شب عاشور امام حسین (ع) کا آپ کو مشورہ دینا

105

قال الامام السجاد (ع):أَبِي يَقُولُ :يَا دَهْرُ أُفٍّ لَكَ مِنْ خَلِيلٍكَمْ لَكَ بِالْإِشْرَاقِ وَ الْأَصِيلِ‏
مِنْ صَاحِبٍ وَ طَالِبٍ قَتِيلٍوَ الدَّهْرُ لَا يَقْنَعُ بِالْبَدِيلِ‏
وَ إِنَّمَا الْأَمْرُ إِلَى الْجَلِيلِوَ كُلُّ حَيٍّ سَالِكٌ سَبِيلِي‏
فَأَعَادَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثاً حَتَّى فَهِمْتُهَا وَ عَلِمْتُ مَا أَرَادَ فَخَنَقَتْنِيَ الْعَبْرَةُ فَرَدَدْتُهَا وَ لَزِمْتُ السُّكُوتَ وَ عَلِمْتُ أَنَّ الْبَلَاءَ قَدْ نَزَلَ وَ أَمَّا عَمَّتِي فَلَمَّا سَمِعَتْ مَا سَمِعْتُ وَ هِيَ امْرَأَةٌ وَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ الرِّقَّةُ وَ الْجَزَعُ فَلَمْ تَمْلِكْ نَفْسَهَا أَنْ وَثَبَتْ تَجُرُّ ثَوْبَهَا وَ هِيَ حَاسِرَةٌ حَتَّى انْتَهَتْ إِلَيْهِ وَ قَالَتْ وَا ثُكْلَاهْ لَيْتَ الْمَوْتَ أَعْدَمَنِيَ الْحَيَاةَ الْيَوْمَ مَاتَتْ أُمِّي فَاطِمَةُ وَ أَبِي عَلِيٌّ وَ أَخِيَ الْحَسَنُ يَا خَلِيفَةَ الْمَاضِي وَ ثِمَالَ الْبَاقِي فَنَظَرَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَهْ لَا يَذْهَبَنَّ حِلْمَكِ الشَّيْطَانُ وَ تَرَقْرَقَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ وَ قَالَ لَوْ تُرِكَ الْقَطَا لَيْلًا لَنَامَ فَقَالَتْ يَا وَيْلَتَاهْ أَ فَتَغْتَصِبُ نَفْسَكَ اغْتِصَاباً فَذَلِكَ أَقْرَحُ لِقَلْبِي وَ أَشَدُّ عَلَى نَفْسِي ثُمَّ لَطَمَتْ وَجْهَهَا وَ هَوَتْ إِلَى جَيْبِهَا وَ شَقَّتْهُ وَ خَرَّتْ مَغْشِيَّةً عَلَيْهَا فَقَامَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع فَصَبَّ عَلَى وَجْهِهَا الْمَاءَ وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَاهْ اتَّقِي اللَّهَ وَ تَعَزَّيْ بِعَزَاءِ اللَّهِ وَ اعْلَمِي أَنَّ أَهْلَ الْأَرْضِ يَمُوتُونَ وَ أَهْلَ السَّمَاءِ لَا يَبْقَوْنَ وَ أَنَ‏ كُلَّ شَيْ‏ءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَ يَبْعَثُ الْخَلْقَ وَ يَعُودُونَ وَ هُوَ فَرْدٌ وَحْدَهُ وَ أَبِي خَيْرٌ مِنِّي وَ أُمِّي خَيْرٌ مِنِّي وَ أَخِي خَيْرٌ مِنِّي وَ لِي وَ لِكُلِّ مُسْلِمٍ بِرَسُولِ اللَّهِ أُسْوَة-1-۔امام سجاد (ع) فرماتے ہیں کہ شب عاشور میری پھوپھی میری پرستاری کر رہی تھی میرے بابا اپنے خیمے میں یہ اشعار پڑھ رہے تھے : اے زمانہ تم پر تف ہو کہ تو کب تک اپنی آرزو اور تمنا رکھنے والوں کو خون میں آغشتہ کرتا رہے گا؟ و۔۔۔یہ اشعار جب آپ نے سنی تو آپ آپے سے باہر ہوگئی اور فریاد کرنے لگی۔ اور بابا کے پاس تشریف لے گئی اور فرمایا: اے کاش مجھے موت آتی، آج کادن اس دن کی طرح ہے جس دن میری ماں ، میرے بابا ، اور بھائی حسنمجتبی (ع)اس دنیا سے رحلت فرماگئے ، اب تو آپ ہی ان بزرگوں کے وارث اور لواحقین کے پناہ گاہ ہو۔امام حسین (ع) نے زینب کبری(س) کی طرف دیکھ کر فرمایا : میری بہن !ایسا نہ ہو کہ شیطان تیری حلم اور بردباری تجھ سے چھین لے۔زینب کبری (س)نے کہا : بھیا! آپ کی اس بات نے میرے دل کو مزید جلادیا کہ آپ مجبور ہیں اور ناچار ہوکر شہید کئے جارہے ہیں!!اس وقت گریبان چاک کرکے اپنا سر پیٹنا شروع کیا ۔ اور بیہوش ہوگئیں ۔میرے بابا نے چہرے پر پانی چھڑکایا ؛جب ہوش آیا تو فرمایا: میری بہن ! خدا کا خوف کرو ، صبر اور حوصلے سے کام لو اور جان لو کہ سب اہل زمین و آسمان فنا ہونے والے ہیں سوائے خداتعالی کے۔ میرے بابا مجھ سے بہتر تھے اور ماں مجھ سے بہتر تھیں اور میرے بھائی اور میرے جد امجد (ص) مجھ سے افضل تھے ، جب وہ لوگ نہ رہیں تو میں کیسے رہ سکوں گا؟!امام مظلوم (ع)نے یوں اپنی بہن کو نصیحت کی کہ ایسا نہ ہو تفکر اور اندیشہ آپ کی احساسات کے تحت شعاع چلی جائے۔اور جناب زینب (س) نے بھی کیا خوب اس نصیحت پر عمل کیا ۔ جہاں تدبر اور تعقل سے کام لینا تھا وہاں برد وباری اور شکیبائی سے کام لیا اور جہاں احساسات کا مظاہرہ کرنا تھا وہاں بخوبی احساسات و عواطف کا مظاہرہ کیا ۔اس طرح امام (ع) مختلف مقامات پر اپنی بہن کو صبر واستقامت کی تلقین کرتے رہے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ زنیب کبری (س) نے اپنی پیغام رسانی میں کوئی کمی آنے نہ دیا ۔ جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے :مہکا گئی جو اپنے چمن کی کلی کلیجس نے حسینیت کو بچایا گلی گلیکانٹوں بھرے سفر میں جہاں تک چلی چلیلیکن سکھاگئی ہے جہاں کو علی علیاسلا م بچ گیا یہ اسی کا کمال تھاورنہ خدا کے دین کا تعارف محال تھا -2-
———1 ۔ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۔۳2 ۔ محسن نقوی؛ موج ادراک،ص ۱۳۲۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.