خواتين كے فرائض

177

شادى كا مقصدشادى انسان كى ايك فطرى ضرورت ہے اور اس كے بہت سے فائدے ہيں جن ميں سے اہم يہ ہيں:
1_ بے مقصد گھومنے اور عدم تحفظ كے احساس سے نجات اور خاندان كى تشكيلغير شادى شدہ لڑكا اور لڑكى اس كبوتر كى مانند ہوتے ہيں جس كا كوئي آشيانہ نہيں ہوتا اور شادى كے ذريعہ وہ ايك گھڑ ٹھكانہ اور پناہ گاہ حاصل كرليتے ہيں _ زندگى كا ساتھى ، مونس و غمخوار ، محرم راز ، محافظ اور مددگار پاليتے ہيں _
2_ جنسى خواہشات كى تسكينجنسى خواہش، انسان كے وجود كى ايك بہت اہم اور زبردست خواہش ہوتى ہے اسى لئے ايك ساتھى كے وجود كى ضرورت ہوتى ہے كہ سكون و اطمينان كے ساتھ ضرورت كے وقت اس كے وجود سے فائدہ اٹھائے اور لذت اصل كرے _ جنسى خواہشات كى صحيح طريقے سے تكميل ہونى چاہئے كيونكہ يہ ايك فطرى ضرورت ہے _ ورنہ ممكن ہے اس كے سماجى ، جسمانى اور نفسياتى طور پر برے نتائج نكليں _ جو لوگ شادى سے بھاگتے ہيں عموماً ايسے لوگ نفساتى اور جسمانى بيماريوں ميں مبتلا ہوتے ہيں _
3_ توليد و افزائشے نسل
شادى كے ذريعہ انسان اولاد پيدا كرتا ہے _ بچے كا وجود شادى كا ثمرہ ہوتاہے اور خاندان كى بنياد كو مستحكم كرنے نيز مياں بيوى كے تعلقات كو خوشگوارى اور پائدار بنانے كا سبب بنتا ہے _ يہى وجہ ہے كہ قرآن او راحاديث ميں شادى كے مسئلہ پر بہت زيادہ تاكيد كى گئي ہے مثال كے طور پر _خداوند عالم قرآن مجيدميں فرماتا ہے ، خدا كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى يہ (بھي) ہے كہ اس نے تمہارے لئے شريك زندگى بنائي تا كہ تم ان سے انس پيدا كرو_(5) رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں: اسلام ميں زناشوئي (شادي) سے بہتر كوئي بنياد نہيں ڈالى گئي ہے _ (6)امير المومنين عليہ السلام فرماتے ہيں _ شادى كرو كہ يہ رسول خدا (ص) كى سنت ہے _پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم كا ارشاد ہے : جو شخص چاہتا ہے كہ ميرى سنت كى پيروى كرے اسے چاہئے شادى كرلے _ شادى كے وسيلے سے اولاد پيدا كرے ( اور مسلمانوں كى تعداد ميں اضافہ كرے ) تا كہ قيامت ميں ميرى امت كى تعداد ، دوسرى امتوں سے زيادہ ہو _ (7)امام رضا عليہ السلام فرماتے ہيں : انسان كے لئے نيك اور شائستہ شريك زندگى سے بڑھ كر اور كوئي سودمند چيز نہيں _ ايسى بيوى كہ جب اس كى طرف نگاہ كرے تو اسے خوشى و شادمانى حاصل ہو _ اس كى غير موجودگى ميں اپنے نفس اور اس كے ماں كى حفاظت كرے _ (8)مذكورہ باتيں ، شادى كے ذريعہ حاصل كئے جانے والے دنيوى اور حيوانى فوائد و منافع كے متعلق تھيں كہ ان ميں سے بعض سے حيوانات بھى بہرہ مند ہوتے ہيں _ البتہ اس قسم كے مفادات كوانسان كى ازدواجى زندگى كا (اس اعتبار سے كہ وہ انسان ہے) اصل مقصد قرار نہيں ديا جا سكتا _انسان اس دنيا ميں اس لئے نہيں آيا ہے كہ وہ ايك مدت تك كھائے ، پيئے ، سوئے ، عيش كرے ، لذتيں اٹھائے اور پھر مرجائے اور نابود ہوجائے _ انسان كا مرتبہ ان تمام باتوں سے كہيں اعلى اورارفع ہے _ انسان اس دنيا ميں اس لئے آيا ہے تا كہ علم عمل اور اعلى اخلاق كے ذريعہ اپنے نفس كى تربيت كرے اور انسانيت كى راہ مستقيم اور كمال كے مدراج كو طے كرے اور اس طرح پروردگار عالم كے قرب حاصل كرسكے _انسان ايك ايسى اعلى و برتر مخلوق ہے جو تہذيب و تزكيہ نفس كے ذريعہ برائيوں سے اجتناب كركے اپنے فضائل اور بلند اخلاق نيز نيك كام انجام دے كر ايسے ارفع مقام پر پہونچ سكتا ہے جہاں
20فرشتوں كى بھى رسائي ممكن نہيں _انسان ايك جاودان مخلوق ہے اور اس دنيا ميں اس كے آنے كا مقصد يہ ہے كہ پيغمبر وں كى ہدايت و رہنمائي كے ذريعہ دين كے اصول و قوانين كے مطابق عمل كركرے اپنے لئے دين و دنيا كى سعادت فراہم كرے اور جہان آخرت ميں پروردگار عالم كى رحمت كے سائے ميں خوشى و آرام كے ساتھ ابدى زندگى گزارے لہذا انسان كى ازدواجى زندگى كے اصل مقصد كو اسى پس منظر ميں تلاش كرنا چاہئے _ ايك ديندار انسان كے نزديك شادى كا اصل مقصد يہ ہے كہ وہ اپنے شريك زندگى كے اشتراك و تعاون سے اپنے نفس كو گناہوں ، برائيوں اور بداخلاقيوں سے محفوظ ركھے اور صالح اعمال اور نيك و پسنديدہ اخلاق و كردار كے ساتھ اپنے نفس كى تربيت كرتے تا كہ انسانيت كے بلند مقام پر پہونچ جائے اور خدا كا تقرب حاصل كرلے _ اور ايسے اعلى مقصد كے حصول كے لئے شائستہ ، نيك اور موزوں شريك زندگى كى ضرورت ہوتى ہے _دو مومن انسان جو شادى كے ذريعہ خاندان كى تشكيل كرتے ہيں انس و محبت كے سائے ميں سكون و اطمينان كے ساتھ اپنى جائز خواہشات سے بہرہ مندہوسكتے ہيں اور اس طرح ناجائز تعلقات قائم كرنے ، فساد وتباہى كے مراكز كا رخ كرنے نيز خاندانوں كو تباہ كردينے والى شب باشيوں كے شرسے محفوظ ركھنے كے اسباب مہيا كئے جا سكتے ہيں _يہى سبب ہے كہ پيغمبر اكرم او رائمہ اطہار عليہم السلام نے ازدوج يعنى شادى پر بہت زيادہ تاكيد فرمائي ہے _ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں : جو شخص شادى كرتا ہے اپنے آدھے دين كى حفاظت كے اسباب مہيا كرليتا ہے _ (9)امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : شادى شدہ انسان كى دو ركعت نماز ، غير شادى شدہ انسان كى ستر ركعت كى نمازوں سے زيادہ افضل ہے _ (10)ديندار اور مناسب شريك زندگى (خواہ مرد ہو يا عورت) كا وجود ، فرائض كى ادائيگى اور واجبات
21و مستحبات پر عمل كرنے نيز محرمات و مكروہات سے اجتناب كرنے ، نيكيوں كو اختيار كرنے اور برائيوں سے پرہيز كرنے كے سلسلہ ميں بہت اہم كردار ادا كرتا ہے _اگر شوہر و بيوى دونوں ديندار ہوں اور تزكيہ نفس سے بہرہ مند ہوں تو اس دشوار گزار راہ كو طے كنرے ميں نہ صرف يہ كہ كوئي ركاوٹ نہيں ہوگى بلكہ ايك دوسرے كے معاون و مددگار ثابت ہوں گے _ خدا كى راہ ميں جہاد كرنے والا ايك سپاہى كيا اپنى شريك زندگى كے تعاون اور رضامندى كے بغير ميدان جنگ ميں اچھى طرف لڑسكتاہے اور دليرانہ كارنامے انجام دے سكتا ہے ؟ كيا كوئي انسان اپنى شريك حيات كى موافقت كے بغير روزى ، علم اور مال و دولت كے حصول ميں تمام شرعى اوراخلاقى پہلوؤں كا لحاظ ركھ سكتا ہے ؟ اسراف اور فضول خرچيوں سے بچ سكتا ہے؟ اپنے ضرورى اخراجات كے علاوہ رقم كو نيك كاموں ميںخرچ كرسكتا ہے؟مومن اور ديندار شريك زندگى اپنے ساتھى كو نيكى اور اچھائيوں كى ترغيب دلاتے ہيں اور لاابالى اور بداخلاق، اپنے شريك زندگى كو برائيوں اور بداخلاقيوں كى طرف راغب كرتے ہيں _ اور انسانيت كے مقدس مقصد سے دور كرديتے ہيں _ اسى سبب سے مرد اور عورت دونوں كے لئے كہا گيا ہے كہ شريك حيات كے انتخاب كے وقت ، ايمان، ديندارى اور اخلاق كو بنيادى شرط قرار ديں _رسول خداصلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا ارشاد ہے كہ خداوند عالم نے فرمايا: جب ميں ارادہ كرتا ہوں كہ دنيا و آخرت كى تمام خوبياں كسى مسلمان شخص كے لئے جمع كردوں تو اس كو مطيع قلب، ذكر كر نيوالى زبان اور مصيبتوں پر صبر كرنے والا بدن عطا كرتا ہوں _ اور اس كو ايسى مومن بيوى ديتا ہوں كہ جب بھى اس كى طرف ديكھے اسے خوش و مسرور كردے اور اس كى غير موجودگى ميں اپنے نفس اور اس كے مال كى حفاظت كرنيوالى ہو” _ (11)ايك شخص نے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں آكر عرض كيا كہ ميرى بيوى ، جب ميں گھر ميں داخل ہوتا ہوں تو ميرے استقبال كے لئے آتى ہے ، جب گھر سے باہر جاتا ہوں نے مجھے رخصت
22كرتى ہے _ جب مجھے رنجيدہ ديكھتى ہے تو ميرى دلجوئي كرتى ہے اور كہتى ہے اگرتم رزق و روزى كے متعلق فكرمند ہوتو رنجيدہ نہ ہو كہ روزى كا ضامن تو خدا ہے اور اگر آخرت كے امور كے بارے ميں سوچ رہے ہو تو خدا تمہارى فكر و كوشش اور ہمت ميں اوراضافہ فكرے _ رسول خدا (ص) نے فرمايا: اس دنيا ميں خدا كچھ خاص اور مقرب بندے ہيں اور يہ عورت بھى خدا كے ان خاص بندوں ميں سے ہے_ ايسى بيوى ايك شہيد كے نصف ثواب سے بہرہ مند ہوگى _ (12)امير المومنين حضر ت على (ع) كے پيش نظر بھى يہى اعلى مقصد تھا كہ حضرت زہرا عليہا السلام كے بارے ميں فرمايا كہ وہ اطاعت خدا كى راہ ميں بہترين معاون و مددگار ہيں _تاريخ ميں ہے كہ رسول خدا (ص) ، حضرت على (ع) اور جناب زہرا(ع) كى شادى كے بعد مبارك دينے اور احوال پرسى كى غرض سے ان كے گھر تشريف لے گئے _ حضرت على (ع) سے پوچھا : اپنى شريك زندگى كو تم نے كيسا پايا؟كہا : خدا كى اطاعت كے لئے ، زہرا كو ميں نے بہترين مددگار پايااس كے بعد جناب فاطمہ زہرا (ع) سے پوچھا : تم نے اپنے شوہر كو كيسا پايا؟كہا : بہترين شوہر _ (13)امير المومنين عليہ السلام نے اس مختصر سے جملہ كے ذريعہ ، اسلام كى شائستہ اور مثالى خاتون كا تعارف بھى كرايا ، اور ازدواجى زندگى كے بنيادى اور اہم مقصد كو بھى بيان فرماديا_
5_ سورہ روم آيت 216_ وسائل الشيعہ : تاليف : شيخ محمد بن الحسن الحر العاملى (م سنہ) جلد 14 ص 37_ وسائل الشيعہ جلد 14 ص 138_ وسائل الشيعہ ج 14 ص 239_ وسائل الشيعہ ج 14 ص 510_ وسائل الشيعہ ج 14 ص 611_ وسائل الشيعہ ج 14 ص 612_ وسائل الشيعہ ج 14 ص 2313_ بحارالانوار ج 43 ص 117

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.