسوس اور درک کررہے ہیں ۔ میں گوا ہی دیتا ہوں کہ اس وقت جو کچھ میں کہہ رہا ہوں السلام علیک یا علی بن موسی الرضا اسے آپ سن رہے ہیں ۔ میں اعتراف کرتا ہوں اور گوہی دیتا ہوں کہ میں آپ کو جوسلام کررہا ہوں اسلام علیک آپ اس کا جواب دیتے ہیں ۔ یہ وہ مراتب ہیں جن کاہمارے سوا کوئی کسی کے لئے قائل نہیں ہے ۔ اہل سنت ( وہابیوں کے علاوہ) صرف پیغمبر اکرم کے لئے اس مرتبہ کے قائل ہیں پیغمبر کے علاوہ دنیا میں کسی اور کے لئے اس روحی کمال اور روحانی مرتبہ کے قائل نہیں ہیں ۔ جبکہ یہ بات ہم شیعوں کو اصول مذہب میں داخل ہے اور ہم ہمیشہ اس کا اقرار کرتے ہیں ۔بنابر این مسئلہ امامت کے تین درجے ہیں ۔ اگر ہم ان تینوں درجوں کو ایک دوسرے سے جدانہ کریں تو امامت سے متعلق دلا ئل میں ہمیشہ شبہات سے دوچار ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ شیعوں میں بھی الگ الگ درجے ہیں ۔ بعض شیعہ امامت کامطلب وہی انسان معاشرہ کی رہبری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو اپنے بعد رہبری کے لئے معین فرمادیا تھا ۔ ابوبکرو عمر وعثمان ان کی جگہ پر غلط آئے ۔ یہ لوگ اسی حد تک شیعہ ہیں اوراممت کے بقیہ دونوں مرتبوں کا یا عقیدہ نہیں رکھتے یا اس سلسلہ میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔ بعض لوگ دوسرے مرحلے کے بھی قائل تر ہیں ( یعنی امام دینی مرجع ہوتا ہے ) لیکن تیسرے مرحلہ کو تسلیم نہیں کرتے کہتے ہیں کہ مرحوم آقا سید محمد باقر در چہ ای جو آقائے بروجردی کے استاد تھے، امامت کےاس تیسرے مرحلہ کے منکر تھے ۔ لیکن شیعہ اور علمائے شیعہ کی اکثریت اس تیسرے مرحلہ کا بھی عقیدہ رکھتی ہے ۔ہمیں در اصل امامت کے موضوع پر تین مرحلوں میں بحث کرنی چاہئے :۔۱۔ امامت قرآن کی روشنی میں ۔۲۔ امامت احادیث کی روشنی میں ۔۳۔ امامت عقل کی روشنی میں ۔پہلے مرحلہ میں دیکھنا چاہئے کہ قرآنی آیات پر جسے شیعہ تسلیم کرتے ہیں دلالت کرتی ہیں یا نہیں ؟ اور اگر دلالت کرتی ہیں تو کیا امام و صرف معاشرہ کے سیاسی و اجتماعی رہبر کے معنی میں پیش کرتی ہیں یا اس کی دینی مرجعیت حتیٰ کہ معنوی و روحانی ولایت کو بھی بیان کرتی ہیں ؟ اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم احادیث پیغمبر کا جائزہ لیں کہپ حضور نے امامت کےسلسلہ میں کیا بیان فرمایا ہے ۔ اس کے بعدعقل کی روشنی میں اس مسئلہ کا تجزیہ کریں کہ عقل ان تینوں مرحلوں میں امامت کو کس حیثیت سے تسلیم کرتی ہے؟کیا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرہ کا رہبر ہونے کی حیثیت سے حق اہل سنت کے ساتھ ہے، اور جانشین پیغمبر کو شوریٰ کے ذریعہ منتخب ہونا چاہئے، یا پیغمبر نے خود اپنا جانشین معین فرمادیا ہے ؟اس طرح امامت کی بقیہ دونوں حیثیتوں کے سلسلہ میں عقل کیا کہتی ہے ۔
امامت کے بارہ میں ایک حدیث:امامت کے سلسلہ میں قرآنی آیات کے ذکر سے پہلے ایک مشہور و معروف حدیث پیش کرتا ہوں ۔ اس حدیث کی روایت شیعوں نے بھی کی ہے اور اہل سنت نے بھی۔ اور جس حدیث پر شیعہ و سنی متفق ہوں، اسے معمولی نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ جب دو فریق دو الگ الگ طریقوں سے اس کی روایت کرتے ہیں تو ایک بات تقریباًیقینی ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اکرم یا امام نے یہ بات بہر حال فرمائی ہے ۔ البتہ اگر چہ عبارتوں میں تھوڑا سا فرق ہے لیکن مضمون تقریباًایک ہی ہے۔ ہم شیعہ اس حدیث کو زیادہ تر ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں: من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ [4] یعنی جو شخص اپنے زمانہ کے امام یا رہبر کو پہچانے بغیر مرجائے، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ حدیث کی یہ تعبیر بہت شدید ہے کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں مرنے والا نہ توحید پر ایمان رکھتا تھا نہ نبوت پر بلکہ سرے سے مشترک ہوتا تھا۔ یہ حدیث شیعہ کتابوں میں کثرت سے نقل ہوئی ہے اور شیعی اصول و مسلمات سے بھی صد فیصد مطابقت و موافقت رکھتی ہے شیعوں کی معتبر ترین حدیث کی کتاب کافی میں یہ حدیث نقل ہوئی اہل سنت کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے لیکن اسے ایک روایت میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ممات بغیر امام مات میتۃ الجاھلیۃ جو شخص امام کے بغیر مر جائے گویا وہ جاہلیت کی موت مرا ایک دوسری عبارت میں اس طرح نقل ہے من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی امام کی بیعت کا قلادہ نہ ہو اس کی موت جاھلیت کی موت ہے ایک اور عبارت جو شیعوں کے یہاں بھی ملتی ہے لیکن اہل سنت کے یہاں کثرت سے نقل ہے من مات ولا امام لہ ما ت میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کا کوئی امام نہ وہ وہ جاہلیت کی موت مرا اس طرح کی عبارتیں بہت زیادہ ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے مسئلہ امامت کے سلسلہ میں خاصہ اہتمام فرمایا ہےجو لوگ امامت کا مطلب صرف اجتماع و معاشرے کی رہبری سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھو پیغمبر نے رہبری کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ خود معتقد ہیں اگر امت کا کوئی رہبر پیشوا نہ ہو تو لوگوں کی موت جاہلیت کی موت ہوگی کیونکہ احکام اسلام کی صحیح تشریح اور ان کا صحیح نفا ض اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب امت ایک صالح رہبر موجود ہواور امت اپے رہبر کے ساتھ مضبوط ارتباط قائم رکھے اسلام انفرادی دین نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے میں خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہوں اب مجھے کسی اور کی ضرورت نہیںنہیں بلکہ خدا اور رسول پر ایمان رکھنے کے بعد بھی آ پ کو بہر حال یہ دیکھنا اور سمجھنا پڑے گا کہ زمانے میں رہبر اور مام کون ہے تاکہ بہر حال اسی کی سر پرستی اور رہبری میں عملی زندگی گزاریں اور جو لوگ امامت کو دینی مر جعیت کے معنی میں دیکھتے ہیں۔ وہ( اس حدیث کی روشنی میں)کہتے کہ جسے اپنا دین محفوظ رکھنا ہو اسے اپنے دینی مرجع کی معرفت حاصل کرنا ھوگی ۔ اور یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی دین کہاں سے حاصل کیا جائے۔ اور یہ کہ انسان دین تو رکھتا ہے لیکن وہ اپنا دین خود اس کے مخالف منابع و مراکز سے حاصل کرے تو سراسر جہالت ھوگی۔اور جو امامت کو ولایت معنوی کی حد تک لے جاتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان کسی ولی کامل کے لطف و کرم اور اس کی توجہ کا مرکز قرار نہ پائے تو گویا اس کی موٹ جاہلیت کی موت ہے ۔ یہ حدیث چونکہ متواترات سے ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ پہلے عرض کردوں تاکہ ذہنوں میں باقی رہے “انشاء اللہ اس پر آئندہ بحث کی جائے گی۔
امامت قرآن کی روشنی میں:قرآن کریم میں کئی آیتیں مذکور ہیں جن سے شیعہ امامت کے سلسلہ میں استدلال کرتے ہیں اتفاق سے ان تمام آیتوں کے سلسلہ میں اہل سنت کےیہاںبھی ایسی روایتیں موجود ہیں جو شیعہ مطالب کی تائید کرتی ہیں ۔ ان میںسے ایک آیت یہ ہے:(انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین آمنواالذین یقیموں الصلاۃ ویوتون الزکاۃ وھم راکعون)۔[5]”انما” کے معنی ہیں صرف اور صرف (کیونکر یہ اداۃ حصر ہے)”ولی”کے اصل معنی ہیں سر پرست ولایت یعنی تسلط و سرپرستی۔ قرآن کہتا ہے۔ تمہارا سر پرست صرف اور صرف خدا ہے، اس کارسول ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔”اسلام میں ایساکوئی حکم نہیں ہے کہ انسان ھالت رکوع میں رکوۃ دے۔ تاکہ کہا جائے کہ یہ قانون لی ہے اور تمام افراد اس حکم میں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو خارج میں صرف ایک بار ظہور پذیر ہوا۔ شیعہ اور سنی دونوں نے متفق طور پر اس کی روایت کی ہے، واقعہ کا خلاصہ یوں ہے کہ حضرت علی حالت رکوع میں تھے کہ ایک سائل نے آکر سوال کیا ۔ حضرت نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا ۔ سائل قریب آیا ، اس نے حضرت علی(ع) انگلی سے انگھوٹی اتاردی اور لیکر چلاگیا ۔ یعنی آپ نے اتنا انتظار بھی نہیں کیا کہ نماز تمام ہوجائے اس کے بعد انفاق کریں آپ اس فقیر کے سوال کو جلد از جلد پورا کرنا چاہتے تھے لہٰذا اسی رکوع کی حالت میں اسے اشارہ سے سمجھا دیا کہ انگھوٹی اتار لے جائے اور اسے بیچ کر اپنا خرچ پورا کرے ۔ اس واقعہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، سنی شیعہ سب متفق ہیں کہ حضرت علی نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ دونوں فریق اس بات پربھی متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ جبکہ رکوع کی حالت میں انفاق کرن اسلامی قوانین کا جزو نہیں ہے ۔ نہ واجب ہے نہ مستحب کہ یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کچھ کوگوں نے اس قانون پر عمل کیا ہو۔ لہٰذا آ یت کا یہ انداز “جو لوگ یہ عمل انجام دیتے ہیں “ایک اشارہ و کنایہ ہے ۔ جسے خود قرآن میں اکثر آیا ہے “یقولون ” یعنی ( وہ لوگ کہتے ہیں ) جبکہ معلوم ہے کہ ایک شخص نے یہ بات کہی ہے ۔ لہٰذا یہان اس مفہوم سے مراد وہ فرد ہے جس نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ بنا بر ایں اس آیت کے حکم کے مطابق حضرت علی (ع) لوگوں پر ولی حیثیت سے معین کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ شیعہ اس آیت کو استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ البتہ اس پر اس سے کہیں زیادہ بحث و گفتگو ہونی چاہئے جسے ہم آئندہ پیش کریں گے ۔دوسری آیات واقعۂ غدیر سے متعلق ہیں ۔ اگر چہ خود واقعہ غدیر احادیث کے ذیل میں آتا ہے اور ہم اس پر بعد میں بحث کریں گے لیکن اس واقعہ سے متعلق سورۂمائدہ میں جو آیتیں وارد ہوئی ہیں ۔ ان میں ایک آیت یہ ہے :”یاایتھا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ”[6] (یہاں لہجہ بہت تند ہو گیا ) اے پیغمبر ! جو کچھ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی تبلیغ کردو ، اور اگر تم نے اس کی تبلیغ نہیں کی تو گویا تم نے سرے سے رسالت الٰہی کی تبلیغ نہیں کی ۔ اس آیت کا مفہوم اتنا ہی شدید اور تند ہے جتنا حدیث “من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ ” کا اجمالی طور سے خود آیت ظاہر کررہی ہے کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اگر پیغمبر نے اس کی تبلیغ نہ کی تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا ۔شیعہ و سنی اس پر متفق ہے کہ پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والا آخری سورہ، مائدہ ہے ۔ اور یہ آیتین ان آیتوں کاجز ہے جو سب سے آخر میں پیغمبر پر نازل ہوئی یعنی اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام تیرہ سال مکہ کی زندگی اور دس سال مدینہ کی حیات میں اسلام کے تمام دوسرے قوانین و احکام بیان کر چکے تھے یہ حکم ان احکام کا آخر جز تھا اب ایک شیعہ سوال کرتا ہے کہ یہ حکم جو آخری احکام کا جزہے اور اس قدر اہم ہے کہ اگر پیغمبر اسے نہ پہونچائیں تو ان کی گذشتہ علم محنتوں پر پانی پھر جائے ۔ آخر ہے کون سا حکم ؟ آپ لاکھ تلاش کے بعد کسی ایسے مسئلہ کی نشان دہی نہیں کرسکتے جو پیغمبر کی زندگی کے آخر دنوں سے مربوط ہو اور اس قدر اہم ہو کہ اگر حضور اس کی تبلیغ نہ کریں تو گویا انھوں نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ امامت ہے ۔ اگر وہ نہ ہوتا سب کچھ بیکا ر ہے یعنی اسلام کا شیرازہ بکھر کے رہ جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ شیعہ خود اہل سنت کی رواہت سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیرخم میں نازل ہوئی ہے ۔اسی سورۂ مائدہ میں ایک اور آیت ہے “الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا “(سورہ مائدہ آیت نمبر ۳)آج میں نے دین کو تم لوگوں کےلئے کمال کی منزلوں تک پہونچا دیا ۔ اس پر اپنی نعمتیں آخر حدوں تک تمام کر دی اور آج کے دن میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسندیدہ قرار دیا ، خود آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس دن کوئی واقعہ گزرا ہے جو اتنا اہم ہے کہ دین کے کامل ہونے اور انسانیت پر خدا کی طرف سے اتمام نعمت کا سبب بن گیا ہے ۔ جس کے ظہور پذیر ہونے سے اسلام در حقیقت اسلام ہے اور خدا اس دین کو ویسا ہی پاتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو اسلام ،اسلام ہی نہیں ہے ۔ آ یت کا لب و لہجہ بتا تھا ہے کہ واقعہ کتنا اہم ہے ۔ اسی بنا پر شیعہ اس سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ موضوع جو دین کی تکمیل اور اتمام نعمت کا سبب بنا اور جو اگر واقع نہ ہوتا تو اسلام در اصل اسلام ہی نہ رہتا ۔ وہ کیا تھا ؟ شیعہ کہتے ہیں کہ ہم ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا موضوع ہے جسے اتنی اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سی روایتیں اس با ت کی تائید کرتی ہے کہ یہ آیت بھی اسی موضوع امامت کے تحت نازل ہوئی ہے ۔