معاد کا اسی دنیا میں مشاہدہ

201

<ھل ندلّکم علی رجل ینبئکم إذا مزّ قتم کلّ ممزّق إ نّکم لفی خلق جدید اٴفتریٰ علی اللّٰہ کذباً ام بہ جنّة> (سبا/۷۔۸)”کیا ان کا کہنا ہے کہ ہم تمھیں ایسے آدمی کا پتہ بتائیں گے جو یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤگے تو تمھیں نئی خلقت کے بھیس میں لایا جائے گا ۔اس نے اللہ پر جھوٹا الزام باندھا ہے یا اس میں جنون پایا جاتا ہے۔”جی ہاں،اس روز لاعلمی جہالت اور تنگ نظری کے سبب،موت کے بعد والی دنیا اور مردوں کے زندہ ہونے کے عقیدہ کو ایک قسم کی دیوانگی یا خدا پر تہمت شمار کیا جاتا تھا۔اور بے روح مادہ(مرنے کے بعد خاک میں ملے جسم)سے چشمہ حیات کے جاری ہونے کے عقیدہ کو دیوانگی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس قسم کے افکار کے مقابلہ میں مختلف دلائل پیش کی ہیں،کہ ان سے عام لوگوں کے علاوہ بڑے دانشور اور مفکرین بھی اپنی فکری صلا حیتوں کے مطابق استفادہ کر سکتے ہیں۔اگر چہ قرآن مجید کی ان دلائل کی تشریح کر نے کے لئے ایک مستقل کتاب تاٴلیف کرنے کی ضرورت ہے،لیکن ہم یہاں پر ان کے چند نمونے پیش کر نے پر اکتفا کرتے ہیں :۱۔کبھی قرآن مجید ان سے کہتا ہے کہ تم لوگ اپنی روز مرہ زندگی میں اپنی آنکھوں سے ہمیشہ معاد کے مناظرکا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح بعض مخلوقات مرتی ہیں اور پھر زندہ ہوتی ہیں ،کیا اس کے باوجود بھی تم لوگ معاد کے مسئلہ میں شک وشبہہ کرتے ہو؟!<واللّہ الّذی ارسل الرّیٰح فتثیر سحاباً فسقنہ الیٰ بلد مّیّت فاحیینا بہ الارض بعد موتھا کذٰلک النشور>( سورہ فاطر/۹)”اللہ ہی وہ ہے جس نے ہواؤں کو بھیجا تو وہ بادلوں کو منتشر کرتی ہیں اور پھر ہم انھیں مردہ شہر تک لے جاتے ہیں اور زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد اسے زندہ کر دیتے ہیں ،اسی طرح مردے دو بارہ اٹھائے جائیں گے۔”موسم سر ما میں جب ہم طبیعت کے چہرہ پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر سو موت کے آثار نظر آتے ہیں،درخت پتوں،پھولوں اور میوؤں سے خالی پڑے ہیں اور خشک لکڑی بن کر اپنی جگہوں پر بے حرکت کھڑے ہیں،نہ کوئی پھول مسکراتا ہے اور نہ کوئی کلی کھلتی دکھائی دیتی ہے اور نہ پہاڑوں اور صحراؤں میں کہیں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں۔جب بہار کا موسم آتا ہے ،ہوا ملائم ہوتی ہے ،بارش کے حیات بخش قطرات برسنے لگتے ہیں ،دیکھتے ہی دیکھتے پوری طبیعت میں ایک حرکت نمایاں ہو جاتی ہے:سبزے اور پودے اگنے لگتے ہیں،درختوں پرپتے لکل آتے ہیں، کلیاں اور پھول کھل اٹھتے ہیں، پرندے درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھ کر چہچہانے لگتے ہیں اور “محشر” کا شور بپا ہوجاتاہے۔اگر موت کے بعد زندگی کے کوئی معنی نہ ہوتے تو ہم ہر سال اپنی آنکھوں کے سامنے ان مناظر کا مشاہدہ نہیں کرتے، اگر موت کے بعد زندگی ایک ناممکن امر اور دیوانگی کی بات ہوتی تو، ہماری آنکھوں کے سامنے اس طرح محسوس صورت میں اس کی ہرگز تکرار نہ ہوتی۔آخر زمین کے مرنے کے بعد زندہ ہونے اور انسان کے مرنے کے بعد زندہ نے میں کیا فر ق ہے؟۲۔ کبھی قرآن مجید ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں ابتدائے خلقت کی طرف لے جاتاہے، ابتدائی خلقت کی یاد دہانی کراتاہے،اس صحرائی مرد کی داستان کی طرف اشارہ کرتاہے جو سڑی گلی ایک ہڈی کا ٹکڑالے کر پیغمبر اسلام کی خدمت میں آگیا اورر چیخ چیخ کر کہنے لگا:” اے محمد! کون اس سڑی ہوئی ہڈی کو پھر سے زندہ کرنے کی طاقت رکھتاہے؟ مجھے بتادو کہ کون یہ کام انجام دے سکتاہے؟” وہ گمان کررہا تھا کہ مسئلہ معاد کے خلاف ایک دندان شکن دلیل لے آیا ہے۔ لیکن قرآن مجید نے پیغمبر اسلام کو یہ فرمانے کا حکم دیا:< قل یحییھا الذی انشاھا اوّل مرّة>(سورہ یٓس/۷۹)” آپ کہدیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ(بے جان مادہ سے) خلق کیا ہے وہی (پھر سے ) زندہ کرے گا”ابتدائی خلقت اور دوبارہ پیدا کرنے میں کیا فرق ہے ؟لہذا دوسری آیات میں ایک بالکل مختصر لیکن بامعنی جملہ میں فرماتاہے:<کما بدانا اول خلق لغید>( سورہ نساء/ ۱۰۳)” جس طرح ہم نے شروع میں خلق کیا اسی طرح پھر لوٹا دیں گے۔”۳۔ کبھی قرآن مجید وسیع زمین وآسمان کی خلقت کے بارے میں خداوند متعال کی عظیم قدرت کی یاد دہانی کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے:<اولیس الّذی خلق السّموات و الارض بقدر علی ان یخلق مثلھم بلی وھو الخلّق العلیم ۰انّما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون۰>سورہ یٓس/۸۱۔۸۲” تو کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوبارہ پیدا کردے۔ یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کرنے والا اور جاننے والاہے۔ اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ہوجا تو وہ شے فورا ہوجاتی ہے۔”ان مسائل میں شک وشبہہ کرنے والے، ایسے افراد تھے جن کی فکر کی فضا ان کے چھوٹے سے گھر کی چار دیواری سے زیادہ نہیں تھی، ورنہ وہ جانتے تھے کہ دوبارہ زندہ کرنا ابتدائی خلقت سے آسان اور سادہ تر ہے اور آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے خدا کی قدرت کے مقابلہ میں مردوں کو زندہ کرنا کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔۴۔ قرآن مجید کبھی موت کے بعد زندہ کرنے کی پروردگار کی “طاقتوں” کو ان کی نظروں میں منعکس کرکے فرماتاہے:<الّذی جعل لکم من الشجر الاخضر نارا فاذا انتم منہ توقدون>(سورہ یٓس/۸۰)” اس نے تمھارے لئے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہے ۔”یعنی جو خدا ہرے درخت سے آگ پیدا کرسکتا ہے وہ انسانوں کو مرنے کے بعد زندہ کرنے کی بھی قدرت رکھتاہے ۔جب ہم قرآن مجید کی اس عجیب و غریب تعبیر پر دقت سے غور کرتے ہیں اور جدید سائنس سے مدد لیتے ہیں تو سائمنس ہمیں تباتی ہے: جب ہم کسی درخت کی لکڑی کو جلاتے ہیں تو اس سے جو آگ نکلتی ہے، یہ وہی سورج کی گری اور نورہے جو سالہا سال سے طاقت (انرجی) کی صورت میں درخت میں درخت میں ذخیرہ ہوئی ہے۔ ہم خیال کرتے تھے وہ نور اور حرارت نابود ہوچکی ہے، لیکن آج دیکھتے ہیں کہ دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں اورحیات کا لباس نوزیب تن کرلئے ہیں۔کیا اس خدا کے لئے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا مشکل امر ہے، جو یہ قدرت رکھتا ہے کہ دسیوں سال تک آفتاب کے نور و حرارت کو ایک درخت کے جسم مین زخیرہ کرے اور ایک لمحہ میں اس حرارت اور نور کو درخت سے بارہر لے آئے(۱)؟بہر حال ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے کیسی مستدل اورواضح منطق سے ان لوگوں کا دندان شکن جواب دیکر معاد کے ممکن ہونے کو واضح طور پر ثابت کردیاہے، جو مسئلہ میں شک و شبہہ ایجاد کرتے تھے اور حتی کہ معاد کا اعتقاد رکھنے والوں کو دیوانہ کہتے تھے۔__________________۱۔ قابل غور بات ہے کہ سائنس(علم نباتات) نے ثابت کیا ہے کہ ہرے درخت سورج کی روشنی سے کاربن ڈائی اوکسائڈ گیس کو جذب کرکے اس کاتجزیہ کرتے ہیں اور کاربن کو اپنے اندر ذخیرہ کرتے ہیںا ور اوکسیجن کو چھوڑ دیتے ہیں اس کے علاوہ سورج کی توانای (انرجی) کو بھی اپنے اندر ذخیرہ کرتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.