ناامیدی اور مایوسی کفار سے مخصوص ھے

312

لہٰذا کسی بھی شخص کے لئے یہ مناسب نھیں ھے کہ خدائے رحمن جس کی قدرت، بصیرت، کرم، لطف، فیض اور اس کی رحمت بے انتھا ھے؛ اس سے مایوس اور نا امید ھو چونکہ خداوندعالم اپنے بندوں سے محبت کرتا ھے خصوصاً جب کوئی بندہ اس سے راز ونیاز اور دعا میں مشغول ھوتا ھے، اورمایوسی او رناامیدی قرآن مجید کے فرمان کے مطابق کفار سے مخصوص ھے:” وَلاَتَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّہُ لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ۔”[21]”اور رحمت خدا سے مایوس نہ ھونااس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نھیں ھوتا”۔قرآن مجید نے واضح طور پر اس بات پر زور دیا ھے کہ رحمت خدا سے ناامید اور مایوس نہ ھوں:”۔۔۔لاٰ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ ۔۔۔” [22]نیز اس سلسلہ میں حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:”الفَاجِرُ الرَّاجِی لِرَحْمَةِ اللهِ تَعالَی اٴقْرْبُ مِنْھا مِنَ العَابِدِ الْمُقَنَّطِ”[23]”رحمت الٰھی سے مایوس عبادت گزار کے مقابلہ میں رحمت الٰھی کا امیدوار بدکار ، رحمت الٰھی سے زیادہ نزدیک تر ھے”۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:”الیَاٴسُ مِن رَوحِ اللهِ اٴشدُّ بَرداً مِنَ الزَّمہَریرِ”۔ [24]”رحمت خدا سے ناامیدی کی ٹھنڈک ، تیز سردی کی ٹھنڈک سے بھی زیادہ ھے”۔معارف اسلامی اور روایات معصومین(ع) میں رحمت خدا سے مایوسی اور ناامیدی کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ھے،اور رحمت خدا سے مایوسی کے لئے عذاب کا حتمی وعدہ دیا گیا ھے۔اگر دعا کرنے والے شخص کی دعا جلدی قبول نہ ھو تو اس کو مایوس نھیں ھونا چاہئے کیونکہ دعا کا قبول ھونا اس کے لئے مفید نہ ھوجیسا کہ قرآن کریم اور روایات معصومین(ع)سے معلوم ھوتا ھے، شاید دعا قبول ھونے کا موقع اور محل نہ ھو، اور شاید اس کی ایک وجہ یہ ھوکہ خدا چاہتا ھو کہ دعا کرنے والا اور مناجات کرنے والا اپنی دعا اور مناجات میں لگا رھے اس وجہ سے اس کی دعا قبول نہ ھوئی ھو، یا ھوسکتا ھے کہ اس کی وجہ یہ ھو کہ دعا کرنے والے کو ا اس دعا کے بدلے میں آخرت میں ایک عظیم مرتبہ ملنے والا ھو، اور قیامت کے روز اس کی دعا قبول ھونے والی ھو، بھر حال رحمت خدا سے مایوسی کسی بھی صورت میں عقلی، شرعی، اخلاقی اور انسانی فعل نھیں کھا جاسکتا، اور ایک مومن کبھی بھی رحمت الٰھی سے مایوس نھیں ھوتا۔چنانچہ دعاسے مربوط مسائل کے سلسلہ میں اسلامی کتب میں بہت اھم روایات بیان ھوئی ھیں، لہٰذا ھم یھاں پر اپنے موضوع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کا تذکرہ مناسب سمجھتے ھےں:۱۔ “عَنْ اٴبِی عَبْدِ اللهِ عَلَیْہِ السَّلاٰمُ قَالَ : إِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو فَیَقُوْلُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمَلَکَیْنِ قَدِاُسْتَجَبتُ لَہُ، َولٰکِنِ اْْحْبِسُوہُ بِحاجَتِِہِ، فَاِنِّی اٴُحِبُّ اٴنْ اٴسمَعَ صَوْتَہُ واِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو فَیَقُوْلُ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : عَجِّلُوْا لَہُ حَاجَتَہُ، فَاِنِّی اُبْغِضُ صَوْتَہُ!![25] “”حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بے شک جب بند ہ اپنے خدا کی بارگاہ میںدعا کرتا ھے، تو خداوندعالم اپنے دو فرشتوں سے فرماتا ھے: میں نے اس کی دعا قبول کرلی ھے، لیکن تم اس کی حاجت براری کوفی الحال روک لو، تاکہ وہ دعا کرتا رھے: کیونکہ میں اس کے گڑگڑانے کی آواز (بار بار)سننا چاہتا ھوں۔ اور کبھی بندہ کے دعا کرتے ھی خدااپنے فرشتوں سے فرماتا ھے: اس کی حاجت کوبہت جلد پورا کردو کیونکہ مجھے اس کی آواز اچھی نھیں لگ رھی ھے”۔۲۔”عن منصور الصیقل قال: قُلتُ لِاٴبِی عَبدِاللهِعلیہ السلام:رُبَّما دَعا الرَّجُلُ بِالدّعاءِ فَاستُجیبُ لَہ ثُمّ اٴُخِّرَ ذَلکَ اِلی حینٍ قالَ فقالَ :نَعَمْ۔قُلتُ:وَلِمَ ذَاکَلِیَزدَادَ مِنَ الدُّعاءِ؟قالَ نَعَمْ”۔[26]”منصور صیقل کہتے ھیں کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت مبارک میں عرض کیا: کبھی کوئی شخص دعا کرتا ھے اور(دعا کرتے ھی) اس کی دعا قبول ھوجاتی ھے ، اور ایک زمانہ تک اس کی حاجت پوری نھیں ھوتی ھے۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاںایسا ھی ھے، تو میں نے عرض کیا: ایسا کیوںتاکہ وہ اس سے بار بار مانگے ؟تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاں (ایسا ھی ھے)”۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.