دین کا مفہوم
اس کتاب کا ہدف عقائد اسلامی کا بیان کرنا ہے جسے اصول دین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، لہٰذا کسی بھی وضاحت سے پہلے مناسب یہ ہے کہ کلمہ ”دین” اور اس سے مشابہ الفاظ کی ایک وضاحت کر دی جائے، اس لئے کہ علم منطق میں ”مبادی تصوری” (تعریفات) کا مقام تمام مطالب پر مقدم ہے۔دین ایک عربی کلمہ ہے جس کے معنی لغت میں اطاعت اور جزا کے ہیں اور اصطلاح میں اس جہان، انسان کے پیدا کرنے والے پر عقیدہ رکھنا اور ان عقائد سے متناسب دستورات عملی پر اعتقاد رکھنے کے معنی میں ہے، اسی وجہ سے وہ لوگ جو اس جہان کے خالق پر مطلق اعتقاد نہیں رکھتے اور اس جہان کی خلقت کو اتفاقی حادثہ یا مادی و طبیعی فعل و انفعالات کا نتیجہ سمجھتے ہیں انہیں ”بے دین” کہا جاتاہے، لیکن وہ لوگ جو اس جہان کے خالق پر اعتقاد رکھتے ہیں، مگر اپنے اعمال و کردار میں انحراف و کج روی کے شکار ہیں انھیں ”بادین” کہا جاتا ہے، اس طرح روئے زمین پر موجودہ ادیان حق و باطل میں تقسیم کئے جاتے ہیں، لہٰذا دین حق یعنی ایسے قوانین کا مجموعہ جو صحیح عقائد پر مشتمل اور واقعیت کے مطابق ہوںنیز ایسے اعمال کا حکم دے کہ جن کی صحت میں کافی ضمانت پائی جاتی ہو۔
٢۔اصول دین اور فروع دینگذشتہ مفہوم دین کی توضیحات کے پیش نظر یہ بات روشن ہو گئی کہ کوئی بھی دین ہو دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔١۔ عقائد: جو پایہ و اساس کے حکم میں ہیں۔٢۔ قوانین عملی: جو انھیں اساس کے مطابق اور انھیں کے ذریعہ وجود میں آئے ہوں۔لہٰذا یہ بات پوری طرح روشن ہے کہ کسی بھی دین میں اس کے عقائد کو ”اصول” اور احکام عملی کو (فروع) کا نام دیا جاتا ہے جیسا کہ اسلامی دانشمندوں نے ان دو اصطلاحوں کو عقائد اور احکام اسلامی کے لئے استعمال کیا ہے۔
٣۔جہاں بینی(تصور خلقت) اور آئیڈیالوجی ۔جہاں بینی اور آئیڈیالوجی کی اصطلاح کم و بیش ایک ہی معنی میں استعمال ہوتی ہے، جہاں بینی کے معنی یہ ہیں (جہان و انسان کے مطابق چند اعتقادات اور بطور کلی ہستی) اور آئیڈیالوجی کے معنی یہ ہیں (انسانی کردار سے مطابق چند کلی نظریات اور آرا)۔ان دونوں معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ،کسی بھی عقیدتی اور اصولی نظام کو اس دین کی جہان بینی اور اس کے احکام عملی کے نظام کو آئیڈیالوژی کا نام اور انھیں دین کے اصول و فروع پر تطبیق دی جاتی ہے، لین یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ آئیڈیا لوجی کی اصطلاح احکام جزئی کو شامل نہیں ہوتی جس طرح کہ جہان بینی کی اصطلاح بھی جزئی اعتقادات کے لئے استعمال نہیں ہوتی۔ایک دوسرا نکتہ کہ جس کی طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کلمہ آئیڈیا لوجی عام معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کہ جو جہان بینی کو بھی شامل ہوتاہے۔(ا)……………………………………………(١)جہان بینی اورآئیڈیا لوجی کے سلسلہ میں زیادہ معلومات کے لئے رجوع کیا جائے ،کتاب کا نام آئیڈیا لوجی تطبیقی، درس اول۔
—————————————–
٤۔الٰہی و مادی جہان بینی۔انسانوں کے درمیان جہان بینی کی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں لیکن ان سب کو ماوراء طبیعت کے قبول یا اسے انکار کرنے کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، الٰہی جہان بینی، اور مادی جہان بینی۔گذشتہ ادوار میں مادی جہان بینی کے پیروکاروں کو کبھی٫٫ طبیعی” اور ”دہریہ،، اور کبھی ٫٫زندیق” اور ”ملحد،، کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، لیکن انھیں ہمارے زمانہ میں ”مادی” اور ”ماٹریالیٹ” کہا جاتا ہے، مادی گری کی بھی مختلف شاخیں ہیں، جس میں سے مشہور ترین ( مٹریلزم ڈیالٹیک )ہے کہ جو (مار کسیزم) کا ایک حصہ ہے۔اس ضمن میں یہ بھی روشن ہو گیا کہ ”جہان بینی” کا استعمال دینی عقائدسے بھی زیادہ وسیع ہے اس لئے کہ یہ الحادی عقائد کو بھی شامل ہے جیسا کہ آئیڈیا لوجی کی اصطلاح بھی دینی مجموعہ احکام سے مخصوص نہیں ہے۔
٥۔آسمانی ادیان اور ان کے اصول۔تاریخ ادیان، جامعہ شناسی اور عوام شناسی کے دانشمندوں کے درمیان پیدائشِ ادیان کی کیفیت کے سلسلہ میں اختلاف ہے، لیکن اسلامی اسناد کے ذریعہ جو کچھ سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ دین کا وجود انسان کی پیدائش کے ساتھ ہوا اور پہلے انسان (حضرت آدمۖ ابو البشر) خدا کے رسول، توحیدو یکتا پرستی کے منادی تھے، اور بقیہ شرک آلود ادیان تحریفات، سلیقوں کے اختلاف، فردی اور گروہی اغراض کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔(١)……………………………………………(١)بعض آسمانی ادیان میں جباروں اور ستمگروں کی رضایت حاصل کرنے کے لئے بعض تحریفات کچھ اس طرح ہیں کہ، دین کے دائرے کو خدا کے ساتھ انسان کے رابطہ میں محدود اور احکام دین کو خاص مذہبی مراسم سے مخصوص، سماج کی سیاست اور اس کے امور کو دائرہ دین سے خارج کردیاگیا ہے جبکہ ہر دین آسمانی معاشرہ کی تمام ضرور توں کو بر طرف کر نے کا ذمہ دار ہوتا ہے
—————————————تا کہ دنیوی و اخروی سعاد ت حاصل ہو سکے جنھیں سمجھنے کے لئے عام انسانوں کی عقلیں نا کافی ہیں، اس مطلب کی توضیح انشاء اللہ آئندہ آئے گی، اور خدا کی جانب سے مبعوث ہونے والے آخری پیغمبر ۖپر واجب ہے کہ وہ قیامت تک کے وہ تمام دستورات جو انسانوں کے لئے ضروری ہیں، بیان کریں، اس وجہ سے اسلامی تعلیمات میں اجتماعی و سیاسی اور اقتصادی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ موجود ہے۔ادیان توحید ی ہی ادیان آسمانی ہیں، جو تین کلی اصول میں مشترک ہیں۔
١۔ خدائے یکتا پر اعتقاد ۔٢۔ عالم آخرت میں ہر انسان کے لئے ابدی حیات، اور جو کچھ اس جہان میں انجام دیا گیا ہے اس کی جزا یا سزا کا پانا۔٣۔ بعثت انبیاء پر اعتقاد رکھنا تا کہ بشر کو انتہائی کمال اور سعادت دنیوی و اخروی کی طرف ہدایت مل سکے یہ تینوں اصول در اصل ان سوالوں کے جواب میں جو ہر ایک آگاہ انسان کے لئے پیش آئے ہیں، ہستی کا مبدا اور آغاز کیا ہے؟ زندگی کا خاتمہ کیا ہے؟ کس روش کے ذریعہ اچھی زندگی گذارنے کا طریقہ حاصل کیا جاسکتا ہے، وحی کے ذریعہ جو دستور العمل پیش کیا جاتا ہے وہ وہی دینی آئیڈیا لوجی ہے جو الٰہی جہان بینی کا نتیجہ ہے۔اصلی عقائد لازم و ملزوم اور توابع و تفاصیل سے متصف ہیں جو دینی عقیدتی نظام کو تشکیل دیتے ہیں انھیں اعتقادات میں اختلاف مختلف مذاہب اور فرقوں کی پیدائش کا سبب واقع ہو ئے ہیں جیسا کہ بعض انبیاء کی نبوت اور آسمانی کتاب کے تعین میں اختلاف، ادیان یہودی ، مسیحی اور اسلام کے درمیان تفرقہ کا باعث بنا اور اسی اختلاف کی وجہ سے عقائد واعمال میں ایسے اختلافات اٹھے کہ جو کسی طرح بنیادی اعتقاد سے ھمانگی نہیں رکھتے جیسے، عقیدۂ تثلیث جو توحید کے بالکل ضد ہے، اگر چہ مسیحیوں نے اس کی توجیہ کرنے کی پوری کوشش کرڈالی ہے، یا پھر تعین جانشینی پیغمبر ۖ کا مسئلہ کہ اسے خدا انتخاب کرے یا عوام الناس جو شیعہ اور سنی گروہوں میں شدید اختلاف کا باعث ہوا۔
نتیجہ:توحید و نبوت اور معاد کو تمام آسمانی ادیان میں اساسی عقائد میں سے شمار کیا گیا ہے، لیکن وہ عقائد جو اساسی عقائد کے تجربہ و تحلیل کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں، یا انھیں کا ایک حصہ ہیں، ایک خاص اصطلاح کے مطابق انھیںاصلی عقائد میں شمارکیا جاسکتا ہے،جیسے وجود خدا کے اعتقاد کو ایک اصل اور اس کی وحدت کے اعتقاد کو ایک دوسری اصل مان لیا جائے، یا رسول اللہ ۖکی نبوت پر اعتقاد اصول دین کا ایک حصہ ہے، جیسا کہ شیعہ دانشمندوں نے عدل جو ایک فرعی مسئلہ ہے اسے اصول کا جز قرار دیا ہے یا امامت جو نبو ت کی تابع ہے ایک دوسری اصل کے عنوان سے ذکر کیا ہے، درحقیقت کلمہ اصل کا استعمال ایسے اعتقادات کے سلسلہ میں اصطلاح کے تابع ہے اور یہ کسی بھی قسم کے مناقشہ اور بحث کا مقام نہیں ہے۔اسی وجہ سے کلمہ اصول دین کو دو معنی عام و خاص میں استعمال کیا جاسکتا ہے، اس کی عام اصطلاح فروع دین اور بعض احکام کے مقابلہ میں بولی جاتی ہے، اور اس کی خاص اصطلاح بنیادی ترین عقائد سے مخصوص ہے، اسی طرح آسمانی ادیان کے درمیان مشترک عقائد جیسے اصول سہ گانہ (توحید ، نبوت اور معاد) بطور مطلق (اصول دین) اور ان کے علاوہ چند اصل کے اضافہ کے ساتھ (اصول دین خاص) یا پھر ایک چند وہ اعتقادات جو کسی مذہب یا فرقہ کی پہچان ہیں، اضافہ کر کے ( اصول دین و مذاہب) یا (ایک مذہب کے اصول عقائد) کاحصہ شمار کئے جا سکتے ہیں۔