حضرت علی کے کلام میں استنباط کی تعلیم

322

خثعمیه کا رسول خد(ص)سےسوال اور اس کاجواب ایک خاتون که جس کا نام خثعمیه تھا اس نے رسول خد(ص)سے سوال کیا که میرے والدکا حج واجب ره گیاهے اگر میں ان کی نیابت میں اس حج کو قضا کروں تو یه کام ان کے لئے فائده مند هے؟ پیغمبر(ص)نے فرمایا:اگرتمهارے والد کسی کے قرضدار تھے کیا اس قرضه کا اداکرنا تمهارے والد کے لئے فائده مند هے ؟ خثعمیه نے کها جی ضرورفائده مندهے رسول خد(ص)نے فرمایا:پس خدا کا دین قضا کو بجالانے کے لئے زیاده سزاوار هے-1 رسول خد(ص)نےاس روایات میں صغری اور جز کو کبری اور کلی پر تطبیق دی هے اور کلمه دین کی عمومیت سے دین کے هر قضا کو بجالانے کے وجوب کو بیان کیا هے.مرحوم مظفر(رح) نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد ان دلائل کے سلسلے میں جسے اهل سنت سنت پیامبر سے قیاس کو ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے هیں کهتے هیں:یه بات که پیغمبرنے قضای حج کے حکم میں قیاس کا سهارا لیاهےمعنی نهیں رکھتی اس لئے که پیغمبرخود صاحب شریعت هیں اور احکام کو بذریعه وحی خدا سے دریافت کرتے هیں کیا پیغمبر(ص)قضای حج کے حکم سے آگاه نهیں تھے که انهیں اس حکم تک پهنچنے کے لئے قیاس کا سهارا لیناپڑا؟ای برادران اهل سنت مالکم کیف تحکمون تمهیں کیاهواهے یه کسے حکم لگارهے هوحدیث کے صحیح هونے کی صورت میں اس حدیث کا مقصد خثعمیه کو تطبیق علم سے آگاه کرناهے اس چیز کو جس کے بارے میں اس نے پیغمبر سے سوال کیا هے اور وه عام وجوب قضا هے یعنی دین کے هر عمل کو ادا کرنا واجب هے . اس لئے که خثعمیه پر یه بات مخفی تھی که حج ایسادینی قرض هے جس کا میت کی جانب سے قضا کرنا واجب هے . اور جبکه خداکا دین اس قضا کا سب سے زیاده سزاوار هے. 2
حضرت علی کے کلام میں استنباط کی تعلیم:فضل ابن شاذان نے الایضاح میں لکھا:اهل سنت کی روایت کے اعتبارسے قدامه بن مظعون نے شراب پی اور اجرای حدکا فرمان اس پر جاری هوا اس نے سوره مائده کی آیت سے استنادکیا لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُواْ إِذَا مَا اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّأَحْسَنُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ “جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے جو کچھ کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ متقی بن گئے اور ایمان لے آئے اور نیک اعمال کئے اور پرہیز کیااور ایمان لے آئے اور پھر پرہیز کیا اور نیک عمل کیا اور نیک اعمال کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے-3″اورکها :مجھ پر حد جاری نهیں هوسکتی کیونکه میں اس آیت کا مصداق هوں ، عمرنے اس پر حد جاری نه کرنے کا فیصله کیا لیکن امام علینے عمر سے کها : اس آیت کے مصداق نه کھاتے هیں اور نه پیتے هیں سوائے اس چیز کے جوان پر خداکی جانب سے حلال هو …اگرقدامه بن مظعون شراب کے حلال هونے کا دعوی کرے تو اسے قتل کردو اور اگر اقرار کرے که شراب حرام هے تو پھر شرب خمر کے جرم پر تازیانه لگاؤ عمرنے کها کتنے تازیانه لگاؤں؟ امام نےفرمایا:شرابخوار جب شراب پیتاهے تو هذیان بکتاهے اور جب هذیان بکتاهے تو تهمت لگاتاهے پس اس پر افترا اور تهمت کی حد جاری کرو، چنانچه اس کو اسی تازیانے لگائے گئے-4.اس روایت سے واضح هوتاهے که قدامه نے سادگی سے آیت کے ذریعه استناد کرکےعمرکو فریب دے دیا اور وه حدجاری کرنےکے فیصله کو ترک کربیٹھے اور جس کی طرح حضرت علی نے عمر کو ان کی غلطی سے آگاه کیا اور کس طرح شرب خمر کی حد کو بیان کیا هے اور اس طرح عمر کو استنباط کا طریقه سکھایا .————–1 . جناتی ، منابع احتیاط از دیدگاه ، مذاهب اسلامی ، ص 282 ؛ سید جعفر شهیدی و محمد رضا حکمی .2 . محمد رضا ، مظفر(رح)، اصول الفقه، ج2،ص 171 .3 . سوره مائده ، آیه ،93 .4 .فضل بن شاذان ، الایضاح ، ص 101و102 .
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.