دعا کی قبو ليت اور دعا کے در ميان رابطہ
اور ان دو نو ں حالتو ں (حالت تاخير اور حالت تبدیل)کے علا وہ دعا کا مستجاب ہونا ضروری ہے اس کا منبع قطعی فطری حکم ہے اور یہ اس وقت ہو تا ہے جب سا ئل ،مسئول (جس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٢)سورئہ موٴ من آیت/ ۶٠ ۔ ) ١٠٩٢ حدیث ٨۶۴٠ ، اصول کا فی : فرو ع کا فی جلد ١سطر ٩۴ ۔ : ٣)وسائل الشيعہ ۴ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــسو ال کيا جا رہاہے )کا محتاج ہوتاہے اور مسئول سائل کی حا جت قبول کرنے پرقادر ( ہوتا ہے اور اپنی مخلوق کے ساته بخل سے کام نہيں ليتاہے۔( ١( ١۔< اَمَّن یُجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاہُ وَیَکشِْفُ السُّوءْ> ( ٢”بهلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آوازدیتا ہے اور اس کی مصيبت کو دور کر دیتا ہے “لہٰذا جو شخص مجبور ہو اور اپنی بلا دور ہونے کے سلسلہ ميں دعا کے قبول ہونے کاشدید محتاج ہو اس کو فقط دعا کرنے کی ضرورت ہو تی ہے جب وہ خداوند عالم کو پکارتا ہے تو خداوند عالم اس کی دعا قبول کر کے اس سے بلا کو دور فر ما دیتا ہے ۔جب وہ خدا سے دعا کرتا ہے تو خدا اس کی دعا مستجاب کر تا ہے اور اس کے لئے برائيوں کو واضح کردیتا ہے ۔٢۔:< وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُْونِْي اَستَْجِب لَکُم اِنَّ الَّذِینَْ یَستَْکبِْرُونَْ عَن عِبَادَتِی ( سَيَدخُْلُونَْ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَْ >( ٣”اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا اور یقينا جو لوگ ميری عبادت سے اکڑتے ہيں وہ عنقریب ذلت کے ساته جہنم ميں داخل ہوں گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)اس رابطہ کے ضروری ہونے کا مطلب یہ نہيں ہے کہ اللهپر یہ امر واجب ہو گيا ہے بلکہ خود ) قرآن کریم اس یقينی اور ضروری رابطہ پر اس طر ح زور دیتا ہے : اس نے اپنے او پر رحمت لکه لی ہے 🙁 <فَقُل سَلَامٌ عَلَيکُْم کَتَبَ رَبّکُم عَ لٰی نَفسِْہِ الرَّحمَْة > (سور ہٴ انعام آیت/ ۵۴ “پس ان سے سلام عليکم کہئے تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرار دے لی ہے “٢)سورہٴ نمل آیت ۶٢ ۔ )٣)سورئہ مو من آیت ۶٠ ۔ )
ــــــــــــــــــــــــــــــیہ آیت کریمہ دعا اور استجابتِ دعا کے درميان رابطہ کو صاف طور پر واضح کر رہی ہے:< ا دْعُوْنِیْ اٴَسْتَجِبْ لَکُمْ >( ١)”مجه سے دعا کروميں قبول کرونگا ” ( <وَاُجِيبُْ دَعوَْةَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ> ( ٢”پکار نے والے کی آواز سنتا ہوں جب بهی پکارتا ہے ” ان آیات ميں دعا اور اس کے مستجاب ہو نے کا رابطہ صاف اور واضح ہے ، اور اس ميں کو ئی شک و شبہہ ہی نہيں ہے کہ خدا وند عالم ہر دعا کو قبول کر تا ہے ليکن اگر دعا قبول کر نا بندہ کے حق ميں مضر ہو یا اس عام نظام کے خلا ف ہو جس کا بند ہ خود جز ء شمار ہو تا ہے ،اور ان آیات ميں دعا کے مستجاب ہو نے کی کو ئی شرط نہيں ہے اور نہ ہی کسی چيز پر معلّق ہے ۔جن شرطوں کو ہم عنقریب بيان کر ےں گے وہ حقيقت ميں دعا کے محقق ہو نے کےلئے ضروری ہو تی ہيں یا بذات خو د دعا کر نے وا لے کی مصلحت کےلئے ہو تے ہيں اور اگر یہ دو نوں نہ ہوں تو پهر یا تو دعا کا اثر کم ہو جا تا ہے یا ختم ہو جا تا ہے ۔معلوم ہو ا کہ دعا اور استجا بت کے در ميان ایسا رابطہ ہے جس کے بدلنے کا کو ئی امکان ہی نہيں ہے اور ایسا مطلق تعلق ہے جو کسی سے متعلق نہيں ہو تا مگر کو ئی ایسی شرط ہو جس کی تا کيد کی گئی ہو یا وہ دعا کی حالت کا اثبات ( کر تی ہو جيسے خداوند عالم فرماتاہے:<َّاِذَادَعَاہُ وَیَکشِْفُ السُّوءَْ >( ٣”جب وہ اس کوآوازدیتا ہے تووہ اس کی مصيبت کو دور کر دیتا ہے ” شر یعت اسلا ميہ ميں احا دیث نبی اور احا دیث اہل بيت عليہم السلام ميں دعا اور دعا کے مستجا ب ہو نے کے در ميان اس رابطہ پر زور دیا گيا ہے ۔ حدیث قد سی ميں آیا ہے:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)سورئہ مو من آیت / ۶٠ ۔ )٢)سورہٴ بقرہ آیت ١٨۶ ۔ )٣)سورئہ نمل آیت ۶٢ ۔ )
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
( <یاعيسیٰ إني اسمع السامعين استجيب للداعين اذادعونی> ( ١ “اے عيسیٰ ميں اسمع السامعين (سننے والوں ميں سب سے زیادہ سننے والا) ہوں دعا کر نے والے جب دعا کرتے ہيں تو ميں ان کی دعا مستجاب کرتا ہوں ” رسو ل الله (ص) سے مروی ہے :<مامن عبدیسلک وادیافيبسط کفّيہ فيذکرالله ویدعوالَّاملاٴالله ذلک الوادي ( حسنات فليعظم ذلک الوادي اوليصغر>( ٢”جو بندہ بهی کسی وادی کو طے کرتا ہے اور دونوں ہاتهوں کو پهيلا کر خداوند عالم کو یاد کرتا ہے اور دعا کرتا ہے تو خداوند عالم اس وادی کو نيکيوں سے بهر دیتا ہے چاہے وہ وادی بڑی ہو یا چهوڻی “اور امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے : ( <لواٴَ نَّ عبداًسدَّ فَاہُ،لم یساٴل لم یعط شيئاًفسل تعط >( ٣”اگر بند ہ اپنا منه بند رکهے اور وہ خدا سے سوال نہ کر ے تو اس کو کچه عطا نہيں کيا جا ئيگا ، لہٰذا سوال کرو خدا عطا کر ے گا” “ميسر بن عبدالعزیز نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے : ( “یاميسرإنّہ ليس من باب یُقْرع إلّایُوشک انْ یُفتح لصاحبہ >( ۴ “اے ميسر! اگر کسی در وا زے کو کهڻکهڻا یا جا ئے تو وہ عنقریب کهڻکهڻانے والے کےلئے کهل جا تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١) اصو ل کا فی ۔ )٢)ثواب الا عمال صفحہ ٴ ١٣٧ ۔ )٣)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ٴ ١٠٨۴ ، حدیث ٨۶٠۶ ۔ )۴)وسا ئل الشيعہ ۴ : صفحہ ٴ ١٠٨۵ ح ٨۶١١ ۔ )
ــــــــــــــــــــــــ
حضرت امير المو منين عليہ السلام کا فر مان ہے : ( <متیٰ تُکثرقرع البابُ یفتح لک >( ١”جب دروازہ پہ زیادہ دستک دی جا ئيگی تو کهل جائيگا ” حضرت رسول الله (ص)نے حضرت علی عليہ السلام سے فرمایا: ( <یاعلياٴُوصيک بالدعاء فانّ معہ الاجابة>( ٢”اے علی ميںتم کو دعا کر نے کی سفارش کرتاہوں بيشک اگر دعا کی جائے تو ضرور مستجاب ہوگی”امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے 🙁 <اذااُلهم احدکم الدعاء عند البلاء فاعلموااٴَنّ البلاء قصير >( ٣ “جب تم ميںسے کسی کومصيبت کے وقت دعا کرنے کا الہام ہوجا ئے تو جان لو کہ مصيبت چهوڻی ہے “امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے: ( <لاواللّٰہ لایلحّ عبدٌعلیٰ اللّٰہ عزّوجلّ الّااستجاب اللّٰہ لہ >( ۴”خداکی قسم بندہ خداوند عالم کی بارگاہ ميں نہيں گڑگڑاتا مگر یہ کہ خدا اسکی دعا مستجاب کرتا ہے”اسلامی روایات ميں دعا اور دعاکی مقبوليت کے درميان رابطہ کے یقينی اور مطلق ہونے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)وسا ئل الشيعہ ۴ : صفحہ ٴ ١٠٨۵ ح ٨۶١٣ ۔ )٢) وسائل الشيعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ٢ حدیث ١٨ ۔ )٣)وسائل الشيعہ جلد ۴ص ١٠٨٧ حدیث ٨۶٢۴ ۔ )۴)اصول کافی کتاب الدعا باب الالحاح فی الدعاء حدیث ۵۔ )
ــــــــــــــــــــــــــــزور دیا گيا ہے اور یہ واضح ہے کہ جب بندہ خداوند عالم سے دعاکرتا ہے تو خداکو اسکی دعا رد کرنے سے حيا آتی ہے۔حدیث قدسی ميں آیا ہے:ماانصفنی عبدي،یدعوني فاستحيي انْ اردّہ،ویعصيني ولایستحيي مني (١)”ميرے بندے نے ميرے ساته انصاف نہيں کيا چونکہ جب وہ مجه سے دعا کرتا ہے تو مجهے اسکی دعا رد کرنے ميں حيا آتی ہے ليکن جب وہ ميری معصيت کرتا ہے تومجه سے کوئی حيا نہيں کرتا “امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے:( <ماابرزعبد یدہ الی اللّٰہ العزیزالجبارالّااستحييٰ اللّٰہ عزّوجلّ اٴنْ یردّها>( ٢”بندہ خداوند عالم کی بارگاہ ميں ہاتهوں کو بلند کرتا ہے توخداکوا سکی دعا رد کرنے سے حيا آتی ہے’حدیث قدسی ميں آیا ہے: <من احدث وَتوضاٴوصلیّٰ ودعاني فلم اُجبہ فيما یساٴل عن امردینہ ودنياہ ( فقدجفوتہ ولست بربٍّ جافٍ>( ٣”جس شخص سے حدث صادر ہو اور وہ وضو کرکے نماز پڑهے پهر مجه سے دعا مانگے ليکن ميں اس کی دینی اور دنيا وی حاجت پوری نہ کروں تو ميں نے اس پر جفا کی جبکہ ميں جفا کرنے والا پرور دگار نہيں ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)ارشاد القلوب للدیملی۔ )٢)عدةالدامی وسائل الشيعہ کتاب الصلاةابواب الدعا باب ۴حدیث ١۔ )٣)ارشاد القلوب للدیلمی۔ )
ــــــــــــــــــــامير المومنين عليہ السلام سے مروی ہے: ( <ماکان اللّٰہ ليفتح باب الدعاء،ویغلق عليہ باب الاجابة >( ١”ایسا نہيں ہے کہ خدا وند عالم بندہ پر باب دعا تو کهول دے اوراس پر باب اجا بت کو بند رکهے “اور امير المومنين عليہ السلام سے ہی مروی ہے : ( <من اُعطي الدعاء لم یُحرم الاجابة > ( ٢”جس کو دعا عطا کی گئی اسکو دعا کے مستجاب ہونے سے محروم نہيں کيا گيا”آخر ی دو روایتوں ميں اہم اور بلند درجہ کی طرف متوجہ کيا گيا ہے بيشک اللهتعالیٰ کریم اور وفیّ ہے جب اس نے دعا کا دروازہ کهول دیا تو یہ ممکن ہی نہيں کہ وہ دعا مستجاب ہو نے کے دروازہ کوبند کردے ۔ جب خداوندعالم نے بندہ کو دعا کر نے کی توفيق عطا کردی تو یہ ممکن ہی نہيں کہ وہ اس کی دعامستجاب نہ کرے۔رسول الله (ص)سے مروی ہے :<مافُتح لاٴحد باب دعاء الّافتح اللّٰہ لہ فيہ باب اجابة،فاذافُتح لاٴحدکم باب دعاء ( فليجهد فانّ اللّٰہ لایمل >( ٣”خداوند عالم نے کسی کےلئے دعا کا دروازہ نہيںکهولا ہے مگر یہ کہ اسکے لئے اسکی دعا کے قبول ہونے کا دروازہ بهی کهول دیا ہے ۔جب تم ميں سے کسی ایک کےلئے باب اجابت کهل جائے تو اسکو کوشش کرنا چاہئے بيشک خدا کسی کو ملول نہيں کرتا”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١٠٨٧ ۔حدیث ٨۶٢۴ ۔ : ١)وسائل الشيعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ٢حدیث ١٢ اور ۴ )٢)وسائل الشيعہ کتاب الصلاة ابواب الدعا باب ٢اور ۴ صفحہ ١٠٨۶ ۔حدیث ٨۶٢٢ ۔ )١٠٨٧ حدیث/ ٨۶٢۴ ۔ / ٣)وسائل الشيعہ جلد ۴ )
ـــــــــــــــــــــــــــیہ الله کی رحمت نازل ہونے کی تيسری منزل ہے۔ اللهم سمعناوشهدناوآمنّا”خدایا ہم نے سنا اور گواہی دی اور ایمان لائے ” رحمت نازل ہو نے کی تين منزليںجناب ہاجرہ اور اسمعيل عليہما السلام اور ابو الانبياء حضرت ابراہيم عليہ السلام کے قصہ ميں ہم تينوں منزلوں کایکجا طور پر مشاہدہ کرسکتے ہيں: ١۔فقر وحاجت٢۔دعا اور سوال٣۔سعی اور کوششجب ابو الانبياء حضرت ابراہيم عليہ السلام کو خداوند عالم نے ان کی زوجہ جناب ہاجرہ کے ساته بے آب و گياہ وادی(چڻيل ميدان )ميں بهيجا اور انهوں نے وہاں ہاجرہ کے ساته ان کے فرزند شير خوار جناب اسمعيل کو چهوڑاتویہ دعا کی:< رَبَّنَااِنِّی اَسکَْنتُْ مِن ذُرِّیَّتِی بِوَادٍغَيرِْذِی زَرعٍْ عِندَْ بَيتِْکَ المُْحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُْواالصَّلاَ ( ةَ فَاجعَْل اَفئِْدَةً مِنَ النَّاسِ تَهوِْی اِلَيهِْم وَارزُْقهُْم مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُم یَشکُْرُونَْ>( ١ “پروردگار ميں نے اپنی ذریت ميں سے بعض کو تيرے محترم مکان کے قریببے آب و گياہ وادی ميں چهوڑ دیا ہے تا کہ نما زیں قا ئم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مو ڑ دے اور انهيں پهلوں کا رزق عطا فر ما تا کہ وہ تيرے شکر گزار بندے بن جا ئيں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١۔سورئہ ابراہيم آیت/ ٣٧ ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کے بعد حضرت ابراہيم عليہ السلام خداوند قدوس کے حکم کی تعميل کےلئے گئے ۔جناب ہاجر ہ اور طفل شير خوار کو اس بے آب و گياہ وادی ميں چهوڑدیااور ان کے پاس پانی کاذخيرہ ختم ہوگيا، بچہ پرپياس کا غلبہ ہوا ،جناب ہاجرہ نے چاروں طرف پانی ڈهونڈها ليکن پانی کا کوئی نام ونشان نہ ملا،بچہ چيخنے،چلانے اورہاته پير مارنے لگا۔آپ کی والدہ ادهر ادهر دوڑلگانے لگيں،کبهی صفا پہاڑی پر جا تيں اور دور دراز تک پانی دیکهتيں اسکے بعد نيچے اتر آتيں اوردوڑتی ہوئيںمروہ پہاڑی پر پانی کی تلاش ميں جاتيں،اور خداوند عالم سے اپنے اور بچہ کےلئے اس بے آب و گياہ وادی ميں پانی کا سوال کر تيں اور بچہ بيت حرام کے نزدیک چيختا چلاتا اور ہاته پير ماررہاتها۔اللهنے بچہ کے قدموں کے نيچے پانی کا چشمہ جاری کيا، ماں پانی کی طرف دو ڑی تا کہ اپنے شير خوار بچہ کو سيراب کر سکے اور پانی کو ضائع ہو نے سے بچا سکے لہٰذا انهوں نے پا نی سے کہا زم زم یعنی ڻهہر ڻهہرکہ وہ اس کےلئے ایک حوض بنارہی تهيں ۔یہ عجيب وغریب منظر رحمت کے نازل ہونے کا سبب بنا، خداوند عالم نے بے آب وگياہ وادی ميں چشمہ زم زم جاری کيا اور اسکو اس مبارک زمين پر متعدد برکتوں کا مصدر قرار دیا ۔خداوند عالم نے اس عمل کو اعمال حج کا جزء قرار دیا اور اسکو سب سے اشرف فرائض ميں قرار دیا۔اس منظر کا کيا راز ہے؟اور اسکو اصل دین ميں داخل کرنے اور حج کے احکام ميں ثبت کرنے کا اتنا اہتمام کيوں کيا گيا؟ وہ موثر اور طاقت ورسبب کيا ہے جسکی وجہ سے خداوند عالم نے اس منظر کی قوت سے رحمت نازل کی اور تاریخ ميں آنے والے تمام موحدوں کےلئے بہت زیادہ برکتوں کا مبداٴ قرار دیا ؟پس اس منظر ميں ایک خاص راز ہے جس کےلئے اس بے آب و گياہ وادی ميں الله کی رحمت نازل ہو نے کی استدعا کی گئی ہے ، اس رحمت کے ہميشہ باقی رہنے کی استدعا کی گئی ہے ، اس کو متعدد برکتوں کےلئے مصدر اور مبداٴ قرار دیا گيا ہے اور یہ استد عا کی گئی ہے کہ خدا وند عالم اس کو اپنے بيت حرام کے نزدیک موحدین کی آنے والی نسلوں کے لئے اسی طرح قائم و دائم رکهے ۔ہمارا(موٴلف)عقيدہ ہے کہ(خداوند عالم اس منظر کے تمام اسرار کو جانتا ہے)ایسے منظر شاذونادر ہی ہوتے ہيں جن ميں الله کی رحمت نازل ہونے کے تينوں پہلو جمع ہوجاتے ہيں اور ہر ایک سے رحمت نازل ہوتی ہے۔پہلی منزل :حاجت وضرورت ہے جویہاںپر پياس ہے جو شير خوار بچہ کےلئے نقصان دہ تهی اور حاجت و ضرورت کا الله کی بارگاہ ميں پيش کرنا الله کی رحمت نازل ہونے کا ایک پہلو ہے۔جب ضرورت صاحب ضرورت کےلئے زیادہ نقصان دہ ہوگی تووہ الله کی رحمت سے زیادہ قریب ہوگا۔اسی لئے ہم یہ مشاہدہ کرتے ہيں کہ جب شيرخوار بچوں کےلئے دکه درد ،یا بهوک یاپياس یا سردی یا گرمی بہت زیادہ مضر ہوجاتی ہے جسکو وہ برداشت نہيں کرسکتے تو وہ ان بزرگوںکے ذریعہ جو ان تمام چيزوں کو برداشت کرسکتے ہيں الله کی رحمت سے قریب ہوجاتے ہيں۔چونکہ دوسروں کے مقابلہ ميں ان کےلئے اس حاجت کا نقصان زیادہ ہے ۔معلوم ہواکہ حاجت ان کے غيروں کے علاوہ خود ان کےلئے بہت زیادہ مضر ہے۔دعا ميں وارد ہوا ہے :”اَللَّهُمَّ اَعطِْنِي لِفَقرِْي”ْ صرف الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کر نے سے الله کی رحمت نازل ہوتی ہے اور جب بهی الله کی بارگاہ ميں پيش ہونے والی حاجت جتنی عظيم ہوگی اتنا ہی وہ الله کی رحمت کے نزول کا باعث ہوگی۔بيشک الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت پيش کرنا انسان کو الله کی رحمت سے قریب کردیتا ہے چاہے انسان الله کی بارگاہ ميں اپنی حاجت سے باخبر ہوکر پيش کر ے یا نہ کرے اگر انسان اپنی حاجتوں سے باخبر ہوکران کو الله کی بارگاہ ميں پيش کرتا ہے تو الله کی رحمت نازل کرانے ميں اسکی قدروقيمت بڑه جاتی ہے۔جس کو ہم بيان کرچکے ہيں۔ليکن اس ميں یہ شرط پائی جاتی ہے کہ انسان اپنی حاجت ميں تحریف نہ کرے یعنی انسان یہ تصور کرے کہ اسکو مال کی ضرورت ہے یا حطام دنيا(دنيوی چيزیں) کی ضرورت ہے لہٰذابندگان خدا کی طرف حاجت پيش نہ کرے ۔نيز یہ شرط بهی ہے کہ انسان اپنی ضرورت کو اس کی جگہ سے نہ ہڻائے اور یہ تصور نہ کرنے لگے کہ یہ دو لت یا سر مایہ ٴ دنيا کی ضرورت خداوند عالم کے کچه بندوں کی ضرورت کی بنا پر ہے اس کے بجا ئے کہ وہ فقر کو خداوند عالم کی طرف نياز مندی پر حمل کرے ۔اِس حاجت اور اُس حاجت ميں فرق ہے۔جس حاجت سے الله کی رحمت نازل ہوتی ہے وہ الله کی بارگاہ ميں حاجت پيش کرنا ہے اور جب انسان اس ضرورت کو الله کی بارگاہ ميں پيش کرنے کے بجائے الله کے بندوں کی خدمت ميں پيش کرتا ہے تو اسکے ذریعہ الله کی رحمت نازل ہونے کی قدروقيمت ختم ہوجاتی ہے اور لوگوں کی اکثر حاجتيں اسی قسم کی ہيں۔اس منظر ميں بچہ کاپياس کی شدت سے چيخناچلانا گر یہ وزاری کرنا الله کی رحمت نازل کرنے ميں بڑا موثر ہے ۔خداوند عالم کی طرف نياز مندی کے منا ظر ميں خداوند عالم کی رحمت کا سبب بننے والا اثر اور رقت آور منظر اس بچہ کے منظر سے زیادہ نہيں جو پياس سے جهلس رہا ہو اور اس کی ماں کو اس کيلئے پا نی نہ مل رہاہو۔ الله کی رحمت کا اس منظر ميں دوسرا پہلوسعی ہے ،یہ رزق کےلئے شرط ہے،بغير سعی و کوشش کے رزق نہيں ہے اور اللهتعالی نے سعی اور حرکت کو انسان کی زندگی ميں رزق کی کنجی قرار دیا ہے۔جب فقرکا سبب انسان سے عزم ،قوت،ارادہ،حرکت اور نشاط چاہتا ہے اور جتنی انسان ميں حرکت و سعی اور عزم ہوگا اتنا ہی اللهاس کو اپنی رحمت سے رزق عطا کریگا۔جب جناب ہاجرہ کے پاس پانی ختم ہوگيااورحضرت اسماعيل پر پياس کا غلبہ ہوا تو جناب ہاجرہ نے پانی تلاش کيا اور اسی پانی کی تلاش ميں آپ کبهی صفاپہاڑی پرجاتيں اور دور تک نظر دوڑاتيں اور پهر صفا سے اترکر مروہ پہاڑی پر جاتيں اور دور تک نظر دوڑاتيں اسی طرح آپ جب صفا اور مروہ دونوں پہاڑیوںپر گئيں توآپ کو کہيں پانی کا نام ونشان نہيں دکهائی دیا توآپ مایوس نہيں ہوئيں اور اس عمل کی تکرار کرتی رہيں اور صفاومروہ کے درميان دوڑلگا تی رہيںيہا ں تک کہ آپ نے ان کے در ميان سات چکر لگا ئے ۔اگر یہ آرزو اور اميد نہ ہو تی تو ان کی سعی پہلے ہی چکر ميں ختم ہو جا تی ليکن پانی کی اميد نے ان دونوں کے دلوں کو زندہ رکها اور اسی شوق ميں وہ سعی کی تکرار کرتی رہيں یہاں تک کہ الله نے ان کے اس امر کو آسان کيا اور جناب اسماعيل کے قدموں کے نيچے چشمہ جا ری فرمادیا ليکن اس مقام پر آرزو اور اميد الله کی ذات سے ہے ان کی سعی ميں نہيں ہے اگر آرزو واميد ان کی سعی ميں ہو تی تو ان کی یہ آرزوو اميد پہلے یا دو سر ے چکر ميں ہی ختم ہو جا تی ۔الله تبا رک وتعا لیٰ نے اس سعی اور اس حر کت کو رزق کے لئے شر ط قراردیا، انسان پر اپنی رحمت کا نز ول قراردیااور الله اپنے بند وں کو رزق دیتا ہے اور ان پر اپنی رحمت نازل کر تا ہے ليکن خد ا و ند عا لم نے انسان کی سعی اور حر کت کواپنے رزق اور رحمت کی کنجی قراردیاہے ۔الله کی رحمت کےلئے اس منظر ميں تيسر اپہلو جناب اسمعيل کی والد ہ کی دعا ہے ان کا الله سے لو لگانا اوراس بے آب و گياہ وادی ميں پانی کی تلاش ميں الله سے گڑگڑاکردعاکرناہے۔جتنا انسان الله سے دعا کرتے وقت اپنے کو اس کی یاد ميں غرق کردیگا اتنا ہی وہ الله کی رحمت سے قریب ہو گا ۔ہميں نہيں معلو م کہ اس نيک وصا لح خا تو ن نے اس وقت اور اس واد ی ميں الله کی یاد ميں منہمک ہو نے والی کس حا لت کا انتخاب کيا جبکہ ان کے پاس نہ کو ئی انسان تها اور نہ حيوان ،صرف ایک پيا سا شير خوار اپنی پياس سے تڑپ رہا تها گو یا وہ اپنی آخر ی سانسيں لے رہا تها۔اس وقت اس خاتون نے خداوند عالم سے اس طرح دعا کی کہ ملا ئکہ نے ان کےلئے گڑگڑ ا کر دعا کرنا شروع کردی اور اپنی آوازوں کو ان کی آواز، اور اپنی دعا وٴں کو ان کی دعا وٴں سے ملا دیا ۔اگر تمام انسان الله کی یاد ميں اسی طرح منہمک ہو جا ئيں اور خدا کے علاوہ سب سے ہٹ کر صرف اس کی بارگاہ سے لو لگا ئيں تو اُن پرزمين و آسمان سے رزق کی بارش ہو گی ۔( <لَاَکَلُواْمِن فَوقِْهِم وَمِن تَحتْ اَرجُْلِهِم>ْ( ١ “تو وہ ہر طرح سے الله کی رحمت سے مالا مال ہو ں گے ” اگر تمام لوگ خداوند عالم کی طرف اس طرح متوجہ ہو جا تے تو وہ آسمان و زمين کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے اور رحمت الٰہی ان کے شامل حال ہو تی ۔ اے مادر گرامی آپ پر الله کا سلام !اے اسماعيل کی مادر گرامی آپ پر اسماعيل کی اولاد کا سلام جس کو الله نے نور ،ہدایت ،ایمان، نبوت عطا کی ہے اور ان کی ہدایت اور نور سے ہدایت پانے والے ہيں ۔اگر آپ اس حجاز کی سخت گرمی ميں اس بے آب و گياہ وادی ميں تنہا نہ ہوتيں،اور صفا و مروہ کی پہاڑیوںکے درميان اس مشکل مو قع پر آپ خداوند قدوس سے اس طرح لو نہ لگاتيں اور آپ دونوں پر خداوند عالم کی رحمت نازل نہ ہو تی اور اگر وہ رحمت نہ ہو تی تو آپ الله سے اس طرح لو نہ لگاتيں تو آپ کی صفا و مروہ کے درميان سعی حج ميں شعائر الله ميں قرار نہ دی جا تی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١۔سورئہ مائدہ آیت/ ۶۶ ۔
ــــــــــــــــــــــــــــاِنّ الصَّفَاوَالمَْروَْةَ مِن شَعَائِرَاللهِ فَمَن حَجَّ البَْيتَْ اٴَوِاعتَْمَرَفَلَاجُنَاحَ عَلَيہِْ( اَن یَطَّوَّفَ بِهِمَاوَمَن تَطَوَّعَ خَيرْاً فَاِنَّ اللهَ شَاکِرٌ عَلِيمٌْ>( ١”بيشک صفا و مروہ دو نوں پہا ڑیاں الله کی نشانيوں ميں ہيں لہٰذا جو شخص بهی حج یا عمرہ کرے اس کےلئے کو ئی حرج نہيں ہے کہ ان دونوں پہا ڑیوں کا چکر لگا ئے اور جو مزید خير کرے گا خدا اس کے عمل کا قدر دان اور اس سے خوب واقف ہے “اے مادر گرامی! الله نے اپنی یا د ميں اس وقت آپ کے انہماک کو دامن تاریخ ميں ثبت کر دیا پانی کی تلاش ميں آپ کی سعی اور آپ کے بچہ اسما عيل کی چيخ وپکار کے تذکر ہ کو تاریخ ميں لکه دیا تا کہ آپ کے بعد آنے والی نسلو ں کو یہ معلو م ہو جائے کہ الله کی رحمت کيسے نازل ہو تی ہے اور الله کی رحمت کےلئے کيسے خشوع وخضو ع کياجاتا ہے ؟الله کی رحمت وسيع ہے اس ميں نہ کسی طرح کا بخل ہے نہ نقص اور نہ ہی وہ عا جز ہے ليکن لوگ اس کی رحمت کے نازل ہو نے کے مقامات کو نہيں جا نتے نہ ہی اس سے اچهی طرح پيش آتے ہيں اور نہ ہی اس سے استفا دہ کرتے ہيں ۔آپ نے ہم کو یہ تعليم دی کہ الله کی رحمت کو کيسے نازل کرائيں اور الله کی رحمت کے ساته کيسے پيش آئيں اور اے بی بی ہم نے آپ سے رحمت کی کنجياں حاصل کی ہيں ۔اگر ہم نے آپ کی ان کنجيوں کی حفاظت نہ کی جن کو آپ نے اپنے فرزندارجمند جناب اسمٰعيل کے سپرد کيا ،اسمٰعيل کے بعد یہ کنجيا ں اسمٰعيل کی اولاد کو وراثت ميں مليں اور ہم کو آپ کے بيڻے حضرت محمد مصطفے صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ميراث ميںمليں تو ہم آپ سے معذرت خواہ ہيں کہ ہم نے انبيا ء عليہم السلام کی ميراث اور ان کی وراثت کو ضا ئع وبرباد کردیاہے ۔ ہم نے اپنے جد ابراہيم سے الله کی وحدانيت کا اقرار کر نے کی تعليم حاصل کی اور ہم نےاپنی ماں جناب ہاجرہ سے الله سے سوال کرنے کا طریقہ سيکهاہے ۔ اگر ہم خواہشات نفسانی اور طاغوت وسر کشی ميں پهنس گئے تو ہم نے اِس کو بهی ضا ئع کيا اور اُس کو بهی ضائع وبربادکردیاہے۔ اے الله ہم نے اپنے جد ابراہيم اور اپنی جدہ جناب ہاجرہ کی جس ميراث کو ضائع وبرباد کر دیا اس پر تجه سے مدد چا ہتے ہيں ۔ہم کو ان کے خا ندان ميں قراردے لہٰذااے پروردگار اس ميراث کی بازیابی کے سلسلہ ميں ہماری مدد فر ما ،جو ہم نے ضا ئع کردی ہے اور ہم کو ان کے پيرووںميں قرار دے اور پروردگارا ہم کو اس گهر سے اولاد ابراہيم اور اولاد عمران سے مت نکالنا ۔<اِنَّ اللهَ اصطَْ فٰی آدَمَ وَنُوحْاًوَآلَ اِبرَْاہِيمَْ وَآلَ عِمرَْانَ عَلَی العَْالَمِينَْ ذُرِّیَةً بَعضُْهَامِن ( بَعضٍْ وَاللهُ سَمِيعٌْ عَلِيمٌْ >( ١ “الله نے آدم نوح اور آل ابراہيم اور آل عمران کو منتخب کرليا ہے یہ ایک نسل ہے جس ميں ایک کا سلسلہ ایک سے ہے اور الله سب کی سننے والا اور جا ننے والا ہے “<رَبَّنَاوَاجعَْلنَْامُسلِْمَينِْ لَکَ وَمِن ذُرِّیَّتِنَااُمَّةً مُسلِْمَةً وَاَرِنَامَنَاسَکِنَاوَتُب عَلَينَْااِنَّکَ اَنتَْ ( التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ>( ٢”پرور دگار ہم دونوںکو اپنا مسلمان اور فر ماں بر دار قرار دیدے اور ہما ری اولا د ميں بهی ایک فر مانبر دار پيدا کر ۔ہميں ہما رے منا سک دکهلا دے اور ہما ری تو بہ قبول فر ما کہ تو بہترین تو بہ قبول کرنے والا مہربان ہے ” جناب اسما عيل کی مادر گرامی نے اس دن اور اس وادی ميں تمام اسباب خيراخذ کئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١۔سورئہ آل عمران آیت/ ٣٣ ۔ ٣۴ ۔٢۔سورئہ بقر ہ آیت ١٢٨ ۔
ـــــــــــــــــــــجن کو سعی ،دعا اور حاجت کہاجاتاہے ۔بيشک ہماری اس مادر گرامی نے پانی کی تلاش ميں سعی کی کبهی آپ صفا پہا ڑی پر پانی کی تلاش ميں جاتيں اور مروہ پہاڑی پرپانی کی تلاش ميں جا تيںخداوند عالم اپنے بندوںکی سعی اور عمل کو دوست رکهتا ہے اور اس نے انهيں رزق کی اہم شرطيں قراردیا ہے۔ليکن شرط یہ ہے کہ اس طرح سعی کرے کہ خدا کی یاد ميں منہک ہو جائے اور اسی حالت ميں خدا سے لولگائے ،دعا کر ے ، تاریخ انسانيت ميں ایسی مثاليں بہت ہی کم نظرآتی ہيں ۔سعی و کو شش خدا وند عالم کی راہ ميں رکا وٹ نہيں بنتی اور انسان کو اس سے الگ نہيں کر دیتی اور صرف خداوند عالم سے وابستگی بهی انسان کی سعی و کو شش کی راہ ميں حا ئل نہيں ہو تی جناب ہاجرہ کی پانی کےلئے کو شش ایک عورت کی قوت امکان کی آخری منزل تهی ۔آج یہ ہمارے حج کے مناسک ميں سے ہے اور ہم ان دو نوںپہا ڑوں کے در ميان بغير کسی زحمت ،تکليف غم اور رنج کے سات چکر لگا تے ہيں سعی کر تے ہيں جس کی بنا پر ہم تهک جا تے ہيں مشقت ميں مبتلا ہو جا تے ہيں ۔اس بزرگ بی بی نے اس سعی کی اس بے آب و گياہ وا دی ميںبنياد رکهی جب بچہ کی پيا س پور ے عروج پر تهی اور پياساشير خواراپنی آخری سا نسيں لے رہا تها ليکن اس کے با وجود پانی کی تلاش ميں اس سعی کو بڑی ہمت اور عزم وا ردہ کے ساته قائم کيا ۔اس کے با وجوداس سعی کے دوران ایک منٹ بهی آپ خدا کی یا دسے غافل نہ ہو ئيں یہ پوری سعی یاد الٰہی کے ساته تهی نہ یہ یاد خدا ميں رکا وٹ تهی اور نہ سعی و کو شش ميں مانع! گو یا کوشش صرف خدا وند عالم سے وابستہ تهی اور خداوند عالم سے وابستگی سعی و کو شش کے ساته تهی ہم ميں سے اس پر کون قدرت رکه سکتا ہے ؟ملا ئکہ اس روز اس منظر کو دیکهتے رہے اور تعجب کر تے ر ہے کہ آ پ نے الله سے کيسے لو لگائی؟ اور آپ نے پانی کی تلاش ميں اس طرح کيسے سعی کی ہے؟ اور آپ نے سعی اور الله سے اس طرح لو لگانے کو ایک ساته کيسے جمع کردیا ؟الله کی بار گاہ ميں کيسے تضرع کيا کہ وہ آپ کی دعا اور سعی مستجاب کر ے اور آپ کی سعی اور دعا سے الله رحمت نازل کرے اورالله کی رحمت اتنی قریب ہو جائے کہ آسمان کے طبق زمين پر اتر جائيں ۔اس دن دعا اور عمل صالح زمين سے آسمان پر پہونچے اور رحمت کے ستون آسمان سے زمين پر نازل ہوئے اور ملا ئکہ نے اس بے مثال واحد منظر کا نظار ہ کياتو الله کی بار گاہ ميں تضرع کرنے لگے اور وہ چيز رونما ہوئی جو ان کے دل ودماغ ميںبهی نہيں آئی تهی کہ شير خوار بچہ کے قدموں کے نيچے سے صا ف وشفاف اورگوارا پانی کا چشمہ ابل پڑا۔پا ک وپاکيزہ ہے خداوند عالم اور تمام تعریفيں اسی کے لئے ہيں اس نے ہاجرہ کی سعی اور دعا کو قبول فر مایا ليکن سعی کی بنا پر نہيں بلکہ اس شير خوار بچہ کے قدموں تلے جو اپنے ہاته پيروں کو اس دن کی پياس کی بنا پر پڻخ ر ہا تها تا کہ خداوند عالم ہاجرہ کو بتا سکے کہ خدا ہی نے ان کو یہ ڻهنڈا اور گوارا پانی اس تپتی دهوپ ميں عنایت فر مایا ہے خود ہاجرہ نے اپنی سعی کے ذریعہ اس کو پيدا نہيں کيا ہے اگر چہ ہا جرہ کےلئے سعی و کو شش کرنا ضروری تها تا کہ خداوند عالم ان کو زمزم عطا فر ما تا۔الله نے (زمرم )کو شير خوار بچہ کے قدموں کے نيچے جاری کيا ۔اپنے بيت حرام کو اسی وادی ميں قائم کيا ،زمزم ميں برکت عطا کی اور ہميشہ آنے والی نسلوں کے تمام حاجيوں کےلئے اسے سيرابی کاذریعہ قراردیا ۔اس دعا اور سعی کا تاریخ ميں تذکرہ ثبت کردیا اس کو مناسک حج کی ایک نشانی قراردیا جس کو حجاج ہرسال انجام دیا کرتے ہيں جس کو مدت سے ان کی والد ہ محترم جناب ہاجرہ اور ان (انسانوں )کے پدر بزرگوار ابراہيم وا سما عيل نے ان کے لئے مہيا کيا ۔ اس وادی ميں اس دن الله کی رحمت نازل ہو نے کے تين اسباب ،حاجت ،سعی اور دعا جمع ہو ئے ۔حاجت یعنی ضعف اور فاقہ کا انتہا ئی درجہ ،سعی اپنے آخری و حوصلہ کے مطابق اور دعا انقطاع اوراضطرار کے اعتبار سے ہے ۔ہم ہر سال حج ميں اس منظر کی یاد کو تاز ہ و زندہ کر تے ہيں جس کی حضرت اسما عيل کی والدہ نے ہم کو تعليم دی ہے کہ ہم الله کی رحمت کيسے طلب کر یں ،کيسے اس کے فضل ورحمت کو نازل کرائيں اور ہم اس کی معرفت کيسے حاصل کریں اور اس کی بارگاہ ميں کيسے پيش آئیں ۔