دعا کے آداب اور اس کی شرطيں

178

ہمارے بعض علماء نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ:راوی کہتاہے کہ ميں نے آپ کی خدمت ميں عرض کيا ؟الله کی کتاب ميں دوایسی آیات ہيں جن کی ميں تاویل نہيں جا نتا ؟ آپ نے فرما یا وہ کو نسی دو آیات ہيں ؟ ميں نے عرض کيا :<اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ >( ١)”مجه سے دعا کرو ميں قبول کرونگا ” ميں دعا کرتا ہوں ليکن مستجاب نہيں ہوتی ۔آپ نے مجه سے فرمایا :تم نے الله پربہتان باندها ،کيا الله نے جو وعد ہ کيا ہے وہ اس کی مخالفت کرے گا ؟ ميں نے عرض کيا :نہيںآپ نے فرما یا: پهر کيا مطلب ہے؟ ميں نے عرض کيا :ميں نہيں جانتاہوں۔آپ نے فرمایادوسری آیت کو نسی ہے؟( ميں نے عرض کياالله کایہ قول :<وَمَااَنفَْقتُْم مِن شَیءٍ فَهُوَیُخلِْفُہُ>( ٢۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١۔سورئہ مو من آیت ۶٠ ۔٢۔سورئہ سباٴ آیت/ ٣٩ ۔”ميں انفاق کر تا ہوں ليکن اس کا کوئی نتيجہ نہيں دیکهتا ہوں ” آپ نے فرمایا :کيا ہونا چاہئے ؟ميں نے عرض کيا :ميں نہيں جانتا ۔آپ نے فرمایا :ليکن ميں تم کو باخبر کرونگا انشاء الله، آگاہ ہو جاؤجو کچه خداوند عالم نے تم کو حکم دیا ہے اگر تم اس کی اطاعت کروگے اور اس کے بعد اس سے دعا کروگے تو وہ تمہاری دعا مستجاب کر ے گا ليکن اگر تم اس کے حکم کی مخالفت کروگے اور اس کی معصيت (نافرمانی )کر وگے تو وہ تمہارا کوئی جواب نہيں دے گا ۔ليکن رہی تمہاری یہ بات کہ تم انفاق کر تے ہو اور اس کا کو ئی نتيجہ تمہارے سامنے نہيں آتا توآگاہ ہو جاؤ کہ اگر تم نے مال اس کے حلال طریقہ سے کسب کيا پهر اس کو اسی کے حق ميں خرچ کردیا ہے تو کسی بند ے نے کوئی درہم خرچ نہيں کيا مگر یہ کہ الله نے اس کو اس کابدلہ عطا کيا اگر تم اس کو دعا کے ذریعہ پکارو گے تو وہ تمہاری دعا ضرور مستجاب کر ےگا اگر چہ تم نے گناہ ہی کيوں نہ کيا ہو ۔ميں نے عرض کيا :جہت دعا سے کيا مراد ہے ؟آپ نے فرمایا :جب تم نے فریضہ اداکيا تو تم نے الله کی تمجيد وتعریف وتعظيم کی اور جتنی تم ميں قدرت تهی تم نے اس کی مدح کی اور جتنا ممکن ہو نبی پر زیادہ صلوات بهيجتے رہو،ان کی تبليغ رسالت کی گواہی دو ،اپنے اوپر نا زل ہو نے والی مصيبتوں اور ملنے والی نعمتوں کی بنا پرنبی پر درود بهيجو ،اپنے پاس اس کی نعمتوں کا تذکرہ کيا ،اور جتنا تم سے ہو سکا تم نے اس پر الله کی حمد وثنا کی اور اس کا شکر ادا کيا ،پهر ایک ایک کر کے اپنے تمام گنا ہوں کا اعترف واقرار کيا ، یا ان ميں سے جو گناہ تمہار ے یا د آگئے اس کا اقرار کيا ،اور جو مخفی رہ گئے ان کا مجمل طور پر اقرار کيا ،پس تم نے تمام گناہوں کی الله سے توبہ کی اور یہ نيت کی کہ اسکے بعد پهر گناہ نہيں کرونگا ،اور ميں الله سے ندامت ،صدق نيت اور خوف ورجا ء سے استغفار کرتا ہوں ،اور اس طرح کہو :<اللّهمّ انّي اعتذراليک مِن ذنوبي واستغفرک واتوب اليک فاعني علیٰ طاعتک ووفقنی لمااوجبت عليَّ من کلّ مایُرضيک،فاني لم اٴراٴحداًبلغ شيئاًمِن طاعتک ( الابنعمتک عليہ قبل طاعتک،فانعم عليّ بنعمة انال بها رضوانک والجنّة> ( ١”پروردگا ر ميں اپنے گناہوں کی تجه سے معذرت چاہتاہوں ،تجه سے استغفار کرتاہوں اور توبہ کرتاہوں ،اپنی طاعت پر ميری مدد کر ،جن چيزوں سے تو راضی ہوتا ہے اور وہ تونے مجه پر واجب کی ہيں مجهے ان کے ادا کرنے کی توفيق عطا کر ،ميں نے کسی شخص کو نہيں دیکها کہ اس کے اطاعت کر نے سے پہلے تيری نعمتيں اس کو عطا ہو گئيں پس مجه پر وہ نعمتيں نازل کر جن کے ذریعہ ميں تيری رضا اور جنت تک پہنچ جاؤں ،،اس کے بعد سوال کروہم اميد کرتے ہيں تم نا مراد نہيں رہو گے انشاء الله ۔ آداب دعا کے سلسلہ ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے:<احفظ آداب الدعاء،وانظرمَن تدعو،وکيف تدعو،ولماذا تدعو،وحقق عظمةالله وکبریائہ،وعاین فی قلبک علمہ بمافي ضميرک واطّلاعہ علیٰ سرّک،ومایکن فيہ من الحق والباطل،واعرف طرق نجاتک وهلاکک کی لاتدعواللهبشي ء فيہ هلاکک واٴنت تظن فيہ نجاتک> ( قال اللهعزوجل:<وَیَدعُْ الِان سْٰانُ بِالشَّرِّدُ عٰاء ہُ بِالخَْيرِْ وَ اٰ کنَ الِان سْٰانُ عَجُولاً>( ٢وتفکّرماذاتساٴل،ولماذاتساٴل۔والدعاء استجابةالکل منک للحق،وتذویب المهجةفي مشاهدةالربّ،وترک الاختيارجميعاً،وتسليم الاٴُمورکلهاظاهراًوباطناًالی الله۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١۔بحار الانوار جلد ٩٣ صفحہ ٣١٩ ،فلاح السائل صفحہ ٣٨ ۔ ٣٩ ،عدة الداعی صفحہ ١۶ ۔٢۔سورئہ اسراء آیت ١١ ۔فان لم تاٴت بشروط الدعاء فلاتنتظرالاجابة،فانّہ یعلم السرّ واٴخفیٰ،فلعلک ( تدعوبشي ء قد علم من سرّک خلاف ذلک>( ١آداب دعا کی حفاظت کرو ،یہ دیکهو کہ کس سے مانگ رہے ہو ،کس طرح مانگ رہے ہو اور کيوں مانگ رہے ہو ، خداوند عالم کی عظمت و بزر گی پر نظر رکهوجو کچه تمہار ے دلوں ميں علم ہے اور جن رازوں سے تم واقف ہو اسکے ذریعہ اپنے دل کا معائنہ کر و اور یہ دیکهو کہ کس ميں ہلا کت ہے اور کس ميں نجات ہے تا کہ ہلاکت کا مطالبہ نہ کر بيڻهو ، اپنی نجات اور ہلاکت کے راستوںکو پہچانو کہ کہيں تم ایسی دعا نہ کر بيڻهو جس ميں تمہاری ہلاکت ہورہی ہو اور تم اس سے اپنی نجات کا گمان کر رہے ہو ۔اورخداوند عالم فرماتا ہے 🙁 < وَیَدَعُ الاِْنسَْانُ بِالشَّرِّدُعَاءَ ہُ بِالخَْيرِْ وَکَانَ الاِْنسَْانُ عَجُولْاً >( ٢ “اور انسان کبهی کبهی اپنے حق ميں بهلا ئی کی طرح برا ئی کی دعا ما نگنے لگتا ہے کہ انسان بہت جلد باز واقع ہو ا ہے ” جو کچه مانگ رہے ہو اس کے متعلق اور کيوں مانگ رہے ہو اس کے سلسلہ ميں فکر کرو ۔دعا یعنی تمہارا حق کو مکمل طور پر قبول کرنا، تمہارا اپنے پروردگار کے دیدار ميں اپنے کوپگهلا دینااپنے تمام اختيارات خداوند عالم کے حوالے کردینا اور اپنے تمام ظاہری اور باطنی امور اسی کے حوالے کردینا۔اگر تم دعا کو اس کی تمام شرطوں کے ساته انجام نہيں دو گے تو اس کے مستجاب ہو نے کا بهی انتظار نہ کرنا بيشک خداوند عالم تمام رازوں اور پوشيدہ چيزوں سے آگا ہ ہے ،شاید تم ایسی چيز کے بارے ميں دعا کر بيڻهو جسکو وہ تمہار ی بهلائی کے خلاف جانتا ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)بحار الا نوا ر جلد : ٩٠ صفحہ ٣٢٢ ۔ )٢)سورئہ اسراء آیت/ ١١ ۔ )یہ روایت دعا کے مستجاب ہو نے اور دعا کے آداب کی شرطوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ہم اس فصل ميںسب سے پہلے دعا کے مستجا ب ہو نے کی شرطوں کو بيان کریں گے اس کے بعد اگر شروط و آداب کی تقسيم ميں بعض مشکلات سامنے نہ آئيں تو آداب دعا کے متعلق بحث کر یں گے۔ ہم اس فصل ميں سب سے پہلے دعا قبول ہونے کی شرطوں کے سلسلہ ميں بحث کرنا چا ہتے ہيں پهر آداب دعا کے سلسلہ ميں گفتگو کریں گے اگرچہ شرطوں کو آداب دعا سے جدا کرناہمارے لئے مشکل ہے لہٰذاہم نے شرائط و آداب کو ایک ساته بيان کرنا بہتر سمجها ہے ۔ہم ذیل ميں سرسر ی طور پر شریعت اسلاميہ کی روشنی ميں دعا کے آداب اور اس کی شرطوں کو بيان کر رہے ہيں ۔
١۔الله کی معرفتدعا مستجاب ہو نے کی شرطوں ميں سے سب سے اہم شرط الله کی معرفت ہے اور اس کی مطلق قدرت وسلطنت پر ایمان رکهنا کہ اس کا بندہ جو کچه اس سے چاہتا ہے وہ ضرور حاصل ہو گا ۔در منثور ميں معا ذ بن جبل نے رسول الله (ص) سے یہ راویت نقل کی ہے : ( <لوعرفتم الله حق معرفتہ،لزالت لدعائکم الجبا ل >( ١ “اگر تم الله کی معرفت ا س کے حق کے ساته حاصل کرو تو تمہار ی دعا ئيں پہاڑوں کو بهی ان کی جگہ سے ہڻادےںگی “تفسير عياشی ميں خداوند عالم کے اس فرمان: <فليستجيبوالی وليوٴمنوا ( بي >( ٢”لہٰذا مجه سے طلب قبوليت کریں اور مجه ہی پر اعتماد رکهيں “کے متعلق امام جعفر صادق سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)الميزان جلد ٢ صفحہ ۴٣ ۔ )٢)سورئہ بقرہ آیت/ ١٨۶ ۔ )روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا 🙁 <یعلمون انی اقدران اعطيهم مایساٴلونی >( ١”وہ (بند ے )جانتے ہيں کہ جو کچه وہ مجه سے سوال کریں گے ميں ان کووہ عطا کر دونگا”طبر سی ۺنے مجمع البيان ميں مندرجہ بالا آیت کی تفسير ميں امام جعفر ( صادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ :<وليومنوابی>( ٢” اور مجه ہی پر اعتماد رکهيں “یعنی یہ بات با لکل متحقق ہے کہ جو کچه وہ سوال کریں گے ميں وہ ان کو عطا کر نے پر قادر ہوں:( <لَعَلَّهُم یُرشِْدُونَْ>( ٣”شاید اس طرح راہ راست پر آجا ئيں ” امام جعفر صادق عليہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت فر ما ئی:( < اَمَّن یُجِيبُْ المُْضطَْرَّاِذَادَعَاہُ> ( ۴”بهلا وہ کو ن ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آوازدیتا ہے ” فسئل مالناندعو،ولایستجاب لنا؟فقال لاٴنّکم تدعون مالاتعرفون و تساٴلون ( مالاتفهمون( ۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)الميزان جلد ٢صفحہ ۴٣ ۔ )٢)سورئہ بقرہ آیت/ ١٨۶ ۔ )٣)سورئہ بقرہ آیت ١٨۶ ۔ )۴) سورہٴ نمل آیت/ ۶٢ ۔ )۵)الصافی صفحہ ۵٧ (طبع حجریہ ۔ایران )سورئہ بقرہ آیت نمبر ٨۶ کی تفسير ميں ہے۔ )آپ سے سوال کيا گيا :ہم دعا کرتے ہيںليکن ہماری دعا مستجاب نہيں ہو تی ،آپ نے فرما یا : تم ان چيزوں کی دعا کرتے ہو جن کی تمهيں معرفت نہيں ہے اور وہ سوالات کرتے ہو جن کو تمسمجهتے نہيں ہو ۔اس حدیث ميں دعا مستجاب ہو نے کے باب ميں اس بات پر زور دیا گيا ہے کہ سائل کواپنے سوال اور جس سے سوال کر رہا ہے ان سے با خبر ہو نا چاہئے ۔امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ رسول الله نے فرمایا کہ الله تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :جس نے مجه سے سوال کيا اور وہ یہ جانتا ہے کہ نفع و نقصان ميری طرف سے ہے توميں اس کی دعا قبول کرونگاامام علی بن الحسين زین ا لعابدین عليہ ا لسلام کی مناجات ميں آیا ہے :<تمدّحت بالغناء عن خلقک وانت اهل الغنیٰ عنهم،ونسبتهم الی الفقروهم اهل الفقراليک،فمن حاول سدّ خلّتہ من عندک،ورام صرف الفقر عن نفسہ ( بک،فقدطلب حاجتہ فی مظانهاواتٰی طلبتہ من وجهها> ( ١”تو نے اپنی تعریف یہ کی ہے کہ تو مخلوقات سے بے نياز ہے اور اس بے نيازی کا اہل ہے اور تو نے مخلوقات کو فقر کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ واقعا تيرے محتاج ہيں لہٰذا جو شخص بهی اپنی حا جت کو تيری بارگاہ سے پورا کرانا چا ہتا ہے اور اپنے نفس سے فقر کو تيرے ذریعہ دور کرنا چا ہتا ہے اُس نے حاجت کو اس کی منزل سے طلب کيا ہے اور مقصد تک صحيح رخ سے آیا ہے ” حضرت اميرالمو منين عليہ السلام منا جات ميں ارشاد فرما تے ہيں : <سبحان الذی یتوکّل کلّ موٴمن عليہ ویضطرکلّ جاحداليہ،ولایستغني احدٌ ( الابفضل مالدیہ> ( ٢۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)صحيفہ کاملہ سجادیہ دعا : ١٣ ۔ )٢)بلد امين صفحہ ٩۶ ۔ )”پاک و پاکيزہ ہے وہ ذات جس پر ہر مو من توکل کر تا ہے اور جس کے سامنے ہر انکار کر نے والا اپنے کو مضطر محسوس کر تا ہے اور کو ئی بهی اس کے فضل کے بغير بے نياز نہيں ہو سکتا ہے “حضرت امام زین العا بدین عليہ السلام صحيفہ کا ملہ سجادیہ کی دعا نمبر ٧ميں فرما تے ہيں :<اَصبَْحنَْافِی قَبضَْتِکَ یَحوِْینَْامُلکُْکَ وَسُلطَْانُکَ وَتَضُمُّنَامَشِيَّتُکَ وَنَتَصَرَّفُ عَن اَمرِْکَ وَنَتَقَلَّبُ فِی تَدبِْيرِْکَ لَيسَْ لَنَامِنَ الاَْمرِْاِلَّامَاقَضَيتَْ وَمِنَ الخَْيرِْاِلَّامَااَعطَْيتَْ>”اور ہم بهی تيرے ہی قبضہ ميں ہيں تيرا اقتدار تيری سا ری سلطنت ہما رے سارے وجود پر حا وی ہے اور تيری مشيت ہميں اپنے دا من ميں لئے ہو ئے ہے ۔ہم تيرے ہی حکم سے تصرف کرتے ہيں اورتيری ہی تدبير سے کر وڻيں بدلتے ہيں ہمار ا حصہ معا ملا ت ميں اتنا ہی ہے جس کا تو نے فيصلہ کر دیا ہے اور خير بهی وہی ہے جو تو نے عطا کردیا ہے “اور صحيفہ ٴ علویہ ميں ہے:”مَن ذالذی یضارک ویغالبک اٴویمتنع منک اٴو ینجومِن قدرکَ””کون تم کو نقصان پہنچاتا ہے اور کون تمہار امقابلہ کرتا ہے یا وہ تم سے اجتناب کرتا ہے یا تيری قدر و قضا سے فرار کر تا ہے ” یہ معرفت ہی تو ہے کہ دعا کرنے والایہ جا نتا ہے کہ الله اس سے قریب ہے ا ور ہر شئے اس سے بہت قریب ہے ،وہ اس(بندے)کے نفس ميں ہو نے والے وسواس سے بهی با خبر ہے وہ اس کے نفس سے اس کی شہ رگ حيات سے بهی زیا دہ قریب ہے وہ اس کے اور اس کے نفس کے در ميان حائل ہے خدا وند عالم کا ار ( شادہے :<وَاِذَاسَاٴلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌْ >( ١”اور اے پيغمبر اگر ميرے بندے تم سے ميرے بارے ميں سوال کریں تو ميں ان سے قریب ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)سورئہ بقرہ آیت/ ٨۶ ا۔ )( <وَنَحنُْ اَقرَْبُ مِن حَبلِْ الوَْرِیدِْ>( ١”اور ہم تواس کی شہرگ سے بهی زیادہ قریب ہيں “( <اِنَّ اللہَّٰ یَحُولُْ بَينَْ المَْرءِْ وَقَلبِْہِ>( ٢”بيشک خدا انسان اور اس کے دل کے درميان حا ئل ہو جاتا ہے ” حضرت امير المو منين عليہ السلام دعا ميں ار شاد فرما تے ہيں : <اتقرب اليک بسعة رحمتک التي وسعت کلّ شی ء وقد تریٰ یاربّ مکاني و تطلع علیٰ ضميري وتعلم سري ولایخفیٰ عليک امري وانت اقرب اليَّ من حبل ( الورید>( ٣”ميں تيری اس وسيع رحمت سے قریب ہو نا چا ہتا ہو ں جوہر چيز کا احا طہ کئے ہو ئے ہے ،تو ميرے مکان سے بخوبی آگاہ ہے ،ميرے ضميرسے با خبر ہے ،ميرے رازوں کو جانتا ہے ،ميرا کوئی امر تجه سے پو شيدہ نہيں اور تو مير ی شہ رگ حيات سے زیا دہ مجه سے قریب ہے “جمعہ کے دن کی دعا ميں آپ ارشاد فرماتے ہيں :<لاالہ الاالله المجيب لمن ناداہ باٴخفض صوتہ،السميع لمن ناجاہ لاٴغمض ( سرّہ،الروٴوف بمن رجاہ لتفریج همّہ القریب ممّن دعاہ لتنفيس کربہ وغمّہ>( ۴ “کو ئی خدا نہيں ہے سوائے الله کے جو اپنے بندے کی ہلکی سی آواز کا بهی جواب دیتا ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)سورئہ ق آیت/ ۶ا۔ )٢)سورئہ انفال آیت/ ٢۴ ۔ )٣)البلد الامين صفحہ ٩۶ ۔ )۴)البلد الامين صفحہ ٩٣ ۔ )اس کی آواز کو بهی سنتا ہے جو اس کو اپنے راز کو پوشيدہ رکه کر اسے پکا رتا ہے اس شخص پر مہر بان ہے جواپنی مشکل دور کرنے ميں خداوند عالم سے لو لگاتا ہے اس شخص سے قریب ہے جو اپنے غم کے دورہونے کے سلسلہ ميں اس سے دعا کرتا ہے “امام عليہ السلام ایک خطبہ ميں ارشاد فرماتے ہيں : <سبق في العلوّفلاشي ءٍ اٴعلامنہ،وقرب فی الدنوفلا شئی اقرب منہ،فلا ( استعلا وٴہ باعدہ عن شي ءٍ من خلقہ ولاقربہ ساواهم فی المکان بہ>( ١”وہ اتنا بلند و بر تر ہے کہ کو ئی چيز اس سے بلند نہيں ہو سکتی اور اتنا قریب سے قریب تر ہے کہ کو ئی شے اس سے قریب نہيں ہے اور نہ اس کی بلندی نے اسے مخلوقات سے دور کردیا ہے اور نہ اس کے قرب نے اُسے دو سروں کی سطح پر لا کر اُن کے برابر کر دیا ہے ”
٢۔الله سے حسن ظنالله سے حسن ظن رکهنا الله کی معرفت کے پہلوؤں ميں سے ایک پہلوہے ، الله اپنےبندو ںکو اتنا ہی عطا کر تاہے جتنا وہ الله سے حسن ظن رکهتے ہيں اور اس کی رحمت اور کرم کی وسعت کا یقين رکهتے ہيں ۔حدیث قدسی ميں آیا ہے 🙁 <اناعند ظن عبدي بيّ ،فلایظُنُّ بِيّ الا خيراً>( ٢”ميں اپنے سلسلہ ميں اپنے بندے کے ظن و گمان کے مطابق اس کی حا جت پوری کرتا ہوں اس سے قریب ہوں لہٰذا وہ ميرے بارے ميں خير کے علا وہ کو ئی ظن و گمان نہ رکهے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)نہج البلا غہ خطبہ ۴٩ )٢)الميزان جلد ٢صفحہ ٣٧ ۔ )رسول الله صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے مروی ہے : <ادعواالله وانتم موقنون بالاجابة >”الله سے دعا مستجاب ہو نے کے یقين کے ساته دعا کرو ” الله تبارک وتعالیٰ نے جناب مو سیٰ کو وحی کی : ( <مادعوتني ورجو تني فاني سامع لک >( ١”اے موسیٰ جو کچه مجه سے دعا کرتے ہو اور مجه سے اميد رکهتے ہو ميں اس کو تمہار ی خاطر سنتا ہوں “امام جعفرصادق عليہ السلام سے مروی ہے 🙁 <اذا دعوت فاٴقبل بقلبک وظنّ حاجتک بالباب>( ٢ “جب دعا کرو تو اپنے دل کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کرو اور اپنی حا جت کو قبوليت کے دروازے پر سمجهو “اور یہ بهی آپ ہی کا فرمان ہے : ( <فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم اسْتَيْقِن الاجابة> ( ٣”جب دعا کرو تو اپنے دل کو خداوند عالم کی طرف متوجہ کرو اور اجابت کا یقين رکهو “اس کے با لمقابل الله کی رحمت اور دعا کے مستجاب ہو نے سے ما یوس ہو جانا ہے یہ الله کی رحمت سے دور ہو جانے کاایک سبب ہے کبهی کبهی انسان الله سے دعا کر تا ہے تو خداوند عالم اس کی دعا مستجاب کر نے ميں تا خير کرتا ہے اور اس وقت تک تا خير کرتا ہے جب تک وہ اس کی مصلحت کے مطابق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)وسائل اشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١٠۵ ،،حدیث ٨٧٠٣ ۔ )٢)اصول کا فی صفحہ ۵١٩ ،اور وسائل اشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١٠۵ حدیث ۔ ٨٧٠٠ )٣)اصول کا فی باب الا قبال علی الد عا ۔ )نہ ہو جائے ليکن انسان اس کی معرفت نہيں رکهتا اور الله اس کو جانتا ہے لہٰذا انسان الله سے سوء ظن کر بيڻهتا ہے اور الله کی رحمت سے نا اميد ہو جاتا ہے یہی نا اميد ی الله کی رحمت ميں مانع ہو تی ہے۔حضرت امام جعفر صادق عليہ السلا م سے مروی ہے :”لایزال العبد بخير و رجاء ورحمة من اللّٰہ عزّوجلّ،مالم یستعجل، فيقنط،ویترک ( الدعاء،وقيل لہ:کيف یستعجل ؟قال:یقول:قد دعوت منذکذا وکذاومااٴریٰ الاجابة”( ١”انسان اس وقت تک نيکی کی اميد اور رحمت الٰہی ميں رہتا ہے جب تک وہ جلدی بازی نہ کرے اوربندہ جلدبازی کر نے کے نتيجہ ميں مایوس ہو جاتا ہے اور دعا کرناچهو ڑدیتا ہے ۔امام سے سوال کيا گيا بند ہ کی جلد بازی کرنے کا کيا مطلب ہے ؟ فرمایا وہ کہتا ہے :ميں یہ دعا مانگ رہا ہوں ليکن قبول نہيں ہو رہی ہے” احمد بن محمد بن ابی نصر سے مروی ہے کہ ميں نے ابو الحسن کی خدمت اقدس ميں عرض کيا:”جُعلت فداک إني قد ساٴلت اللّٰہ الحاجة منذ کذا وکذا سنة،وقددخل قلبي من ابطائهاشيٴٌ،فقال:یااٴحمد،ایاک والشيطان ان یکون لہ عليک سبيل حتّیٰ یقنطک۔اخبرني عنک لواٴنّي قلت لک قولاکنت تثق بہ مني۔فقلت لہ :جعلت فداک،اذالم اثق بقولک فبمن اٴثق،وانت حجة اللّٰہ علیٰ خلقہ؟قال فکن باللّٰہ اوثق،فإنّک علیٰ موعد من اللّٰہ عزّوجلّ۔اٴليس اللّٰہ یقولوَاِذَاسَاٴلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌْاُجِيبُْ دَعوَْةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ>( ٢)وقال:<لَاتَقنَْطُواْ مِنْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)اصول کا فی صفحہ ۵٢٧ )اور وسائل اشيعہ جلد ۴ صفحہ ١١٠٧ حدیث ٨٧١١ ۔ )٢)سورئہ بقرہ آیت/ ٨۶ ا۔ )رَّحمَْةِاللهِ >( ١) وقال:<وَاللهُ یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنہُْ وَفَضلْاً>( ٢)فکن باللّٰہ اٴوثق منک بغيرہ ( ولاتجعلوافی انفسکم الاخيراًفانہ لغفور لکم “( ٣”ميری جان آپ پر فدا ہو ميں پرور دگار سے ایک سال تک اپنی فلاں فلاں حاجتيں مانگتا رہا اب مير ے دل ميں ان کے قبول نہ ہو نے کے سلسلہ ميں خدشہ آگيا ہے :آپ نے فرمایا :اے احمد شيطان سے بچو! اس لئے کہ وہ تمہيں مایوسی کے راستہ پر لگادے گا :مجهے ثبوت دو کہ اگر ميں تمہيں کچه بتاؤ ں تو تم اس پر اعتماد کروگے :ميں نے عرض کيا :ميری جان آپ پر فدا ہو اگر ميں آپ کے فرمان پر اعتماد نہيں کرونگا تو پهر کس کے فرمان پر اعتماد پر کرونگا اور آپ تو مخلوق پر الله کی حجت ہيں ؟آپ نے فرمایا :الله پر سب سے زیادہ اعتماد رکهو چونکہ خداوند عالم نے تم سے وعدہ کيا ہے “کيا پر ورد گار عالم نے نہيں فرمایا :<وَاِذَاسَاٴلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیبٌْاُجِيبُْ دَعوَْةَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ>”اور اے پيغمبر اگر ميرے بندے تم سے ميرے بارے ميں سوال کریں تو ميں ان سے قریب ہوں پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بهی پکارتا ہے ” اور یہ فرمان :<لَاتَقنَْطُواْمِن رَّحمَْةِ اللهِ >”رحمت خدا سے ما یوس نہ ہو نا ” اور یہ فرمان :<وَاللهُ یَعِدُکُم مَغفِْرَةً مِنہُْ وَفَضلْاً>”اور خدا مغفرت اورفضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے ” لہٰذا تم سب سے زیادہ الله پر اعتماد کرو اور اپنے نفس ميں خير کے علاوہ اور کچه نہ قرار دو بيشک الله تمہار ے لئے غفور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)سورئہ زمر آیت/ ۵٣ ۔ )٢)سورئہ بقرہ آیت/ ٢۶٨ ۔ )٣)قرب الا سنا د صفحہ/ ١٧١ ۔ )امام جعفر صادق عليہ السلام سے مروی ہے : <انّ العبد اذا عجل فقام لحاجتہ (یعني انصرف عن الدعاء ولم یطل في الدعاء،والوقوف بين یدي اللّٰہ طالباًللحاجة)یقول اللہٰ عزّوجلّ:اٴمایعلم عبدياٴنّي اٴنااللّٰہ ( الّذي اقضي الحوائج >( ١”بندہ جب جلد بازی کرتا ہے تو وہ اپنی حاجت کےلئے قيام (یعنی دعا کر نے سے منصرف ہو جاتا ہے زیادہ دیر تک دعا نہيں مانگتا اور الله کی بارگاہ ميںحاجت روائی کےلئے کهڑا ہو جاتا ہے ) کر ليتا ہے ۔ پرور دگار فرماتا ہے :کيا ميرا بندہ نہيں جانتا بيشک ميں خداہوں جو حاجتوں کو پورا کرنے والا ہوں ؟” ہشام بن سالم نے امام جعفرصادق عليہ السلام سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمایا 🙁 کان بين قول اللّٰہ عزّوجلّ :<قَداُْجِيبَْت دَعوَْتُکُمَا>( ٢ خداوند عالم کے قول :<قَداُْجِيبَْت دَعوَْتُکُمَا> اور فرعون کی تنبيہ کے درميان ( چاليس سال کا فاصلہ ہے” ( ٣اسحاق بن عمار سے مروی ہے : <قلت لابي عبداللّٰہ عليہ السلام:یستجاب للرجل الدعاء ثم یوٴخّر ؟ ( قال:نعم،عشرین سنة>( ۴”ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کی خدمت اقدس ميں عرض کيا : ميری جان آپ پر فدا ہوکيا بند ے کی دعا مستجاب ہو نے ميں تا خير ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا :ہاں بيس سال تاخير ہو سکتی ہے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)وسائل اشيعہ صفحہ / ١١٠۶ حدیث ٨٧٠٩ ۔ )٢)سورئہ یونس آیت / ٨٨ ۔ )٣)اصول کافی جلد ٢صفحہ/ ۵۶٢ ۔ )۴)اصول کافی جلد ٢صفحہ/ ۵۶٢ ۔ )
٣۔ الله کی بار گاہ ميں اضطراردعا ميں انسان کےلئے الله کی پناہ مانگنا ضروری ہے چونکہ مضطر خداوند عالم کے علاوہ کسی کو اس لا ئق نہيں پاتا جس سے اميد لگا ئے اور اپنی حا جتوں کےلئے اس پر بهروسہ رکهے ۔جب انسان الله اور الله کے علاوہ اس کے بندوں ميں سے کسی سے اپنی اميد لگا ئے رہتا ہے تو اس کو خدا وندعالم سے جس طرح لو لگا نی چاہئے تهی اس نے اس کا حق ادا نہيں کيا اور اپنے نفس ميں الله سے مضطر ہو نے کی حالت نہيں پيداکی حالانکہ دعا کے مستجاب ہو نے کی بنياد ی شرط وہی ہے ۔ حضرت امير المو منين عليہ السلام نے محمد بن حنفيہ کو وصيت کرتے وقت ( فر مایا : <وبالإخلاص یکون الخلاص فاذااشتدَالفزع فالی الله المفزع>( ١”انسان اخلاص کے ذریعہ ہی چهڻکارا حاصل کرتا ہے جب زیادہ شدت و اضطراب و گهبراہٹ ہو گی تو انسان الله سے خو ف کهائے گا ” مجبوری کی حالت ميں انسان کی تمام اميد یں ہر ایک سے منقطع ہو جاتی ہيں اور صرف الله کی بارگاہ ميں گڑگڑاتا ہے اور خدا کے علاوہ وہ کسی اور سے اميد نہيں رکهتاروایت کی گئی ہے کہ الله نے حضرت عيسیٰ عليہ السلام پر وحی نازل کی : <ادعني دعاء الحزین الغریق ليس لہ مغيث،یاعيسیٰ!سلنی ولا تساٴل ( غيري،فيحسن منک الدعاء،ومنيّ الاجابة>( ٢”اے عيسیٰ جس کا کو ئی فریاد رس نہ ہو اس کی طرح گڑگڑاکر محزون ور نجيدہ ہو کر مجه سے دعا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)وسائل اشيعہ جلد ۴ صفحہ/ ١١٢١ حدیث ٨٧۶۴ ۔ )٢)وسائل اشيعہ جلد ۴ :صفحہ نمبر ١١٧۴ حدیث ٨٩۵٨ ۔ )مانگو،ميرے علاوہ کسی اور سے دعا نہ ما نگو جومجه سے اچهی دعا مانگے گا تو ميں ضرور مستجاب کرونگا”اميرالمو منين حضرت علی عليہ السلام الله سے مناجات کر تے ہو ئے فرما تے ہيں : <الٰهي ليس تشبہ مساٴلتي مساٴلة السائلين لاَنّ السائل اذا مُنع امتنع عن السوٴال،واٴنالاغناء بي عمّاساٴلتک علیٰ کل حال،الٰہي اِرضَ عني،فان لم ترضِ فاعف عني،فقدیعفوالسيدعن عبدہ وهوعنہ غيرراضٍ الٰہي کيف اٴدعوک واٴنا اٴنا؟وکيف اٴیْاٴس ( منک واٴنت اٴنت ؟>( ١”پرور دگار ميرا مسئلہ سا ئلوں کے سوالوں جيسا کب ہو سکتا ہے چو نکہ سا ئل کو جب منع کر دیا جاتا ہے تو وہ سوال کر نے سے رک جاتا ہے اور ميں تجه سے بے نياز نہيں ہوں مجهے تو ہر حال ميں تجه سے سوال کرنا ہی ہے ،خدا یا مجه سے را ضی ہو جا ،اگر تو مجه سے راضی نہيں ہوتا تو مجه کو معاف فر ما دے، کيونکہ آقا اپنے غلام کو راضی نہ ہو نے کی صورت ميں بهی معاف کر دیتا ہے ،پرور دگار ميں تجه سے کيسے دعا کروں حا لانکہ ميں ميں ہوں ؟اور تجه سے کيسے ما یوس ہوں حا لانکہ تو تو ہے ؟”اسی کو حالت اضطرار کہا جاتا ہے جس ميں بندہ الله کے علاوہ کسی اور کوپناہ گاہ نہيں سمجهتا اور اپنی حاجتوں کو الله کی بارگاہ ميں پيش کر تا ہے ۔ جيسا کہ ہم یہ بيان کر چکے ہيں کہ حالت اضطرار الله کی یاد ميں غرق ہو جانا ہے جب بندہ اس بات سے با خبر ہوتا ہے کہ وہ الله کی بار گاہ ميں اپنی حاجت پيش کر نے پر مضطر ہے اور الله کے علاوہ اس کا کو ئی اور نہيں ہے جس کی بارگاہ ميں وہ اپنی حاجت پيش کر سکے تو وہ اسی کی یاد ميں غرق ہو جاتا ہے اور الله کے علاوہ کسی اور سے لو نہيں لگا تا وہ الله کی ہی یاد ميں منہمک رہتا ہے اور اس کے علاوہ کسی کی یادميں منہمک نہيں ہو تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)البلد الامين صفحہ ٣١۶ ۔ )حضرت امام زین العابد ین عليہ السلام دعا ميں فرما تے ہيں : ( <وَاجعَْلنِْی مِمَّن یَدعُْوکَْ مُخلِْصاً فِی الرَّخَاءِ دُعَاءُ المُْضطَْرِّینَْ لَکَ > ( ١”مجهے ان لوگوں ميں قرار دے جو سکون کے لمحات ميں اس خلوص سے دعا کرتے ہيں جس طرح پریشانی کے اوقات ميں مضطر لوگ دعا کرتے ہيں ” ایک اور مقام پر آپ فرما تے ہيں :<اَللَّهُمَّ اِنِّی اَخلَْصتُْ بِاِنقِْطَاعِي اِلَيکَْ وَاَقبَْلتُْ بِکُلِّي عَلَيکَْ وَصَرَفتُْ وَجهِْي عَمَّن یَّحتَْاجُ اِل یٰ رِفدِْکَ وَقَلَبتُْ مَساْٴلَتِي عَمَّن لَم یَستَْغنِْ عَن فَضلِْکَ وَرَاٴیتُْ اَنَّ طَلَبَ المُْحتَْاجِ ( اِل یٰ المُْحتَْاجِ سَفہٌْ مِن رَایِْہِ وَضَلَّةٌ مِن عَقلِْہِ >( ٢”خدا یا ميں مکمل اخلاص کے ساته تيری طرف آرہا ہوں اور پور ے وجود کے ساته تيری طرف متوجہ ہوں ميں نے اپنا رخ ان تمام لوگوں سے مو ڑليا ہے جو خود ہی تيری عطا کے محتا ج ہيں اور اپنے سوال کو ان کی طرف سے ہڻا ليا ہے جو خود بهی تيرے فضل و کرم سے بے نياز نہيں ہيں اور ميں نے یہ اندازہ کرليا ہے کہ محتاج کا محتاج سے ما نگنا فکر کی نا دانی اور عقل کی گمرا ہی ہے ” ان باتو ں پر زور دینے کا مطلب یہ نہيں ہے کہ انسان وہ مادی وسائل واسباب جن کو الله نے لو گوں کی حاجتوں کو پورا کر نے کا وسيلہ قرادیا ہے ان کا سہار انہ لے جبکہ الله نے ان کا سہارا لينے کا حکم دیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ الله نے ان اسباب کو اپنی مشيت وارادہ ميں دائمی قراردیا ہے۔حضرت امام جعفر صادق عليہ السلا م سے مروی ہے :واذا اٴراد احدکم ان لایساٴل ربّہ شيئاالّااعطاہ فليياٴس من الناس کلهم،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)صحيفہ کا ملہ سجادیہ دعا ٢٢ ۔ )٢)صحيفہ کاملہ سجادیہ دعا ٢٨ ۔ )ولایکون لہ رجاء الَّاعنداللهعزَّوجلَّ،فاِذَاعلِمَ الله ذٰلک من قلبہ لم یساٴلہ شيئاالَّا اعطاہ (١)<“جب تم ميں سے کو ئی ایک یہ ارادہ کرے کہ ان کا پروردگار ان کو عطا کرنے کے علا وہ ان سے کسی چيز کاسوال نہيں کر تا ہے اور وہ الله کے علا وہ کسی اور سے کو ئی اميد و آرزو نہيں رکهتا ہے ،جب پروردگار عالم اس کے دل کی اس حالت سے آگاہ ہو جاتا ہے تو وہ (خدا)اس (بندہ )کو عطا کرنے کے علا وہ کو ئی سوال نہيں کرتا ہے ”
۴۔انهيں راستوں سے جاناجو خدا نے بتائے ہيںالله کی بارگاہ ميں دعا کر تے وقت فروتنی کر نا اور یہ فروتنی اُن ہی طریقوں سے کی جائے جن کا الله نے حکم دیا ہے ۔روایت کی گئی ہے کہ بنی اسرائيل کے ایک شخص نے چاليس رات الله کی عبادت کی اور پهر الله سے دعا کی اور وہ مستجاب نہ ہو سکی تو اس نے عيسیٰ بن مریم عليہا السلام سے گلہ شکوہ کيا۔حضرت عيسیٰ بن مریم عليہما السلام نے خداوند عالم سے اس کے متعلق سوال کيا تو پروردگار عالم نے فرمایا:( “یاعيسیٰ !انّہ دعاني،وفي قلبہ شک منک “( ٢ “اے عيسیٰ اس نے مجه سے دعا کی ليکن اس کے دل ميں تمہار ے متعلق شک تها “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١)تفسير صافی : ۵٨ ،طبع الحجریة ۔ایران ،اصول کا فی : ٣٨٢ ،وسا ئل الشيعہ جلد ۴ ) ١١٧۴ ،حدیث ٨٩۵۶ ۔ /٢)کلمة الله حدیث ٣٧١ ۔ )
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.