معجزئہ ختمی مرتبت

260

حضرت خاتم الانبیاء کے معجزے کا نوع کتاب سے ہونا ایک ایسی چیز ہے‘ جو آنحضرت کے عصر و زمانے سے جو علم و دانش‘ تہذیب و تمدن اور علم و معارف کی ترقی اور پیش رفت کا زمانہ ہے‘ مناسب رکھتی ہے اور یہ ترقی اس بات کا امکان فراہم کرتی ہے کہ اس کتاب کے بہت سے اعجازی پہلو تدریجاً روشن ہوں‘ جو پہلے ظاہر نہیں ہوئے تھے‘ جیسا کہ اس کا جاویدانی ہونا‘ آپ کے ہمیشگی پیغام اور رسالت سے مناسبت رکھتا ہے کہ جو ہمیشہ باقی اور ناقابل نسخ ہے۔قرآن کریم نے اپنے معجزانہ اور فوق بشریت پہلو کی خبر اپنی چند آیتوں میں صریحاً دی ہے۔(مثلاً قرآن کی یہ آیت: ان کنتم فی ریب ممانزلنا علی عبدنما فاتو ابسورة من مثلہ(بقرہ/۲۳) اگر تم لوگ اس چیز کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے شک و تردد میں مبتلا ہو‘ تو تم اس جیسی ایک سورہ ہی بنا لاؤ۔) جیسا کہ قرآن نے اپنے علاوہ خاتم الانبیاء کے دوسرے معجزات کے واقع ہونے کی تصریح کی ہے۔قرآن کریم میں معجزات سے متعلق بہت سے مسائل بیان ہوتے ہیں‘ جیسے پیغمبران الٰہی کی رسالت کا معجزے کے ساتھ ہونے کی ضرورت اور یہ کہ معجزہ “بینہ” اور دلیل قاطع ہے اور یہ کہ انبیاء و رسل معجزے کو خدا کے اذن و اجازت سے پیش کرتے ہیں اور یہ کہ پیغمبران خدا اسی حد تک معجزہ پیش کرتے ہیں جو ان کے قول کی صداقت و سچائی کی دلیل و نشانی ہو۔ وہ حضرات اس کے پابند نہیں ہیں کہ لوگوں کی بے سوچی سمجھی خواہشات کی متابعت کریں اور لوگوں کی منشا کے مطابق معجزات دکھاتے رہیں اور جو شخص جس وقت اور جس روز معجزے کا مطالبہ کرے‘ اسے فوراً قبول کر لیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پیغمبروں نے معجزے کی نمائش گاہ قائم نہیں کی ہے اور معجزہ سازی کا کارخانہ نہیں کھول رکھا ہے اور بھی اسی طرح کے مسائل ہیں‘ جو قرآن میں موجود ہیں۔قرآن کریم نے جس طرح ان مسائل کو پیش کیا ہے‘ اسی طرح بہت سے پیغمبران ماسبق جیسے حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت لوط حضرت صالح حضرت ہود حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے معجزات کو بھی پوری صداقت کے ساتھ نقل کیا ہے اور ان کی صحت کی گواہی دی ہے‘ جس کی کسی بھی صورت میں تاویل نہیں ہو سکتی۔بہت سے مستشرقین اور عیسائی علماء نے ایسی چند آیتوں کو جن کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن نے مشرکین کے ان کی خواہش کے مطابق معجزہ کے مطالبے پر منفی جواب دیا ہے‘ انہی آیتوں کو بطور سند پیش کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ پیغمبر اسلام لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میں قرآن کے سوا کوئی دوسرا معجزہ نہیں رکھتا۔ اگر تم قرآن کو بطور معجزہ قبول کرتے ہو‘ تو بہتر ہے ورنہ میرے پاس کوئی دوسرا معجزہ نہیں ہے‘ بعض “روشن فکر” اور اہل قلم مسلمان مورخین نے بھی حال ہی میں اسی نظریے کو قبول کر لیا ہے اور اس کی توجیہ اس شکل سے کی ہے کہ معجزہ قانع کنندہ دلیل ہے لیکن ان لوگوں کے لئے جو فکری اور عقلی لحاظ سے بالغ و رشید نہ ہوں اور جو اس قسم کے حیرت انگیز امور کی تلاش میں رہتے ہیں‘ لیکن بالغ و رشید اور پختہ عقل والا انسان اس طرح کے امور کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا اور اسے تو منطق سے سروکار ہوتا ہے‘ پیغمبر اسلام۱ کا منطق و عقل کا دور ہے نہ کہ توہمات اور ذہنی تخیلات کا (اسی لئے) پیغمبر اسلام نے بہ اذن خدا قرآن مجید کے علاوہ ہر قسم کے معجزے کی درخواست قبول کرنے سے انکار فرمایا۔ وہ لوگ کہتے ہیں:”گذشتہ انبیاء کا معجزات اور غیر معمولی امور سے مدد لینا لازم و ضروری اور ناگزیر تھا‘ کیوں کہ اس دور میں ان حضرات کا عقلی دلیلوں کے ذریعے رہنمائی کرنا بے حد دشوار بلکہ محال تھا___ پیغمبر اسلام کے ظہور کے زمانے میں انسانی معاشرہ طفلی دور کو بہت پیچھے چھوڑ کر فکری بلوغ کے دور میں قدم رکھ رہا تھا۔ کل تک جو بچہ اپنی ماں کا محتاج تھا تاکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھ سکے‘ اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنی عقل استعمال کر سکتا ہے___پیغمبر اسلام کا یہ عمل بغیر دلیل و حکمت نہیں تھا کہ مفکرین و معاندین آپ سے معجزات پیش کرنے پر اصرار کرتے‘ لیکن آپ ان کی دعوت کا مثبت جواب نہیں دیتے بلکہ اپنی دعوت کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے عقلی و تجرباتی اور تاریخی شواہد کے ذریعے استدلال کرنے پر زور دیتے ہیں‘ مفکرین کے اس تمام اصرار و ہٹ دھرمی کے باوجود پیغمبر اسلام ایسے معجزات (جیسے انبیائے ماسلف پیش کیا کرتے تھے) پیش کرنے سے بہ اذن خدا اجتناب کرتے تھے اور انکار فرما دیتے تھے اور صرف قرآن پر (ایسے معجزے کی حیثیت سے جس کی نظیر نہیں مل سکتی) اکتفا فرماتے تھے۔ حضرت خاتم الانبیاء کا معجزہ قرآن مجید رسالت کی خاتمیت کی بھی دلیل ہے۔ یہ وہ کتاب ہے‘ جو عالم خلقت کے حقائق اور تمام جہات میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ زندگی کی تعلیمات اور رہنمائیوں پر مشتمل ہے۔ ایک ایسا معجزہ ہے‘ جو بالغ و رشید انسان کے لئے مفید ہے نہ کہ اس بچے کے لئے جو اوہام اور ذہنی تخیلات کا پابند ہو۔”(ڈاکٹر حبیب اللہ پائدار: فلسفہ تاریخ از نظر قرآن‘ ص ۱۵‘ ۱۶)اور بعض کہتے ہیں:”وہ فضا جس میں گذشتہ انسان سانس لیتا رہا ہے‘ ہمیشہ خرافات اور موہومات اور خوارق عادات سے بھری رہی ہے اور سوائے اس چیز کے جو عقل و ادراک کے خلاف ہو‘ اس کے ذہن میں اثر ہی نہیں کرتی‘ یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ میں بشریت کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ “اعجاز” کی تلاش و جستجو میں مصروف اور “غیب” کی شیفتہ اور دلک دادہ رہی ہے۔ یہ حساسیت ہر چیز کے بارے میں جو عقل و شعور میں نہ آنے والی ہو‘ ان انسانوں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے‘ جو تمدن سے زیادہ دور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ “طبیعت” سے جتنے زیادہ نزدیک ہیں‘ اتنے ہی زیادہ “ماورائے طبیعت” کے مشتاق رہتے ہیں اور بے ہودگی اسی حقیقت کی معیوب اولاد ہے‘ صحرائی انسان ہمیشہ “معجزہ” کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کی دنیا حیرت انگیز ارواح و اسرار سے بھری ہوئی ہے___ گذشتہ انسان کی روح فقط اس وقت متاثر ہوتی تھی‘ جب اس کی نگاہوں کے سامنے کوئی تعجب خیز امر واقع ہو رہا ہو‘ جس کو وہ رمز و راز سے پر‘ سحر انگیز اور مبہم چیز سمجھتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف تمام پیغمبر بلکہ تمام بادشاہ‘ تمام طاقت ور اور ہر قوم کے حکماء اپنے افکار و اعمال کی توجیہ عجیب و غریب اور غیر معمولی امور سے کرتے رہے ہیں اور اس میں پیغمبروں کا گروہ جن کی رسالت کی بنیاد ہی “غیب” پر رکھی گئی ہے‘ انہیں دوسروں سے زیادہ ضرورت تھی کہ معجزے سے کام لیں کیوں کہ ان کے زمانے کے لوگوں کے ایمان میں “اعجاز”، منطق و علم اور محسوس و مسلم اور عینی حقیقت سے زیادہ کارآمد تھا‘ لیکن حضرت محمد کی بات اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہے‘ وہ معاشرہ جس کے ترقی یافتہ اور سب سے بڑے تجارتی شہر میں صرف سات آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور “خاندانی فخر‘ شمشیرزنی‘ سرمایہ‘ دولت‘ اونٹ اور اولاد (وہ بھی لڑکے)” کے سوا کچھ سوچتے ہی نہیں تھے‘ ایسے معاشرہ میں آپ کتاب کو اپنے معجزے کے طور پیش کرتے ہیں۔ یہ بات خود ایک معجزہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں ایسی کتاب جہاں تاریخ کتاب کے کسی ایک نسخہ کا بھی سراغ نہیں دیتی‘ اس کا خدا “روشنائی‘ قلم” اور “تحریر” کی قسم کھاتا ہے‘ ایسی قوم جو قلم کو چند بدحال‘ عاجز اور بے افتخار افراد کا وسیلہ سمجھتی ہے۔ یہ خود ایک معجزہ ہے‘ جس کو ہمیشہ دیکھا جا سکتا ہے اور ہر روز اس اعجاز آمیز پہلو کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ وہ تنہا معجزہ ہے‘ جس کو دوسرے معجزات کے برخلاف عقلمند اور دانشمند انسان اور ہر وہ معاشرہ جو زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ متمدن ہو‘ وہ سب اس کے اعجاز کو زیادہ درست‘ زیادہ صحیح اور زیادہ عمیق پائیں گے۔” یہ کتاب وہ اکیلا معجزہ ہے‘ جس پر اعتقاد رکھنا صرف امور غیبی ہی کے معتقدین پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہر مفکر اس کے اعجاز کا معترف ہے۔ یہ وہ تنہا معجزہ ہے‘ جو نہ صرف عوام کے لئے بلکہ روشن فکروں کے لئے بھی ہے___ وہ تنہا معجزہ ہے‘ جو دوسرے معجزات کے برخلاف اپنے دیکھنے والوں میں پائی جانے والی تعجب اور اعجاز کی حس کو بیدار نہیں کرتی‘ ایک رسالت کو قبول کرنے کے واسطے صرف ایک مقدمہ اور وسیلہ نہیں ہے بلکہ اس پر یقین کرنے اور ایمان لانے والوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہے۔ یہ خود قبول کرنے کا مقصد ہے‘ خود رسالت ہے اور بالآخر حضرت محمد کا یہ معجزہ غیر بشری امور سے نہیں ہے اگرچہ ایک غیر بشری عمل ہے اور اس لحاظ سے گذشتہ انبیاء کے معجزات کے برخلاف جو لوگوں کے یقین کرنے کے واسطے صرف ایک عامل و سبب کے طور پر کام میں لائے جاتے رہے (وہ بھی چند گنے چنے افراد کے لئے جو انہیں دیکھتے تھے) اور اس کے علاوہ ان معجزات کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔محمد کا معجزہ بلند ترین انسانی استعداد و صلاحیت کی نوع سے ہے اور انسان کے لئے بلند ترین نمونہ کار اور دستورالعمل کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ ایسا دستورالعمل جو ہمیشہ اس کے قبضہ اختیار میں ہے۔ محمد ۱کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کی تلاش و جستجو کا رخ غیر عادی امور‘ کرامات اور خوارق عادات سے موڑ کر عقلی و منطقی علمی و طبیعی اور اجتماعی و اخلاقی مسائل کی طرف موڑ دیں اور “عجائب و غرائب” کے سلسلے میں ان کی حساسیت کو ہٹا کر “واقعات و حقائق” کی طرف موڑ دیں اور یہ کوشش کوئی معمولی چیز نہیں ہے‘ وہ بھی ایسے لوگوں کے ساتھ جو غیر طبیعی چیزوں کے سوا کسی چیز کے سامنے جھکنا اور کسی کو ماننا جانتے ہی نہیں‘ پھر مزید برآں ایسے شخص کے ذریعے جو اپنے آپ کو ان کے درمیان پیغمبر کہتا ہے۔ اپنے کو پیغمبر بتانا اور لوگوں کو اپنی خدائی رسالت کی طرف دعوت دینا اور عین اسی حالت میں باقاعدہ طور پر یہ اعتراف کرنا کہ میں “غیب کی خبر نہیں رکھتا” تعجب میں ڈال دینے والا کام ہے اور آپ کی انسانی قدر و منزلت کے علاوہ جو چیز بہت زیادہ جذبات کو ابھارتی ہے‘ وہ آپ کی غیر معمولی سچائی ہے‘ جس کا احساس آپ کے کام میں ہوتا ہے اور جو ہر دل کو تقدیس کے لئے اور ہر فکر کو تعظیم اور تحسین و تعریف پر آمادہ کرتا ہے۔آپ سے پوچھتے ہیں‘ اگر آپ پیغمبر ہیں تو مال تجارت کا نرخ (بازار کے بھاؤ) ہمیں بتا دیں تاکہ ہم اپنی تجارت میں نفع حاصل کر سکیں‘ قرآن آپ کو حکم دیتا ہے کہ تم کہہ دوِ کہ میں اپنی ذات کے لئے نہ نفع کا مالک ہوں اور نہ نقصان کا‘ سوائے اس کے کہ جو اللہ کو منظور ہو۔ اگر میں غیب کی خبر رکھتا‘ تو بہت زیادہ نیکیاں کرتا اور کوئی شر مجھے چھو بھی نہ سکتا‘ میں تو ان لوگوں کے لئے جو اایمان رکھتے ہیں‘ فقط ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔( سورہ اعراف‘ ۱۸۸)لیکن جو پیغمبر غیب دان و غیب گو نہ ہو اور جو روحوں‘ پریوں اور جنات سے گفتگو نہ کرے اور روزانہ جس سے کوئی کرامت ظاہر نہ ہو‘ وہ صحرائی لوگوں کی نظر میں کیا حقیقت و اہمیت رکھ سکتا ہے۔ محمد انہیں کائنات کے بارے میں غور و فکر‘ طہارت‘ دوستی‘ علم‘ وفا اور آدمی کے وجود اور زندگی اور قسمت و انجام کے معنی سمجھنے کی طرف بلاتے ہیں اور وہ لوگ آپ سے پے در پے معجزہ طلب کرتے ہیں اور غیب گوئی اور کرامت کی خواہش کرتے ہیں اور خدا آپ ہی کی زبان سے ایسے لہجہ میں کہ گویا ایسے کام کی آپ سے ہرگز ہرگز توقع اور امید نہیں رکھی جا سکتی‘ فرماتا ہے:سبحان ربی ھل کنت الابشرا رسولا(ڈاکٹر علی شریعتی‘ اسلام شناسی‘ ص ۵۰۲۔۵۰۶)سبحان اللہِ کیا میں ایک بھیجے ہوئے بشر کے سوا (کچھ اور) ہوں۔ اس گروہ نے جن زیادہ تر آیات کو بطور سند اختیار ہے۔ وہ سورہ اسرا ء کی آیات ۹۰۔۹۳ ہیں‘ جن میں ارشاد خداوندی ہے:وقالو الن نومن لک حتی تفجرلنا من الارض ینبوعا او تکون لک جنة من نخیل و عنب فتفجر الانھار خلا لھا تفجیرا او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا او تآتی باللّٰہ و الملائکة قبیلا اویکون لک بیت من زخرف اوتآتی فی السماء ولن نومن لرقیک حتی تنزل علینا کتابا نقرؤہ قل سبحان ربی ھل کنت الابشرا رسولا”وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کی تصدیق نہیں کریں گے‘ جب تک کہ آپ ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری نہ کر دیں یا آپ کے پاس خرما اور انگور کا کوئی باغ نہ ہو‘ جس میں آپ نہریں جاری کر دیں یا جیسا کہ آپ گمان کرتے ہیں‘ ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نہ گرا دیں یا خدا اور ملائکہ کو ہمارے روبرو حاضر نہ کر دیں یا آپ کے پاس سونے کا گھر نہ ہو یا آپ آسمان پر نہ چڑھ جائیں اور آپ کے آسمان پر پہنچ جانے پر ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ جب تک کہ آپ ہم پر آسمان سے کوئی خط نہ نازل کر دیں‘ جس کو ہم پڑھیں۔ اے رسول آپ ان کو کہہ دیجئے کہ پاک و منزل ہے میرا پروردگار‘ کیا میں ایک بھیجے ہوئے بشر کے علاوہ (کچھ اور) ہوں۔”یہ لوگ (بعض روشن فکر مسلمان مورخین) کہتے ہیں کہ یہ آیتیں ظاہر کرتی ہیں کہ مشرکین پیغمبر سے قرآن کے علاوہ کوئی اور معجزہ چاہتے تھے اور پیغمبر ایسا معجزہ پیش کرنے سے اجتناب اور انکار کرتے تھے۔ اوپر جن مطالب کا ہم نے تذکرہ کیا ہے ان میں سے بعض کی خاص کر جو مطالب دوسرے معجزات کی بہ نسبت قرآن کے معجزہ ہونے کی خصوصیت کو اجاگر کرتے ہیں‘ تائید کرتے ہوئے افسوس کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان تمام نظریات کی تائید نہیں کر سکتے۔ ہماری نظر میں جو مسائل قابل بحث ہیں‘ وہ حسب ذیل ہیں:۱۔ پیغمبر اسلام کے پاس قرآن مجید کے علاوہ کوئی دوسرا معجزہ نہیں تھا اور قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا معجزہ طلب کرنے والوں کے اصرار کے باوجود ان کی بات کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اسراء کی آیات اس امر کی دلیل ہیں۔۲۔ معجزہ ہونے کی قدر و قیمت اور افادیت کتنی ہے؟ آیا معجزہ اور خارق عادت کا تعلق ایسی چیز سے تھا‘ جو انسان کے عہد طفلی کے دور سے جب کہ عقل و منطق کارآمد نہیں تھی‘ مناسبت رکھتی تھی اور ہر شخص یہاں تک کہ کئی بادشاہ ان امور کے ذریعے اپنے اعمال و کردار کی توجیہ کرتے رہے ہیں۔ پیغمبران خدا بھی مجبور تھے کہ انہیں امور کے ذریعے اپنی تعلیمات حقہ کی توجیہ کریں اور لوگوں کو مطمئن کریں۔ پیغمبر اسلام جن کا معجزہ کتاب ہے‘ اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں۔ آنحضرت نے کتاب اور درحقیقت عمل و منطق کے ذریعے اپنے کو پہچنوایا۔
غیر قرآنی معجزہکیا پیغمبر اسلام قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں رکھتے تھے؟ یہ مسئلہ جہاں تاریخ و سنت حدیث متواتر کے لحاظ سے ناقابل قبول ہے‘ وہاں نص قرآن کے بھی خلاف ہے۔ معجزہ شق القمر کا ذکر ہے خود قرآن میں آیا ہے۔ بالفرض اگر کوئی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کی توجیہ و تاویل کرے (اگرچہ اس واقعہ کی تاویل نہیں کی جا سکتی) تو معراج کے واقعہ اور سورہ اسراء کی توجیہ و تفسیر کیوں کر کی جا سکتی ہے۔ قرآن صاف صاف لفظوں میں کہتا ہے:سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا”پاک و بے نیاز ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجدالاقصیٰ (بیت المقدس) تک لے گئی‘ جس کے گرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔”کیا یہ واقعہ ایک امر خارق عادت اور معجزہ نہیں ہے۔ سورہ مبارکہ تحریم میں پیغمبر خدا کا ایک راز کی بات اپنی بیوی سے کہنا اور پھر اس بیوی کا اس راز کو حضرت کی ایک دوسری بیوی سے کہہ دینے(۱) کے قصے میں آیا ہے کہ پیغمبر نے اس بیوی سے کہا کہ تو نے وہ راز دوسری بیوی سے کیوں کہا؟ پھر ان دونوں بیویوں کے درمیان جو باتیں ہوئی تھیں‘ ان کو حضرت نے دہرا دیا‘ تو اس بیوی نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کو اس کی خبر کس نے دی؟ رسول اکرم نے فرمایا‘ مجھے میرے خدا نے آگاہ کر دیا۔ کیا یہ غیب کی خبر نہیں ہے؟ معجزہ نہیں ہے؟ سورہ اسراء کی آیات نمبر ۹۰۔۹۳ اور بعض دوسری اس قسم کی آیتیں جو بطور سند پیش کی جاتی ہین‘ ان کا قصہ دوسری نوعیت کا ہے‘ وہاں “آیت”، “نشانی” اور “بینہ” (دلیل) کے معنی میں معجزہ طلب کرنے کا مسئلہ ان لوگوں کی طرف سے نہیں ہے‘ جو واقعتا تردد کی حالت میں ہوں اور ثبوت کے لئے دلیل و برہان کے خواہش مند ہوں۔ یہ آیتیں اور سورة عنکبوت کی آیت نمبر ۵۰(اس آیت پر بعد میں گفتگو کی جائے گی) مشرکوں کی خاص منطق کو معجزہ خواہی میں اور قرآن کی خاص منطق کو پیغمبروں کے معجزے کے فلسفے میں ظاہر و روشن کرتی ہیں۔سورہ اسراء کی آیات ۹۰۔۹۳ میں مشرکوں کی بات اس طرح شروع ہوتی ہے:لن نومن لک___ حتی تفجر لنا___ یعنی ہم آپ کے فائدے کے لئے آپ پر ایمان نہیں لائیں گے اور آپ کے گروہ میں شامل نہیں ہوں گے‘ مگر یہ کہ آپ ہمارے فائدے کے لئے ہمارے سامنے اس خشک و سنگلاخ زمین سے کوئی چشمہ جاری کر دیں (یعنی ایک طرح کا لین دین) یا درختوں سے بھرا ہوا گھنا باغ جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں یا آپ سونے سے بھرا ہوا گھر رکھتے ہوں‘ جس سے ہم بھی فائدہ حاصل کر سکیں یا آپ آسمان کا ایک ٹکڑا (جیسا کہ آپ گمان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ایسا ہو گا) ہمارے اوپر گرا دیں (یعنی عذاب اور قوت اور انجام کار نہ کہ معجزہ) یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کریں یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہمارے واسطے اور ہمارے نام اور فخر کے واسطے خصوصی خط بھیجیں (یہاں بھی ایک طرح کا لین دین کیا جا رہا ہے البتہ روپے پیسے کے ذریعے نہیں بلکہ فخر و مباہات کے عنوان سے‘ وہ بھی موضوع کے محال ہونے کی طرف توجہ کئے بغیر)۔مشرکین نے یہ نہیں کہا کہ لن نومن لک___ جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ جب تک فلاں معجزہ پیش نہیں کریں گے‘ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے‘ بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ لن نومن لک جس کے معنی یہ ہیں‘ ہم آپ کے فائدے کے لئے ایمان نہیں لائیں گے اور آپ کے گروہ میں شامل نہیں ہوں گے‘ یعنی ایک مصلحت آمیز تصدیق‘ عقیدے کی خرید و فروخت۔ آمن بہ اور آمن لہ میں فرق ہے‘ علمائے اصول فقہ نے سورہ توبہ کی آیت کی آیت نمبر۶۱ جس میں رسول خدا کے بارے میں ہے کہ یومن باللّٰہ ویومن للمومنین سے اسی لطیف و باریک نکتے کو اخذ کیا ہے۔ مشرکین نے اس تصدیق اور مصلحت آمیز تائید کے مقابلہ میں جن چیزوں کو طلب کیا تھا‘ ان کے علاوہ ایک مطالبہ تفجر لنا من الارض ینبوعاً کا تھا یعنی آپ ہمارے فائدے کے لئے ایک چشمہ جاری کر دیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ اجرت طلب کرنا ہے نہ کہ دلیل اور معجزہ طلب کرنا۔پیغمبر۱ کی غرض بعثت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو حقیقی معنی میں مومن بنائیں نہ یہ کہ معجزے کی قیمت کے عوض لوگوں کا عقیدہ خریدیں‘ خود مولف محترم(ڈاکٹر علی شریعی مرحوم) یہ لکھتے ہیں کہ وہ لوگ پیغمبر سے کہتے تھے‘ اگر آپ پیغمبر ہیں تو منڈی کا بھاؤ ہمیں پہلے سے بتا دیا کریں تاکہ ہم اپنی تجارت میں نفع حاصل کر سکیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معجزہ اور دلیل طلب کرنا کشف حقیقت کے لئے نہیں تھا بلکہ پیغمبر کو روپیہ حاصل کرنے کا وسیلہ بنانا تھا۔ ظاہر سی بات ہے پیغمبر کا جواب یہی ہو گا کہ اگر مجھے ایسی باتوں کے لئے غیب سے آگاہ کیا ہوتا‘ تو میں اس غیب دانی کو خود اپنے دنیوی کاموں کے لئے وسیلہ بناتا‘ لیکن معجزہ اور غیب دانی ان کاموں کا وسیلہ نہیں ہے۔ میں پیغمبر ہوں‘ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔ مشرکین یہ گمان کرتے تھے کہ معجزہ ایسی چیز ہے‘ جو پیغمبر کے اختیار میں ہے‘ وہ جس وقت چاہیں‘ جہاں چاہیں اور جس مقصد کے لئے چاہیں‘ معجزہ دکھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ آپ سے چشمہ جاری کرنے سونے کا گھر رکھنے‘ پہلے سے قیمتوں کی خبر دینے کا مطالبہ کرتے تھے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معجزہ خود وحی کی مانند ہے‘ اس طرف سے وابستہ ہے نہ کہ اس طرف سے۔ جس طرح وحی پیغمبر ۱کی خواہش کے تابع نہیں ہے‘ بلکہ اس طرف سے ایک فیضان ہوتا ہے‘ جو پیغمبر۱ کو اپنے زیراثر کر لیتا ہے‘ اسی طرح معجزہ بھی اس طرف سے ایک فیضان ہے‘ جو پیغمبر کے ارادے کو اپنے زیراثر کر لیتا ہے اور پیغمبر کے ذریعے سے جاری ہوتا ہے۔اور وحی باذن اللہ ہونے کا مطلب بھی یہی ہے اور معجزہ بھی اذن خدا سے ظاہر ہوتا ہے اور سورة عنکبوت کی آیت نمبر ۵۰ کا بھی یہی مطلب ہے‘ جس سے راہب اور علمائے مسیحی غلط فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:انما الایات عنداللّٰہ و انما انا نذیر مبین”نشانیاں اور معجزات تو خدا کے پاس ہیں اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔”معجزے کے عنوان سے غیب کی خبر دینا بھی ایسا ہی ہے‘ یہ امر جہاں تک پیغمبر۱ کی ذات و شخصیت سے متعلق ہے‘ آپ ۱غیب سے بے خبر ہیں۔ قل لا اقول لکم انی ملک ولا اعلم الغیب ( سورہ انعام‘ آیت ۵۰) (اے رسول۱۱ کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں اور مجھے غیب کا علم بھی نہیں)‘ لیکن جہاں پر پیغمبر غیب اور ماورائے طبیعت کے زیراثر ہوتے ہیں‘ وہاں پوشیدہ رازوں کی خبر دیتے ہیں اور جب آپ سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ نے کہاں سے اور کیسے جانا تو فرماتے ہیں کہ خدائے علیم و خبیر نے مجھے خبر دی ہے۔ اگر پیغمبر یہ فرماتے ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا اور اگر میں غیب دان ہوتا‘ تو بہت سی دولت اس کے ذریعے سے حاصل کر لیتا۔لوکنت اعلم الغیب لا استکثرت من الخیر( سورہ اعراف‘ آیت ۱۸۸) اس بات سے حضرت رسول خدا مشرکوں کی بات کا منہ توڑ جواب دینا چاہتے تھے کہ میرا غیب جاننا معجزے کی حد میں ہے اور ایک خاص مقصد اور وحی الٰہی کے وسیلے سے ہے۔ اگر میری غیب دانی میرے اپنے اختیار میں ہوتی اور اسے ہر مقصد کے واسطے کام میں لایا جا سکتا اور اس کے وسیلے سے جیبیں بھرنا ممکن ہوتا‘ تو بجائے اس کے کہ تمہیں منڈی کے بھاؤ کے متعلق پیشگی خبر دیتا‘ خود میں اپنی جیب بھرتا۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ پر ارشاد ہوتا ہے:عالم الغیب لا یظہر علی غیبہ احدا الامن ارتضیٰ من رسول( سورہ جن‘ آیات ۲۶‘ ۲۷)”خداوند عالم عالم غیب کا جاننے والا ہے‘ وہ کسی کو اپنے غیب سے آگاہ نہیں کرتا‘ سوائے اس رسول کے جس کو اس کی رضا اور خوشنودی حاصل ہو۔”یقینا رسول اکرم ان رسولوں میں سے ایک ہیں‘ جنہیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر قرآن نے اپنی بہت سی آیات میں پیغمبروں کے معجزا ت کو بیان کیا ہے۔ حضرت ابراہیم کے معجزات‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے معجزات‘ اس صورت میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ جس وقت پیغمبر اسلام سے لوگ معجزہ کے طالب ہوں‘ جیسا کہ گذشتہ پیغمبروں سے لوگ معجزہ دکھانے پر اصرار کرتے تھے اور وہ پیغمبر ان کی بات قبول بھی کرتے اور معجزہ دکھا دیا کرتے تھے‘ تو پیغمبر فرمائیں سبحان اللہ! میں ایک بھیجے ہوئے بشر سے زیادہ کچھ نہیں ہوں‘ کیا وہ لوگ (مشرکین) یہ بات کہنے کا حق نہیں رکھتے تھے کہ آیا وہ سب گذشتہ انبیاء جن کے معجزات خود آپ نہایت آب و تاب کے ساتھ نقل کرتے ہیں‘ بشر نہیں تھے؟ یا پیغمبر نہ تھے؟ آیا ممکن ہے‘ کہ ایسا صریح تناقض قرآن مجید میں پایا جائے؟ آیا ممکن ہے‘ کہ مشرکین ایسے تناقض کی طرف متوجہ نہ ہوئے ہوں؟اگر روشن فکری کی یہ منطق صحیح ہو‘ تو پیغمبر کو بجائے اس کے کہ فرمائیں‘ سبحان اللہ میں ایک بشر سے زیادہ نہیں ہوں یہ فرمانا چاہئے تھا کہ سبحان اللہ میں خاتم الرسل ہوں‘ میں دوسرے پیغمبروں کے قاعدے سے مستثنیٰ ہوں‘ مجھ سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کرو‘ جن کا مطالبہ گذشتہ پیغمبروں سے ان کی امت والے کیا کرتے تھے‘ نہ یہ کہ یہ فرمائیں کہ میں بھی ایک رسول ہوں‘ تمام رسولوں کی طرح۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین جو چیز پیغمبر سے طلب کرتے تھے‘ وہ معجزہ یعنی حقیقت کو معلوم اور یقین حاصل کرنے کی غرض سے “آیت” و “بینہ”، “نشانی و دلیل”، حقیقت کی تلاش کرنے والوں کو جس کا حق حاصل تھا کہ اس کو پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے سے طلب کرنا نہیں تھا‘ بلکہ وہ ایسی چیز تھی‘ جو عام طور سے پیغمبروں کی شان کے خلاف تھی کہ ایسی درخواستوں کو قبول کریں‘ یہی وجہ ہے جس کی بناء پر پیغمبر نے فرمایا کہ سبحان اللہ میری حیثیت ایک بشر اور رسول سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔یعنی جو چیز تم مجھ سے چاہتے ہو‘ وہ ایسی چیز نہیں ہے‘ جسے ایک حقیقت کی جستجو کرنے والا رسولوں اور پیغمبروں سے طلب کرے اور رسولوں پر اس کا مثبت جواب دینا لازم ہو‘ یہ تو ایک دوسری چیز ہے‘ یہ ایک قرارداد اور معاملہ ہے‘ یہ صرف مجھے دیکھنا اور خدا کو نہ دیکھنا ہے اور (خدا سے غافل اور بے نیاز ہو کر) مستقلاً مجھ سے کچھ مانگنا ہے‘ یہ اظہار تکبر اور خودخواہی اور دوسروں کے مقابلے میں اپنے واسطے امتیاز ثابت کرنا ہے‘ یہ امور محال کے ایک سلسلہ کا تقاضا ہے اور مجھے اس امر کا اعتراف ہے کہ عوام کی خواہش اور ان کا میلان ہمیشہ معجزہ سازی کی طرف ہوتا ہے‘ نہ صرف پیغمبروں اور اماموں کے واسطے بلکہ ہر قبر‘ ہر پتھر اور ہر درخت کے واسطے‘ لیکن کیا یہ وجہ اس امر کا سبب ہو جائے گی‘ کہ ہم پیغمبر کے لئے (سوائے قرآن کے) ہر معجزہ و کرامت کو غیر ممکن سمجھ لیں؟ اس کے علاوہ معجزات اور کرامات کے درمیان فرق ہے‘ معجزہ یعنی الٰہی دلیل و نشانی جو خدا کی طرف سے مامور ہونے کو ثابت کرنے کے لئے وجود میں آتا ہے اور دوسرے الفاظ میں اس چیلنج کے ساتھ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس کی مثل لا سکتا ہو‘ تو لائے اس کے لئے کوئی الٰہی مقصد ضروری ہے‘ اس لئے وہ چند شرطوں کے ساتھ مخصوص ہے اور کرامت بھی ایک غیر معمولی امر ہے‘ جو صرف اثر و نتیجہ ہوتا ہے‘ اس روحانی قوت اور نفس کی پاکیزگی کا جو کسی انسان کامل یا نیم کامل میں پیدا ہو جاتی ہے اور یہ کسی الٰہی مقصد کے اثبات کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ ایسے امور (جنہیں کرامت کہا جاتا ہے اور کرامت کی تعریف میں آتے ہیں) بہت زیادہ وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں‘ یہاں تک کہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک معمول کے مطابق فعل ہے اور کسی شرط سے مشروط نہیں ہے۔ معجزہ خدا کی زبان ہے‘ جو کسی شخص کی تائید کرتی ہے‘ لیکن کرامت ایسی زبان نہیں ہے۔
معجزہ کی قدر و قیمت اور افادیتمعجزے کی قدر و قیمت اور افادیت کتنی ہے؟ علمائے منطق و فلسفے نے ان مطالب کو جو کسی استدلال کے موقع پر کام میں لائے جاتے ہیں‘ ان کی قدر و قیمت کے لحاظ سے چند قسموں میں تقسیم کیا ہے‘ ان عناصر میں سے بعض برہانی اور استدلالی اہمیت رکھتے ہیں اور علمی و عقلی تردید کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتے‘ جیسے وہ عناصر جنہیں ایک ریاضی دان اپنے استدلال کے لئے استعمال کرتا ہے اور بعض کا تعلق صرف قانع کر دینے کی حد تک ہوتا ہے‘ جیسے وہ عناصر اور مواد جنہیں مقررین و خطبا اپنی تقاریر میں استعمال کرتے ہیں اور جن کی اگر موشگافی کی جائے تو بسا اوقات وہ استدلال صحیح نہیں ہوتا لیکن اگر ان میں دقت نہ کی جائے تو عملاً ایک حرکت و بیداری پیدا کرتے ہیں‘ بعض اجزاء و عناصر میں صرف جذباتی کیفیت ہوتی ہے‘ اور وہ صرف جذبات کو ابھارنے کا کام دیتے ہیں اور بعض عناصر دوسری کیفیتوں اور اہمیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔
معجزوں کی اہمیت و افادیت قرآن کی نظر میںقرآن مجید جس طرح آثار خلقت کو “خدا کی نشانیاں” اور خدا کے وجود کی ناقابل تردید قطعی دلیل سمجھتا ہے‘ اسی طرح انبیاء کے معجزات کو بھی کھلی ہوئی نشانیوں کے عنوان سے بیان کرتا ہے اور انہیں ان کے پیش کرنے والوں (انبیاء ) کے دعوؤں کی سچائی پر دلیل قاطع اور عقلی و منطقی جہت شمار کرتا ہے۔قرآن نے معجزے کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے اور پیغمبروں سے ان لوگوں کی طرف سے معجزہ طلب کرنے کو جو بغیر دلیل و شہادت کے (دعوائے نبوت) کی تصدیق کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے‘ معقول و منطقی قرار دیا ہے اور پیغمبروں کی طرف سے نشانی اور دلیل طلب کرنے کی حد میں (یعنی ایسی معقول اور منطقی حد میں جو ان کی سچائی کی دلیل ہو‘ نہ کہ ان لوگوں کی خواہشات کی حد میں کہ جو پیغمبروں سے نفع کمانے یا خود کو مصروف رکھنے یا تماشا دیکھنے کی غرض سے معجزہ طلب کرتے تھے)‘ مثبت اور عملی جواب کو بڑے خوبصورت انداز میں نقل کیا ہے اور بہت سی آیتوں کو اس کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ قرآن مجید نے اس امر کی طرف معمولی سا اشارہ بھی نہیں کیا ہے کہ معجزہ صرف ان سادہ لوح‘ معمولی اور عامیانہ ذہنوں کے لئے (جو بشر کے دور طفلی سے مناسبت رکھتے ہیں) قانع اور مطمئن کرنے والی دلیل ہے بلکہ معجزے کو برہان کا نام دیا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں تفسیرالمیزان‘ سورہ بقرہ کی آیت ۲۳ کے ذیل میں اور کتاب وحی نبوت از آقائے تقی شریعتی‘ ص ۲۱۴)
پیغمبر کی ہدایت کا رخمعجزہ خاتمیت اس لحاظ سے کہ کتاب ہے اور قول و بیان و علم و زبان کی صنف سے ہے‘ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ اس کتاب اعجاز کے گوشے تدریجاً اور آہستہ آہستہ زیادہ روشن ہوتے جاتے ہیں‘ آج قرآن مجید کے بہت سے تعجب خیز امور ہمارے زمانے کے لوگوں پر ظاہر اور واضح ہوئے ہیں‘ جو اس سے پہلے ظاہر نہیں تھے اور یہ بات کل تک ممکن بھی نہیں تھی‘ قرآن مجید کو دانش ور طبقہ عام لوگوں سے بہتر سمجھتا ہے۔ اسی لحاظ سے حضرت رسول خدا کا معجزہ کتاب کی نوع سے قرار دیا گیا ہے تاکہ یہ دور خاتمیت سے مناسب رکھتا ہو‘ لیکن___کیا یہ معجزہ اس لحاظ سے کتاب کی نوع سے قرار دیا ہے کہ ضمناً انسان کو غیب و شہود کی طرف‘ نامعقول سے عقلی و منطقی امور کی طرف اور ماورائے طبیعت سے طبیعت کی طرف رہنمائی کرے؟ کیا حضرت محمد ۱کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کی تلاش و جستجو کا رخ غیر عادی امور اور کرامات و خوارق عادات کی طرف سے عقلی و منطقی‘ علمی و طبیعی‘ اجتماعی و اخلاقی امور کی طرف موڑ دیں اور عجیب و غریب امور کے سلسلے میں ان کی دلچسپی کو واقعات و حقائق کی طرف موڑ دیں۔ظاہراً معلوم نہیں ہوتا کہ یہ نظریہ صحیح ہو اور اگر یہ نظریہ صحیح ہو‘ تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ تمام انبیاء غیب کی طرف دعوت دیتے تھے اور محمد ۱محسوس اور ظاہری چیزوں کی طرف دعوت دیتے تھے لیکن پھر قرآن کریم کی سینکڑوں آیتیں انہیں “عجیب و غریب امور” کے ساتھ کیوں مخضوص کی گئی ہیں‘ بے شک قرآن کا ایک بنیادی امتیاز آیات الٰہی ہونے کے اعتبار سے عالم شہادت و طبیعت کے مطالعے کی دعوت دینا بھی ہے‘ لیکن طبیعت کے مطالعے کی دعوت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ذہنوں کو ہر غیر طبیعی امر کی طرف سے موڑ دیا جائے‘ بلکہ اس کے برعکس آیات اور نشانیوں کی حیثیت سے طبیعت کے مطالعے کی دعوت دینا طبیعت سے ماورائے طبیعت کی طرف عبور کرنے کے معنی میں ہے۔ قرآن کی نظر میں غیب کا راستہ عالم شہود سے‘ ماورائے طبیعت کار استہ طبیعت سے اور معقولات کا راستہ محسوسات سے ہو کر گذرتا ہے۔حضرت محمد کے کام کی اہمیت اس میں ہے کہ جس طرح آپ طبیعت‘ تاریخ اور معاشرے میں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں اور ان لوگوں کو جو غیر طبیعی امور کے سوا کسی بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے‘ عقل و منطق اور علم کے ذریعے دین کا تابع و مطیع بناتے ہیں۔ اسی طرح آپ کوشش کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی قوت فکر کو بھی جو عقل و منطق کا دم بھرتے ہیں اور عقلی و طبیعی و محسوس چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو نہیں مانتے ایک برتر و بلند تر منطق سے آشنا کریں۔ اس دنیا و مافیا کے متعلق جو نظریہ عمومی طور پر مذہب اور بالخصوص اسلام پیش کرتا ہے‘ اس کو ان نظریات کے مقابلے میں جس کو انسانی علوم اور خالص فلسفے پیش کرتے ہیں‘ جو بنیادی امتیاز حاصل ہے‘ وہ یہ ہے کہ بقول ولیم جیمز مذہبی نظریات میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں‘ جو مادی عناصر کے علاوہ ہیں اور ان میں ایسے قوانین بھی موجود ہیں‘ جو انسانی معاشرے کے جانے پہچانے قوانین سے مختلف ہیں‘ قرآن نہیں چاہتا کہ طبیعت و محسوسات کی طرف توجہ کو ماورائے طبیعت اور غیر محسوس امور کا جانشین بنا دے۔ قرآن کی اہمیت اسی میں ہے کہ کائناتی مطالعے کی طرف خاص توجہ کے باوجود (جسے قرآن میں “شہادت” سے تعبیر کیا گیا ہے) غیب پر ایمان لانے کو اپنی دعوت میں سرفہرست قرار دیا ہے۔الم‘ ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب( سورہ بقرہ‘ آیت ۱۔۳)یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآن ان امور سے لوگوں کو منحرف کرنے کی فکر میں ہو‘ جب کہ وہ خود بھی “عجیب و غریب امور” سے ہے یعنی معجزہ ہے‘ اس کے علاوہ اس نے ایک سو سے زیادہ آیات “انہی عجیب و غریب امور” سے متعلق پیش کی ہیں‘ میری سمجھ میں اس جملے کے معنی نہیں آتے کہ کتاب خدا وہ واحد و تنہا معجزہ ہے‘ جس کا اعتقاد محض امور غیبی کے معتقدین پر منحصر نہیں ہے‘ کیا اور کیسا اعتقاد؟ کیا یہ اعتقاد کہ یہ ایک کتاب ہے؟ اور بہترین مطالب پر مشتمل ہے؟ یا یہ عقیدہ کہ یہ معجزہ ہے؟ کسی چیز کے الٰہی دلیل ہونے کے معنی میں معجزہ ہونے پر ایمان غیب پر ایمان کے مساوی ہے‘ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص بیک وقت غیب پر ایمان بھی رکھتا ہو اور اس سے عاری بھی ہو؟یہ بھی کہا گیا ہے کہ “محمد کا معجزہ غیر بشری امور کی صنف سے نہیں ہے‘ اگرچہ ایک غیر بشری فعل ہے۔” اس جملے کے معنی بھی میرے لئے مبہم ہی ہیں اور اس کی تفسیر دو طرح سے کی جا سکتی ہے‘ ایک یہ کہ محمد کا معجزہ (قرآن) اس بناء پر کہ وحی ہے نہ کہ خود آنحضرت کا قول پس ایک غیر بشری عمل ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاں وہ قول بشری نہیں ہے بلکہ قول خدا ہے‘ وہاں امور بشری سے بھی ہے اور ایک ایسا عادی کام ہے‘ جو بشری کاموں کے مترادف ہے‘ میرے خیال میں یہ بعید معلوم ہوتا ہے کہ جملہ کا مطلب یہ ہو (جو بیان کیا گیا) کیوں کہ اس صورت میں قرآن کو دوسری آسمانی کتابوں کے مقابلے میں کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے‘ اس وجہ سے کہ وہ تمام کتابیں مبدائے وحی سے صادر ہوئی ہیں‘ لہٰذا غیر بشری فعل ہے‘ لیکن اس لحاظ سے کہ کوئی غیر معمولی پہلو نہیں رکھتیں غیر بشری امور سے نہیں ہیں‘ جیسا کہ ہمارے پاس کچھ ایسے کلمات ہیں‘ جو احادیث قدسیہ کے نام سے مشہور ہیں اور عین وہ بھی کلام خدا ہیں‘ جو وحی و الہام کئے گئے ہیں‘ لیکن ان کا تعلق غیر بشری امور سے نہیں ہے۔قرآن مجید کو تمام آسمانی کتابوں اور احادیث قدسیہ پر جو امتیاز حاصل ہے‘ وہ اسی وجہ سے ہے کہ یہ ایک غیر بشری امر بھی ہے‘ یعنی وحی ہے اور غیر بشری امور سے بھی ہے‘ یعنی اعجاز اور قدرت مافوق البشر کی حد میں ہے‘ اسی لئے قرآن کہتا ہے:قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یا تو ابمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا( سورہ اسراء‘ آیت ۸۸)”اے رسول کہہ دو اگر تمام جن و انس اس بات کے لئے جمع ہو جائیں کہ اس قرآن کی مثل بنا لائیں‘ تو وہ اس کی مثل نہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ بھی ہوں۔”اس جملے کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت محمد کا معجزہ‘ سابقہ تمام انبیاء کے معجزات جیسے عصا کو اژدھا بنا دینا اور مردوں کو زندہ کر دینا کہ جن کا تعلق بشری فعل کی نوعیت سے نہیں ہے‘ کے برخلاف بشری کاموں کی نوع سے ہے کیوں کہ اس کا تعلق کلام و بیان و علم اور کلچر سے ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایک غیر بشری عمل اور فعل ہے‘ یعنی بشری طاقت سے باہر ہے‘ اس کا سرچشمہ ایک غیبی اور ماورائے طبیعی طاقت ہے‘ اگر مقصود یہ ہو‘ اور یہی ہونا بھی چاہئے تو یہ خود غیب کا‘ ماورائے طبیعت کا‘ خارق العادت کا اور بالآخر ان تمام چیزوں کا اقرار و اعتراف ہے‘ جنہیں عجیب و غریب امور کہا جاتا ہے‘ پھر کیوں شروع سے ہم معجزے اور خارق عادت امور کو خرافات و نامعقول امور کی مانند سمجھیں۔ کیا ہمیں شروع سے ہی معجزے اور غیر معمولی فعل کے حساب کو خرافات و اوہام کے حساب سے جدا رکھنا نہیں چاہئے تھا تاکہ ناواقف اور کم علم افراد ان تعبیرات سے کچھ اور نہ سمجھیں‘ جو ہمارا مقصد بھی نہیں ہے اور بنیادی طور پر “پیغمبر اسلام کی کتاب معجزہ ہے” جیسی مشہور تعبیر کو بدل کر ہم یہ کیوں کہیں کہ “پیغمبر کا معجزہ کتاب ہے” تاکہ نامناسب تعبیر و تفسیر کرنے کی گنجائش پیدا ہو۔اسی محترم دانش ور کا ایک مقالہ تہران یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات کے رسالہ “فلق” میں قرآن اور کمپیوٹر کے زیرعنوان شائع ہوا تھا‘ جس کو مسئلہ اعجاز کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کی تصحیح اور ان کے غور و فکر کی تدریجی ترقی و ارتقاء کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔اس مقالے میں قرآن مجید کے الفاظ کو کمپیوٹر کی علامتوں سے بدلنے اور قرآن کی حقیقتوں کے کشف و اظہار کے لئے انسانی ترقی و تمدن کے اس عظیم مظہر (کمپیوٹر) سے استفادہ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے‘ جو درحقیقت بہت بہرمحل پیشکش ہے‘ پھر اس مقالے میں ان بعض مصری دانش وروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ جنہوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے‘ اور اس کے ساتھ بعض ایرانی مسلمان انجینئروں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے‘ جو اس سلسلے میں کام کرنے کا ارادہ کر سکتے ہیں یا کر چکے ہیں‘ اس کے بعد “قرآن کا اعجاز کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے” کے عنوان سے اسی مقالے میں ایک دلچسپ بحث کی ہے اور اسی کے ضمن میں ایک نہایت اہم اور قیمتی کتاب “سیرتحویل قرآن” کی طرف اشارہ کیا ہے‘ جو حال ہی میں شائع ہو کر منظرعام پر آئی ہے اور اس کتاب کے بلند پایہ مولف کی گراں قدر کشف و تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ثابت کیا ہے کہ آیتوں کے چھوٹے بڑے ہونے اور رسول اکرم پر وحی شدہ کلمات میں روز بروز اضافے نے ۲۳ سال کی مدت میں ایک دقیق منظم اور خارق عادت منحنی قائم کی ہے۔پھر خود اس طرح اضافہ کرتے ہیں:”دنیا میں کون مقرر اور سخن ور ایسا ہے‘ جس کی عبادت کی لمبائی سے ہر جملہ کی ادائیگی کا سال معین کیا جا سکتا ہے؟ بالخصوص جب کہ یہ عبارت کسی ایسی کتاب کا متن نہ ہو‘ جو ایک ادیب یا علمی شخصیت کا شاہکار ہو‘ اور جو اس کی طرف سے ایک معین وقت میں رشتہ تحریر میں لایا گیا ہو بلکہ یہ وہ کلام ہے جو ایک انسان کی پرتلاطم زندگی کے ۲۳ برسوں میں اس کی زبان پر جاری ہوا‘ خاص کر جب ایسی کتاب بھی نہ ہو‘ جو کسی خاص موضوع یا معین شدہ عنوان کے تحت تالیف کی گئی ہو بلکہ جس میں طرح طرح کے ایسے مسائل ہوں‘ جو معاشرے کی ضرورتوں کے پیش نظر اور مختلف سوالات کے جوابات کے طور پر عنوان کئے گئے ہوں‘ ایسے حوادث و واقعات یا مسائل جو ایک طویل جدوجہد کے دوران پیش آتے ہیں اور ایک رہبر و رہنما کے ذریعے سے بیان ہوتے ہیں اور پھر انہیں منظم شکل میں جمع کر لیا جاتا ہے۔(رسالہ فلق‘ کتاب اول‘ ص ۲۵)
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.