ائمہ علیہم السلام کی تحریک کی حکمت عملی
وہ گلستان اہلبیت (ع) جس کی تربیت و آبیاری امام سجاد علیہ السلام جیسے ماہرانہ صلاحیت کا حامل باغباں کر رہا تھا ،ابھی اتنا زیادہ مستحکم اور پائدار نہیں ہو سکتا تھا اس باغ میں ایسے نورس نونہال بھی موجود تھے جن میں طوفانی جھکڑوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی ۔ جیسا کہ ہم اس بحث کے آغاز میں اشارہ کر چکے ہیں ،امام علیہ السلام کے گردو پیش اہلبیت (ع) سے محبت و عقیدت رکھنے والے مومنین کی بہت ہی مختصر سی تعداد تھی اور اس زمانے میں ممکن نہیں تھا کہ اس قلیل تعداد کو جس کے کاندھوں پر شیعی تنظیم کو چلانے کی عظیم ذمہ داری بھی ہے ظالم تھپیڑوں کے حوالے کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتر جانے پر مجبور کر دیں ۔اگر تشبیہ دینا چاہیں تو امام زین العابدین علیہ السلام کے دور کی مکہ میں پیغمبر اسلام (ص) کی دعوت کے ابتدائی دور سے تشبیہ دی جا سکتی ہے یعنی دعوت اسلام کے وہ چند ابتدائی سال جب علی الاعلان دعوت دینا بھی ممکن نہ تھا ۔اسی طرح شاید امام محمد باقر علیہ السلام کے دور کی پیغمبر (ص) کی مکی تبلیغ کے دوسرے دور اور پھر اس کے ادوار کی دعوت اسلام کے بعد کے ادوار سے تشبیہ غلط نہ ہوگی ۔ لہٰذا تعرض اور مڈ بھیڑ کی حکمت عملی ابھی صحیح طور پر انجام نہ پاتی۔یقین جانئے اگر وہی تیز و تند حکمت عملی ،جو امام صادق علیہ السلام ،امام کاظم علیہ السلام اور امام رضا علیہ السلام کے بعض کلمات سے مترشح ہوتی ہے ،امام سجاد علیہ السلام بھی اپنا لیتے تو عبد الملک بن مروان جس کا اقتدار پورے اوج پر نظر آتا ہے ،بڑی آسانی کے ساتھ تعلیمات اہلبیت (ع) کی پوری بساط الٹ کر رکھ دیتا اور پھر کام ایک نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا اور یہ اقدام عاقلانہ نہ ہوتا ۔اس کے باوجود امام زین العابدین علیہ السلام کے ارشادات و اقوال میں ،جو غالبا آپ کی زندگی اور طویل دور امامت کے آخر ی دنوں سے مربوط ہیں ،کہیں کہیں حکومتی مشینری کے ساتھ تعرض و مخالفت کے اشارے بھی مل جاتے ہیں ۔ (۵)
ائمہ علیہم السلام کی طرف سے مزاحمت کے چند نمونہائمہ علیہم السلام کی تعرض آمیز روش کے جلوے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوئے جن میں سے ایک شکل تو وہی تھی جو محمد بن شہاب زہری کے نام امام زین العابدین علیہ السلام کے خط میں آپ نے ملاحظہ فرمائی ،ایک شکل معمولی دینی مسائل او ر اسلامی تعلیمات کے پردے میں اموی خلفاء کی وضع و سرشت اور حقیقت و بنیاد پر روشنی ڈال دینے کی تھی چنانچہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :”ان بنی امیۃ اطلقوا للناس تعلیم الایمان ولم یطلقوا تعلیم الشرک لکی اذا حملوھم علیہ لم یعرفوہ “یعنی بنی امیہ نے لوگوں کے لئے تعلیمات ایمانی کی راہیں کھلی چھوڑ رکھی تھیں ،لیکن حقیقت شرک سمجھنے کی راہیں بند کر دی ہیں کیوں کہ اگر عوام (مفہوم) شرک سے نا بلد رہے تو شرک ( کی حقیقت ) نہ سمجھ سکیں گے۔مطلب یہ ہے کہ بنی امیہ نے علماء اور متدین افراد منجملہ ان کے ائمہ معصومین علیہم السلام کو نماز ، روزہ ،حج زکوٰۃ نیز دیگر عبادات اور ․․․․ اسی طرح توحید و نبوت سے متعلق بحث و گفتگو کرنے کی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ ان موارد میں احکام الٰہی بیان کریں لیکن ان کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ شرک کا مفہوم اور اس کے مصادیق نیز اسلامی معاشرے میں موجود اس کے جیسے جاگتے نمونوں کو موضوع بحث و تدریس قرار دیں اس لئے کہ اگر عوام الناس کو شرک سے متعلق ان معارف کا علم ہو گیا ،وہ مشرک چہروں کو پہچان لیں گے ،وہ فورا سمجھ جائیں گے کہ بنی امیہ جن اوصاف کے حامل ہیں اور جس کی طرف انھیں گھسیٹ لے جانا چاہتے ہیں ،در اصل شرک ہے ،وہ فورا پہچان لیں گے کہ عبد الملک بن مروان اور دیگر خلفا ئے بنو امیہ طاغوتی ہیں جنھوں نے خدا کے مقابل سر اٹھارکھا ہے گویا جس شخص نے بھی ان کی اطاعت اختیار کی در اصل اس نے شرک کے مجسموں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ عوام کے درمیان شرک سے متعلق حقائق و معارف بیان کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی ۔جب ہم اسلام میں توحید کے موضوع پر بحث کرتے ہیں تو ہماری بحث کا ایک بڑا حصہ شرک اور مشرک کی شناخت سے مربوط ہے ۔ بت کسے کہتے ہیں اور کون بت پرست ہے ۔علامہ مجلسی ۺ نے بحار الانوار کی ۴۸ ویں جلد میں بڑی اچھی بات کہی ہے وہ فرماتے ہیں :” ان اٰیات الشرک ظاہر ھا فی الاصنام الظاہرۃ و باطنھا فی خلفاء الجور الذین اشرکوا مع ائمۃ الحق و نصبوا مکانھم ” (ج/۴۸ص/۹۶و۹۷)یعنی قران میں شرک کی جو آیتیں بیان کی گئی ہیں بظاہر ،ظاہر ی بتوں سے مربوط ہیں لیکن بباطن اگر تاویل کی جائے تو ان کے مصداق خلفائے جو ر ہیں جنھوں نے خلافت کے نام پر حکومت اسلامی کے ادعا اور اسلامی معاشرے پر حاکمیت کے حق میں خود کو ائمہ علیہم السلام کا شریک قرار دے لیا ، جب کہ ائمہ ٴ حق کے ساتھ یہ شرک خود خدا کے ساتھ شرک ہے کیوں کہ ائمہ حق خدا کے نمائندے ہیں ان کے دہن میں خدا کی زبان ہوتی ہے وہ خدا کی باتیں کرتے ہیں اور چوں کہ خلفائے جور نے خود کو ان کی جگہ پر پہنچاکر دعوائے امامت میں ان کا شریک بنا دیا لہٰذا وہ سب طاغوتی بت ہیں اور جو شخص ان کی اطاعت اور تاٴسی اختیار کرے وہ در اصل مشرک ہو چکا ہے ۔علامہ مجلسی اس کے بعد مزید توضیح پیش کی ہے ۔ چنانچہ یہ بیان کرتے ہوئے کہ قرآنی آیات پیغمبر اسلام (ص)کے دور سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر عصر اور ہر دور میں جاری و ساری ہیں وہ فرماتے ہیں :” فھو یجری فی اقوام ترکوا طاعۃ ائمۃ الحق واتبعوا ائمۃ الجور “یہ شرک کی تعبیر ،ان قوموں پر بھی صادق آتی ہے جنھوں نے ائمہ حق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ائمہ جور سے الحاق اور پیروی اختیار کر لی””لعدولھم عن لاٴدلۃ العقلیۃ و النقلیہ و اتباعھم الا ھو اء وعدولھم عن النصوص الجلیّۃ”کیوں کہ ان لوگوں نے ان عقلی و نقلی دلائل سے ( جو مثال کے طور پر عبد الملک کی مسلمانوں پر حکومت و خلافت کی نفی کرتی ہیں) عدول اختیار کر لیا اور اپنی ہوا و ہوس کی پیروی شروع کر دی ۔روشن و واضح نصوص کو ٹھکرا دیا ْ۔لوگوں نے دیکھا حکام وقت سے ٹکر لینے کی نسبت یہ زندگی آرام دہ بھی ہے ۔ اور ہر طرح کی درد سری سے خالی بھی ،لہٰذا اسی راحت طلبی میں لگ گئے اور ائمہ جور کی پیری اختیار کر لی ۔لہٰذا وہ بھی مشرک قرار پاتے ہیں ۔ان حالات میں ،اگر ائمہ علیہم السلام شرک کے بارے میں کچھ بیان کرنا چاہیں تو یہ دربار خلافت سے ایک طرح کا تعرض ہوگا اور یہ چیز امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی اور حضرت (ع) کے کلمات میں موجود ہے ۔اس تعرض و مخالفت کا ایک اور نمونہ ہم امام علیہ السلام اور جابر و قدرت مند اموی حاکم عبدالملک کے درمیان ہونے والی بعض خط و کتابت میں مشاہدہ کرتے ہیں جس کے دو روشن نمونوں کی طرف یہاں اشارہ مقصود ہے ۔۱۔ ایک دفعہ عبدالملک بن مروان نے امام سجاد علیہ السلام کو خط لکھا اور اس میں حضرت (ع) کو اپنی ہی آزاد کردہ کنیز کے ساتھ ازدواج کر لینے کے سلسلے میں مورد ملامت قرار دیا ۔ اصل میں حضرت (ع) کے پاس ایک کنیز تھی جس کو آپ نے پہلے آزاد کر دیا اس کے بعد اسی آزاد شدہ کنیز سے نکاح کر لیا ۔ عبد الملک نے خط لکھ کر امام (ع) کے اس عمل کو مورد شماتت قرار دیا ۔ظاہر ہے امام (ع) کا عمل نہ صرف انسانی بلکہ ہر اعتبار سے اسلامی تھا کیوں کہ ایک کنیز کو کنیز ی اور غلامی کی زنجیر سے آزاد ی دینا اور پھر عزت و شرافت کا تاج پہناکر اسی کنیز کو رشتہ ازدواج سے منسلک کر لینا یقینا انسانیت کا اعلیٰ شاہکار ہے ۔ اگر چہ عبد الملک کے خط لکھنے کا مقصد کچھ اور ہی تھا ،وہ امام کے اس مستحسن عمل کو تنقید کا نشانہ بنا کر حضرت (ع) کو یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ ہم آپ کے داخلی مسائل سے بھی آگاہی رکھتے ہیں گویا اس کے ضمن میں اصل مقصد حضرت(ع) کو ذاتی سرگرمیوں کے سلسلے میں متنبہ کرنا تھا ۔ امام سجاد علیہ السلام جواب میں ایک خط تحریر فرماتے ہیں جس میں مقدمہ کے طور پر لکھتے ہیں :یہ عمل کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں قرار دیا جا سکتا بزرگوں نے بھی اس طرح کا عمل انجام دیا ہے حتیٰ کہ پیغمبر اسلام (ص) کے یہاں بھی اسی طرح کا عمل ملتا ہے چنانچہ اس سلسلے میں میرے لئے کوئی ملامت نہیں ہے ۔” فلا لوٴم علیٰ امری : مسلم انما اللوٴم لوٴم الجاھلیۃ”یعنی ایک مسلمان کے لئے کسی طرح کی ذلت و خواری نہیں پائی جاتی ہاں ذلت و پستی تو وہی جہالت کی ذلت و پستی ہے ۔ عبد الملک کے لئے اس جملہ میں بڑا ہی لطیف طنز اور نصیحت مضمر ہے کتنے حسین انداز میں اسے اس کے آباء و اجداد کی حقیقت کی طرف متوجہ کر دیا گیا ہے کہ یہ تم ہو جس کا خاندان جاہل و مشرک اور دشمن خدا رہا ہے اور جن کے صفات تم کو وراثت میں حاصل ہوئے ہیں !!اگر شرم ہی کی بات ہے تو تم کو اپنی حقیقت پر شرم کرنی چاہئے میں نے تو ایک مسلمان عورت سے شادی کی ہے اس میں شرم کی کیا بات ہے ؟جس وقت یہ خط عبد الملک کے پاس پہنچا ،سلیمان عبد الملک کا دوسرابیٹا ،باپ کے پاس موجود تھا ،خط پڑھا گیا تو اس نے بھی سنا اور امام (ع) کی طنز آمیز نصیحت کو باپ کی طرح اس نے بھی محسوس کیا ۔وہ باپ سے مخاطب ہوا اور کہا: اے امیر المومنین دیکھا ، علی ابن الحسین علیہ السلام نے آپ پر کس طرح مفاخرت کا اظہار کیا ہے ؟ وہ اس خط میں آپ کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا تو تمام مومن باللہ رہے ہیں اور تیرے باپ دادا کافر و مشرک رہے ہیں ۔ وہ باپ کو بھڑکانا چاہتا تھا تاکہ اس خط کے سلسلے میں عبد الملک کوئی سخت اقدام کرے لیکن عبد الملک بیٹے سے زیادہ سمجھ دار تھا ۔وہ جانتا تھا کہ اس نازک مسئلہ میں امام سجاد علیہ السلام سے الجھنا درست نہیں ہے لہٰذا اس نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا: میرے بیٹے : کچھ نہ کہو ،تم نہیں جانتے یہ بنی ہاشم کی زبان ہے جو پتھر وں میں شگاف پیدا کر دیتی ہے ،یعنی ان کا استدلال ہمیشہ قوی اور لہجہ سخت ہوتاہے ۔۲۔ دوسرا نمونہ امام علیہ السلام کا ایک دوسرا خط ہے جو عبد الملک کی ایک فرمائش رد کرنے کی بنا پر عبد الملک کی جانب سے تہدید و فہمائش کے جواب میں آپ (ع) نے تحریر فرمایا ہے ۔ واقعہ کچھ یوں پیش آتا ہے ۔عبد الملک کو معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی تلوار امام سجاد علیہ السلام کی تحویل میں ہے اور یہ ایک قابل توجہ چیز تھی کیوں کہ وہ نبی (ص) کی یاد گار اور فخر کا ذریعہ تھی ،اور اب اس کا امام سجاد علیہ السلام کی تحویل میں چھوڑ دینا عبد الملک کے لئے خطر ناک تھا کیوں کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی ۔لہٰذا اس نے جو خط امام سجاد علیہ السلام کو لکھا اس میں درخواست کی کہ حضرت تلوار اس کے لئے بھیج دیں اور ذیل میں یہ بھی تحریر کر دیا تھا کہ اگر آپ (ع) کو کوئی کام ہو تو میں حاضر ہوں آپ کا کام ہو جائے گا مطلب یہ تھا آپ کے اس ہبہ کا عوض میں دینے کو تیار ہوں ۔امام علیہ السلام کا جواب انکار میں تھا لہٰذا دوبارہ اس نے ایک تہدید آمیز خط لکھا کہ اگر تلوار نہ بھیجی تو میں بیت المال سے آپ کا وظیفہ بند کردوں گا ۔ (۶) امام اس دھمکی کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :اما بعد ،خداوند عالم نے ذمہ داری لی ہے کہ وہ اپنے پرہیز گا ربندوں کو جو چیز انھیں ناگوار ہے اس سے نجات عطا کرے گا اور جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکےں ایسی جگہ سے روزی بخشے گا اور قرآن میں ارشاد فرمادیا ہے:”ان اللّٰہ لا یحب کل خوان کفور “”یقیناًخدا کسی نا شکرے خیانت کارکودوست نہیں رکھتا ۔”اب دیکھو ہم دونوں میں سے کس پر یہ آیت منطبق ہوتی ہے ۔ایک خلیفہ ٴوقت کے مقابل میں یہ لہجہ بہت زیادہ سخت تھا،کیونکہ یہ خط جس کسی کے ہاتھ لگا وہ خود فیصلہ کرلے گا کہ امام اولاً:خود کو خائن اور نا شکرا نہیں سمجھتے ،ثانیاً:کوئی دوسرا شخص بھی اس عظیم ہستی کے بارے میں ایسا رکیک تصور نہیں رکھتا ،کیونکہ حضرت کا خاندان نبوت کے منتخب اور شائستہ ترین عظیم شخصیتوں میں شمار ہوتا تھا اور ہرگز اس آیت کے مستحق نہیں قرار دئے جا سکتے تھے چنانچہ امام سجاد علیہ السلام کی نظر میں عبد الملک خائن اور ناشکرا ہے ۔دیکھئے !کس شدیدانداز میں امام سجاد علیہ السلام عبد الملک کی دھمکی کا جواب دیتے ہیں اس سے حضرت (ع) کے فیصلہ کن عمل کی حدود کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔بہر حال یہ اموی سرکار کی نسبت امام کے مزاحمت آمیز طرز عمل کے دو روشن نمونے تھے ۔۳۔ اگر اس میں کسی دوسرے نمونے کا اور اضافہ کرنا چاہیں تو یہاں وہ اشعار پیش کئے جا سکتے ہیں جو خود امام زین العابدین علیہ السلام سے یا آپ (ع) کے دوستوں سے نقل ہوئے ہیں یہ بھی اپنی مخالفت کے اظہار کا ایک انداز ہے کیوں کہ اگر ہم یہ مان کر چلیں کہ خود حضرت (ع) نے کوئی اعتراض نہیں کیا تو بھی آپ کے قریبی افراد معترض رہے ہیں اور یہ خود ایک طرح سے امام کی مزاحمت میں شمار کیا جائے گا۔