حضرت علی ـسے بیعت لینے کا طریقہ
جسے مشہور مؤرخ ابن قتیبہ دینوری نے اپنی کتاب ”الامامة و السیاسة” میں نقل کیا ہے ہم اس باب کا تجزیہ اور تحلیل بعد میں کریں گے، تمام مؤرخین اہلسنت اس بات پر متفق ہیں کہ ابھی سقیفہ کی بیعت کو زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ خلافت کے ماننے والوں نے ارادہ کیا کہ حضرت علی ، عباس، زبیر اور تمام بنی ہاشم سے ابوبکر کی بیعت لیں، تاکہ ابوبکر کی خلافت میںاتحاد و اتفاق نظر آئے اور ہر قسم کی رکاوٹ اور مخالفت، خلافت کے راستے سے ختم جائے۔واقعہ سقیفہ کے بعد بنی ہاشم او رمہاجرین کے بعض گروہ اور امام کے ماننے والے بعنوان اعتراض حضرت فاطمہ زہرا (س) کے گھر میں جمع ہوگئے تھے. فاطمہ زہرا (س) کے گھر میں رہنے کی وجہ سے کہ جو پیغمبر کے زمانے میں ایک خاص اہمیت کا حامل تھا اہل خلافت کے لئے مانع ہو رہا تھا کہ وہ فاطمہ کے گھر پر حملہ کریں اور وہاں پر موجود افراد کو زبردستی مسجد میں لے جا کر ان سے بیعت لیں۔مگر آخر میں ہوا وہی، انھوںنے جیسا سوچا تھا ویسا ہی کرڈالا اور اس گھر کو جو وحی الہی کا مرکز تھا نظرانداز کردیا. خلیفہ نے عمر کو ایک گروہ کے ساتھ بھیجا تاکہ جس طرح بھی ممکن ہو پناہندگان کو فاطمہ کے گھر سے نکال کر سب سے بیعت لے لیں، عمر جن لوگوں کے ساتھ آئے ان میں اسید بن حضیر و سلمہ بن سلامہ و ثابت بن قیس اور محمد بن سلمہ بھی تھے۔(١) حضرت فاطمہ (س)کے گھر کی طرف آئے تاکہ پناہ لینے والوں(١) ابن ابی الحدید نے ان تمام لوگوں کا نام اپنی شرح نہج البلاغہ ج٢ ص ٥٠ پر لکھا ہے۔کو خلیفہ کی بیعت کرنے کی دعوت دیں اور اگر ان لوگوں نے اب کی درخواست کا صحیح جواب نہیںدیا تو ان کو زبردستی گھر سے نکال کر مسجد کی طرف لے آئیں. عمر نے گھر کے سامنے بلند آواز سے کہا کہ تمام پناہ لینے والے جلد سے جلد گھر سے باہر آجائیں لیکن ان کے کہنے کا کوئی اثر نہ ہوا اور لوگ گھر سے باہر نہ نکلے۔اس وقت عمر نے لکڑی منگوائی تاکہ گھر میں آگ لگادیں اور گھر کو پناہ لینے والوں پر گرادیں لیکن اسی کے ساتھیوں میں سے ایک شخص آگے بڑھا تاکہ خلیفہ کواس کام سے منع کرے اس نے کہا کہ تم کس طرح اس گھر میں آگ لگاؤ گے جب کہ اس گھر میں پیغمبر کی بیٹی موجود ہیں؟ انہوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا : فاطمہ کا اس گھر میں موجود ہونا میرے کام کے انجام دینے کو روک نہیں سکتا۔اس وقت حضرت فاطمہ دروازے کے پیچھے آئیں اور کہا:”میں نے کسی کو بھی ایسا نہ دیکھا کہ جو برے وقت میں تمہاری طرح سے ہوتا تم نے رسول خدا کے جنازے کو ہمارے درمیان چھوڑ دیا اور خود اپنی خواہش سے خلافت کے بارے میں فیصلہ کرلیا کیوں اپنی حکومت کو ہم پر تحمیل کر رہے ہو اور خلافت کو جو کہ ہمارا حق ہے ہمیں واپس نہیں کرتے؟ابن قتیبہ لکھتا ہے:عمر نے اس مرتبہ لوگوں کو گھر سے نہیں نکالا اور اپنے ارادے سے باز آگئے اور پھر خلیفہ کے پاس آئے اور تمام حالات سے آگاہ کیا خلیفہ جانتے تھے کہ پناہ لینے والوں سے مخالفت کی وجہ سے کہ جس میں مہاجرین اور بنی ہاشم کی بزرگ شخصیتیں تھیں ان کی حکومت کی ساکھ مستحکم نہیںہوگی. اس مرتبہ انہوں نے اپنے غلام قنفذ کو حکم دیا کہ جائے اور علی کو مسجد میں لے کر آئے وہ دروازے کے پاس آیا اور علی علیہ السلام کو آواز دی اور کہا: رسول خدا کے خلیفہ کے حکم سے مسجد میں آئیے۔جب امام نے قنفذ کے منھ سے یہ جملہ سنا، تو کہا:اتنی جلدی رسول خدا پر کیوں جھوٹ کی تہمت لگا رہے ہو؟پیغمبر نے کب انھیں اپنا جانشین بنایا ،کہ وہ رسول خدا کا خلیفہ ہوں؟غلام ناامید ہو کر واپس چلا گیا اور خلیفہ کو سارے حالات سے آگاہ کیا۔خلیفہ کی طرف سے باربار دعوت کے مقابلے میں پناہ لینے والوں کے دفاع اور مقاومت نے خلیفہ کو سخت ناراض اور غصہ میں ڈال دیا. بالآخر عمر دوسری مرتبہ اپنے گروہ کے ساتھ فاطمہ (س) کے گھر آئے جب جناب فاطمہ نے حملہ آوروں کی آواز سنی تو دروازے کے پیچھے سے نالہ و فریاد بلند کیا اور کہا:”اے بابا! پیغمبر خدا ، آپ کے مرنے کے بعد خطاب کے بیٹے اور قحافہ کے بیٹے نے کتنی مصیبتوں اور پریشانیوں میں گرفتار کردیا ہے۔حضرت فاطمہ (س) کی نالہ و فریاد جو ابھی اپنے بابا کے سوگ میں بیٹھی تھیں اتنا دردناک تھا کہ عمر کے ساتھ آنے والے افراد زہرا کے گھر پر حملہ کرنے سے باز آگئے اور وہیں سے روتے ہوئے واپس چلیگئے، لیکن عمر اور ایک گروہ جو حضرت علی اور بنی ہاشم سے بیعت لینے کے لئے اصرار کر رہا تھا ان لوگوں کو زور و زبردستی کر کے گھر سے باہر نکالا اور اصرار کیا کہ حتماً ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کریں. امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر بیعت نہ کریں تو کیا ہوگا؟ ان سب نے کہا: قتل کردیئے جائیں گے۔حضرت علی علیہ السلام نے کہا: کس میں جرأت ہے جو خدا کے بندے اور رسول خدا کے بھائی کو قتل کرے ؟حضرت علی نے جب خلیفہ کے نمائندوں کو سختی سے جواب دیاتو وہ لوگ ان کو ان کے حال پر چھوڑ گئے۔امام علیہ السلام نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور درد دل کے لئے رسول خدا کی قبر کے پاس گئے اور وہی جملہ جو ہارون نے موسیٰ سے کہا تھا اسے دہرایا اور کہا: اے بھائی! آپ کے مرنے کے بعد اس گروہ نے مجھے مجبور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے قتل کردیں۔(١)______________________(١) الامامة والسیاسة ج١ ص ١٣۔ ١٢
خانۂ وحی پر حملے کے بارے میں تاریخ کا انصافسقیفہ کے بعد کے حوادث تاریخ اسلام اور امیر المومنین (ع) کی زندگی کے دردناکترین اور تلخ ترین حوادث میں سے ہیں اس بارے میں حقیقت بیانی اور صاف گوئی ایک ایسے گروہ کی رنجش کا سبب بنے گا جو ان واقعات کے بیان کرنے میں تعصب سے کام لیتے ہیں اور حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نہ ہو اور ان کی پاکیزگی و قداست محفوظ رہے، کیونکہ حقیقت کو پوشیدہ اور برعکس بیانکرنا تاریخ اور آئندہ آنے والی نسل کے ساتھ ایک خیانت ہے اور ہرگز ایک آزاد مؤرخ اس بدترین خیانت کو اپنے لئے نہیں خریدتا اور دوسروں کی نگاہ میں اچھا بننے کے لئے حقیقت کو پوشیدہ نہیں کرتا۔ابوبکر کے خلیفہ بننے کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ خانۂ وحی اور حضرت زہرا (س) کے گھر پر حملہ ہے اس ارادے سے کہ پناہ لینے والے حضرت زہرا(س) کے گھر کو چھوڑ کر بیعت کرنے کے لئے مسجد میں آئیں اس موضوع کی صحیح تشریح اور نتیجہ گیری کے لئے ضروری ہے کہ قابل اطمینان منابع و مأخذ ہوں،چاہے وہ صحیح نتیجہ دیں یا غلط، اور ضروری ہے کہ ان باتوں کا تجزیہ کریں اور پھر اس واقعہ کے نتیجے کے بارے میں انصاف کریں اور وہ تین باتیں یہ ہیں:١۔ کیا یہ صحیح ہے کہ خلیفہ کے سپاہیوں نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت فاطمہ (س) کے گھر کو جلادیں؟ اور اس بارے میں انھوں نے کیا کیا؟٢۔ کیا یہ صحیح ہے کہ امیر المومنین کوبڑی بے دردی اور اذیت کے ساتھ مسجد لے گئے تاکہ ان سے بیعت لیں؟٣۔ کیا یہ صحیح ہے کہ پیغمبر کی بیٹی اس حملے میں شدید طور پر زخمی ہوئیں اور آپ کے شکم میں موجود بچہ ساقط ہوگیا؟اس واقعہ کے تین حساس موضوع پر علمائے اہلسنت کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہوئے گفتگو کریں گے۔اسلامی تعلیمات میں سب سے اہم تعلیم یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہو مگر یہ کہ پہلے اجازت لے اور اگر گھر کا مالک مہمان قبول کرنے سے معذور ہو اور عذر خواہی کرے تو اسے قبول کرے اور بغیر اس کے کہ ناراض ہو وہیں سے واپس چلا جائے۔(١)قرآن مجید نے اس اخلاقی تعلیم کے علاوہ ہر اس گھر کو جس میں خدا کی عبادت ہوتی ہے اور اس کا صبح و شام ذکر ہوتا ہے اسے محترم اور لائق احترام جانا ہے۔______________________(١) سورۂ نور، آیت ٢٨۔ ٢٧، ”یا ایہا الذین آمنوا لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا…”(فِی بُیُوتٍ َذِنَ اﷲُ َنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیہَا اسْمُہُ یُسَبِّحُ لَہُ فِیہَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ)(١)خداوند عالم نے اس گھر کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے کہ جس میں پاک و پاکیزہ افراد صبح و شام خدا کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ان گھروں کا احترام خدا کی عبادت و پرستش کی وجہ سے ہے کہ جو اس میں انجام دیا جاتا ہے اور یہ ان خدا کے بندوں کی وجہ سے ہے جو اس گھر میں خدا کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہیں ورنہ اینٹ اور مٹی کبھی بھی نہ احترام کے لائق رہے ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔مسلمانوں کے تمام گھروں کے درمیان قرآن مجید نے پیغمبر کے گھر کے بارے میں مسلمانوں کو خصوصی حکم دیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے:( یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ ِلاَّ َنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ ) (٢)اے صاحبان ایمان! پیغمبر کے گھروں میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہو۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ کا گھر ان تمام محترم اور باعظمت گھروں میں سے ہے جس میں زہرا او ران کے بچے خدا کی تقدیس (و تسبیح) کرتے تھے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عائشہ یا حفصہ کا گھر پیغمبر کا گھر ہے لیکن آپ کی عظیم المرتبت بیٹی جو دنیا و آخرت کی سب سے عظیم بی بی ہیں ان کا گھر پیغمبر کا گھر نہیں ہے ، ان کا گھر یقینا پیغمبر کا گھر ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ خلیفہ کے ماننے والوں نے پیغمبر کے گھر کا کتنا احترام کیا، خلافت کے ابتدائی حالات کی تحقیق و جستجو کرنے کے بعد یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خلیفہ کے مامور کردہ سپاہیوں نے قرآن مجید کی ان تمام آیتوں کو نظر انداز کردیا اور پیغمبر کے گھر کی عزت کا کوئی خیال نہ کیا.اہلسنت کے بہت سے مؤرخین نے پیغمبر کے گھر پر حملہ کو مبہم اور غیر واضح طریقے سے لکھا ہے اور کچھ نے واضح اور روشن طور پر تحریر کیا ہے۔______________________(١)سورۂ نور، آیت ٣٦، (بہت سے مفسرین کا کہنا ہے کہ بیوت سے مراد وہی مساجد ہیں جب کہ مسجد گھر کے مصادیق میں سے ایک ہے نہ یہ کہ فرد پر منحصر ہے۔(٢) سورۂ احزاب، آیت ٥٣طبری جو خلفاء سے کے بارے میں بہت متعصب تھا اس نے صرف اتنا لکھا ہے کہ عمر ایک گروہ کے ساتھ زہرا کے گھر کے سامنے آئے اور کہا:خدا کی قسم! اس گھر میں آگ لگادوں گا مگر یہ کہ اس میں پناہ لینے والے بیعت کرنے کے لئے اس گھر کو چھوڑ دیں۔(١)لیکن ابن قتیبہ دینوری نے اس میں مزید اضافہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ خلیفہ نے صرف یہی جملہ نہیں بلکہ انہوں نے یہ بھی حکم دیا کہ گھر کے چاروں طرف لکڑیاں جمع کرو اور پھر کہا:اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے یا گھر چھوڑ کر باہر آجائوورنہ اس گھر میں آگ لگا کر سب کو جلا دیں گے۔جب عمر سے کہا گیا کہ اس گھر میں پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ ہیں تو انہوں نے کہا: ہوا کریں۔(٢)عقد الفرید(٣)کے مؤلف نے اپنی کتاب میں کچھ اور اضافے کے ساتھ تحریر کیا ہے وہ کہتا ہے:”خلیفہ نے عمر کو حکم دیا کہ پناہ لینے والوں کو گھر سے نکال دو اور اگر باہر نہ آئیں تو ان سے جنگ کرنا اسی وجہ سے عمر نے آگ منگوایا تھا کہ گھر کو جلادیں اس وقت جب فاطمہ کے روبرو ہوے پیغمبر کی بیٹی نے ان سے کہا: اے خطاب کے بیٹے! کیا تو میرا گھر جلانے آیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں. مگر یہ کہ دوسروں کی طرح (علی بھی) خلیفہ کی بیعت کریں”جب علمائے شیعہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس واقعہ کی تفصیل وضاحت کے ساتھ ملتی ہے۔سلیم بن قیس نے اپنی کتاب میں حضرت زہرا کے گھر پر حملہ کو بڑی تفصیل سے لکھ کر حقیقت کو______________________(١) تاریخ طبری ج٢ ص ٢٠٢، مطبع دائرة المعارف، طبری کی عبارت یہ ہے:”أتی عمر بن خطاب منزل علی فقال: لاحرقن علیکم او لتخرجن الی البیعة” ابن ابی الحدیدنے اپنی شرح ج٢ ص٥٦ میں اس جملے کو جوہری کی کتاب ”سقیفہ” سے بھی نقل کیا ہے۔(٢)الامامة والسیاسة ج٢ ص ١٢، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١ ص ١٣٤، اعلام النساء ج٣ ص ١٢٠٥(٣) ابن عبد ربہ اندلسی متوفی ٤٩٥ھ عبارت اس طرح ہے:”بعث الیہم ابوبکر عمربن خطاب لیخرجہم من بیت فاطمہ و قال لہ ان ابوا فقاتلہم. فاقبل بقبس من النار علی ان یضرم علیہم الدار فلقیتہ فاطمہ فقالت یابن الخطاب أجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم أو تدخلوا فیما دخلت فیہ الامة” عقد الفرید ج٢ ص ٢٦٠، تاریخ ابی الفداء ج١ ص ١٥٦، اعلام النساء ج٣ ص ١٢٠٧واضح کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔عمر نے آگ جمع کیا پھر دروازے کو دھکہ دیا اور گھر میں داخل ہوگئے لیکن حضرت زہرا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔(١)شیعہ بزرگ عالم دین مرحوم سید مرتضی نے اس واقعہ کے سلسلے میں بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے مثلاً آپ نے امام جعفر صادق کی اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا کہ حضرت علی نے بیعت نہیں کیا یہاں تک کہ آپ کا گھر دھوئیں میں چھپ گیا۔(٢)اب ہم یہاں پر واقعے کی اصل وجہ کے بارے میں گفتگو کریں گے اور صحیح فیصلے کے ذریعے زندہ ضمیر اور بیدار قلب کو آگاہ کریں گے اور واقعے کی تفصیلات کو اہلسنت کی کتابوں سے پیش کریں گے۔
حضرت علی کو کس طرح مسجد لے گئےتاریخ اسلام کا یہ باب بھی گذشتہ باب کی طرح بہت تلخ و دردناک ہے کیونکہ ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ حضرت علی جیسی شخصیت کواس انداز سے مسجد لے جائیں گے کہ معاویہ ٤٠ سال کے بعد اس چیز کو بطورطعنہ پیش کرے وہ امیر المومنین کو خط لکھتے ہوئے آپ کے اس دفاع کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے آپ خلفاء کے زمانے میں روبرو ہوئے تھے۔یہاں تک کہ خلیفہ تمہاری مہار پکڑے ہوئے ایک نافرمان اونٹ کی طرح بیعت کے لئے مسجد کی طرف کھینچتے ہوئے لائے۔(٣)امیر المومنین علیہ السلام نے معاویہ کو جواب دیتے ہوئے اشارتاً اصل موضوع کو قبول کرتے ہوئے اسے اپنی مظلومیت بتاتے ہوئے لکھا:”(اے معاویہ) تو نے لکھا ہے کہ میں ایک نافرمان اونٹ کی طرح بیعت کے لئے مسجد میں لایا گیا. خدا کی قسم تو نے چاہا کہ مجھ پر تنقید کرے لیکن حقیقت میں میری تعریف کی ہے تو نے چاہا کہ مجھے رسوا______________________(١) اصل سلیم ص٧٤ طبع نجف اشرف(٢) واللہ ما بایع علی حتی رأی الدخان قد دخل بیتہ” تلخیص الشافی ج٣ ص ٧٦(٣) معاویہ کے خط کی عبارت کو ابن ابی الحدید نے اپنی شرح (ج١٥ ص ١٨٦) میں نقل کیا ہے۔کرے، لیکن خود تم نے اپنے کو رسوا و ذلیل کیا مسلمان اگر مظلوم ہو تو وہ قابل اعتراض نہیں ہے۔(١)صرف ابن ابی الحدید ہی نے امام علیہ السلام پر ہوئی جسارت کو تحریر نہیںکیا ہے بلکہ اس سے پہلے ابن عبدر بہ نے اپنی کتاب عقد الفرید ج٢ ص ٢٨٥، پر اور ان کے بعد ”صبح الاعشی” کے مؤلف نے (ج١، ص ١٢٨) پر بھی نقل کیا ہے۔قابل تعجب بات یہ ہے کہ ابن ابی الحدید جب امام علیہ السلام کے نہج البلاغہ کے اٹھائیسویں خطبہ کی شرح کرتا ہے تو حضرت علی اور معاویہ کے نامہ کو نقل کرتا ہے اور واقعہ کے صحیح ہونے کے بارے میں ذرا بھی شک نہیں کرتا، لیکن اپنی کتاب کے شروع میں جب وہ ٢٦ ویں خطبہ کی شرح سے فارغ ہوتا ہے تو اصل واقعہ سے انکار کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس طرح کے مطالب کو صرف شیعوں نے نقل کیا ہے اور ان کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کیا ہے۔(٢)
حضرت زہرا کے ساتھ ناروا سلوکتیسرا سوال یہ تھا کہ کیا حضرت علی سے بیعت لیتے وقت پیغمبر کی بیٹی کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیاتھا اور ان کو صدمہ پہونچا تھا یا نہیں؟شیعہ دانشمندوں کی نظر میں اس سوال کا جواب ان گذشتہ دو جوابوں سے زیادہ دردناک ہے کیونکہ جب ان لوگوں نے چاہا کہ حضرت علی کو مسجد لے جائیں اس وقت حضرت زہرا نے ان کا دفاع کیا اور حضرت فاطمہ نے اپنے شوہر کے بچانے میں بہت زیادہ جسمانی اور روحانی تکلیفیں برداشت کیں کہ زبان و قلم جن کے لکھنے اور کہنے سے عاجز ہے۔(٣)لیکن اہلسنت کے دانشمندوں نے خلیفہ کے مقام ومنصب کا دفاع کرتے ہوئے تاریخ اسلام کے اس باب کو لکھنے سے پرہیز کیا ہے یہاں تک کہ ابن ابی الحدید نے بھی اپنی شرح میں ایسے مسائل میں سے جاناہے کہ مسلمانوں کے درمیان صرف شیعوں نے انہیںنقل کیا ہے۔(٤)______________________(١) نہج البلاغہ، نامہ ٢٨(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ٦٠(٣) شیعہ کتابوں میں سلیم بن قیس نے تفصیل کے ساتھ (صفحہ ٧٤ کے بعد) بیان کیا ہے۔(٤) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ٦٠شیعوں کے بزرگ عالم دین مرحوم سید مرتضی کہتے ہیں:شروع شروع میں محدثین اور مؤرخین نے جو کچھ بھی پیغمبر کی بیٹی کے ساتھ جسارتیںہوئیں اس کو لکھنے سے پرہیز نہیں کیا تھا اور ان کے درمیان یہ بات مشہور تھی کہ خلیفہ کے حکم سے عمر نے حضرت فاطمہ کے پہلو پر دروازہ گرایا اور جو بچہ آپ کے شکم میں تھا وہ ساقط ہوگیا اور قنفذ نے عمر کے حکم سے حضرت زہرا کو تازیانہ مارا تاکہ علی ـکے ہاتھوں کو چھوڑ دیں، لیکن بعد میں جب یہ دیکھا کہ اگر ایسے ہی نقل کرتے رہے تو خلفاء کے اوپر آنچ آئے گی لہذا اسی وقت سے اس واقعے کو تحریر کرنے سے پرہیز کرنے لگے۔(١)سید مرتضی کے کلام پر گواہ یہ ہے کہ اہلسنت کے مؤرخین و محدثین نے اس واقعہ کو بہت ہی نظر انداز کیا اورلکھنے سے پرہیز کیا مگر پھربھی ان کی کتابوں میں یہ واقعہ موجود ہے. شہرستانی نے معتزلہ کے رئیس ابراہیم بن سیار مشہور عظام سے نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے:عمر نے بیعت لینے کے وقت دروازہ کو حضرت زہرا کے پہلو پر گرایا اور جو بچہ آپ کے شکم میں تھا وہ ساقط ہوگیا پھر اس نے حکم دیا کہ گھر کوگھر والوں سمت جب کہ گھر میں علی و فاطمہ حسن و حسین کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا۔ (٢)______________________(١) تلخیص الشافی ج٣ ص ٧٦، شافی سید مرتضی کی کتاب ہے جس کو شیخ طوسی نے خلاصہ کیا ہے۔(٢) ملل و نحل ج٢ ص٩٥
انسانوں کی انسانوں پر حکومتوہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ خلفاء کی خلافت کو ”انسانوں کی انسانوں پر حکومت” یاقانون ”مشورہ” کی توجیہ کریں. وہ ان دو گروہ میں سے ایک ہیں:١۔ جو لوگ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی اصول کو آج کی فکروں اورتعلیمات سے تطبیق کریں اور اس کے ذریعے سے مغربی اور مغرب زدہ لوگوں کو اسلام کی طرف متوجہ کردیںاور ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دیں کہ انسانوں کی لوگوں پر حکومت یہ آج کی نئی فکر نہیں ہے بلکہ چودہ سو سال پہلے اسلام کے اندر ایسی فکر موجود تھی اور پیغمبر کی وفات کے بعد ان کے صحابہ نے خلیفہ منتخب کرتے وقت اس کا سہارا لیا تھا۔اس گروہ نے اگرچہ اس راہ میں خلوص نیت کے ساتھ قدم اٹھایا لیکن افسوس اسلامی مسائل کی تحقیقنہیں کیا اوراس کے ماہروںکی طرف بھی رجوع نہیں کیا اور ایک بے کار و بے ہودہ اور دھوکہ دینے والے موضوع پر بھروسہ کر رکھا جس کی وجہ سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں۔٢۔ ایک گروہ جو کسی علت کی بنا پر شیعہ علماء سے گلہ رکھتے ہیں اور کبھی کبھی بعض تحریکوں کی وجہ سے سنیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور مختلف قسم کی اخلاقی خرابیوں اور عقیدتی انحرافات سے مقابلہ کرنے کے بجائے مومن نوجوانوں بلکہ سادہ لوح افراد کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں اور ان کے شیعی عقیدوں کو کمزور کردیتے ہیں۔پہلے گروہ کی غلطیوں کا جبران ہوسکتا ہے اور اگر ان کو صحیح اور قابل اعتماد حوالے دیئے جائیں تو وہ اپنی غلطیوں اور بھٹکی ہوئی راہ سے واپس آجائیں گے لہذا ان کے بارے میں ناسزا کہنا درست نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ بہترین خدمت یہ ہے کہ ہمیشہ ان سے رابطہ بنائیں رکھیںاور اپنے فکری اور علمی رابطے کو ان سے منقطع نہ کریں۔لیکن دوسرے گروہ کی اصلاح اور ہدایت کرنا بہت مشکل ہے ،علاوہ اس کے کہ وہ گلہ رکھتے ہیں دین کے متعلق صحیح اور زیادہ معلومات نہیں رکھتے، لہذا انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے، سوائے اس کے کہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ سادہ لوح نوجوان اور دینی معلومات سے بے بہرہ افراد ان کے جال میں نہ پھنس جائیں اور اگر پھنس جائے تو کوشش کی جائے کہ ان کے دلوں سے سارے شبھات دور ہو جائیں ۔کیاعقل اور شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ حاکم کے مامور کئے ہوئے لوگ نیزے کے زور پر کسی کے گھر پر حملہ کریں اور اس گھر میں پناہ لئے ہوئے افراد کو مسجد میں لائیں اور ان سے بیعت لیں؟کیا ڈیموکریسی کے معنی یہی ہیں کہ حاکم کے گروہ کا سردار بعض گروہوں کو حکم دے کہ مخالف یا حمایت نہ کرنے والے افراد سے جبراً و زبردستی بیعت لیں اور اگر وہ لوگ بیعت نہ کریں تو ان سے جنگ کی جائے ؟تاریخ شاہد ہے کہ گروہ حاکم کے تمام افراد سے پہلے عمر نے بیعت لینے اور ووٹ حاصل کرنے میں بہت زیادہ اصرار کیا بلکہ جنگ تک کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے۔زبیر بھی حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں پناہ لئے ہوئے تھے اور ابھی خاندان رسالت سے انہوں نے بغاوت نہیں کی تھی جب سپاہیوں نے حضرت فاطمہ کے گھر میں پناہ لینے والوں کو گھر سے نکالنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں اس وقت زبیر ننگی تلوارلے کر گھر سے باہر آئے اور کہا ہم ہرگز بیعت نہیں کریں گے نہ صرف یہ کہ بیعت نہیں کریں گے بلکہ سب کے لئے ضروری ہے کہ علی کی بیعت کریں۔زبیر اسلام کا مشہور پہلوان، بہادر اورتلوار چلانے میں ماہر تھا اور اس کے تلوار کا لگایا ہوا زخم دوسروں کے لگائے ہوئے تلوار کے زخم کے درمیان نمایاں رہتا تھا اس وجہ سے سپاہیوںنے خطرہ محسوس کیا اور سب نے مل کر یکبارگی حملہ کر کے اس کے ہاتھ سے تلوار کو چھین لیا اورایک بہت بڑا قتل عام ہونے سے بچالیا ، آخر عمر جو اتنا اصرار کر رہے تھے اس کی فداکاری کی وجہ کیاتھی؟ کیا حقیقت میں عمر خلوص نیت سے اس واقعہ میں پیش پیش تھے یا یہ کہ ان کے اور ابوبکر کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا تھا؟امیر المومنین علیہ السلام جس وقت خلافت کے نمائندوں کے دبائو میں تھے اور ہمیشہ قتل کی دھمکیوں سے ڈرائے جاتے تھے اس وقت آپ نے عمر سے کہا:”اے عمر اس (خلافت )کو لے لو کیونکہ وہ تمہارا آدھا مال ہے اور مرکب خلافت کوابوبکر کے لئے محکم باندھ دو تاکہ کل تمہیں واپس کردے۔(١)اگر ابوبکر کے لئے بیعت کا لینا حقیقت میں ڈیموکریسی کے اصول کے مطابق ہوتا او راس آیت ”امرہم شوری بینہم” کا مصداق ہوتا، تو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کیوں وہ افسوس کر رہے تھے کہ کاش میں نے یہ تین کام انجام نہ دئیے ہوتے:١۔ اے کاش میں نے فاطمہ کے گھر کا احترام اوراس کی حفاظت کیا ہوتا اور حملہ کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا یہاں تک کہ اگر انھوں نے سپاہیوں کے لئے دروازہ بند کردیاتھا۔٢۔ اے کاش سقیفہ کے دن خلافت کی ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر نہ لیتا اور اسے عمر اور ابوعبیدہ کے حوالے کردیتا اور خود ان کا وزیر یامعاون ہوتا۔______________________(١) الامامة و السیاسة ج١ ص ١٢، خطبہ شقشقیہ میں تقریبا اسی مفہوم کو بیان کیاہے: لشد ما تشطرا ضرعیہا…٣۔ اے کاش ایاس بن عبد اللہ معروف بہ ”الفجاة” کو نہ جلایا ہوتا۔(١)نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے کے مشہور شاعر محمد حافظ ابراہیم مصری جن کا انتقال ١٣٥١ھ میں ہوا اپنے قصیدے ”عمریہ” میں خلیفہ دوم نے جو حضرت فاطمہ کی شان میں گستاخی اوراہانت کی اس کی ستائش کی ، وہ کہتا ہے۔و قولةٍ لعلٍّ قالہا عمرُاکرمِ بسامعِہا اعظم بملقیہاحرقتُ دارَک لا أبُقی علیک بہاان لم تبایعُ و بنتُ المصطفی فیہاماکان غیرُ ابی حفص یفوہ بہاامام فارسِ عدنانٍ و حامیہا۔(٢)اس بات کو یاد کرو جو عمر نے علی ـسے کہاتھا: سننے والے کا احترام کرو اور کہنے والے کو محترم جانو ۔عمر نے علی ـ سے کہا: اگر بیعت نہیں کرو گے تو تمہارے گھر کو جلادوں گا اور اس گھر میں رکنے کی اجازت نہیں دوں گا او راس نے یہ بات اس وقت کہی کہ پیغمبر کی بیٹی گھر میں موجود تھیں۔یہ بات عمر کے علاوہ کوئی نہیں کہہ سکتا وہ بھی عدنان عرب اور اس کے حامیوں کے شہسوار کے مقابلے میںیہ شاعر عقل و خرد سے دور رہ کر وہ ظلم و فساد جس سے عرش الہی لرز جاتا ہے چاہتا ہے کہ خلیفہ کے اس عمل کو مفاخر میں شمار کرے کیا یہ افتخار کی بات ہے کہ پیغمبر کی بیٹی کا عمر کے نزدیک کوئی احترام نہیںتھا اور وہ صرف ابوبکر کی بیعت لینے کے اس خاطر پیغمبر کے گھر اور ان کی بیٹی کو جلادے؟!اور یہ بات بھی عجیب ہے جسے عقد الفرید نے نقل کیا ہے جس وقت علی کو مسجد میں لائے تو خلیفہ نے ان سے کہا کہ کیا میری خلافت سے آپ ناراض ہیں؟ تو علی ـنے کہا: نہیں۔ بلکہ میںنے خود عہد کیا تھا کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد اپنے دوش پر ردا نہیں ڈالوں گا جب تک کہ قرآن کو جمع نہیں کرلوں گا اور اسی وجہ سے میں دوسروں سے پیچھے رہ گیا. اور پھر خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی(٣) جب کہ وہ خود اور دوسرے افراد______________________(١) تاریخ طبری ج٣ ص ٢٣٦، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ٤٦٣(٢) دیوان شاعر نیل ج١ ص ٨٤(٣) عقد الفرید ج٤ص ٢٦٠عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ چھ مہینے تک جب تک حضرت فاطمہ زندہ تھیں علی ـنے بیعت نہیں کیا اور ان کی شہادت کے بعد خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔(١)لیکن نہ صرف یہ کہ علی ـ نے بیعت نہیں کیا اور نہج البلاغہ کے خطبات آپ کی اس حقانیت پر گواہ ہیں، بلکہ وہ افراد بھی جن کے نام سے واقعہ سقیفہ کی تشریح کرتے وقت ہم آشنا ہوئے ہیں ان لوگوںنے بھی خلیفہ کی بیعت نہ کی، اور جناب سلمان جو حضرت علی کی ولایت کے سب سے بڑے حامی تھے ابوبکر کی خلافت کے بارے میں کہتے ہیں:”خلافت کو ایسے شخص کے حوالے کیا کہ جو فقط تم سے عمر میں بڑا ہے اور پیغمبر کے اہلبیت کو نظر انداز کردیا حالانکہ اگر خلافت کو اس کے محور سے خارج نہ کرتے تو ہرگز اختلاف نہ ہوتا اور سبھی خلافت کے بہترین میوے (حق) سے بہرہ مند ہوتے۔(٢)______________________(١) عقد الفرید ج٤ص ٢٦٠(٢) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٢ ص ٦٩