بارگاہ خداميں احساس نيازمندی کی علامتيں
اسلامی نصوص ميں دعاؤں ميں ان تمام حالتوں اور نشانيوں پر زور دیا گيا ہے،اور دعا ء کی قبوليت ميں ان باتوں پر زور دیا گيا ہے۔حقيقت ميں یہ علامتيں دعا ميں دوسرے اور تيسرے سبب پر توجہ دینے کو کشف کرتی ہيں۔وہ دونوں سبب ضرورتوں کی اطلاع ہونااور سوال کرنا ہے اور جتنا ہی انسان دعاميں خضوع وخشوع کرے گا اتنی ہی اسکی طلب وچاہت ميں شدّت ہوگی اور انسان اپنی حاجتوں کو الله کی بارگاہ ميں پيش کرے گا۔ان حالتوںميں دعا قبول ہونے کے یہی دواسباب ہيں ان حالات اور ان کی طرف رغبت کو قرآن کریم ميں بيان کيا گيا ہے جن ميں سے کچه اسباب کو ہم ذیل ميں بيان کر رہے ہيں:( خداوند عالم کا ارشاد ہے: ١:<تَدعُْونَْہُ تَضَرُّعاً وَخُفيَْةً > ( ١”جسے تم گڑگڑاکر اور خفيہ طریقہ سے آواز دیتے ہو “( ٢: < وَادعُْوہُْ خَوفْاًوَطَمَعاًاِنَّ رَحمَْةَ اللهِ قَرِیبٌْمِنَ المُْحسِْنِينَْ >( ٢”اور خدا سے ڈرتے ڈرتے اور اميد وار بن کر دعا کرو کہ اس کی رحمت صا حبان حسن عمل سے قریب تر ہے “تضّر ع اورخوف یہ دو نوں حا لتيں انسان کو الله کی بار گا ہ ميں اپنی ضرور توں کو پيش کر نے کے بارے ميں زور دیتی ہيں ۔اور طمع وہ حا لت ہے جو انسان کو اس چيز کی ر غبت دلاتی ہے کہ جو کچه الله کے پاس ہے بندہ اس کو حاصل کرے ۔خفيہ(رازدارانہ )طور پر دعا کرنا انسان کو الله کی بارگاہ ميں حا ضری دینے پر آمادہ کرتا ہے٣۔وَذَاالنُّونِْ اِذذَْهَبَ مُغَاضِباًفَظَنَّ اَن لَّن نَقدِْرَعَلَيہِْ فَنَاد یٰفٰ ی الظُّلُمَاتِ اَن لاَاِ ہٰلَ اِلاَّاَنتَْ سُبحَْانَکَ اِنِّی کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِييْنَ فَاستَْجَبنَْالَہُ وَنَجَّينَْاہُ مِنَ الغَْمِّ وَکَذَلِکَ نُنجِْی ( المُْوٴمِْنِينَْ >( ٣۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)سو رہٴ انعام آیت ۶٣ ۔ )٢)سورئہ اعراف آیت/ ۵۶ ۔ )٣)سور ہٴ انبياء آیت ٨٧ ۔ ٨٨ ۔ )”اور یونس کو یاد کرو جب وہ غصہ ميں آکر چلے اور یہ خيال کيا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے اور پهر تا ریکيوں ميں جا کر آواز دی کہ پرور دگار تيرے علا وہ کو ئی خدا نہيں ہے تو پاک و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تها ۔تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کرليا اور انهيں غم سے نجات دلا دی کہ ہم اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلا تے رہتے ہيں “اس آیت ميں بندہ کی طرف سے خداوند عالم کی بارگاہ ميں ظلم کا اعتراف اور اقرار ہے 🙁 <سُبحَْانَکَ اِنِّي کُنتُْ مِنَ الظَّالِمِييْنَ ۔>( ١”پرور دگار تيرے علا وہ کو ئی خدا نہيں ہے تو پاک و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں سے تها”ظلم کا اقرار کر نا ظلم سے با خبر ہو نا ہے اور اس سے گناہگارانسان اپنے نفس ميں استغفار کا بہت زیادہ احساس کر تا ہے اور جتنا ہی انسان اپنے ظلم اور گناہ سے با خبر ہو گا اتنا ہی وہ الله سے استغفار کر نے کے لئے زیادہ مضطر و بے چين ہو گا ۔( ۴: <وَیَدعُْونَْنَارَغَباًوَرَهبْاًوَکَانُواْلَناَخَاشِعِينَْ >( ٢”اور رغبت اور خوف کے عالم ميں ہم کو پکارنے والے تهے ” رغبت ، خوف اور خشو ع وہ نفسانی حالات ہيں جو اپنی حا جتوں سے با خبر انسان کو اپنی حا جتوں کو الله کی بار گاہ ميں پيش کر نے پر زور دیتی ہيں ۔ انسان الله کے عذاب سے خوف کهاتاہے اور الله کے رزق اور ثواب سے اس کو رغبت ہو تی ہے ۔( ۵:<اَمَن یُّجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاہُ وَ یَکشِْفُ السُّوءَْ> ( ٣۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)سورئہ انبياء آیت ٨٧ ۔ )٢)سورہٴ انبياء آیت ٩٠ ۔ )٣)سورئہ نمل آیت ۶٢ ۔ )اضطرار وہ نفسا نی حالت ہے جو انسان کے اپنی حا جتيں الله کی بارگاہ ميں پيش کرنے پر زور دیتی ہے اور انسان کا اپنی ضرورتوں سے با خبر ہو نا الله کے علاوہ دوسرے تمام وسيلوں سے دور کرتا ہے (یعنی صرف الله ہی نجات دے سکتا ہے )۔ ( ۶۔:<یَدعُْونَْ رَبَّهُم خَوفْاًوَطَمَعاً>( ١”اور وہ اپنے پروردگار کو خوف اور طمع کی بنياد پر پکارتے رہتے ہيں ” اپنی حا جتوں سے با خبر انسان جتنا زیادہ الله کی بارگاہ ميں اپنی مجبوری و لا چا ری کا اظہار کرے گا خدا وند عالم اسی سوال اور حاجت کے مطابق اس کو عطا کر ے گا خداوند عالم کا ارشاد ہے 🙁 <وَادعُْوہُْ خَوفْاًوَطَمَعاًاِنّ رَحمَْة اللہّٰ قَرِیبٌْ مِنَ المُْحسِْنِينَْ>( ٢ “اور خدا سے ڈرتے ڈرتے اور اميد وار بن کر دعا کرو کہ اس کی رحمت صا حبان حسن عمل سے قریب تر ہے “الله کی رحمت بندے سے اتنی ہی قریب ہو گی جتنا وہ اپنے نفس ميں الله کے عذاب سے خوف کها ئے گا اور الله کے احسان کی طمع کرے گا ۔ انسان کے نفس ميں جتنا زیادہ خوف ہو گا اتنی ہی اس کے نفس ميں تڑپ پيدا ہو گی، الله کی بار گاہ ميں اس کی دعا استجابت سے زیادہ قریب ہو گی اور الله کے رزق و ثواب کے لئے جتنی طمع انسان کے اندر ہوگی تو اتنی ہی زیادہ الله کی بارگاہ ميں اس کی دعا قبول ہو نے کے نزدیک ہو گی ۔ ٣۔دعا اور استجابت دعا کے درميان رابطہ اور یہ بالکل واضح وروشن قانون ہے جس کو انسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)سورئہ سجدہ آیت / ١۶ ۔ )٢)سورئہ اعراف آیت ۵۵ ۔ )بذات خود فطری طورپر سمجه سکتا ہے اور آیہ کریمہ اسی چيز کو بيان کرتی ہے: ( <اُدْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ>( ١بيشک ہر دعا قبول ہوتی ہے اور خداوند عالم اس فرمان کا یہی مطلب ہے :<اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ>اور یہ فطری و واضح قانون ہے جس کو انسان کی فطرت تسليم کرتی ہے اور یہ عام قانون ہے ليکن اگر کوئی دعا قبول ہونے کے درميان رکاوٹ پيدا ہوجائے تو دوسری بات ہے۔دوطرح کی چيزیں دعا قبول ہونے ميں رکاوٹ ڈالتی ہيں: ١۔مسئول عنہ جس سے سوال کيا جائے اس کی طرف سے کچه رکاوڻيں پيدا ہوجاتی ہيں۔٢۔سائل(سوال کرنے والے)کی طرف سے کچه رکاوڻيں پيدا ہوجاتی ہيں۔ مسئول (جس سے سوال کيا جائے )کی طرف سے آڑے آنے والی رکاوڻيں جيسے دعا قبول کرنے سے عاجز ہوجائے ،دعا قبول کرنے ميں بخل کرنے لگے ۔کبهی بذات خودسائل کی طرف سے رکاوڻيں پيدا ہوجاتی ہيں جيسے دعا قبول کرنا بندہ کے مفادميں نہ ہو اور بندہ اس سے جاہل ہو اور اللهاسکو جانتا ہے۔ پہلی قسم کی رکاوڻيں الله کی سلطنت کے شایان شان نہيں ہيں چونکہ خداوند عالم بادشاہ مطلق ہے وہ کسی چيز سے عاجز نہيں ہے اور نہ ہی کوئی چيز اس سے فوت ہوتی ہے،نہ ہی کوئی چيز اسکی سلطنت و قدرت سے باہر ہوسکتی ہے،نہ ہی اسکے جودوکرم کی کوئی انتہا ہے ،نہ اسکے خزانہ ميں کوئی کمی آتی ہے اور کثرت عطا اس کے جودوکرم سے ہی ہوتی ہے۔ پس معلوم ہواکہ دعا کے قبول ہونے ميں پہلی قسم کی رکاوڻوں کے تصور کرنے کا امکان ہی نہيں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)سورئہ مومن آیت / ۶٠ ۔ )ليکن سائل کی طرف سے دعا قبول نہ ہونے دینے والی رکاوڻوں کا امکان پایا جاتا ہے اورسب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خداوند عالم بہت سے بند وں کی دعا کو قبول کرنے ميں تاخير کرتا ہے ليکن وہ ایسا اپنے عاجز ہوجانے یا نجيل ہوجانے کی وجہ سے نہيں کرتا بلکہ وہ اپنے علم کی بناء پر یہ جانتا ہے کہ اس بندے کے لئے دعا کا دیر سے قبول کرنا بہتر ہے اور سب اس بات پر بهی متفق ہيں کہ اس صورت ميں دعاکا قبول ہونا بندے کےلئے مضر ہے اور خدا بندے کی دعا قبول نہيں کرتا ليکن اس دعا کے بدلہ ميں اسکو دنيا ميںبہت زیادہ خير عطا کردیتا ہے اور اسکے گناہوں کو بخش دیتاہے یا اسکے درجات بلند کردیتا ہے۔یا اسکو یہ سب چيزیںعطا کردیتا ہے۔ پہلے ہم پہلی قسم کے موانع سے متعلق بحث کریں گے،اسکے بعد