انبیاء کی خصوصیات

148

انبیاء الٰہی جو وحی کے ذریعے مبداء اور سرچشمہ ہستی سے رابطہ برقرار کرتے ہیں ان کے کچھ امتیازات اور اوصاف ہوتے ہیں جن کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے۔
۱۔ اعجازجو پیغمبر بھی اللہ کی جانب سے مبعوث ہوتا ہے وہ غیر معمولی قوت کا حامل ہوتا ہے اسی غیر معمولی قوت و طاقت کے ذریعے وہ ایک یا کئی ایسے کام انجام دیتا ہے جو انسانی طاقت سے بالاتر ہوتے ہیں اور اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان امور کو انجام دینے والا غیر معمولی الٰہی طاقت کا حامل ہے یہ بات اس کی دعوت کے برحق ہونے اور اس کی باتوں کے آسمانی ہونے کی دلیل بھی ہے۔قرآن کریم ان غیر معمولی امور کے آثار کو کہ جنہیں پیغمبروں نے اپنے دعوے کی سچائی پر گواہی کے طور پر پیش کیا ہے۔ “آیت” یعنی نبوت کی علامت اور نشانی کہتا ہے۔ مسلمان متکلمین اس اعتبار سے کہ ایسی علامت دوسرے تمام افراد کی عجز و ناتوانی کو ظاہر کرتی ہے‘ اسے معجزہ کہتے ہیں۔ قرآن مجید نقل کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لوگوں نے اپنے دور کے انبیاء سے “آیت” اور معجزے کا تقاضا کیا ہے اور ان پیغمبروں نے اس تقاضے اور مطالبے کا جو منطقی اور معقول بھی تھا‘ اس لئے مثبت جواب دیا کہ یہ حقیقت کی تلاش کرنے والے لوگوں کی طرف سے ہوتا تھا اور ان لوگوں کے لئے معجزے کے بغیر پیغمبر کو پہچاننے کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ لیکن اگر معجزے کا تقاضا حقیقت کی تلاش کے بجائے کسی اور مقصد سے ہوتا مثلاً کسی معاملے کی صورت میں لوگوں کی طرف سے یہ خواہش کی جاتی‘ اگر آپ فلاں کام انجام دیں گے تو ہم اس کے بدلے میں آپ کی دعوت کو قبول کر لیں گے تو انبیائے الٰہی اس کام کو انجام دینے سے انکار کر دیتے۔ قرآن کریم نے انبیاء کے بہت سے معجزات کو بیان کیا ہے مثلاً مردے کو زندہ کرنا‘ لاعلاج بیمار کو شفا دینا‘ گہوارے میں باتیں کرنا‘ عصا کو اژدھے میں تبدیل کرنا اور غیب و آئندہ کی خبر دینا۔
۲۔ عصمتانبیاء کی خصوصیات میں سے ایک عصمت ہے۔ عصمت یعنی گناہ و خطا سے محفوظ یعنی انبیائے کرام نہ تو نفسانی خواہشات کے زیراثر آتے ہیں جس کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہوں اور نہ ہی اپنے کاموں اور فرائض کی ادائیگی میں خطا و غلطی سے دوچار ہوتے ہیں۔ انبیاء کی گناہ و خطا سے دوری انہیں انتہائی اعتماد کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ گناہوں سے ان کی معصومیت کس نوعیت کی ہے؟ مثلاً کیا ان کی عصمت کا یہ معنی ہے کہ جب بھی وہ چاہیں کسی گناہ کے مرتکب ہوں تو ایک غیبی طاقت ان کے سامنے آ جاتی ہے انہیں وہ اس شفیق باپ کی مانند جو اپنے فرزند کو خطا و غلطی نہیں کرنے دیتا‘ گناہ کرنے سے روک دیتی ہے؟ یا یہ کہ انبیاء کی طینت و خلقت اس طرح کی ہوتی ہے کہ نہ تو ان میں گناہ کا امکان ہے اور نہ ہی خطا اور غلطی کا‘ بالکل اسی طرح جیسے ایک فرشتہ اس دلیل کی بناء پر غلطی نہیں کرتا کہ وہ ذہن سے عاری ہے یا یہ کہ پیغمبروں کے گناہ نہ کرنے کی وجہ ان میں پائی جانے والی بصیرت اور ایک طرح کا درجہ یقین و ایمان ہے۔ بے شک ان تمام صورتوں میں یہی تیسری صورت صحیح ہے۔ اب ہم ان دونوں قسم کی معصومیت کا علیحدہ علیحدہ ذکر کرتے ہیں:
گناہ سے محفوظ رہناانسان ایک باختیار موجود ہے اور اپنے کاموں کو اپنے فائدوں اور نقصانات‘ مصلحتوں اور خرابیوں کی تشخیص کی بنیاد پر انجام دیتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ “تشخیص” کاموں کے اختیار و انتخاب میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ امر محال ہے کہ انسان کسی ایسے کام کا اپنے لئے انتخاب کرے‘ جس میں اس کی اپنی تشخیص کے مطابق ایک طرف تو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہے دوسری طرف اس میں نقصان ہی نقصان ہے مثلاً ایک عقل مند انسان جسے اپنی زندگی سے محبت ہو کبھی جان بوجھ کر اپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی سے نہیں گرائے گا یا مہلک زہر نہیں کھائے گا۔لوگ اپنے ایمان اور گناہوں کی اجرت و نتائج پر توجہ رکھنے کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان جتنا زیادہ قوی ہو گا اور گناہوں کے خطرناک نتائج کی طرف توجہ جتنی شدید ہو گی‘ گناہوں سے وہ اتنا ہی دور رہیں گے اور کم ہی گناہ کا ارتکاب کریں گے۔ پس اگر درجہ ایمان شہود و عیاں کے درجے تک پہنچ جائے یعنی اس حد تک کہ آدمی گناہ کرنے کا ارادہ کرتے وقت اپنے آپ کو اس شخص کی مانند سمجھے جو دیدہ دانستہ اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا رہا ہے یا مہلک زہر پی رہا ہے‘ تو ایسی صورت میں ارتکاب گناہ کا امکان صفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے یعنی وہ ہرگز گناہ کی طرف رخ بھی نہیں کرتا۔ ایسی ہی حالت کو ہم عصمت یعنی گناہوں سے محفوظ رہنا کہتے ہیں۔ پس گناہ سے محفوظ رہنے کا تعلق کمال ایمان اور شدت تقویٰ سے ہے۔ لہٰذا انسان کو درجہ عصمت پر فائز ہونے کے لئے اس چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک خارجی اور غیبی قوت جبراً اسے گناہ سے باز رکھے یا معصوم شخص اپنی سرشت و خلقت کی بنیاد پر ایسا ہو کہ اس سے گناہ کی قوت یا خواہش ہی چھین لی گئی ہو۔ اگر کوئی انسان گناہ پر قادر ہی نہ ہو یا ایک جبری قوت اسے ہمیشہ گناہ کرنے سے باز رکھتی ہو تو اس کے لئے گناہ نہ کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہو گی‘ کیوں کہ ایسی صورت میں وہ ایک ایسے انسان کی مانند ہو گا جو کسی قید خانے میں بند ہو اور خلاف قانون کام کرنے پر قادر ہی نہیں ہے‘ ایسے انسان کا نافرمانی نہ کرنا اس کے نیک کردار اور امین ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔
خطا اور غلطی سے محفوظ رہناخطا سے پاک ہونا بھی انبیاء کی ایک طرح کی بصیرت و آگاہی کا نتیجہ ہے۔ خطا ہمیشہ اس صورت میں سرزد ہوتی ہے‘ جب انسان اپنی اندرونی یا بیرونی حس کے ذریعے کسی حقیقی شے سے ارتباط برقرار کرتا ہے اور اپنے ذہن میں اس حقیقت کی مختلف صورتیں بنا لینے کے بعد اپنی عقلی قوت کے ذریعے ان صورتوں کا تجزیہ کرتا ہے یا آپس میں انہیں ترکیب دیتا ہے اور ان میں انواع و اقسام کے تصرفات کرتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اپنی ذہنی صورتوں کو خارجی حقائق پر منطبق کرتا ہے اور انہیں ترتیب دیتا ہے تو اس وقت کبھی کبھی غلطی یا خطا سرزد ہوتی ہے لیکن جہاں انسان براہ راست عینی حقائق کے ساتھ ایک خاص حس کے ذریعے رابطہ برقرار کر لے اور ادراک حقیقت بعینہ واقعیت و حقیقت سے متصل ہونا ہو نہ کہ ذہنی صورت حقیقت و واقعیت سے متصل ہو تو ایسی صورت میں خطا یا غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انبیائے الٰہی بھی باطنی طور پر حقیقت ہستی سے رابطہ رکھتے ہیں لہٰذا حقیقت و واقعیت کے ادراک میں ان سے غلطی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اگر ہم تسبیح کے سو دانوں کو کسی برتن میں ڈال دیں اور پھر دوسرے سو دانے بھی اسی برتن میں ڈال دیں اور سو مرتبہ اس عمل کو دہرائیں تو ممکن ہے ہمارا ذہن خطا سے دوچار ہو جائے اور ہم یہ خیال کرنے لگیں کہ ہم نے یہ عمل ۹۹ مرتبہ دہرایا ہے یا ایک سو ایک مرتبہ ایسا کیا ہے لیکن اصل حقیقت میں کمی یا زیادتی کا ہونا محال ہے۔اگرچہ اس عمل کو ۱۰۰ مرتبہ دہرایا گیا ہے لیکن دانوں کی مجموعی تعداد میں کمی یا بیشی واقع نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جو لوگ اپنی آگاہی و بصیرت کی بناء پر اصل حقیقت کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں یا ہستی و وجود اور اس کے سرچشمے کے ساتھ متحد و متصل ہو جاتے ہیں تو ان کے یہاں اشتباہ و خطا کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور وہ ہرگز گناہ سے معصوم اور محفوظ رہتے ہیں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.