قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ

417

 اَفَلاَ تَعقِلُونَ (تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟)، اَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ (وہ غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟) اور اَلَّذِینَ یَتَفَکَّرُونَ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ (جو لوگ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں) جیسے الفاظ کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اپنے کلامِ برحق میں بار بار عقلِ اِنسانی کو جھنجھوڑا اَور اِنسانی و کائناتی حقائق اور آفاقی نظام کو سمجھنے کی طرف متوجہ کیا۔ اِس طرح مذہب اور فلسفہ و سائنس کی غیریت بلکہ تضاد و تصادُم کو ختم کر کے اِنسانی علم و فکر کو وحدت اور ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا گیا۔ تاجدارِ رحمت (ص) کے اِس اِحسان کا بدلہ اِنسانیت رہتی دُنیا تک نہیں چکا سکتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک دُنیا میں جس قدر علمی و فکری اور ثقافتی و سائنسی ترقی ہوئی ہے یا ہو گی وہ سب دینِ اِسلام کے اِنقلاب آفریں پیغام کا نتیجہ ہے، جس کے ذریعے علم و فکر اور تحقیق و جستجو کے نئے دَر وَا ہوئے۔ معلّمِ اِنسانیت (ص) کی بعثت سے قبل دُنیا میں علم، فلسفہ اور سائنس کی ترقی کا جو بھی معیار تھا اُس کی بنیاد سقراط (Socrates)، اَفلاطون (Plato) اور اَرسطو (Aristotle) کے دیئے گئے نظریات پر تھی۔ آمدِ دینِ مصطفی (ص) سے قبل یونان (Greece) اور اسکندریہ (Alexandria) کی سرزمین علم کی سرپرستی کرتی رہی تھیں۔ اُن مخصوص خطہ ہائے زمین کے علاوہ دُنیا کا بیشتر حصہ جہالت کی تاریکی میں گم تھا۔سرزمینِ عرب کا بھی یہی حال تھا، جہاں کے لوگ اپنی جہالت اور جاہلیت پر فخر کرتے تھے۔ قدیم یونان، اسکندریہ اور رُوما (اٹلی) میں علم اور تمدّن کی ترقی کا کوئی فائدہ اہلِ عرب کو اِس لئے نہ تھا کہ اُن کے مابین زبانوں کا بہت فرق تھا۔ تاہم جاہلی عرب میں بعض علوم و فنون کا اپنا رواج اور ماحول تھا۔ مختلف علمی و اَدبی میدانوں میں عربوں کا اپنا مخصوص ذوق اور اُس کے اِظہار کا اپنا ایک مخصوص انداز ضرور تھا۔ ایسے حالات میں قرآنِ مجید کی پہلی آیاتِ طیبات الٰہیات، اَخلاقیات، فلسفہ اور سائنس کا پیغام لے کر نازل ہوئیں۔اِرشادِ ربانی ہوا:اِقرَا بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَO خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍO اِقرَا وَ رَبُّکَ الاَکرَمُO الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِO عَلَّمَ الاِنسَانَ مَا لَم یَعلَمO (العلق،96:1۔5)(اے حبیب (ص)) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاO اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وُجود سے پیدا کیاO پڑھئے اور آپ کا ربّ بڑا ہی کریم ہےO جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاO جس نے اِنسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاOتاجدارِ رحمت (ص) پر نازِل ہونے والی پہلی وحی کی پہلی آیت نے اِسلامی ‘الٰہیات‘ و ‘اَخلاقیات‘ کی علمی بنیاد فراہم کی، دُوسری آیت نے ‘حیاتیات‘ اور ‘جینیات‘ کی سائنسی اَساس بیان کی، تیسری آیت نے اِنسان کو اِسلامی عقیدہ و فلسفۂ حیات کی طرف متوجہ کیا، چوتھی آیت نے فلسفۂ علم و تعلیم اور ذرائعِ علم پر روشنی ڈالی اور پانچویں آیت نے علم و معرفت، فکر و فن اور فلسفہ و سائنس کے تمام میدانوں میں تحقیق و جستجو کے دروازے کھول دیئے۔ حضور(ص) نے اپنی حیاتِ طیبہ میں علم و فن اور تعلیم و تعلم کی ایسی سرپرستی فرمائی کہ اپنی جہالت پر فخر کرنے والی اُمیّ (اَن پڑھ) قوم تھوڑے ہی عرصہ میں پوری دُنیا کے علوم و فنون کی اِمام و پیشوا بن گئی اور شرق سے غرب تک علم و اَخلاق اور فلسفہ و سائنس کی روشنی پھیلانے لگی۔ وہ عرب قوم۔ ۔ ۔ جسے علم و سائنس کی راہ پر ڈالنے کے لئے حضور(ص) نے غزوۂ بدر کے کافر قیدیوں کے لئے چار ہزار درہم زرِ فدیہ کی خطیر رقم چھوڑتے ہوئے دس دس مسلمان بچوں کو پڑھانے کا فدیہ مقرر کر دیا تھا۔ ۔ ۔ اِسلام کی اَوائل صدیوں کے اندر ہی پوری دُنیائے اِنسانیت کی معلّم بن کر اُبھری۔ اور اُس نے سائنسی علوم کو اَیسی مضبوط بنیادیں فراہم کیں جن کا لوہا آج بھی مانا جاتا ہے۔ اِس باب میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اُس نے اِنسانی ذِہن کو اپنے وُجود اور نظامِ کائنات کے حقائق کو سمجھنے کے لئے دعوتِ غور و فکر دی۔کلامِ مجید میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:سَنُرِیہِم اٰیَاتِنَا فِی الاٰفَاقِ وَ فِی اَنفُسِہِم حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُم اَنَّہُ الحَقُّ (حم السجدہ،41:53)ہم عنقریب اُنہیں اپنی نشانیاں خارجی کائنات (universal phenomenon) میں اور اُن کے وُجودوں (human world) کے اندر دِکھا دیں گے، حتی کہ اُن پر آشکار ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے۔تاجدارِ کائنات (ص) نے اُس جاہل بدوی قوم کو حقائق کے تجزیہ و تعلیل کا مزاج دیا، حقائقِ کائنات میں جستجو اور تحقیق کا ذَوق دیا۔ کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کے اِختتام تک اور اِنسان کی تخلیق سے لے کر اُس کی موت تک، پھر موت سے قیامت تک کے اَحوال پر غور و فکر کے لئے بھی بنیادی مواد فراہم کیا۔ اِس طرح کائناتی اور اِنسانی علوم (sciences) کی ترقی کی راہیں تسلسل کے ساتھ کھلتی ہی چلی گئیں ۔ چنانچہ اُمتِ مسلمہ میں علمی ذوق نے اِس حد تک فروغ پایا کہ حکم قرآنی “عَلَّمَ بِالقَلَمِ” کا اِشارہ پاکر مسلم اہلِ علم نے “قلم” کی تاریخی تحقیق کا بھی حق اَدا کر دیا۔ یہاں تک کہ اِمام عبدالرحمن بن محمد بن علی الحنفی البسطامی نے ابوالبشر سیدنا آدمؑ سے لے کر اپنے دَور تک قلم کے جملہ مناہج و اَسالیب کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام “مباھجُ الأعلام فی مناھجِ الأقلام ” رکھا۔ اُس کتاب میں اُنہوں نے 150 سے زائد قلموں اور اُن کے اَدوار و اَحوال کی تاریخ مرتب کی ہے۔ غالباً یہ دُنیا میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ اُس کا مخطوطہ یونیورسٹی آف لیڈن (ہالینڈ) میں محفوظ ہے۔ برائے حوالہ ملاحظہ ہو:Catalogue of Arabic Manuscripts (xxi) Fasciule 2 by J. J. Witkam, (Leiden University Press, Leiden, 1984)
عالمِ اِسلام میں تہذیب و ثقافت کا فروغاِبنِ حوقل نے بیان کیا ہے کہ قرونِ وُسطیٰ میں اِسلامی اور عرب دُنیا میں شرحِ خواندگی اور تعلیم و تعلم (education / literacy) کے شغل نے یہاں تک ترقی کی کہ صرف سسلی (Sicily) جیسے ایک چھوٹے سے شہر میں 600 پرائمری سکول موجود تھے اور اُن کی وُسعت کا یہ عالم تھا کہ ابو القاسم بلخی کی رِوایت کے مطابق 3000 طلباء صرف اُن کے اپنے اِنسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم تھے۔ اِسی طرح دمشق (Damascus)، حلب (Halab)، بغداد (Baghdad)، موصل (Mosul)، مصر (Egypt)، بیتُ المقدس (Jerusalem)، بعلبک، قرطبہ (Cordoba)، نیشاپور اور خراسان (Central Asia) وغیرہ بھی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے معمور تھے۔ ‘جامعہ نظامیہ بغداد‘۔ ۔ ۔ جو پانچویں صدی سے نویں صدی ہجری تک دُنیا کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی۔ ۔ ۔ اُس میں ریگولر طلبہ کی تعداد 6,000رہتی تھی۔دسویں صدی میں بقول اِمام نعیمی، صرف شہر دمشق میں فقہ و قانون(law and jurisprudence) کے کالجز اور جامعات کا عالم یہ تھا کہ 63 تعلیمی اِدارے فقہ شافعی کے تھے، 52 فقہ حنفی کے،11 فقہ حنبلی کے اور 4 فقہ مالکی کے تھے۔ اِس کے علاوہ علمُ الطب (medical sciences)کے سکول اور کالج الگ تھے۔اِمام ابنِ کثیر تاریخ پر اپنی کتاب ‘البدایہ والنہایہ‘ میں سن 631ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اُس سال ‘مدرسہ مستنصریہ‘ کی تعمیر مکمل ہوئی، جو اُس وقت کی قانون کی سب سے بڑی درسگاہ تھی۔ اُس میں چاروں فقہی و قانونی مکاتبِ فکر کے 62، 62 ماہرین و متخصّصین فقہ و قانون کے شعبوں میں تدریس کے لئے تعینات تھے۔اِسلامی تاریخ کا سب سے پہلا باقاعدہ ہسپتال اُموی خلیفہ ‘ولید بن عبدالملک‘ (86ھ تا 96ھ) کے زمانے میں پہلی صدی ہجری میں ہی تعمیر ہو گیا تھا۔ اُس سے قبل ڈسپنسریاں (dispensaries) موبائل میڈیکل یونٹ (mobile medical units) اور میڈیکل ایڈ سنٹرز (medical aid centres) وغیرہ موجود تھے، جو عہدِ رسالت مآب (ص) میں غزوۂ خندق کے موقع پر بھی مدینہ طیبہ میں کام کر رہے تھے۔ اُس ہسپتال میں indoor patients کے باقاعدہ وارڈز تھے اور ڈاکٹروں کو رہائش گاہوں کے علاوہ بڑی معقول تنخواہیں بھی دی جاتی تھیں۔اِسلامی تاریخ کے اُس دورِ اوائل کے ہسپتالوں میں درج ذیل شعبہ جات مستقل طور پر قائم ہو چکے تھے:1- Department of Systematic Diseases2- Ophthalmic department3- Surgical department4- Orthopaedic department5- Department of mental diseasesاُن میں سے بعض بڑے ہسپتالوں کے ساتھ میڈیکل کالج (medical colleges) بھی متعلق کر دیئے گئے تھے, جہاں پوری دُنیا کے طلبہ medical science کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دمشق کا ‘نوری ہسپتال‘ (Noorie Hospital) اور مصر کا ‘ابنِ طولون ہسپتال‘ (Ibn-i-Tulun Hospital) اِس سلسلے میں بڑے نمایاں تھے۔ ابنِ طولون میڈیکل کالج میں اِتنی عظیم لائبریری موجود تھی جو صرف medical sciences ہی کی ایک لاکھ سے زائد کتابوں پر مشتمل تھی۔ ہسپتالوں کا نظام دَورِ جدید کے مغربی ہسپتالوں کی طرح نہایت منظم اور جامع تھا اور یہ معیار دمشق ، بغداد، قاہرہ،بیتُ المقدس، مکہ، مدینہ اور اندلس ہر جگہ برقرار رکھا گیا تھا۔ بغداد کا ‘اَزدی ہسپتال‘ (Azdi Hospital)جو 371ھ میں تعمیر ہوا، دمشق کا ‘نوری ہسپتال‘ (Noorie Hospital)، مصر کا ‘منصوری ہسپتال‘ (Mansuri Hospital) اور مراکش کا ‘مراکو ہسپتال‘ (Moroccan Hospital) اُس وقت دُنیا کے سب سے بڑے اور تمام ضروری سہولتوں اور آلات سے لیس ہسپتال تھے۔اِسلامی تعلیمات کی بدولت ملنے والی ترغیب سے مسلمان تو تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھے جبکہ یورپ کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ تھا۔ مسلمانوں کے علمی شغف کا یہ عالم تھا کہ اِسلامی دُنیا کے ہر شہر میں پبلک اور پرائیویٹ لائبریریوں کی قابلِ رشک تعداد موجود تھی اور بیشتر لائبریریاں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ رکھتی تھی۔ قرطبہ (Cordoba)، غرناطہ (Granada)، بغداد (Baghdad) اور طرابلس (Tarabulus) وغیرہ کی لائبریریاں دُنیا کا عظیم تاریخی اور علمی سرمایہ تصوّر ہوتی تھیں۔
علوم القرآن (Quranic Sciences)قرآنِ مجید ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں اِنسانی زِندگی کے ہر گوشے سے متعلق ہدایت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک اَیسی کتابِ ہدایت ہے جس سے تمام علوم کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ چنانچہ اَوائل دورِ اِسلام ہی سے قرآنِ مجید کو منبعِ علوم تصوّر کرتے ہوئے اُس سے مستنبط ہونے والے علوم و فنون پر کام کیا گیا۔ قاضی ابو بکر بن عربی اپنی کتاب ‘قانونُ التأویل‘ میں بیان کرتے ہیں کہ قرآنی علوم کی تعداد 77,450 ہے۔ مسلمان اہلِ علم نے صرف مطالعۂ قرآن کے ذریعے جو علمی و اَدبی اور سائنسی و سماجی علوم و فنون اَخذ کئے اُن میں سے چند ایک یہ ہیں:علمُ التوحید (theology)علمُ القراۃ والتجوید (pronunciation)علمُ النحو (grammar / syntax)علمُ الصرف (morphology)علمُ التفسیر (exegesis)علمُ اللغہ (linguistics)علمُ الاصول (science of fundamentals)علمُ الفروع (science of branches)علمُ الکلام (theology)علمُ الفقہ والقانون (law / jurisprudence)علمُ الفرائض والمیراث(law of inheritance)علمُ الجریمہ (criminology)علمُ الحرب (science of war)علمُ التاریخ (history)علمُ التزکیہ والتصوف (theosophy)علمُ التعبیر (oneiromancy)علمُ الادب (literature)علمُ البلاغت، المعانی، البیان، البدیع (rhetoric)علمُ الجبر و المقابلہ (algebra)علمُ المناظرہ (polemics)علمُ الفلسفہ (philosophy)علمُ النفسیات (psychology)علمُ الاَخلاق (ethics)علمُ السیاسہ (political science)علمُ المعاشرہ (sociology)علمُ الثقافہ (culture)علمُ الخطاطی (calligraphy)علمُ المعیشت والاقتصاد(economics)علمُ الکیمیا (chemistry)علمُ الطبیعیات (physics)علمُ الحیاتیات (biology)علمُ النباتات (botany)علمُ الزراعہ (agronomy)علمُ الحیوانات (zoology)علمُ الطب (medical science)علمُ الادویہ (pharmacology)علمُ الجنین (embryology)علم تخلیقیات (cosmology)علم کونیات (cosmogony)علمُ الہیئت (astronomy)علمِ جغرافیہ (geography)علمُ الارضیات (geology)علمُ الآثار (archaeology)علمُ المیقات (timekeeping) وغیرہاِسی طرح اَحادیثِ نبوی سے بھی ہزارہا علوم و فنون کا اِستنباط کیا گیا اور اگلی صدیوں میں اُن پر تحقیق کے ذریعے ہزاروں کتب کا بیش بہا ذخیرہ مرتب ہوا۔اَب ہم اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند سائنسی اور سماجی علوم و فنون کے اِرتقاء میں ہونے والی پیش رفت کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔
علمِ ہیئت و فلکیات (Astronomy)علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علمُ الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ مغربی زبانوں میں اَب بھی بے شمار اَجرام سماوی کے نام عربی میں ہیں، کیونکہ وہ مسلم ماہرینِ فلکیات کی دریافت ہیں۔عظیم مغربی مؤرخ Prof Hitti لکھتا ہے:Not only are most of the star ۔ ۔ ۔ names in European languages of Arabic origins ۔ ۔ ۔ but a numbers of technical terms ۔ ۔ ۔ are likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to Christian Europe.”(History of the Arabs, pp.568-573)ترجمہ: “یورپ کی زبانوں میں نہ صرف بہت سے ستاروں کے نام عربی الاصل (عربی زبان سے نکلنے والے) ہیں بلکہ لاتعداد اِصطلاحات بھی داخل کی گئی ہیں جو یورپ پر اِسلام کی بھرپور وراثت کی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں”۔اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابنِ رشد ۔ ۔ ۔ جسے مغرب میں Averroes کے بدلے ہوئے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ نے سورج کی سطح کے دھبوں (sun spots) کو پہچانا۔ Gregorian کیلنڈر کی اِصلاحات ‘عمر خیام‘ نے مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں زمین کے محیط کی پیمائشیں عمل میں آئیں، جن کے نتائج کی درُستگی آج کے ماہرین کے لئے بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردِش، سورج گرہن، علمُ المیقات (timekeeping) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیر معمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کی علمُ المیقات (timekeeping) کے میدان میں خصوصی دِلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس علم کا تعلق براہِ راست نمازوں اور روزوں کے معاملات سے تھا۔ یاد رہے کہ البتانی (877ء۔918ء) اور البیرونی (973ء۔1050ء) کا زمانہ صرف تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے، گویا یہ کام بھی آج سے گیارہ سو سال قبل انجام پذیر ہوئے۔(History of the Arabs, pp.373-378)پنج وقتی نمازوں کے تعینِ اَوقات کی غرض سے ہر طول و عرض بلد پر واقع شہروں کے لئے مقامی ماہرینِ تقویم و فلکیات نے الگ الگ کیلنڈرز وضع کئے۔ رمضانُ المبارک کے روزوں نے طلوع و غروبِ آفتاب کے اَوقات کے تعین کے لئے پوری تقویم بنانے کی الگ سے ترغیب دی، جس سے بعد اَزاں ہر طول بلد پر واقع شہر کے مطابق الگ الگ کیلنڈرز اور پھر مشترکہ تقویمات کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں باقاعدہ طور پر ‘مؤقّت‘ کا عہدہ وُجود میں آگیا، جو ایک پیشہ ور ماہرِ فلکیات ہوتا تھا۔مغرب کے دورِ جدید کی مشاہداتی فلکیات(observational astronomy) میں اِستعمال ہونے والا لفظ almanac بھی عربی الاصل ہے اِس کی عربی اصل ‘المناخ‘ (موسم) ہے۔ یہ نظام بھی اصلاً مسلم سائنسدانوں نے اِیجاد کیا تھا۔ ‘شیخ عبدالرحمن الصوفی ‘ نے اِس موضوع پر ایک عظیم کتاب ‘صورُالکواکب‘ (figures of the stars) کے نام سے تصنیف کی تھی، جو جدید علمِ فلکیات کی بنیاد بنی۔ مستزاد یہ کہ اِس باب میں ‘ابنُ الہیثم‘۔ ۔ ۔ جسے اہلِ مغرب لاطینی زبان میں Alhazen لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش سائنسی سرمایہ ہے۔ علمِ ہیئت و فلکیات (astronomy) اور علمِ نجوم (astrology) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ ‘علی بن خلاف اندلسی‘ اور ‘مظفرالدین طوسی‘ کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اُن سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ (Cordoba) کے عظیم سائنسدان ‘عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دورِ جدید کی سیارہ گاہ (Planetarium) کی بنیاد بنا۔ اُس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ ‘عباس بن فرناس‘ وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے دُنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اُڑایا۔ بعد اَزاں البیرونی (al-Biruni) اور ازرقیل (Azarquiel) وغیرہ نے equatorial instruments کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اِسی طرح سمتِ قبلہ کے درُست تعین اور چاند اور سورج گرہن (lunar / solar eclipses) کو قبل اَز وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردِش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی، ابنِ یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے Toledan Astronomical Tables مرتب کئے۔ چنانچہ بعض غیر مسلم مؤرخین نے اِس حقیقت کا اِن اَلفاظ میں اِعتراف کیا ہے:”Muslim astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for giving the ephemerids of the sun and the moon — later extended to the other planets — as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the almanacs which were to be so widely used when trans-oceanic navigation began.”)The Legacy of Islam, pp. 474-482(ترجمہ: “مسلمان ماہرینِ فلکیات نے بھی (تیرہویں صدی عیسوی کے قریب) چاند اور سورج کو حرکت دینے والے نظام کو دریافت کیا اور بعد ازاں دُوسرے سیاروں کے حوالے سے تحقیق شروع کی۔ طے شدہ سالانہ تاریخوں کے حساب سے اور اُن تاریخوں کا رجسٹر کا آغاز کچھ ایسا تھا کہ اسے سمندر کو پار کرنے کے لئے جہازوں کی رہنمائی میں بہت زیادہ اِستعمال میں لایا گیا”۔
حساب،الجبرا،جیومیٹری (Mathematics, Algebra, Geometry)حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں ‘الخوارزمی‘ مؤسسینِ علم میں سے ایک ہے۔ حساب میں algorism یا algorithm کا لفظ الخوارزمی (al-Khwarizimi) کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔ اُن کی کتاب “الجبر و المقابلہ” کا بارہویں صدی عیسوی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصابی کتاب (textbook) کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اُسی سے عالمِ مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ اُس کتاب میں ‘تفرّق کے معکوس‘ (integration) اور ‘مساوات‘ (equation) کی آٹھ سو سے زائد مثالیں دی گئی تھیں۔ مستزاد یہ کہ یورپ میں trigonometrical functions کا علم ‘البتانی‘ کی تصانیف کے ذریعے اور tangents کا علم ‘ابوالوفا‘ کی تصانیف کے ذریعے پہنچا۔ اسی طرح صفر (zero) کا تصوّر مغرب میں متعارف ہونے سے کم از کم 250 سال قبل عرب مسلمانوں میں متعارف تھا۔ ابو الوفاء، الکندی، ثابت بن القرّاء، الفارابی، عمرخیام، نصیرالدین طوسی، ابنُ البناء المراکشی، ابنِ حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور اِبراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات arithmetic، algebra، geometry اور trigonometry وغیرہ میں تأسیسی حیثیت کی حامل ہیں۔ حتیٰ کہ اِن مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اُصولوں کے ذریعے optics اور mechanics کو بھی خوب ترقی دی۔ یہ بات بھی قابلِ ذِکر ہے کہ ‘المراکشی‘ نے mathematics کی مختلف شاخوں پر 70 کتابیں تصنیف کی تھیں, جو بعد اَزاں اِس علم کا اَساسی سرمایہ بنیں۔ الغرض مسلم ماہرین نے علمِ ریاضی کو یونانیوں سے بہت آگے پہنچا دیا اور یہی اِسلامی کام جدید mathematics کی بنیاد بنا۔
طبیعیات،میکانیات اورحرکیات(Physics, Mechanics, Dynamics)قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابنِ سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات طبیعیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد بن زکریا رازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ تخلیقیات (cosmology) کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو (Aristotole) کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ‘کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت (motion) اور سمتی رفتار (velocity) کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لئے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابنُ الہیثم نے density، atmosphere، measurements، weight، space، time، velocities، gravitation، capillary attraction جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات (physics) کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح mechanics اور dynamics کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔ابنُ الہیثم کی ‘کتابُ المناظر‘ (optical thesaurus) نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی dynamics میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے galileo سے بھی پہلے gravitational force کی خبر دی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح momentum کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے ذریعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قراء نے lever پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں liber karatonis کے نام سے جانا جاتا ہے۔بغداد کے دیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی mechanical devices اور gadgets وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔
علم بصریات (Optics)بصریات (optics) کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیر معمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ (Arnold) اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمالُ الدین الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب “On Optics” آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذریعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ lenses کی magnifying power کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے magnifying lenses کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کر دیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت (nature of vision) کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں (rays) آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام (external objects) کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت (retina) کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا optic nerve اور دِماغ (brain) کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ Euclid اور Kepler کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات (optics) کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف Witelo Roger Bacon اور Peckham جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں Kepler اور Newton کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام velocities، light، lenses، astronomical observations، meteorology اور camera وغیرہ پر تأسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطبُ الدین شیرازی اور القزوینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔
علمُ النباتات (Botany)اِس موضوع پر الدینوری (895ء) کی چھ جلدوں پر مشتمل ‘کتابُ النبات‘ سائنسی دُنیا میں سب سے پہلا ضخیم اور جامع Encyclopaedia Botanica ہے۔ یہ مجموعہ اُس وقت تحریر کیا گیا جب یونانی کتب کا عربی ترجمہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ایک مغربی سائنسی مورخ Strassburg لکھتا ہے:”Anyhow it is astonishing enough that the entire botanical literature of antiquity furnishes us only two parallels to our book (of Dinawari). How was it that the Muslim people could, during so early a period of its literacy life, attain the level of the people of such a genius as the Hellenic one, and even surpassed it in this respect.”)Zeitschrift fuer Assyriologie, Strassburg, vols. 25,44)ترجمہ “الغرض یہ ایک اِنتہائی حیران کن بات ہے کہ زمانۂ قدیم میں لکھا جانے والا علمِ نباتات کا مواد ہمیں الدنیوری کی کتاب جیسی صرف دو مثالیں پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی تعلیمی زندگی کے اُس اِبتدائی دَور میں مسلمانوں نے قدیم یونان جیسے دانشور و محقق لوگوں کا درجہ حاصل کر لیا تھا بلکہ وہ اِس معاملے میں تو اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے”۔پروفیسر آرنلڈ کے مطابق دُنیا بھر سے مسلمانوں کے مکہ و مدینہ کی طرف حج اور زیارت کے لئے سفر کرنے کے عمل نے biological science کو خاصی ترقی دی ہے۔ الغفیقی اور الادریسی نے اندلس (Spain) سے افریقہ تک سفر کر کے سینکڑوں پودوں کی نسبت معلومات جمع کیں اور کتابیں مرتب کیں۔ابنُ العوام نے 585 پودوں کے خواص و اَحوال پر مشتمل کتاب مرتب کی اور علمُ النباتات (botany) کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔پروفیسر Hitti بیان کرتا ہے:”In the field of natural history especially botany, pure and applied, as in that of astronomy and mathematics, the western Muslims (of Spain) enriched the world by their researches. They made accurate observations on the sexual difference (of various plants.(Ameer Ali, The Spirit of Islam. pp. 385-387)ترجمہ: “قدرتی تاریخ کے میدان میں خاص طور پر خالص یا اطلاقی علم نباتات میں فلکیات اور ریاضیات کی طرح اندلس کے مغربی مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ سے دُنیا کو مستفید کیا۔ اِسی طرح مختلف پودوں میں پائے جانے والے جنسی اِختلاف کے بارے میں اُن (ابو عبداللہ التمیمی اور ابو القاسم العراقی) کی تحقیقات بھی علمُ النباتات کی تاریخ کا نادِر سرمایہ ہیں”۔اِسلامی سپین کے فرمانروا عبدالرحمن اوّل نے قرطبہ (Cordoba)میں ایک زرعی تحقیقاتی اِدارے “حدیقہ نباتاتِ طبیہ” کی بنیاد رکھی، جس سے نہ صرف علمِ نباتات (botany) کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرنے کے مواقع میسر آئے بلکہ علمُ الطب (medical sciences) میں بھی تحقیق کے دَر وَا ہوئے۔ چنانچہ اندلس کے ماہرینِ نباتات نے پودوں میں جنسی اِختلاف کی موجودگی کو بجا طور پر دریافت کر لیا تھا۔ اِس دریافت میں جہاں اُنہیں “حدیقہ نباتاتِ طبیہ” میں کی گئی تجربی تحقیقات نے مدد دی وہاں اللہ ربّ العزت کے فرمان “خَلَقَ اﷲُ کُلَّ شَیئٍ زَوجًا” (اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو جوڑا جوڑا بنایا) نے بھی بنیادی رہنمائی عطا کی۔عبداللہ بن عبدالعزیز البکری نے ‘کتاب اَعیان النبات و الشجریات الاندلسیہ‘ کے نام سے اندلس کے درختوں اور پودوں کے خواص مرتب کئے۔ اشبیلیہ کے ماہرِ نباتات (botanist) ابنُ الرومیہ نے اندلس کے علاوہ افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کی اور اُس دوران ملنے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں پرخالص نباتی نقطۂ نظر سے تحقیقات کیں۔ اِس کے علاوہ ابنُ البیطار، شریف اِدریسی اور ابنِ بکلارش بھی اندلس کے معروف ماہرینِ نباتا ت میں سے ہیں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.