محبت و خلوص ميں تشکيل پانے والا گھرانہ اور خانداني نظام زندگي

164

دريچہاب ہمارے بہترين اور عزيز ترين لڑکے اور لڑکياں جان گئے ہيں کہ ”رشتہ ازدواج‘‘ ميں منسلک ہونے اور اس مقدس بندھن کا سب سے بہترين نتيجہ اور اصل ہدف ”گھرانے‘‘ کي بنياد رکھنا ہے۔آج کے زمانے ميں سب ہي ”گھرانے‘‘ کے متعلق باتيں کرتے ہيں اور سب ہي کو اس بارے ميں تشويش لاحق ہے۔ معاشرتي اور تاريخي علوم کے ماہرين کسي بھي معاشرے کي سب سے پہلي اور بنيادي ترين شکل ”گھرانے‘‘ کو قرار ديتے ہيں۔ اس طرح ماہرين نفسيات بھي انسانوں کے نفساني حالات کي جڑوں کو ”گھرانے‘‘ ميں ہي تلاش کرتے ہيں۔ جب کہ تربيت کے شعبے سے منسلک مفکرين اور دانش مند حضرات ”گھر‘‘ کو ہي تربيتي امور کا مرکز جانتے ہيں اور اجتماعي مصلح حضرات بھي ہر قسم کي اصلاح طلب تبديلي و انقلاب کو ”گھرانے‘‘ سے ہي مربوط قرار ديتے ہيں اورسچ مچ، گھرانے کي اہميت کتني زيادہ ہے؟اسلام کي اس بارے ميں کيا نظر ہے؟کس طرح ايک ”گھرانے‘‘ کي بنيادوں کو مستحکم بنايا جا سکتا ہے؟اور ، اور، اوراسلام اور معاشرے ميں ”گھرانے‘‘ کے مقام و منزلت اور اس کے مختلف اثرات کو اسلام کے مايہ ناز مفکر اور فلسفہ شناس دانشمند کي حيثيت سے اپنے ہر دلعزيز قائد و رہبر سے سننا اس عظيم بنياد کو رکھنے والے نوجوانوں کے لئے راہ گُشا ہے۔
کلمہ طيبہ يا پاک بنيادگھرانہ ”کلمہ طيبہ‘‘ ١ کي مانند ہے اور کلمہ طيبہ کي خاصيت يہ ہے کہ جب يہ وجود ميں آتا ہے تو مسلسل اس کے وجود سے خير و برکت اور نيکي ہي ملتي رہتي ہے اور وہ اپنے اطراف کي چيزوں ميں نفوذ کرتا رہتا ہے۔ کلمہ طيبہ وہي چيزيں ہيں کہ جنہيں خداوند متعال نے انسان کي فطري ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کي صحيح بنيادوں کے ساتھ اُسے تحفہ ديا ہے۔ يہ سب کلمہ طيبہ ہيں خواہ وہ معنويات ہوں يا ماديات۔
انساني معاشرے کي اکائيجس طرح ايک انساني بدن ايک اکائي ”سيل‘‘ يا ”خليے‘‘ سے تشکيل پاتا ہے کہ ان خليوں کي نابودي،خرابي اور بيماري خود بخود اور فطري طور پر بدن کي بيماري پر اختتام پذير ہوتي ہے۔ اگر ان اکائيوں ”خليوں‘‘ ميں پلنے والي بيماري بڑھ جائے تو خطرناک شکل ميں بڑھ کر پورے انساني بدن کے لئے خطرے کا باعث بن سکتي ہے۔ اسي طرح انساني معاشرہ بھي اکائيوں سے مل کر بنا ہے جنہيں ہم ”گھرانہ‘‘ کہتے ہيں۔ ہر گھر اور گھرانہ انسان کے معاشرتي بدن کي اکائي ہے۔ جب يہ صحيح و سالم ہوں گے اور صحيح اور اچھا عمل انجام ديں گے تو معاشرے کا بدن بھي يقيناًصحيح و سالم ہو گا۔
اچھا گھرانہ اور اچھا معاشرہاگر کسي معاشرے ميں ايک گھرانے کي بنياديں مستحکم ہو جائيں، مياں بيوي ايک دوسرے کے حقوق کا خيال رکھيں، آپس ميں خوش رفتاري، اچھے اخلاق اور باہمي تعاون سے پيش آئيں، مل کر مشکلات کو حل کريں اور اپنے بچوں کي اچھي تربيت کريں تو وہ معاشرہ بہترصورتحال اور نجات سے ہمکنار ہوجائے گا اور اگر معاشرے ميں کوئي مصلح موجود ہو تو وہ ايسے معاشروں کي باآساني اصلاح کر سکتا ہے۔ ليکن اگر صحيح و سالم اور اچھے گھرانے ہي معاشرے ميں موجود نہ ہوں تو کتنے ہي بڑے مصلح کيوں نہ آ جائيں وہ بھي معاشرے کي اصلاح نہيں کر سکتے۔١ سورہ ابراہيم کي آيت ٢٤ کي طرف اشارہ ہے کہ ارشاد رب العزت ہے : ”اللہ تعاليٰ نے کلمہ طيبہ کي مثال پيش کي ہے جيسے ايک شجر طيبہ کہ جس کي جڑيں زمين ميں مستحکم ہوں اور شاخيں آسمان ميں پھيلي ہوئي ہوں اور اپنے رب کے حکم سے اپنا پھل بھي لے کر آتا ہے‘‘۔ہر وہ ملک کہ جس ميں گھرانے کي بنياديں مضبوط ہوں تو اس ملک کي بہت سي مشکلات خصوصاً معنوي اور اخلاقي مشکلات اس مستحکم اور صحيح و سالم گھرانے کي برکت سے دور ہو جائيں گي يا سرے ہي سے وجود ميں نہيں آئيں گي۔ يہ بندھن اور ملاپ اور زندگي کا نيا روپ دراصل خداوند عالم کي بڑي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور اُس کے اسرارِ خلقت ميں سے يک سرّ ہے۔ اسي طرح معاشروں کي صحت و سلامتي اور اصلاح و بہتري نيز ان کے بقا اور دوام کا دارو مدار اسي ازدواجي زندگي پر ہے۔اگر ايک گھرانہ صحيح صورت ميں تشکيل پائے اور منطقي، عقلي اور اخلاقي اصول دونوں مياں بيوي پر حاکم ہوں اور وہ گھر، خدا او ر شريعت مقدسہ کے معيّن شدہ اصولوں کے مطابق چلے تو يہ گھرانہ اصلاح معاشرہ کي بنياد قرار پائے گا نيز اس معاشرے کے تمام افراد کي سعادت کي بنياد بھي يہي گھر بنے گا۔گھر کو بسانا دراصل انسان کي ايک اجتماعي ضرورت ہے۔ چنانچہ اگر کسي معاشرے ميں ”گھرانے‘‘ صحيح و سالم اور مستحکم ہوں، حالاتِ زمانہ ان کے پائے ثبات ميں لغزش پيدا نہ کريں اور وہ مختلف قسم کي اجتماعي آفات سے محفوظ ہوں تو ايسا معاشرہ اچھي طرح اصلاح پا سکتا ہے، اس کے باشندے فکري رشد پا سکتے ہيں، وہ روحاني لحاظ سے مکمل طور پر صحيح و سالم ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ نفسياتي بيماريوں سے بھي دور ہوں۔
اچھے گھرانے سے محروم معاشرہ نفسياتي بيماريوں کا مرکز ہےاچھے گھرانوں سے محروم معاشرہ ايک پريشان، غير مطمئن اور زبوں حالي کا شکار معاشرہ ہے اور ايک ايسا معاشرہ ہے کہ جس ميں ثقافتي، فکري اور عقائدي ورثہ آنے والي نسلوں تک با آساني منتقل نہيں ہوسکتا۔ ايسے معاشرے ميں انساني تربيت کے بلند مقاصد آساني سے حاصل نہيں ہو پاتے يا اس ميں صحيح و سالم گھرانوں کا فقدان ہوتا ہے يا ان کي بنياديں متزلزل ہوتي ہيں۔ ايسے معاشروں ميں انسان اچھے تربيتي مراکز اور پرورش گاہوں ميں بھي اچھي پرورش نہيں پا سکتے۔صحيح و سالم گھرانے کا فقدان اس بات کا سبب بنتا ہے کہ نہ اس ميں بچے صحيح پرورش پاتے ہيں، نہ نوجوان اپني صحيح شخصيت تک پہنچ سکتے ہيں اور انسان بھي ايسے گھرانوں ميں کامل نہيں بنتے۔ جب کہ اس گھر سے تعلق رکھنے والے مياں بيوي بھي صالح اور نيک نہيں ہوں گے، اس گھر ميں اخلاقيات کا بھي فقدان ہو گا اور گذشتہ نسل کے اچھے اور قيمتي تجربات بھي اگلي نسلوں تک منتقل نہيں ہو سکتے ہيں۔ جب ايک معاشرے ميں اچھا گھرانہ موجود نہ ہو تو جان ليجئے کہ اس معاشرے ميں ايمان اور دينداري کو وجود ميں لانے والا کوئي مرکز موجود نہيں ہے۔ايسے معاشرے کہ جن ميں گھرانوں کي بنياديں کمزور ہيں يا جن ميں اچھے گھرانے سرے ہي سے وجود نہيں رکھتے يا کم ہيں يا اگر ہيں تو ان کي بنياديں متزلزل ہيں تو وہ فنا اور نابودي کے دھانے پر کھڑے ہيں۔ ايسے معاشروں ميں نفسياتي الجھنوں اور بيماريوں کے اعداد و شمار ان معاشروں سے زيادہ ہيں کہ جن ميں اچھے اور مستحکم گھرانے موجود ہيںاور مرد و عورت گھرانے جيسے ايک مظبوط مرکز سے متصل ہيں۔
غير محفوظ نسليںانساني معاشرے ميں گھرانہ بہت اہميت اور قدر و قيمت کا حامل ہے۔ آنے والي نسلوں کي تربيت اور معنوي، فکري اور نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم انسانوں کي پرورش کے لئے گھرانے کے فوائد تک نہ کوئي پہنچ سکتا ہے اور تعليم و تربيت کے ميدان ميں نہ ہي کوئي چيز بھي گھر و گھرانے کي جگہ لے سکتي ہے۔ جب خانداني نظامِ زندگي بہتر انداز ميں موجود ہو تو ان کروڑوں انسانوں ميں سے ہر ايک کے لئے ديکھ بھال کرنے والے (والدين جيسے دو شفيق وجود) ہميشہ ان کے ہمراہ ہوں گے کہ جن کا کوئي بھي نعم البدل نہيں ہوسکتا۔”گھرانہ‘‘ ايک امن و امان کي داوي محبت اور پُر فضا ماحول کا نام ہے کہ جس ميں بچے اور والدين اس پر امن ماحول اور قابل اعتماد فضا ميں اپني روحي، فکري اور ذہني صلاحيتوں کو بہتر انداز ميں محفوظ رکھتے ہوئے ان کي پرورش اور رُشد کا انتظام کر سکتے ہيں۔ ليکن جب خانداني نظام ہي کي بنياديں کمزورپڑ جائيں تو آنے والي نسليں غير محفوظ ہو جاتي ہيں۔انسان، تربيت، ہدايت اور کمال و ترقي کے لئے خلق کيا گيا ہے اور يہ سب اہداف صرف ايک پر امن ماحول ميں ہي حاصل کئے جا سکتے ہيں۔ ايسا ماحول کہ جس کي فضا کو کوئي نفسياتي الجھن آلودہ نہ کرے اور ايسا ماحول کہ جس ميں انساني صلاحيتيں اپنے کمال تک پہنچيں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے ايسے ماحول کا وجود لازمي ہے کہ جس ميں تعليمات ايک نسل کے بعد دوسري نسل ميں منعکس ہوں اور ايک انسان اپنے بچپنے سے ہي صحيح تعليم، مددگار نفسياتي ماحول اور دو فطري معلّموں يعني والدين کے زير سايہ تربيت پائے جو عالَمِ دنيا کے تمام انسانوں سے زيادہ اس پر مہربان ہيں۔اگر معاشرے ميں صحيح خانداني نظام رائج نہ ہو تو انساني تربيت کے تمام اقدامات ناکام ہو جائيں گے اور اس کي تمام روحاني ضرورتوں کو مثبت جواب نہيں ملے گا۔ يہي وجہ ہے کہ انساني تخليق اور فطرت ايسي ہے کہ جو اچھے گھرانے، صحيح و کامل خانداني نظام کے پُر فضا اور محبت آميز ماحول اور والدين کي شفقت و محبت کے بغير صحيح و کامل تربيت، بے عيب پرورش اور نفسياتي الجھنوں سے دور اپني لازمي روحاني نشو و نما تک نہيں پہنچ سکتي ہے۔ انسان اپني باطني صلاحيتوں اور اپنے احساسات و جذبات کے لحاظ سے اسي وقت کامل ہو سکتا ہے کہ جب وہ ايک مکمل اور اچھے گھرانے ميں تربيت پائے۔ ايک مناسب اور اچھے نظام زندگي کے تحت چلنے والے گھر ميں پرورش پانے والے بچوں کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم اور ہمدردي اور مہرباني کے جذبات ١ سے سرشار ہوں گے۔ايک گھرانے ميں تين قسم کے انسانوں کي اصلاح ہوتي ہے۔ ايک مرد ہيں جو اس گھر کے سرپرست يا والدين ہيں، دوسرے درجے پر خواتين کہ جو ماوں کا کردار ادا کرتي ہيں اور تيسرے مرحلے پر اولاد کہ جو اس معاشرے کي آنے والي نسل ہے۔
اچھے گھرانے کي خوبياںايک اچھا گھرانہ يعني ايک دوسرے کي نسبت اچھے، مہربان، پُر خلوص جذبات و احساسات کے مالک اور ايک دوسرے سے عشق و محبت کرنے والے مياں بيوي جو کہ ايک دوسرے کي جسماني اور روحاني حالت کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق ايک دوسرے کي مدد کريں، ايک دوسرے کي فعاليت، کام کاج اور ضرورتوں کو اہميت ديں اور ايک دوسرے کے آرام و سکون اور بہتري و بھلائي کو مدّنظر رکھيں۔ يہ سب پہلے درجے پر ہيں۔١ ماہرين نفسيات اس بات کے قائل ہيں اور ہماري احاديث و روايات بھي اس مطلب پر تاکيد کرتي ہيں کہ گھر ميں والدين کا اپني اولاد سے ہمدردي، محبت، شفقت اور مہرباني و پيار سے پيش آنا بچوں کي تربيت اور ان کي نشو و نما ميں بہت زيادہ موثر ہے۔ والدين کا خشک رويہ بچوں سے مہرباني، ہمدردي، اور پيار و محبت کو سلب کر لے گا اور وہ بچے سخت مزاج، ناقص اور نا ہموار طبيعت کے مالک ہوں گے۔ (مترجم)دوسرے درجے پر اس گھرانے ميں پرورش پانے والي اولاد ہے کہ جس کي تربيت کے لئے وہ احساس ذمّہ داري کريں اور مادي اور معنوي لحاظ سے انہيں صحيح و سالم پرورش کا ماحول فراہم کريں۔ ان کي خواہش يہ ہوني چاہيے کہ ان کے بچے مادي اور معنوي لحاظ سے سلامتي اور بہتري تک پہنچیں، انہيں بہترين تعليم و تربيت ديں، انہيں مودّب بنائيں، اچھے طريقوں سے اپني اولاد کو برے کاموں کي طرف قدم بڑھانے سے روکيں اور بہترين صفات سے ان کي روح کو مزيّن کريں۔ ايک ايسا گھر دراصل ايک ملک ميں ہونے والي تمام حقيقي اصلاحات کي بنياد فراہم کر سکتا ہے۔ چونکہ ايسے گھرانوں ميں اچھے انسان ہي اچھي تربيت پاتے ہيں اور بہترين صفات کے مالک ہوتے ہيں۔ جب کوئي معاشرہ شجاعت، عقلي استقلال، فکري آزادي، احساس ذمہ داري، پيار و محبت، جرآت و بہادري، وقت پر صحيح فيصلہ کرنے کي صلاحيت، دوسروں کي خير خواہي اور اپني خانداني پاکيزگي و نجابت کے ساتھ پرورش پانے والے لوگوں کا حامل ہو گا تو وہ کبھي بد بختي و روسياہي کے شکل نہيں ديکھے گا۔
اچھے خانداني نظام ميں ثقافت کي منتقلي کي آسانيايک معاشرے ميں اس کي تہذيب و تمدّن اور ثقافت کے اصولوں کي حفاظت اور آئندہ آنے والي نسلوں تک ان کي منتقلي اچھے گھرانے يا بہترين خانداني نظام کي برکت ہي سے انجام پاتي ہے۔رشتہ ازدواج ميں نوجوان لڑکے لڑکي کے منسلک ہونے کا سب سے بہترين فائدہ ”گھر بسانا‘‘ ہے۔ اس کا سبب بھي يہي ہے کہ اگر ايک معاشرہ اچھے گھرانوں، خانداني افراد اور بہترين نظام تربيت پر مشتمل ہو تو وہ بہترين معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق ہے اور وہ اپني تاريخي اور ثقافتي خزانوں اورورثہ کو بخوبي احسن اگلي نسلوںں تک منتقل کرے گا اور ايسے معاشرے ميں بچے بھي صحيح تربيت پائيں گے۔ چنانچہ وہ ممالک اور معاشرے کہ جن ميں خانداني نظام مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو وہاں ثقافتي اور اخلاقي مسائل پيش آتے ہيں۔اگر موجودہ نسل اس بات کي خواہش مند ہے کہ وہ اپنے ذہني اور فکري ارتقائ، تجربات اور نتائج کو آنے والي نسلوں کو منتقل کرے اور ايک معاشرہ اپنے ماضي اور تاريخ سے صحيح معنيٰ ميں فائدہ حاصل کرے تو يہ صرف اچھے گھرانوں يا اچھے خانداني نظام زندگي کے ذريعے ہي ممکن ہے۔ گھر کي اچھي فضا ميں اس معاشرے کي ثقافتي اور تاريخي بنيادوں پر ايک انسان اپنے تشخص کو پاتا ہے اور اپني شخصيت کي تعمير کرتا ہے۔ يہ والدين ہي ہيں کہ جو غير مستقيم طور پر بغير کسي جبر اور تصنّع (بناوٹ) کے فطري اور طبيعي طور پر اپنے فکري مطالب، عمل، معلومات، عقائد اور تمام مقدس امور کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرتے ہيں۔
خوشحال گھرانہ اور مطمئن افراداسلام ”گھرانے‘‘ پر مکمل توجہ ديتاہے اور گھرانے پر اس کي نظر خاص الخاص اہتمام کے ساتھ جمي ہوئي ہيں کہ جس کي وجہ سے خانداني نظام يا گھرانے کو انساني حيات ميں مرکزيت حاصل ہے۔ اسي لئے اس کي بنيادوں کو کمزور يا کھوکھلا کرنے کو بدترين فعل قرار ديا گيا ہے۔اسلام ميں گھرانے کا مفہوم يعني ايک چھت کے نيچے دو انسانوں کي سکونت، دو مختلف مزاجوں کا بہترين اور تصوراتي روحاني ماحول ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا، دو انسانوں کے انس و الفت کي قرار گاہ اور ايک انسان کے ذريعے دوسرے انسان کے کمال اور معنوي ترقي کا مرکز، يعني وہ جگہ کہ جہاں انسان پاکيزگي حاصل کرے اور اسے روحاني سکون نصيب ہو۔ يہ ہے اسلام کي نگاہ ميں خوشحال گھرانہ اور اسي ليے اسلام اس مرکز ”گھرانے‘‘ کو اس قدر اہميت ديتا ہے۔قرآن کے بيان کے مطابق اسلام نے مرد و عورت کي تخليق، ان کے ايک ساتھ زندگي گزارنے اور ايک دوسرے کا شريکِ حيات بننے کو مياں بيوي کے لئے ايک دوسرے کے آرام و سکون کا باعث قرار ديا ہے۔قرآن ميں ارشاد ِ خداوندي ہے کہ ”وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا لِيَسْکُنَ اِلَيْھَا‘‘ ١———-١ سورہ اعراف ١٨٩جہاں تک مجھے ياد ہے قرآن ميں دو مرتبہ ”سکون‘‘ کي تعبير آئي ہے ١خداوند عالم نے انساني جوڑے کو اس کي جنس (انسانيت) سے ہي قرار ديا ہے يعني عورت کا جوڑا مرد اور مرد کا جوڑا عورت کو قرار ديا ہے تا کہ ”لِيَسْکُنَ اِلَيْھَا‘‘ يعني يہ انسان خواہ مرد ہو يا عورت، اپنے مياں يا بيوي سے آرام و سکون حاصل کرے۔يہ آرام و سکون دراصل باطني اضطراب کي زندگي کے پُر تلاطم دريا سے نجات و سکون پانے سے عبارت ہے۔ زندگي ايک قسم کا ميدان جنگ ہے اور انسان اس ميں ہميشہ ايک قسم کے اضطراب و پريشاني ميں مبتلا رہتا ہے لہٰذا يہ سکون بہت اہميت کا حامل ہے۔ اگر يہ آرام و سکون انسان کو صحيح طور پر حاصل ہو تو اس کي زندگي سعادت و خوش بختي کو پا لے گي، مياں بيوي دونوں خوش بخت ہو جائيں گے، اور اس گھر ميں پيدا ہونے والے بچے بھي بغير کسي نفسياتي دباو اور الجھن کے پرورش پائيں گے اور خوش بختي ان کے قدم چومے گي ۔ صرف مياں بيوي کے باہمي تعاون، اچھے اخلاق و کردار اور پُرسکون ماحول سے اس گھرانے کے ہر فرد کے لئے سعادت و خوش بختي کي زمين ہموار ہو جائے گي۔
زندگي کي کڑي دھوپ ميں ايک ٹھنڈي چھاوںجب مياں بيوي دن کے اختتام پر يا درميان ميں ايک دوسرے سے ملاقات کرتے ہيں تو دونوں ايک دوسرے سے يہي اميد رکھتے ہيں کہ انہوں نے گھر کے ماحول کو خوش رکھنے، اسے زندہ بنانے اور تھکاوٹ اور ذہني الجھنوں کو دور کر کے اسے زندگي گزارنے کے قابل بنانے ميں اپنا اپنا کردار موثر طريقے سے ادا کيا ہوگا۔ ان کي ايک دوسرے سے توقع بالکل بجا ہے۔ اگر آپ بھي يہ کام کر سکيں تو حتماً انجام ديں کيونکہ اس سے زندگي شيريں اور ميٹھي ہوتي ہے۔انسان کي زندگي ميں مختلف ناگزير حالات و واقعات کي وجہ سے طوفان اٹھتے ہيں جس ميں وہ ايک مضبوط پناہ گاہ کا متلاشي ہوتا ہے۔ مياں بيوي کا جوڑا اس طوفان ميں ايک دوسرے کي پناہ ليتا ہے۔ عورت اپنے شوہر کے مضبوط بازوں کا سہارا لے کر اپنے محفوظ ہونے کا احساس کرتي ہے اور مرد اپني بيوي کي چاہت و فدا کاري کي ٹھنڈي چھاوں ميں سکھ کا سانس ليتا ہے۔ مرد اپني مردانہ کشمکش والي زندگي ميں ايک ٹھنڈي چھاوں کا ضرورت مند ہے تا کہ وہاں کي گھني چھاوں ميں تازہ دم ہو کر دوبارہ اپنا سفر شروع کرے۔ يہ ٹھنڈي چھاوں اسے کب اور کہاں نصيب ہو گي؟ اس وقت کہ جب وہ اپنے گھر کي عشق و الفت، مہرباني اور محبت سے سرشار فضا ميں قدم رکھے گا، جب وہ اپني شريکہ حيات کے تبسّم کو ديکھے گا کہ جو ہميشہ اس سے عشق و محبت کرتي ہے، زندگي کے ہر اچھے و بُرے وقت ميں اس کے ساتھ ساتھ ہے، زندگي کے ہر مشکل لمحے ميں اس کے حوصلوں ميں پختگي عطا کرتي ہے اور اسے ايک جان دو قالب ہونے کا احساس دلاتي ہے۔ يہ ہے زندگي کي ٹھنڈي چھاوں۔———١ ومِن آياتہ آن خلق لکم من آنفسکم آزواجاً لتسکنوا اِليھا (سورہ روم ٢١)بيوي بھي اپني روز مرہ کي ہزاروں جھميلوں والي زنانہ زندگي ميں (صبح ناشتے کي تياري، بچوں کو اسکول کے لئے تيار کرنا، گھر کو سميٹنا اور صفائي، دوپہر کے کھانے کي تياري، بچوں کي اسکول سے آمد اور دوپہر کا کھانا کھلانا، سلانا، نماز، شام کي چائے، شوہر کي آمد اور رات کے کھانے کي فکر جيسي ديگر) دسيوں مشکلات اور اور مسائل کا سامنا کرتي ہے، خواہ وہ گھر سے باہر کام ميں مصروف ہو اور مختلف قسم کي اجتماعي اور سياسي فعاليت کو انجام دے رہي ہو يا گھر کي چار ديواري ميں گھريلو کام کاج ميں عرقِ جبيں بہا رہي ہو کہ اس کے اندرون ِ خانہ کام کي زحمت و سختي اور اہميت گھر سے باہر اُس کي فعاليت سے کسي بھي طرح کم نہيں ہے۔ ايک صنف ِ نسواں اپني لطيف و ظريف روح کے ساتھ جب ان مشکلات کا سامنا کرتي ہے تو اسے پہلے سے زيادہ آرام و سکون اور ايک مطمئن شخص پر اعتماد اور تکيہ کرنے کي ضرورت ہوتي ہے۔ ايسا شخص کون ہے؟ وہ اس کے وفادار شوہر کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ !
انسان مشين تو نہيں ہے !انسان کوئي گاڑي يا مشين تو نہيں ہے، انسان روح (اور جسم) سے مرکب ہے، وہ معنويت کا طالب، ہے، وہ ہمدردي و مہرباني اور ايثار و فدا کاري کے جذبات و احساسات کا نام ہے اور وہ زندگي کي کڑي دھوپ ميں آرام و سکون کا متلاشي ہے اور آرام و سکون صرف گھر کي فضا ميں ہي اسے ميسر آ سکتا ہے۔گھر کے ماحول کو آرام دہ ماحول ہونا چاہيے۔ مياں بيوي ميں ايک دوسرے کے لئے موجود ہمدردي اور ايثار و محبت کے يہ احساسات ان کے اندروني سکون ميں اُن کے مددگار ثابت ہوتے ہيں۔ اس آرام و سکون کا ہرگز يہ مطلب نہيں ہے کہ انسان اپنے کام کاج کو متوقف اور فعاليت کو ترک کر دے، کام کاج اور فعاليت بہت اچھي اور ضروري ہے۔ اس آرام و سکون کا تعلق دراصل زندگي کي مشکلات و مسائل سے ہے۔ انسان کبھي کبھي اپني زندگي ميں پريشان ہو جاتا ہے تو اس کي بيوي اسے سکون ديتي ہے اور مرد اپنے مضبوط بازوں سے بيوي کے وجود کو سنبھالتا اور اسے سہارا ديتا ہے تا کہ اسے آرام مل جائے۔ يہ سب اسي صورت ميں ممکن ہے کہ جب گھر کي فضا اور ماحول آپس کي چپقلش، لڑائي جھگڑوں، باہمي نا اتفاقي اور مشکلات کا شکار نہ ہو۔
اچھے گھر کا پر سکون ماحولہر انسان کو خواہ مرد ہو يا عورت، اپني پوري زندگي ميں شب و روز مختلف پريشانيوں اور مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور غير متوقع حالات و واقعات سے اس کي زندگي اضطراب کا شکار رہتي ہے۔ يہ حادثات و واقعات انسان کو اعصابي طور پر کمزور، خستہ تن اور اس کي روح کو بوجھل اور طبيعت و مزاج کو چڑ چڑا بنا ديتے ہيں۔ ايسي حالت ميں جب انسان ايک گھر کي خوشگوار فضا ميں قدم رکھتا ہے تو اس کا روح افزا ماحول اور سکون عطا کرنے والي نسيم اسے توانائي بخشتي ہے اور اسے ايک نئے دن و رات اور خدمت و فعاليت انجام دينے کے لئے آمادہ و تيار کرتي ہے۔ اسي لئے خانداني نظام زندگي يا گھرانہ، انساني حيات کي تنظيم ميں بہت کليدي کردار ادا کرتا ہے۔ البتہ يہ بات پيش نظر رہے کہ گھر کو صحيح روش اور اچھے طريقے سے چلانا چاہيے۔ايک پُر سکون گھرانے سے مياں بيوي کو حاصل ہونے والے فائدے، گھر کي چار ديواري سے باہر ان کے ديگر فوائد کے اعداد و شمار کو زيادہ کرتے اور انہيں قدر و قيمت اور کيفيت عطا کرتے ہيں۔ رشتہ ازدواج کے بندھن ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا اور گھر بسانا مياں بيوي کے لئے زندگي کا بہترين ہديہ ہے۔ يہ روحاني آرام و سکون، زندگي کي مشترکہ جدوجہد کے لئے ايک دوسرے کو دلگرمي دينے، اپنے لئے نزديک ترين غمخوار ڈھونڈنے اور ايک دوسرے کي ڈھارس باندھنے کا ايک وسيلہ ہے کہ جو انسان کي پوري زندگي کے لئے بہت ضروري ہے۔
گھريلو فضا ميں خود کو تازہ دم کرنے کي فرصتايک گھر ميں رہنے والے مياں بيوي جو ايک دوسرے کي زندگي ميں شريک اور معاون ہيں، گھر کے پُر فضا ماحول ميں ايک دوسرے کي خستگي، تھکاوٹ اور اکتانے والي يکسانيت کو دور کر کے کھوئي ہوئي جسماني اور ذہني قوتوں کو بحال اور اپني ہمت کو تارہ دم کر کے خود کو زندگي کي بقيہ راہ کو طے کرنے کے لئے آمادہ کر سکتے ہيں۔ آپ جانتے ہيں کہ زندگي ايک ميدان جنگ ہے، پوري زندگي عبارت ہے ايک بڑي مدت والي جنگ سے، فطري و طبيعي عوامل سے جنگ، اجتماعي موانع سے جنگ اور انسان کي اپني اندروني دنيا سے جنگ کہ جسے جہاد نفس کہا گيا ہے لہٰذا انسان ہر وقت حالت جنگ ميں ہے۔ انسان کا بدن بھي ہر وقت جنگ ميں ہے اور وہ ہميشہ مضرّ عوامل سے لڑائي ميں مصروف عمل ہے اور جب تک بدن ميں اس لڑائي کي قدرت اور قوت مدافعت موجود ہے آپ کا جسم صحيح و سالم ہے۔ ضروري بات يہ ہے کہ انسان ميں يہ مبارزہ اور جنگ درست سمت ميں اپني صحيح، منطقي اور اچھي روش و طريقے اور صحيح عوامل کے ساتھ انجام پاني چاہيے۔زندگي کي اس جنگ ميں کبھي استراحت و آرام لازمي ہوتا ہے۔ زندگي ايک سفر اور مسلسل حرکت کا نام ہے اور اس طولاني سفر ميں انسان کي استراحت گاہ اس کا گھر ہے۔
مشترکہ زندگي کي قرارداد کا احترام کرناگھر بسانا اور گھر آباد کرنا ايک قرارداد اور معاہدہ ہے۔ يہ کوئي ايسا معمولي کام نہيں ہے کہ دو چيزوں کو آپس ميں ملا ديں اور انہيں ان کے حال پر چھوڑ ديں، نہيں ! يہ ايک ايسا معاہدہ ہے جو سب کے لئے مورد اطمينان ہے اور تمام افراد کے لئے قابل اعتماد عہد و پيمان ہے۔ اس کي بقا اسي صورت ميں ممکن ہے کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے دونوں افراد، ان کا معاشرہ اور قانون اس کا احترام کرے ليکن اگر اس سے بے اعتنائي برتي جائے تو يہ معاہدہ باقي نہيں رہے گا۔
خانداني نظام زندگي ميں جنسي خواہش کي اہميتاسلام نے انسان کي جنسي خواہش کو گھرانے کي تشکيل کي بنياد قرار ديا ہے يعني اسے ايک اچھے گھرانے کے استحکام کا وسيلہ بنايا ہے۔ اسي بات کو اس طرح بھي بيان کيا جا سکتا ہے کہ جب مياں بيوي دونوں پاکدامن، عفيف، ديندار، خدا سے ڈرنے والے اور اسلام کے دستور کے مطابق اپني شہوت و جنسي خواہشات ميں گناہوں سے دوري اختيار کرنے والے ہوں تو اس وقت مياں بيوي کي ايک دوسرے کے ليے ضرورت زيادہ بڑھ جائے گي اور جب وہ ايک دوسرے کي زيادہ ضرورت محسوس کريں گے تو اس خاندان کي بنياديں کہ جو مياں بيوي ہيں، پہلے سے اور زيادہ مستحکم ہو جائيں گي۔اسلام يہ چاہتا ہے کہ خاندان کي اس بنياد و اساس کو ختم نہ ہونے دے۔ اسلام کي خواہش ہے کہ انسان اپنے گھرانے سے باہر کہيں اور اپني جنسي خواہش کي سيرابي کا انتظام نہ کريں کہ کہيں ايسا نہ ہو کہ اپنے گھر والوں کي نسبت بے اعتنا، لا ابالي اور بے بند و بار ہو جائيں۔ اسي لئے اسلام ان انحرافات کا راستہ روکتا ہے۔
دينداري، خاندان کي حقيقي صورتاپنے گھر کو آباد کرنے اور اس کي حفاظت کے لئے اسلامي احکام کا خيال رکھنا ضروري ہے تا کہ يہ گھر ہميشہ آباد اور خوشحال رہے۔ لہٰذا آپ، ديندار گھرانوں ميں کہ جہاں مياں بيوي اسلامي احکامات کا خيال رکھتے ہيں، ديکھيں گے کہ وہ سالہا سال مل جل کر زندگي بسر کرتے ہيں اور مياں بيوي کي محبت ايک دوسرے کے لئے ہميشہ باقي رہتي ہے، ہرگزرنے والا دن ان کي چاہت ميں اضافہ کرتا ہے، ايک دوسرے سے جدائي اور فراق کا تصور بھي دونوں کے لئے مشکل ہو جاتا ہے اور ان کے دل ايک دوسرے کي محبت سے سرشار ہوتے ہيں۔ يہ ہے وہ محبت و چاہت جو کسي خاندان کو دوام بخشتي ہے اور يہي وجہ ہے کہ اسلام نے ان تمام چيزوں کو اہميت دي ہے۔اگر اسلام کے بتائے ہوئے طريقے اور روش پر عمل کيا جائے تو ہمارا خانداني نظام پہلے سے زيادہ مستحکم ہو جائے گا جس طرح گذشتہ زمانے ميں– طاغوتي دور حکومت ميں–جب لوگوں کا ايمان سالم اور محفوظ تھا اور ہمارے گھرانے اور خانداني نظام مستحکم و مضبوط تھے، اس ماحول ميں مياں بيوي ايک دوسرے سے پيار کرنے والے تھے اور پر سکون ماحول ميں اپني اولاد کي تربيت کرتے تھے اور آج بھي يہي صورتحال ہے۔ وہ گھرانے اور خاندان جو اسلامي احکامات اور آداب کا خيال رکھتے ہيں وہ غالباً دوسروں کي بہ نسبت مضبوط و مستحکم اور بہتر گھرانے ہوتے ہيں اور وہ اپنے بچوں کو پر سکون ماحول فراہم کرتے ہيں۔
گھر کي حفاظت ميں مياں بيوي کا کردارزندگي کے اس نئے سفر کا آغاز کرنے والے لڑکے اور لڑکي کو چاہيے کہ اپنے اس عہد و پيمان کي حفاظت کريں۔ ان ميں سے کسي ايک کي بھي يہ ذمہ داري نہيں ہے کہ اگر ان دونوں ميں سے کوئي ايک بھي کوئي بھي کام انجام دے تو دوسرا اسے برداشت کرے، نہيں۔ بلکہ دونوں کو چاہيے کہ ايک دوسرے کي مدد کريں تا کہ وہ کام انجام پائے۔ ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ اس مشترکہ زندگي ميں شوہر کي زيادہ ذمہ داري ہے يا بيوي کے حصے کا کام زيادہ ہے، نہيں ! بلکہ اس گھر کي بنياد اور دو انسانوں کے اس اجتماع کي کہ جس کي تعداد ميں بتدريج اضافہ ہو گا، حفاظت کرنا دونوں کي ذمہ داري ہے۔آپ کو چاہيے کہ گھر کے ماحول کو افسردہ، خراب، حد سے زيادہ جذباتي اور اس کي بنيادوں کو متزلزل کرنے والي تمام چيزوں سے اجتناب کريں۔ مياں بيوي دونوں کو چاہيے کہ اپنے تمام کاموں کي بنياد مشترکہ جدوجہد، تعاون اور ايک دوسرے کا ساتھ دينا قرار ديں۔ ايک اچھے گھرانے کي تمام خير و برکت مياں بيوي کے کردار و عمل سے وابستہ ہوتي ہے جو آخر کار انہي کے بچوں کو نصيب ہو گي۔ يہ کوئي ايسي چيز نہيں ہے کہ جس ميں کسي ايک کا عمل کافي سمجھا جائے (اور دوسرا ہاتھ پر ہاتھ رکھے بيٹھا رہے يا خاموش رہے)۔خدانخواستہ اگر گھر کا ماحول ايک دوسرے کي نسبت عدم محبت و عدم اطمينان اور خلوص و فدا کاري کے فقدان سے خراب ہو جائے تو گلستانِ حيات ميں لگنے والي آگ کا دھواں مياں بيوي دونوں کي آنکھوں ميں جائے گا۔اپنے گھر کي بنيادوں کي حفاظت کي سب سے بڑي ذمہ داري خود مياں بيوي پر عائد ہوتي ہے۔ درگذشت، عفو،باہمي مدد و تعاون، مہرباني اور اپنے اخلاق و محبت سے کہ ان ميں سب سے زيادہ موثر محبت کا عنصر ہے، دونوں اس عمارت کو ہميشہ کے لئے قائم اور شاد و آباد رکھ سکتے ہيں۔
اسلامي معاشرے ميں اچھے خاندان کي صفاتاسلامي معاشرے ميں مياں بيوي زندگي کے سفر ميں ايک ساتھ، ايک دوسرے سے متعلق، ايک دوسرے کي نسبت ذمہ دار، اپني اولاد کي تربيت اور اپنے گھرانے کي حفاظت کے لئے مسؤل اور جوابدہ تصور کئے جاتے ہيں۔ آپ ملاحظہ کيجئے کہ اسلام ميں گھرانے اور خاندان کي اہميت کتني زيادہ ہے!اسلامي ماحول ميں خاندان کي بنياديں اتني مضبوط و مستحکم ہيں کہ کبھي آپ ديکھتے ہيں کہ ايک ہي گھر ميں دو نسليں زندگي گزار ديتي ہيں اور دادا، باپ اور بيٹا (پوتا) باہم مل کر ايک جگہ زندگي گزارتے ہيں۔ يہ کتني قيمتي بات ہے۔ نہ ان کے دل ايک دوسرے سے بھرتے ہيں اور نہ يہ ايک دوسرے کي نسبت بدگمان و بد بين ہوتے ہيں بلکہ ايک دوسرے کي مدد کرتے ہيں۔اسلامي معاشرے ميں يعني ديندار اور مذہبي فضا ميں ہم مشاہدہ کرتے ہيں کہ دو آدمي ايک طويل عرصے تک باہم زندگي بسر کرتے ہيں اور ايک دوسرے سے بالکل نہيں اکتاتے بلکہ ايک دوسرے کے ليے ان کي محبت و خلوص زيادہ ہو جاتا ہے اور ايک دوسرے کے لئے ان کي الفت، انس اور چاہت ميں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور يہ سب آثار، دينداري، مذہبي ہونے اور خداوند عالم کے بتائے ہوئے احکام و آداب ِ اسلامي کي رعايت کرنے کا ہي نتيجہ ہيں۔اسلام اور اسلامي ثقافت و تمدّن ميں خاندان کو دوام حاصل ہے۔ گھر ميں دادا، دادي اور ماں باپ سبھي تو موجود ہيں جو اپنے پوتے پوتيوں کو اپنے ہاتھوں پر جوان کرتے ہيں۔ يہي لوگ ہيں کہ جو آداب و رسوم کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرتے ہيں اور پچھلي نسل اپني تاريخي اور ثقافتي ورثے آنے والي نسل کے ہاتھوں ميں با حفاظت تھماتي ہے۔ ايسے ماحول ميں ايک دوسرے سے کٹ کر رہنے، تنہائي اور عُزلت نشيني اختيار کرنے اور مہرباني و محبت سے عاري سلوک روا رکھنے کے تمام دروازے اس گھر کے تمام افراد کے لئے بند ہيں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.