انبیاء کا تاریخی کردار
کیا پیغمبر تاریخ کی حرکت میں مثبت یا منفی کردار کے حامل رہے ہیں یا یہ کہ بالکل بے اثر رہے ہیں؟ اور اگر ان کا کوئی کردار رہا ہے تو کیا وہ مثبت تھا یا منفی؟جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پیغمبروں کا تاریخ میں ایک موثر کردار رہا ہے اور وہ معاشرے میں بے اثر نہیں رہے اس کا دین و مذہب کے مخالفین نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ انبیاء الٰہی ماضی میں ایک عظیم قومی طاقت کے مظہر رہے ہیں۔ ماضی میں زور و زر کے بل بوتے پر سامنے آنے والی طاقتوں کے مقابلے میں قومی طاقتیں صرف ان طاقتوں پر منحصر ہوتی تھیں جو ان خاندانی قبائلی اور وطنی رجحانات کے نتیجے میں وجود میں آتی تھیں کہ قبیلے اور قوم کے سردار جن کے مظہر تصور کئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسری طاقتیں وہ تھیں جو مذہبی و ایمانی رجحانات کی بنیاد پر وجود میں آئی تھیں اور جن کے مظہر انبیاء و مرسلین اور صاحبان ادیان اور اہل دین ہوا کرتے تھے۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پیغمبران خدا ایسی قوت و طاقت تھے جنہیں مذہبی قوت حاصل تھی لیکن جو چیز قابل بحث ہے وہ یہ کہ قوت کس طرح اثرانداز ہوتی تھی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مختلف نظریات نے جنم لیا ہے:۱۔ ایک گروہ نے عام طور سے اپنی تحریروں اور آثار میں ایک سادہ سا صغریٰ و کبریٰ قائم کر کے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انبیاء کا کردار منفی رہا ہے کیوں کہ انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ معنوی اور دنیا کے برخلاف تھا۔ انبیاء کی تعلیمات کا محور دنیا سے انصراف آخرت کی طرف توجہ دلانا تھا باطن پرزور دینا اور ظاہر سے لاتعلقی ذہنیت کی طرف رجحان اور عینیت سے گریز تھا۔ اسی لئے دین و مذہب کی قوت و طاقت اور انبیاء جو اس طاقت کے مظہر تھے ہمیشہ انسان کو زندگی سے مایوس اور دل سرد کرتے رہے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔ اس اعتبار سے تاریخ میں انبیاء کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ عام طور پر اس قسم کا اظہار نظر وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں روشن فکر ہونے کا دعویٰ ہے۔۲۔ ایک دوسرا گروہ صاحبان ادیان کے کردار اور اثرات کو ایک اور طریقے سے منفی قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ پہلے گروہ کے برعکس صاحبان ادیان کو طالب دنیا جانتا ہے اور ان کے معنوی اور باطنی رخ کو ایک فریب اور ان کے دنیاوی پہلو پر ایک نقاب سے تعبیر کرتا ہے۔ ان لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ دنیا پسندانہ راستہ موجود وضع کی حفاظت باقتدار و طاقت ور طبقے کے مفاد میں اور کمزور طبقے کے ضرر و نقصان کے لئے ہوتا ہے اور ہمیشہ معاشرے کی ترقی و کمال کے مقابل رہا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ تاریخ بھی دوسرے تمام موجودات کی طرح جدلیاتی (Dialectic) یعنی اندرونی تضاد سے پیدا ہونے والی حرکت کی حامل ہے۔مالکیت و اقتدار کے وجود کے سبب معاشرہ دو باہم متنازع طبقوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ ایک حاکم اور فائدہ حاصل کرنے والا طبقہ دوسرا محروم اور فائدہ پہنچانے والا طبقہ۔ حاکم طبقہ اپنے امتیازات کی حفاظت کی غرض سے ہمیشہ موجود صورت حال پر باقی رہنے کا طرف دار رہا ہے۔پیداواری آلات کی جبری پیش رفت کے باوجود یہ طبقہ چاہتا ہے کہ معاشرے کو اسی حالت پر قائم رکھے لیکن محکوم طبقہ پیداواری آلات کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چاہتا ہے کہ اس موجود صورت حال کو بالکل الٹ دے اور اس کی جگہ کامل و مکمل صورت حال کو لے آئے۔ حاکم طبقہ نے تین مختلف شکلوں میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ دین حکومت اور دولت دوسرے الفاظ میں زور و زر اور فریب۔ صاحبان ادیان کا کردار ستم گروں اور استحصالی طاقتوں کے مفاد میں عوام کو دھوکہ و فریب میں رکھنا تھا۔ ارباب ادیان کا آخرت کی طرف توجہ دلانے کا عمل حقیقی نہیں تھا بلکہ ان کی دنیا پرستی کے چہرے پر فریب کی نقاب تھی جو محروم انقلابی اور پیش قدم طبقے کے ضمیر اور وجدان کو مسخر کرنے کے لئے ڈالی گئی تھی پس ارباب ادیان کا تاریخی کردار اس اعتبار سے منفی تھا کہ وہ ہمیشہ قدامت پسند طبقے کا قوت بازو و محافظ اور موجودہ حالت یعنی صاحبان زور و زر کے طرف دار رہے ہیں۔ تاریخ کی توجیہ کے سلسلے میں مارکسزم کا نظریہ یہی ہے۔ مارکسزم کی نظر میں یہ تین عامل یعنی دین حکومت اور ثروت ہمیشہ اصول مالکیت کے ہمراہ اور پوری تاریخ میں انسانوں کے دشمن رہے ہیں۔۳۔ کچھ افراد مذکورہ بالا نظریات کے برخلاف ایک اور اعتبار سے تاریخ کی تفسیر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود دین و مذہب اور ان کے مظاہر یعنی پیغمبروں کا کردار منفی سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ عالم طبیعت اور تاریخ کا کمال و ارتقاء اس بنیاد پر استوار ہے کہ طاقت وروں کا غلبہ رہے اور کمزوری کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ طاقت ور ہی ہمیشہ تاریخ کی ترقی و پیش رفت کا اور کمزور ہمیشہ تاریخ کے جمود اور تندی کا سبب رہے ہیں۔ دین و مذہب طاقت وروں کو روکنے کے لئے کمزور طبقے کی ایجاد ہے۔ ارباب ادیان عدل سچائی انصاف محبت رحم دلی اور تعاون جیسے مفاہیم کو دوسرے الفاظ میں غلامانہ اخلاق کو کمزور یعنی پسماندہ طبقہ اور ارتقاء و کمال کے دشمن طبقے کے حق میں اور طاقت ور طبقے یعنی پیش قدم طبقے کے خلاف ایجاد کرتے ہیں۔ یوں انہوں نے طاقت وروں پر منفی اثر ڈالا ہے اور کمزوری کے خاتمے نسل انسانی کی اصلاح اور غیر معمولی شخصیات کی پیدائش کی راہ میں رکاوٹ بنے لہٰذا مذہب اور انبیاء جو اس قوت مذہب کے مظہر تھے کا کردار اس اعتبار سے منفی تھا کہ وہ غلامانہ اخلاق کے طرف دار اور مالکانہ اخلاق کے جو تاریخ اور معاشرے میں ترقی و کمال کا سبب ہے کے خلاف تھے۔ جرمنی کا مشہور مادہ پرست فلسفی نطشے اسی نظریے کا حامی و طرف دار تھا۔چونکہ نطشے کی مانند دوسرے مادی جرمن فلسفی بھی اسی روش پر چلتے رہے اور ان کی سوچ و بچار کے دھارے اسی سمت میں بہتے رہے لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لکیر کے فقیر بن کر اپنے فلسفے کو مادی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اسی نظریے پر گامزن رہے کہ معاصر پیغمبر اور آسمانی تعلیمات غلامانہ اخلاق و کردار کے حامی اور انسانی ترقی و کمال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں اسی سوچ اور مشینی دور کی آمد نے آج مغربی سرزمینوں کو ایسے باسیوں سے آباد کر دیا ہے جن کی اکثریت مذہب سے دوری اور بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے دہریت کی جانب گامزن ہے انوہں نے مذہب کو ایک بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا کیوں کہ وہاں کے مفکرین اور فلاسفہ نے وہاں کے باسیوں کے ذہنوں میں وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھایا جس کی بنیادیں مادیت پر استوار کی گئیں اور جنگ افلاس اور بے سر و سامانی کی اصل وجوہات مذہب کو قرار دے دیا گیا اس کے نتیجے میں آج اگر آپ یورپ جائیں تو اس بات کو نہایت آسانی سے درک کر لیں گے کہ وہاں کے شہریوں نے اپنے ادیبوں فلاسفہ اور مفکرین سے اثر لیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج صرف دس فیصد افراد جن میں زیادہ تر بوڑھے شامل ہوتے ہیں مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اور اتوار کے دن اجتماعی عبادت میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس مشرق کے اکثر فلاسفہ نے مذہب کو معاشرے میں خصوصی مقام دلانے کی کوشش کی ہے۔۴۔ مذکورہ بالا تینوں گروہوں کو چھوڑ کر منکرین ادیان تک بھی ماضی میں پیغمبروں کے کردار کو مثبت اور مفید اور تاریخ کی ارتقائی سمت میں جانتے ہیں۔ ان گروہوں نے ایک طرف تو پیغمبروں کی اخلاقی اور اجتماعی تعلیمات اور دوسری طرف تاریخ کے عینی حائق پر توجہ دی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ گذشتہ دور میں پیغمبروں کا معاشرے کی فلاح و بہبود اور ترقی و پیش رفت میں بنیادی ترین کردار رہا ہے۔ بشری تمدن کے دو پہلو ہیں: ایک مادی اور دوسرا معنوی۔ تہذیب و تمدن کا مادی پہلو صنعت و فن سے متعلق ہے جو آج تک ارتقائی منازل طے کرتا رہا ہے اور معنوی پہلو ایک انسان کے دوسرے انسانوں سے تعلقات سے ہے تہذیب و تمدن کا معنوی و روحانی پہلو انبیاء کی تعلیمات کا مرہون منت ہے اور تہذیب و تمدن کے اسی معنوی پہلو ہی کے پرتو میں اس کے مادی پہلوؤں میں ترقی کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے لہٰذا تہذیب و تمدن کے معنوی پہلو کے ارتقاء و کمال میں پیغمبروں کا کردار براہ راست اور بلاواسطہ رہا ہے جب کہ مادی پہلو کے ارتقاء میں بالواسطہ رہا ہے۔ ان گروہوں کی نظر میں ماضی میں انبیاء کے مثبت کردار میں کوئی کلام نہیں۔ البتہ بعض گروہ ان تعلیمات کے مثبت کردار کو صرف ماضی کی حد تک محدود و منحصر جانتے ہیں اور آج کل کے دور میں ان تعلیمات کے اثر کو غیر مفید سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ علوم کی ترقی و پیش رفت کی وجہ سے دینی تعلیمات اپنی افادیت کھو چکی ہیں اور آئندہ ان کی افادیت میں مزید کمی واقع ہو جائے گی لیکن بعض گروہوں کا یہ دعوٰی ہے کہ ایمان اور مذہبی نظام فکر کا کردار ایسا ہے کہ علمی ترقی کبھی اس کی جگہ نہیں لے سکتی اسی طرح فلسفی مکاتب بھی اس کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔ ان مختلف کرداروں کے درمیان جو انبیاء نے ماضی میں ادا کئے ہیں کہیں کہیں اور کبھی کبھی ایسے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں جہاں بشر کے اجتماعی شعور کا ارتقاء دینی تعلیمات کی پشت پناہی سے بے نیاز ہوتا ہے لیکن بنیادی کردار وہی ہے جو ماضی میں تھا اور آئندہ بھی اپنی قوت سے باقی رہے گا۔ اب ہم تاریخی ارتقاء و کمال میں پیغمبروں کی تعلیمات کے موثر کردار کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:
۱۔ تعلیم و تربیتزمانہ ماضی میں تعلیم و تربیت کا باعث دینی و مذہبی بیداری رہی ہے۔ ماضی میں مذہبی رجحان معلم اور ماں باپ کا یار و مددگار رہا ہے یہ مورد ان موارد میں سے ہے جہاں اجتماعی شعور کے ارتقاء نے مذہبی محرک کی ضرورت کو دور کر دیا ہے۔
۲۔ عہد و پیمان پر زندگی استوار کرناانسان کی سماجی زندگی معاہدوں اقرار ناموں قراردادوں اور وعدوں عہد کا احترام کرنے پر قائم ہے۔ عہد و پیمان کا احترام انسانی تمدن کا ایک رکن ہے اور یہ رکن ہمیشہ مذہب کے ذمہ رہا ہے اور ابھی تک اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے مذہب کی جگہ کسی دوسرے نے نہیں لی۔ ویل ڈیورنٹ جو مذہب مخالف ہے اپنی کتاب “درسہائے تاریخ” میں لکھتا ہے:”مذہب نے اپنے آداب و رسوم کی مدد سے انسانی معاہدوں اور میثاقوں کو انسان اور خدا کے درمیان باعظمت رابطوں کی شکل دے دی ہے اور اسی راستے سے استحکام و پائیداری کا باعث بن گیا ہے۔”(درسہائے تاریخ ص ۵۵)مذہب کلی طور پر اخلاقی اور انسانی اقدار کے لئے زرضمانت کی حیثیت رکھتا ہے اور مذہب سے ہٹ کر اخلاقی اقدار کی حیثیت ان نوٹوں کی سی ہے جن کے عوض حکومت کے خزانے میں زرضمانت موجود نہ ہو جس کی بے اعتباری و بے وقعتی بہت جلد ظاہر ہو جاتی ہے۔
۳۔ اجتماعی قید و بند کی آزادیہر طرح کے ظلم و ستم و استبداد اور سرکش عناصر سے مقابلہ انبیاء۱ کا اہم ترین کردار رہا ہے۔ قرآن ان کے کلیدی کردار کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ قرآن کریم اولاً تو عدل و انصاف کے قیام کو بعثت و رسالت کے ہدف کے عنوان سے ذکر کرتا ہے اور ثانیاً اپنے واقعات میں ظالموں جابروں اور استبدادی طاقتوں کے خلاف انبیاء۱ کی جدوجہد کو بارہا بیان کرتا ہے۔ قرآن نے چند آیتوں میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ جوطبقہ ہمیشہ سے انبیاء۱ کے ساتھ مصروف پیکار رہا ہے وہ استبدادی اور ظالم طاقتوں کا طبقہ ہے۔کارل مارکس اور اس کے پیروکاروں کا یہ نظریہ کہ دین حکومت اور دولت و ثروت حاکم طبقے کے تین مختلف چہرے ہیں جو مظلوم و مجبور طبقے کے مخالف رہے ہیں ایک بے قیمت نظریہ ہے اور تاریخ کے مسلمہ حقائق کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر ارانی نظریہ مارکس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”مذہب ہمیشہ حاکم اور برسراقتدار طبقے کا آلہ کار رہا ہے اور ضعیف و کمزور طبقے کو مغلوب کرنے کے لئے تسبیح و صلیب نے ہمیشہ استبدادی قوتوں کے ساتھ ہی حرکت کی ہے۔”(یہ قول ڈاکٹر ارانی کتاب “اصول علم روح” سے نقل کیا گیا ہے)تاریخ کی اس قسم کی توجیہات اور اس قسم کے فلسفہ تاریخ کو قبول کرنا صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ آدمی حقائق سے چشم پوشی کر لے اور تاریخی واقعات کو نظرانداز کر دے۔علی علیہ السلام تیغ و تسبیح دونوں کے مرد میدان تھے تلوار کے بھی دھنی تھے اور تسبیح کے بھی۔ علی۱ کا شعار کیا تھا:کونا للظالم خصما و للمظلوم عونا”ہمیشہ ظالم کے دشمن اور ستم رسیدہ کے یار و مددگار رہو۔”( نہج البلاغہ حصہ مکتوبات نمبر ۴۷ ]امام حسن۱ اور امام حسین۱ کو خطاب[)علی۱ کو پوری زندگی تیغ و تسبیح عزیز رہی اور وہ زور و زر کے دشمن رہے علی۱ کی تلوار ہمیشہ صاحبان اقتدار اور مالکان سیم و زر کے خلاف برسرپیکار رہی۔ کتاب مھزلة العقل البشری میں “ڈاکٹر علی الوردی” کے بقول علی۱ نے اپنی شخصیت سے مارکس کے فلسفے کو باطل کر دیا ہے۔مارکس کے نظریے سے زیادہ عبث اور لایعنی نظریہ “نطشے” کا ہے جو مارکس کے نظریے کے بالکل برعکس ہے یعنی چونکہ یہ معاشرے کو کمال عطا کرنے والا اور پیش قدم طبقہ صرف طاقت وروں کا ہے اور دین کمزوروں کی حمایت کے لئے اٹھا ہے لہٰذا جمود و انحطاط کا عامل رہا ہے گویا انسانی معاشرہ اس وقت ارتقاء و کمال کے راستے پر بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گا جب اس پر لاقانونیت اور جنگل کے قانون کی حکومت ہو گی۔ مارکس کی نظر میں کمال کا سبب محروموں کا طبقہ ہے اور نبی اس طبقے کے مخالف رہے ہیں۔ مارکس کہتا ہے کہ دین طاقت وروں اور دولت مندوں کی اختراع ہے جب کہ “نطشے” کہتا ہے کہ دین کمزوروں اور محروموں کی اختراع ہے۔ کارل مارکس کا ایک اشتباہ یہ ہے کہ اس نے صرف طبقاتی مفادات کے تضاد کی بنیاد پر تاریخ کی توجیہ کی ہے اور تاریخ کے انسانی پہلو کو نظرانداز کر دیا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں رسالہ قیام انقلاب مہدی از دیدگاہ فلسفہ تاریخ مولف استاد شہید مطہری)دوسرا اشتباہ یہ ہے کہ اس ارتقاء و کمال کا عامل صرف محروم اور کمزور طبقے کو سمجھا ہے۔تیسری غلطی یہ ہے کہ انبیاء۱ کو حاکم طبقے کا بازو اور طرف دار قرار دیا ہے یعنی اس نے دانا تر انسان کو سب سے طاقت ور انسان کے برابر سمجھا ہے اور سب سے طاقت ور انسان ہی کو انسانی معاشرے کو آگے بڑھانے والا عامل مانا ہے۔(۱)