عزاداري کے مراسم ہدايت کا سرچشمہ

281

 جب تک انسان عزاداري ميں لگا رہتا ہے بہت سي برائيوں اور منکرات سے محفوظ رہتا ہے باطل کے اجتماعات اور گناہ کي محفل سے دور ہو جاتا ہے يہ مختصر سي دوري بھي بہت غنيمت ہے اس سے يہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا دل پوري طرح مردہ نہيں ہوا ہے حيات کے کچھ اثرات ضرور باقي ہيں بلکہ وہ اتنے طاقتور بھي ہيں کہ وہ انسان کو گناہ کي محفلوں سے نکال کر عزاداري کي مجلسوں ميں شريک کر ديتے ہيں، يعني يہ جذبہ خيراگر ذرا نم ہو جائے تو بڑا ذرخيز ثابت ہوگا شہدائے کربلا کي ياد فقط اس حد تک نہيں ہے کہ اسے منبروں سے پڑھا جائے اور بياں کيا جائے اور لوگوں کے احساسات متاثر ہوں بلکہ يہ حادثہ پوري تاريخ ميں عظيم انقلابوں کا سرچشمہ رہا ہے اور وقت کے يزيد کے خلاف ايک آواز ہے، ظالم کے خلاف ايک آواز ہے، امام حسين (ع) نے جس مقصد کے لئے قرباني دي اسي کے تسلسل کا نام عزاداري ہے- درحقيقت عزاداري تسلسل عاشورا ہے، کربلا ايک پيکار کا نام ہے، کربلا ايک نبرد کا نام ہے
شہدائے کربلا نے دنيا کو ايک ايسا چراغ ديا جو قيامت تک لوگوں کو منور کرتا رہے گا، حضرت امام حسين(ع) نے دينِ حق کو قائم کرنے اور باطل کو مٹانے کي خاطرجوعظيم کارنامہ انجام ديا اس کي مثال تاريخ عالم وآدم ميں نظر نہيں آتي ہے اسلام دشمن طاقتوں نے دين اسلام کو منہدم کرنے کي جو منظم سازش تيار کي تھي اور جوايک منظم منصوبے کے تحت يزيد کي شکل ميں نماياں ہوئي تھي، امام حسين (ع) نے اپنے قيام سے سازش کے سارے تار و پود اس طرح بکھير ديئے کہ خود يزيد کے محل سے اذان کي آواز آنے لگي، امام حسين کا تذکرہ ايک صدا ہے، ايک آواز ہے جو انسان کو اس حقيقت کي طرف متوجہ کرتي رہتي ہے کہ ہوشيار رہنا دشمنوں کے نقشوں سے غافل نہ رہنا اور کبھي بھي ان کو اپنے منصوبوں ميں کامياب نہ ہونے دينا چاہيئے اس کي خاطر تم کو بہت بڑي قرباني کيوں نہ دينا پڑے-
بہرحال محرم الحرام کے ايام ميں لوگ نواسئہ رسول (ص)حضرت امام حسين (ع) کا غم مناتے ہيں اور يہ وہ مہينہ جس ميں خون تلوار پر غالب آيا اور حق کي فتح ہوئي اور ظالم کا اس وقت نام لينے والا کوئي نہيں ہے-اس مہينے کے تقدس اور مسلمانوں کے مابين اتحاد و وحدت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہميں دشمنان اسلام کي سازشوں کو ناکام بنانا چاہئيے اس لئے کہ حضرت امام حسين (ع) نواسئہ رسول ہيں اور اس کا غم سب مناتے ہيں اور اس سلسلے کو اسي طرح قائم و دائم رکھنا چاہئيے اور اسلامي تاريخ کي اس مثال سے سبق سيکھنے ہوۓ ہمارے موجود حکمرانوں کو بھي باطل سے ڈرنے کي بجاۓ ان کے سامنے حق کي آواز کو بلند کرنا چاہيۓ –
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.