دعا کے آداب اور اس کی شرطيں (حصہ دوم)
۵۔خداوند عالم کی طرف پوری قلبی توجہدعا قبول ہو نے کی سب سے اہم شرط یہی ہے بيشک دعا کی حقيقت یہی ہے کہ انسان اپنے دل کو خدا کے سامنے جهکا دے اگر انسان کا دل الله کے علاوہ دنيا کے مشاغل ميں سے کسی ایک کی طرف لگا ہوا ہو تو انسان دعا کی حقيقت کو محقق نہيں کرسکتا ہے ۔حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے: ( <انّ الله عزوجلّ لایقبل دعاءً بظہرقلب ساہٍ>( ١”بيشک خدا وند عالم بهلا دینے والے دل کی دعا قبول نہيں کرتا ” آپ کا ہی فرمان ہے 🙁 <فاذادعوت اٴقبِل بقلبک ثم استيقن الاجابة>( ٢”جب تم دعا کرو تو پہلے دل کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کرو پهر اس کے مستجاب ہو نے کا یقين کرو ” اور یہ بهی آ پ ہی کا فرمان ہے کہ (امير المو منين عليہ السلام )نے فرمایا : ( <لایقبل اللّٰہ عزّوجلّ دعاء قلب لاہٍ>( ٣”خدالہو ولعب ميں مشغول دل کی دعا قبول نہيں کرتا ہے ” حدیث قدسی ميں آیا ہے 🙁 <یاموسیٰ ادعني بالقلب النقي واللسان الصادق> ( ۴”اے مو سی مجه سے پاک وصاف دل اور سچی زبان سے دعا کرو ” رسول الله (ص)نے حضرت علی عليہ السلام سے وصيت ميں فرمایا :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)اصول کافی باب الاقبال علی الدعاء۔ )٢)اصول کافی باب الاقبال علی الدعاء حدیث ١۔ )٣)اصول کافی باب الاقبال علی الد عا ح ٢۔ )۴)بحارلاانو ار جلد ٩٣ صفحہ ٣۴ ۔ )<لایقبل اللّٰہّ دُعاء قلب ساہٍ>( ١)”الله سہوکر نے والے دل کی دعا قبول نہيں کر تا “سليمان بن عمر وسے مروی ہے کہ ميں نے امام جعفرصادق عليہ السلام کو یہ فرما تے سنا ہے:< انّ الله عزوجلّ لایستجيب دعاء بظہرقلب ساہ فاذا دعوت اٴقبِل بقلبک ثم ( استيقن الاجابة>( ٢”خدا وند عالم ظا ہری طور پر فراموش کار قلب کی دعا قبول نہيں کر تا ،پہلے دعا کو اپنے دل کے سامنے پيش کرو پهر اس کے قبول ہو نے کا یقين کرو ” اور یہ بهی امام جعفر صادق عليہ السلام کا فر مان ہے 🙁 <انّ اللّٰہ عزّوجلّ لَایستجيب دعاء بظہرقلب قاس >( ٣”بيشک خداوند عالم قسی القلب کی دعا قبول نہيں کرتا “دعا ميں الله کے سامنے اپنے دل کا جهکانا ضروری ہے اور اپنے کو الله کے حضور ميں پيش کرنا ہے لہوولعب ،سہو اور قساوت یہ تينوں چيزیں انسان کو الله کے سامنے دل جهکا نے سے روک دیتی ہيںہم ماثور ہ دعاؤں ميں پڑهتے ہيںکہ دعا کر نے والا خداکے سامنے دعا کی حالت ميں آئے اور ایسا نہ ہو کہ اس کے دل اور زبان الگ الگ چيزوں ميں مشغول ہو ں وہ زبان سے تو دعا کرر ہا ہو ليکن اس آدمی کا دل دنيا وی کا موں ميں مشغول ہو ۔ عارف فقيہ شيخ جودا ملکی تبریز ی اپنی کتاب (المراقبات )ميں تحریر کرتے ہيں :جان لو جب تک تمہاری روح اور تمہارا دل صفات دعا سے متصف نہ ہو اس وقت تک تمہاری دعا قبول نہيں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)من لا یحضرہ الفقيہ جلد ٢ صفحہ ٣٣٩ ۔ )١١٠۵ ،حدیث ٨٧٠۵ ۔ / ٢)وسائل الشيعہ جلد ۴ )١١٠۶ ،حدیث ٨٧٠٧ ۔ / ٣)وسائل الشيعہ جلد ۴ )اور صفات دعا سے متصف ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ دعا تمہار ے راز،روح اور دل سے جاری ہو،مثال کے طور پر جب تم یہ کہو “ارجوک لکل خير”ميں تجه سے ہرخير و اچهائی کی اميد رکهتا ہوں۔تو تم کو اپنے باطن،روح اور دل سے الله سے اميد کر نا چا ہئے اور ان ميں سے ہر ایک کے کچه آثار ہوتے ہيں اور ان آثار کا تمہارے اعمال سے اظہار ہونا چاہئے تو جس کے با طن اور حقيقت ميں آرزو محقق ہو جا ئے تو گویا وہ مجسم آرزو ہو جا ئے گا اور یہ جس کی روح ميں ہو تو گو یا اس کی زندگی آرزو کے ذریعہ ہوگی ،جو اپنے قلب کے ذریعہ آرزو مند ہو گا تو قصد و اختيار سے صادر ہو نے والے اس کے اعمال آرزو کے ہمراہ ہوں گے لہٰذا اس بات سے ڈرو کہ تمہارے معا ملات ميں کچه آرزو نہ پا ئی جا ئے اس کو اپنے اعمال ميں آزماؤ ۔یہ دیکهو کہ کيا تم کو اپنی حرکات ميں آرزو کا اثر یعنی طلب نظر آرہا ہے یا نہيں ؟کيا تم نے معصوم عليہ السلام کا قول نہيں سنا :”مَن رَجَاشَيئْاًطَلَبَہُ “”جو شخص کسی چيز کی آرزو رکهتا ہے اس کو طلب کرتا ہے “اور یہ حقيقت بهی ہے کيونکہ تم دنيوی امور ميں آرزو مند اہل دنيا کے حالات ميں اس مطلب کو دیکهو گے کہ جب وہ کسی شخص یا شئے سے کسی خير کی اميد کرتے ہيں تو وہ اپنی اميد کی مقدار بهر اس شخص سے اس کو طلب کرتے ہيں کيا آپ نہيں دیکهتے کہ تا جر اپنی تجارت سے جدا نہيں ہوتا ،ہنر مند اپنے ہنر سے چپکا رہتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تجارت اور پيشہ ميں بهلا ئی کی اميد کرتے ہيں اسی طرح ہر جماعت اپنی مراد کو اس چيز ميں تلاش کرتی ہے جس ميں ان کو اميد ہو تی ہے اور جب تک ان کو مل نہيں جاتا جدا نہيں ہو تے ،مگر جنت اور آخرت کا اميد وار اور فضل و کرامت الٰہی کا اميد وار ۔صفات کے یہ آثار ایسے نہيں ہيں جن کا خدا وند عالم نے حکم لگایا ہواور آپ روش الٰہی ميں کو ئی تبدیلی نہيں دیکهيں گے ليکن گڑ بڑی دعوے کی حقيقت سے مشتبہ ہونے ميں پيش آتی ہے ورنہ جب ذرّہ برابر اميد نظر آتی ہے تو اس کے پاس اتنی ہی طلب ہو تی ہے اور اسی طرح الیٰ آخر اس مطلب کو اخذ کر ليجئے ۔آرزو ہی کی طرح تسبيح ،تہليل،تحميد ،تضرع ،استکانت ،خوف ،استغفار اور تو بہ جيسے مطالب دعا ہيں کيونکہ ان ميں سے ہر ایک کی کچه حقيقتيں اور دعوے ہيں چنا نچہ حقيقت کا اثر تخلف پذیر نہيں ہوتا ہے ۔
۶۔دل پر خضوع اور رقت طاری کرناجب انسان اپنی دعا مستجاب کر انے کا ارادہ کر ے تو اس کےلئے قلب پر رقت طاری کرنا ضروری ہے اور انسان اپنے دل پر رقت طاری کر نے کی کو شش کر ے اس لئے کہ جب دل پر رقت طاری ہو جاتی ہے تو وہ صاف وشفاف ہو جاتاہے، الله اور اس بند ے کے درميان سے مانع ہو نے والی چيزیں ہٹ جاتی ہيں اور بند ہ الله سے قریب ہو جاتاہے ۔دعا اور سوال کر نے کے طریقوں ميں دل پر رقت طاری ہو ناموٴثر ہے اور روایات ميں دعا کر تے وقت اپنے کو اسکی بارگاہ ميں ذليل وخوار کر کے پيش کر نا وارد ہو اہے ۔ احمد بن فہدحلی نے کتاب (عدةالداعی )ميں نقل کيا ہے :<اَنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ عليہ وآلہ وسلم اذاابتہل ودعاکان کمایستطعم ( المسکين>( ١”جب رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم گریہ وزاری فر ماتے تهے تو آپ کی وہی حالت ہو تی تهی جو مسکين کی کهاناطلب کرتے وقت ہو تی ہے ” روایت کی گئی ہے کہ جب الله نے جناب مو سیٰ عليہ السلام پروحی نازل فرمائی : <اٴلق کفيک ذُلّابين یديّ کفعل العُبيدالمستصرخ الی سيّدہ،فاذا فعلت ( ذالک رحمت،واٴنااکرم الاٴکرمين القادرین>( ٢۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)عدة الداعی صفحہ / ١٣٩ ،والجالس للمفيد صفحہ/ ٢٢ ۔ )٢)عد ةالد اعی صفحہ / ١٣٩ ۔ )”مير ے سامنے تم اُس ذليل وخوار غلام کی طرح آؤ جو اپنے آقا کے سامنے بالکل ذليل وخوار ہو تا ہے اس لئے کہ جب وہ غلام ایسا کر تا ہے تو آقا اس پر رحم کر تا ہے اور ميں سب سے زیادہ اکر ام کرنے اور قدرت رکهنے والا ہوں ” محمد بن مسلم سے مروی ہے کہ امام محمد باقر عليہ السلام سے خداوند عالم کے اس فرمان 🙁 <فَمَااستَْکَانُواْ لِرَبِّهِم وَمَایَتَضَرَّعُونَْ >( ١”پس وہ اپنی سر کشی پر اڑے رہيں گے اور گمراہ ہی ہو تے جا ئيں گے “کے متعلق سوال کيا تو آپ نے فرمایا :<ساٴلت اباجعفرعليہ السلام عن قول اللّٰہ عزّوجلّ:<فَمَااستَْکَانُواْلِرَبِّهِم وَمَایَتَضَرَّعُونَْ>فقال عليہ السلام:الاستکانة هي الخضوع،والتضرع،هورفع اليدین والتضرع ( بهما> ( ٢” استکانت سے مراد خضوع اور تضرع سے مراد دونوں ہا تهوں کو بلند کر کے خدا کی بارگاہ ميں گڑگڑانا”دعا ميں اس طرح کے طریقوں کا مقصد لو گوں کےلئے واضح نہيں ہے ،شک کرنے والے لوگ، لو گوں کو دعا کے طریقوں ميں شک کر نے والا بناد یتے ہيں ۔ہم دونوں ہاتهوں کو آسمان کی طرف اڻها کر کيوں دعا کر یں ؟ کيا الله آسمان کی طرف ہے جو ہم آسمان کی طرف ہاتهوں کو بلند کریں؟ ائمہ اہل بيت عليہم السلام نے ان کےلئے یہ بيان فرمادیا ہے کہ الله ہر جگہ ہے ليکن دعا کے اس طریقہ کو ہم نے الله کے سامنے خضوع وخشوع کرنے سے اخذ کيا ہے اور یہ علامت ونشانی دل پررقت طاری ہو نے اور سختی کو دور کر نے اور الله کے سامنے خضوع وخشوع پيش آنے ميں موٴ ثر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)سورہ مومنون آیت / ٧۶ ۔ )٢)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ٣۴٨ ۔ )طبر سی نے کتاب احتجاج ميں اباقرہ سے نقل کيا ہے کہ ميں نے امام رضا عليہ السلام کی خدمت ميں عرض کيا :<مابالکم اذا دعوتم رفعتم ایدیکم الیٰ السماء؟قال ابوالحسن عليہ السلام: إِنّ اللّٰہ استعبدخلقہ بضروب من العبادة۔۔۔واستعبدخلقہ عندالدعاء والطلب والتضرع ببسط ( الایدي ورفعهاالیٰ السماء لحال الاستکانة،علامة العبودیةوالتذلل لہ>( ١”کيا وجہ ہے کہ آپ دعا کرتے وقت ہاتهوں کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہيں ؟ابو الحسن عليہ السلام نے فرمایا :خداوند عالم نے بندوں کو عبادت کے کئی طریقہ بتلائے ہيں اور اس نے اپنی مخلوق کو دعا ،تضرع اور طلب کر تے وقت ہاتهوں کوآسمان کی طرف بلند کرکے خشوع کی حالت کی تعليم دی ہے اور یہ خدا کی عبودیت اور خشوع وخضوع کی علامت ہے “رقت طاری ہو نے کے اوقات ميںرحمت نازل ہوتی ہے ۔انسان الله سے دعا کر تے وقت اس وقت کو غنيمت شمار کر ے اس لئے کہ ان اوقات ميں خداوند عالم کی بے حساب رحمت نازل ہو تی ہے ،نہ یہ کہ خدا کی رحمت نازل ہو نے کا کوئی وقت محدود اور مخصوص ہے بلکہ الله کی رحمت کے استقبال کر نے کا وقت محدود اور اس کی خاص حالت ہے اور وہ حالت رقت کا طاری ہو نا ہے جب انسان کے دل پر رقت طاری ہو تی ہے تو اس کےلئے رحمت کا استقبال کر نا ممکن ہے ۔ رسول الله (ص) سے مروی ہے 🙁 <اغتنمواالدعاء عند الرقة فإِنّها رحمة >( ٢”رقت طاری ہو نے کے وقت کو اپنے لئے غنيمت سمجهو اس لئے کہ یہ رحمت ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١١٠١ حدیث ٨۶٨٧ ۔ : ١)اصول کافی صفحہ ۵٢٢ ۔ وسائل اشيعہ جلد ۴ )٢)بحار الانوا ر جلد ٩٣ صفحہ ٣١٣ ۔ )ابو بصير حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کر تے ہيں کہ آپ نے فرمایا 🙁 <اذا رقّ احدکم فليدع؛فاِنّ القلب لایرقّ حتیٰ یخلص >( ١ “جب تم ميں سے کسی ایک پر رقت طاری ہو جا ئے تو اسے دعا کر نا چاہئے اس لئے کہ جب تک دل ميں اخلاص نہ ہو اس وقت تک اس پر رقت طاری نہيں ہو سکتی “امام جعفر صادق عليہ السلام فر ماتے ہيں : ( <اذااقشعرّجلدک ودمعت عيناک،فدونک دونک فقد قصد قصدک >( ٢”جب تمہاری جلد کے رونگڻے کهڑے ہو جا ئيں اور تمہاری آنکهوں سے آنسو جاری ہو جا ئيں تو اس حالت کو ضرور غنيمت سمجهو کيونکہ تمہاری یاد کی برآوری نزدیک ہو چکی ہے “حدیث بہت دقيق ہے ،بيشک دعا مستجاب ہو نے کےلئے دعا کر نے والے کی حالت کا براہ راست رابط ہے ،جب دل پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور اس ميں خشوع آجاتا ہے تودعا کرنے والا دعا کے مستجا ب ہو نے کے بہت قریب ہو جاتا ہے اس کے بر خلاف جب دعا کرنے والا قسی القلب ہو جاتا ہے تو اس کی دعا مستجاب ہو نے سے بہت دور ہو جاتی ہے ۔اسلامی نصوص ميں وارد ہو ا ہے کہ نفس کے انکسا ر اور دل پر رقت طاری ہو نے کے وقت سے استفادہ کر نا چا ہئے اس لئے کہ انسان اس دنيا کے مصائب کو الله سے دعا اور سوال کر کے آسان کر ليتا ہے ۔یہی او قات انسان کو الله کی بارگاہ ميں جهکنے اور اس کی رحمت کا استقبال کرنے کےلئے زیادہ آمادہ کر تے ہيں ،اس کا راز یہ ہے کہ انسان خود پر طاری ہو نے وا لی رقت کے بغير خدا کے سا منے جهکنے اور رحمت کا استقبال کر نے کےلئے متمکن نہيں ہو تا ہے،جو انسان الله کی با رگاہ ميں جهکنا اور دعا کرنا چاہتا ہے اس کےلئے دعا ميں رقت کا طاری کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١١٢٠ ۔حدیث صفحہ ٨٧۶١ ، اصول کافی جلد ٢صفحہ ۵٢١ ۔ : ١)وسائل اشيعہ جلد ۴ )٢)وسائل الشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١۴١ ،حدیث/ ٨٧۶٣ ۔ )اسحاق بن عمار سے مروی ہے :ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کی خدمت اقدس ميں عرض کيا :<ادعوافاشتهی البکاء،ولایجيئني،وربّماذکرت بعض مَنْ مات مِنْ اٴهلي فاٴرقّ ( وابکي،فهل یجوزذالک؟فقال:نعم،فتذکّرفاذا رققت فابکِ،وادع ربک تبارک وتعالیٰ >( ١”ميں دعا کرتا ہوں اور رونا چاہتا ہوں ليکن مجهے رو نا نہيں آتا ليکن جب اپنے مرنے والے رشتہ داروں کو یاد کرتا ہوں تو گریہ کرنے لگتا ہوں کيا یہ جا ئز ہے امام عليہ السلام نے فر مایا :ہاں تم ان کو یاد کرو اور جب رقت پيدا ہو جائے تو گریہ کرو اور خداوند عالم سے دعا کرو “سعد بن یسارسے مروی ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کی خدمت ميں عرض کيا 🙁 <إِنّی اتباکي في الدعاء،وليس لي بکاء۔قال:نعم >( ٢”ميں دعا کر تے وقت دوسر وں کو رُلا دیتا ہو ں ليکن خود نہيں روتا ۔ توآپ نے فرمایا :ہاںيعنی بہت اچهی بات ہے “ابو حمز ہ سے مروی ہے کہ امام جعفرصادق عليہ السلام نے ابو بصير سے فرمایا:<إِنْ خفت امراً یکون اٴَوحاجة تریدها،فاٴبداٴباللّٰہ فمجّدہ،واثن عليہ کما هواهلہ،وصلّ علیٰ النبي وسل حاجتک،وتباک ۔۔إِنَّابي کان یقول:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ / ۵٢٣ ۔وسائل الشيعہ جلد ۴ صفح ١١٢٢ ١ حدیث ٨٧۶٧ ۔ )٢)وسائل اشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١٢٢ حدیث ٨٧۶ ١ ۔اصول کا فی جلد ٢ صفحہ ۵٢٣ ۔ )( إِنّ اقرب مایکون العبد من الربّ عزّوجلّ وهوساجد باکٍ >( ١”اگر تم پر کو ئی امر (بات )مخفی ہو یا تمہار ی کو ئی حاجت ہو اور تم حاجت روائی چاہتے ہو تو تم اس کی ابتد ا ء الله کی تمجيد سے کرو ،خدا کی ایسی حمد وثنا کرو جس کا وہ اہل ہے ،نبی پر صلوات بهيجو اور حاجت پيش کرو اور گریہ وزاری کرو ۔۔۔بيشک ميرے والد بزرگو ار فرمایا کرتے تهے :بيشک پرور دگار عالم کے سب سے زیادہ نز دیک وہ شخص ہے جو گر یہ وزاری کی حالت ميں سجدہ ریز ہو “حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سجدوں ميں یہ ذکر فرماتے تهے : سجدوجهي الذليل لوجهک العزیز،سجدوجهي البالي لوجهک الدائم الباقي،سجدوجهي الفقيرلوجهک الغنيسجدوجهي وسمعي وبصري ولحمي ودمي ( وجلدي وعظمي ومااقلت الارض منّي للهربّ العالمين >( ٢”ميں اپنے حقير چہرہ کے ذریعہ تيری مقتدر ذات کے سامنے سجدہ ریز ہوا ميں نے اپنے بو سيدہ چہرہ کے ذریعہ تيری بے نياز ذات کے سامنے سجدہ کيا ميں نے اپنے چہرے ،کان ،آنکه ، گو شت ،خون ،کهال ،ہڈی اور ان چيزوں کے ذریعہ تمام جہان کے پالنے والے خدا کے سامنے سجدہ کيا جن کا بار زمين پر ہے ”
٧۔مشکلات اور راحت و آرام ميں ہميشہ دعا کرنااسلامی روایات ميں ہميشہ آسانی کے وقت دعا کر نے کو پریشانی کے وقت دعا کر نے پر مقدم رکهنے پر زور دیا گيا ہے ۔حضرت رسول خدا صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)اصول کافی جلد ٢ صفحہ ۵٢۴ ،و سائل الشيعہ جلد ۴:١١٢٢ ،حدیث ٨٧٧٠ ۔ )٢)البلد الا مين صفحہ / ٣٣١ ۔ )( <تعرّف الی الله في الرخاء یعرفک في الشدّة >( ١”تم آسانی کے وقت الله کو پہچانو (الله کا تعارف کراؤ )وہ تمہارا سختی کے وقت خيال رکهے گا (یعنی تمہاری مشکل آسان کردیگا )”حضرت امام صادق عليہ السلام سے مروی ہے : <مَنْ تقدّم في الدعاء استجيب لہ اذا نزل البلاء،وقيل:صوت معروف، ولم یحجب عن السماء،ومن لم یتقدم فی الدعاء لم یستجيب لہ اذانزل البلاء، وقالت الملا ئکة ( :ذاالصوت لانعرفہ >( ٢”جس شخص پر مصيبتيں پڑرہی ہوں اور پهر بهی دعا کو مقدم رکهے یعنی دعا کر تا رہے تو اسکی دعا مستجاب ہو تی ہے ،اور کہاگيا ہے کہ اسکی ایک مشخص ومعين آواز ہو تی ہے جس ميں آسمان بهی مانع نہيں ہو تے ہيں اور جو آسانی کے وقت دعا مقدم نہيں کر تا تو بلائيں نازل ہوتے وقت اس کی دعا قبول نہيں ہو تی اور ملائکہ کہتے ہيں :ہم اس آواز سے آشنا نہيں ہيں “حضرت امام صادق عليہ السلام سے مروی ہے : ( <إنّ الدعاء في الرخاء یستخرج الحوائج في البلاء >( ٣”آسانی کے وقت دعا کرنا مصيبتوں ميں حاجتوں کو روا کرتا ہے ” امام جعفر صادق عليہ السلام کا ہی فرمان ہے 🙁 <مَنْ سرّ ہ ان یُستجاب لہ في الشدّة فليکثرالدعاء فی الرخاء > ( ۴ “اگر کوئی سختيوں ميں اپنی دعا قبول کرانا چاہتا ہے تو اس کو آسانی کے اوقات ميں بہت زیادہ دعائيں کرناچاہئے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)وسائل الشيعہ جلد ۴:١٠٩٧ حدیث ٨۶٧٢ ۔ )١٠٩۶ ،حدیث / ٨۶۶۴ ۔ / ٢)وسائل اشيعہ جلد ۴ )١٠٩۶ ،حدیث / ٨۶۶۵ ۔ : ٣)وسائل الشيعہ جلد ۴ )۴)وسائل الشيعہ جلد ۴۔ ١٠٩۶ ،حدیث / ٨۶۶٠ ۔ )اور آپ ہی کا فرمان ہے : کان جدي یقول:تقدّموا في الدعاء، فإنّ العبد اذاکان دعّاءً فنزل بہ البلاء فدعا، قيل: صوت معروف۔ واذالم یکن دعّاءً، یقول: فنزل بہ البلاء، قيل:اٴین کنت قبل اليوم ؟ (١)<“مير ے جد فرمایاکرتے تهے:دعا ميں پيش قدمی کرو بيشک جب بندہ بہت زیادہ دعا کر تا ہے اور اس پر مصيبتيں ڻوٹ پڑتی ہيں تو بهی دعا کر تا ہے ،تو اس کو ندا دی جا تی ہے یہ جا نی پہچا نی آواز ہے اور جب وہ زیادہ دعا نہيں کرتا اور اس پر بلائيں نازل ہو نے لگيں تو اس سے کہا جاتا ہے :اس سے پہلے تم کہاں تهے ؟”یہ روایات بہت ہی دقيق و لطيف معنی کی طرف اشارہ کرتی ہيں بيشک دعا کا مطلب اپنے کو الله کی بار گاہ ميں جهکا دینا دعا کا پُر معنی اور دعا کو مستجاب ہونے کے نزدیک کرتا ہے اور جتنا زیادہ انسان الله کی بارگاہ ميں جهکتا ہے اتناہی اس کی دعا قبول ہو تی ہے ۔جب انسان مکمل طور سے خدا کی بارگاہ ميںخلوص دل سے اپنے کو جهکا دے اور بالکل خدا ہی سے لو لگائے تو اس وقت دعا اور دعا مستجاب ہو نے کے در ميان کوئی رکاوٹ نہيں رہتی اور جتنا خدا کی بار گاہ ميں جهکے گا اتنا ہی اس کی دعا مستجاب ہو گی ،خداکی بارگاہ ميں جهکنا اور اس کے سامنے خشوع وخضوع سے پيش آناانسان کو زیادہ دعا کرنے کےلئے آما دہ کر تا ہے ۔انسان کی زند گی کا کوئی بهی عمل ہو اس کی شان یہی ہو نی چاہئے اور انسان جتنی زیادہ دعا کر ے گا اتنا ہی اس کا دل الله کی بارگاہ ميں جهکے گا اور اس کا دل الله کی اطاعت کر نے کےلئے آمادہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)وسائل الشيعہ جلد ۴۔ ١٠٩۶ ،حدیث / ٨۶۶٧ ۔ )پس جب انسان پر مصيبت پڑے گی اور اس کا دل مصيبت نازل ہو تے وقت الله کا مطيع ہو گا اور فوری طور پر خدا کی طرف متوجہ ہوگا تواسکی دعا استجابت کے قریب ہوگی اور اس دن اسکی دعا اور استجابت کے درميان کوئی چيز حائل نہيں ہوگی۔فضل بن عباس سے مروی ہے : <قال لي رسول اللّٰہ (ص):احفظ اللّٰہ یحفظک۔ احفظ الله تجدہ امامک۔تعرّف الی ( اللّٰہ في الرخاء یعرفک في الشدّة >( ١”مجه سے رسول الله (ص)نے فرمایا:الله کو یاد کرو وہ تمہاری حفاظت کرے گا،الله کو یاد کرو وہ تمہاری حفاظت کرے گا ،الله کو یاد کرو تو تم اس کو اپنے سامنے پاؤ گے تم آسانيوں ميں خدا کا تعارف کراؤ وہ تمہارا سختيوں ميں تعارف کرائيگا ” حضرت علی بن الحسين عليہما السلام سے مروی ہے : <لم اٴرَ مثل التقدم في الدعاء،فانّ العبد ليس تحضرہ الاجابة في کلّ ( ساعة>( ٢”دعا کو مقدم کر نے سے زیادہ ميں کسی چيز کو نہيں سمجهتا اس لئے کہ بندہ کی دعا ہر وقت قبول نہيں ہوتی ہے”جناب ابو ذر سے مروی ہے : <قال رسول اللّٰہ (ص):یااٴباذرتعرّف الیٰ اللّٰہ فی الرخاء یعرفک في ( الشّدة،فإذاساٴلت فاساٴل اللّٰہ،واذا استعنت فاستعن باللّٰہ >( ٣۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)من لایحضر ہ الفقيہ جلد ٢۔صفحہ / ٣۵٨ ۔( ٢)ارشاد مفيدصفحہ / ٢٧٧ ۔ )٣)وسائل اشيعہ جلد ۴صفحہ / ١٠٩٨ ،عدة الداعی لابن فہد حلی صفحہ / ١٢٧ ۔ )”رسول خدا (ص)نے مجه سے فرمایا:اے ابوذر تم آسانيو ںميں الله کی معرفت حاصل کرو تو وہ تمہارا سختيوں ميں تعارف کرائيگا اور جب تمهيں کوئی سوال در پيش ہو تو الله سے سوال کرو اور جب کسی مددکی ضرورت پڑے تو الله سے مدد مانگو “حضرت ابو جعفر عليہ السلام سے مروی ہے: <ینبغي للموٴمن اٴنْ یکون دعائہ في الرخاء نحواًمن دعائہ في الشدّة، ليس ( اذااعطی فتر،فلا تملّ الدعاء فإنّہ من الله عزّوجل بمکانَّ>( ١”مومن کو سختی اور آسانی دو نوں ميں ایک ہی طریقہ سے دعا کرنا چاہئے ایسا نہيں ہو نا چا ہئے کہ نعمت ملنے کی صورت ميں دعا ميں سستی پيدا ہو جا ئے لہٰذا دعا کرنے سے مت تهکو کيونکہ دعا کا خداوند عالم کے نزدیک درجہ ہے ”
٨۔ عہد خداکووفاکرےتفسير قمی ميں حضرت امام جعفر صادق علسيہ السلام سے مروی ہے : <إان الله تعالیٰ یقول:اُدْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ( ٢)وإانّ ندعوہ فلایستجاب لنا( فقال:<لاٴنکم لاتوفون بعہد الله وإان اللهيقول:>اٴفوا بهعدی اٴوفِ بعهدکم>( ٣ ( واللهلووفيتم للهلوفیٰ لکم>( ۴آپ سے سوال کيا گيا کہ خداوند عالم فر ما تا ہے :<اُدْعُوْنِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ >” تم مجه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)وسائل اشيعہ جلد ۴صفحہ / ١١١١ حدیث/ ٨٧٢٩ ۔ )٢)سورئہ مومن آیت ۶٠ ۔ )٣)سورئہ بقرہ آیت ۴٠ ۔ )۴)تفسير الصافی :ص ۵٧ (ط حجریة)تفسير آیت ١٨۶ از سورئہ بقرہ۔ )سے دعا کرو ميں پوری کرو نگا “ہم دعا کرتے ہيں ليکن قبول نہيں ہو تی ہے ۔آپ نے فرمایا :تم الله کے عہد کو پورا نہيں کرتے ہو اور الله فرماتا ہے :<اَوفُْواْبِعَهدِْی اُوفِ بِعَهدِْکُم >”تم مير ے عہد کو پورا کرو ميں تمہار ے عہد کو پورا کرو نگا ”
٩۔ دعا اورعمل کا ساتهدعا قبول ہو نے کی شرطوں ميں سے ایک شرط یہ ہے کہ دعا عمل سے متصل ہونی چاہئے، بغير عمل کے دعا کسی کو فائدہ نہيں پہنچا تی ہے اور عمل دعا سے بے نياز نہيں کر سکتا ہے ۔اس ميں دو باتيں ہيں:پہلی بات یہ ہے کہ:دعا عمل کے بغير نہيں ہو سکتی ہےرسول خدا (ص) نے جناب ابوذر سے فرمایا :<یااٴباذرمثل الّذي یدعوبغيرعمل کمثل الذي یرمي بغير وتر>( ١) “اے ابوذر عمل کے بغير دعا کر نے والا اس تير چلانے والے شخص کے مانند ہے جو بغيرکمان کے تير پهنک رہا ہو “عمر بن یزید سے مروی ہے :ميں نے حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام کی خدمت اقدس ميں عرض کياکہ ایک شخص کہتا ہے :<لاٴقعدنّ فی بيتي،ولاٴصلينّ ولاٴصومنّ،ولاٴعبدنّ ربّي،فاٴمّا رزقي ( فسياٴتيني،فقال:هذااحد الثلاثةالّذین لایستجاب لهم>( ٢”ميں اپنے گهر ميں بيڻهوں گا ،نماز پڑهو نگا ،روز ے رکهوں گا اور اپنے پروردگار کی عبادت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)وسا ئل الشيعہ کتاب الصلا ة۔ابواب دعا باب ٣٢ ح ٣۔ )٢)وسائل الشيعہ جلد ١١ ۴:۶٠ ۔حدیث / ٨٩١٣ ۔ )کرونگا اور مجهے بغير کام کئے رزق بهی ملے گا ” آپ نے فرمایا :یہ ان تين افراد ميں سے ہے جن کی دعا قبول نہيں ہوتی ” امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے 🙁 <الداعي بلاعمل کالرامي بلا وتر> ( ١ “بغيرعمل دعا کر نے والا اس تير چلا نے والے کے مثل ہے جو بغير کمان کے تير چلا رہاہے”آپ ہی کا فرمان ہے : <ثلا ثة ترد عليهم دعوتهم : رجل جلس فی بيتہ وقال:یارب ارزقني،فيُقال لہ :الم اجعل لک سبيلاً الیٰ طلب ( الرزق ۔۔۔>( ٢”تين طرح کے لوگوں کی دعا رد کردی جاتی ہے : ایک وہ شخص ہے جو اپنے گهر ميں بيڻه کر کہے :اے پروردگار مجهے رزق عطا کرتو اس کو جواب دیا جاتا ہے :کيا ميں نے تمہارے رزق طلب کر نے کےلئے کوئی راستہ معين نہيں کيا ہے۔۔۔ “اگر کوئی باپ اپنے بيڻے کی اصلاح اور ہدایت کےلئے خدا سے دعا کر ے ليکن وہ اس کی تربيت کا کوئی اہتمام نہ کرے تو اس کی دعا قبول نہيں ہو گی ،اور یہ دعا ان چيزوں ميں سے ہے جو اس کے مستجاب ہو نے ميں رکاوٹ ڈالتی ہے اسی طرح اگر کوئی مریض ڈاکڻرسے مراجعہ کئے بغير اپنے مرض سے چهڻکارے کی خاطر خدا سے دعا کرتا ہے اور دوا نہيں کهاتاہے اور شفاء کےلئے دوسری لازمی چيزوں کو بروئے کار نہيں لاتاہے تو یہ دعا کے مستجاب ہو نے ميں مانع ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)وسائل الشيعہ جلد ١١ ۴:٧۵ ۔حدیث ٨٩۶۵ ۔ )١١٧۵ ،حدیث ۔ ٨٩۶۵ ۔ / ٢)وسائل الشيعہ جلد ۴ )دوسری بات یہ ہے کہ عمل دعا سے بے نياز نہيں ہے عمل کے بغير دعا نہيں ہو سکتی ۔حضرت رسول خدا (ص) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : <یدخل الجنة رجلان کانایعملان عملاًواحداً،فيریٰ احدهماصاحبہ فوقہ فيقول:یارب بم اعطيتہ وکان عملناواحداً ؟ فيقول اللّٰہ تعالیٰ:ساٴلني ولم تساٴلني۔ ( ثم قال:اساٴلوا اللّٰہ من فضلہ،واجزلوا فانّہ لایتعاظمہ شي ء>( ١”جنت ميں ایسے دومرد داخل ہو ںگے جن کا عمل ایک ہی ہو گا ليکن ان ميں ایک اپنے کو دوسرے سے برتر دیکهے گا تو ایک کہے گا : پروردگار اس کو مجه سے زیادہ کيوں عطا کيا جبکہ ہم دونو ں نے ایک ہی عمل انجام دیا تها ۔پروردگار عالم جواب دیگا :اُس نے مجه سے سوال کيا ،ليکن تم نے سوال نہيں کيا ۔پهر فرمایا :الله کے فضل سے سوال کرو اور اسکے علاوہ کوئی اور چيز اسکے نزدیک بڑی نہيں ہے ” یہ بهی رسول خدا (ص) کا ہی فرمان ہے : إنّ لله تعالیٰ عباداً یعملون فيعطيهم،وآخرین یساٴلون صادقين فيعطيهم ثم یجمعهم في الجنة،فيقول الذین عملوا:ربّنا عملنا فاٴعطيتنا،فبمااعطيت هٰوٴلاء؟ فيقول:هٰوٴلاء عبادي ۔اعطيتکم اجورکم ولم اٴلتکم من اعمالکم شيئاً،و ساٴلني ( هٰوٴلاء فاٴعطيتهم واغنيتهم،وهوفضلي اوتيہ مَنْ اشاء>( ٢”بيشک جن بندوں نے اس کی عبادت عمل کے ساته کی خداوند عالم نے ان کو عطا کيا ،اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١)وسا ئل الشيعہ جلد ۴ صفحہ نمبر ١٠٨۴ ۔حدیث/ ٨۶٠٨ ۔ )٢)وسائل الشيعہ ۴:١٠٨۴ ۔حدیث/ ٨۶٠٩ ۔ )دوسروں نے صدق دل سے سوال کياتو ان کو بهی عطا کيا پهر ان سب کو اس نے جنت ميں داخل کر دیا تو عمل کرنے والے کہيں گے :پروردگار ہم نے عمل کيا تو تو نے ہم کو عطا کيا ليکن تو نے ان کو کيوں عطا کيا، جبکہ انهوں نے عمل نہيں کيا ؟ پروردگار کہے گا :اے مير ے بندو!ميں نے تم کو تمہارے عمل کی اجرت عطاکی ،ليکن رہا تمہارا یہ سوال کہ ان کو کيوں عطا کيا ان کو غنی کيوں کيا ؟وہ تو ميرا فضل ہے جس پر ہو جائے ”