انسان کے آرام وآسائش میں اسلام کی اہمیت
اسلام کا دوسرے ادیان سے موازنہ
اسلام ،تمام ادیان کے درمیان منفرد دین ہے جوسو فیصد اجتماعی ہے۔اسلام کی تعلیمات آج کل کے عیسائی دین کے مانند نہیںہیں جو صرف لوگوں کی اخروی سعادت کو مد نظر کھتا ہے اور ان کی دینوی سعادت کے بارے میں خاموش ہے اورنہ ہی یہودیوں کے موجودہ دین کے مانند ہیں جو صرف ایک ملت کی تعلیم و تر بیت کی مقبو لیت کو مد نظر رکھتاہے ۔اسلام کی تعلیمات مجوس اوردیگر مذاہب کے مانندصرف اخلا ق واعمال سے مربوط چند موضوعات تک محدود نہیں ہیں ،بلکہ اسلام میں تمام لوگوں کے لئے دنیاوآخرت کی تعلیم و تربیت کو ہمیشہ کے لئے اور ہرزمان و مکان میں،مد نظر رکھا گیا ہے بدیہی ہے کہ اس کے علاوہ معاشرے کی اصلاح اور لوگوں کی دنیاوآخرت کی سعادت کے لئے کوئی اور راستہ نہیں ہے :اوّلاً:تمام انسانی معاشروں میں۔جو اچھے روابط سے روزبروزنزدیک اور محکم تر ہو رہے ہیں ۔صرف ایک معاشرہ یا ایک ملت کی اصلاح کرناحقیقت میں ایک فضول کوشش ہے اور ایک بڑے آ لودہ تالاب یانہرکے ایک قطرہ پانی کو تصیفہ کرنے کے مانند ہے ۔ثانیا: دوسرے معاشروں کے بارے میں غفلت کرتے ہوئے صرف ایک معاشرے کی اصلاح کرناایک ایسا امر ہے جو اصلاح طلبی کی حقیقت کے خلاف ہے۔ اسلامی تعلیمات میں کائنات اور انسان کی خلقت کے بارے میں انسان کے ذہن میں پیداہونے والے افکار ،اخلاق اورانسانی زندگی میں پائی جانے والی تمام سر گرمیاں ،کی تحقیق کی گئی ۔لیکن اسلام میں افکار کے بارے میں،جو عقائد حقیقت پسندانہ پہلوؤں پر مشتمل ہیں اور ان میں سر فہرست خدائے متعال کی وحدانیت ہے ،وہ اصل اوربنیاد قرار پائے ہیں۔ اوراخلاق اسلامی میں،وہ حقیقت جسے عقل سلیم قبول کرتی ہے ،وہ توحید کی بنیاد پر استوار ہوئی ہے پھر اس کے بعد اخلاق کی بنیادپر، قواعد وضوابط اور عملی قوانین بیان کئے گئے ہیں،جس کے نتیجہ میں ہرکالے گورے،شہری و دیہاتی ،مردوعورت،چھوٹے بڑے،غلام و آقا،حاکم ورعایا،امیر وغریب اورعام وخاص کے لئے انفرادی واجتماعی فرائض بیان کئے گئے ہیں :(…کلمةً طیبةً کشجرة طیبةٍ اصلہا ثابت وفرعہا فی السّمائ) (ابراہیم٢٤)”… کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اوراس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے۔”جو شخص اسلام کے بنیادی معارف،اخلاقی تعلیمات اور فقہ اسلامی پر محققانہ نظر ڈالے، گاتو وہ ایک ایسے بے کراںسمندر کا مشاہدہ کرے گا جس کی حدوداور گہرائیوںتک پہنچنے میں انسانی عقل وشعور قاصر ہے اس کے باوجوداس کا ہر جزء و دوسرے اجزاسے متصل اور متناسب ہے اور یہ سب اجزاء مل کرخدا پرستی اور انسان پروری کو تشکیل دیتے ہیں ، جیسا کہ خدا ئے متعال نے اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ہے ۔
سماج کے رسم ورواج سے اسلام کا موازنہجب ہم دنیا کے ترقی یافتہ معاشروںکے طور طریقوں پر سنجیدگی سے نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ ان معاشروں کی سائنسی اور صنعتی ترقی نے عقلمندوں کومتحیر کر دیا ہے،وہ طاقت وترقی کے بل بوتے پرمریخ اور چاند پرکمندڈال رہے ہیں ،ان کی ملکی تشکیلات نے انسان کوحیرت میں ڈال دیا ہے ،لیکن یہی ترقی کے راستے اپنی قابل ستائش ترقی کے باوجود ،عالم بشریت پر بدبختی وبدنصیبی ایسے مصائب کا سبب بنے ہیں ۔پچیس سال سے کم عرصہ میں دنیا کو دوبار خاک وخون میں غرق کرکے لاکھوں انسانوں کو نابود کردیا ہے اور اس وقت بھی تیسری عالمی جنگ کا فرمان ہاتھ میں لئے ہوئے عالم بشریت کو نابود کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔انہی طریقوں نے اپنی پیدائش کے پہلے ہی دن سے ”انسان دوستی اور آزادی دلانے”کے نام پر دنیا کے دیگر ممالک اور ملتوں کے ماتھے پر غلامی کے داغ لگا کردنیا کے چار بڑے براعظموں کو اپنی استعماری زنجیروں میں جکڑ کرکسی قید وشرط کے بغیر براعظم یورپ کا غلام بنادیا ہے اورایک حقیر اقلیت کو کروڑوں بے گناہ انسانوں کے مال،جان ور عزت پر مسلط کر دیا ہے ۔البتہ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ترقی یافتہ ملتیں اپنے ما حول میں مادی نعمتوں اور لذتوں سے سرشارہیں اور بہت سے انسانی آرزؤوں جیسے اجتماعی انصاف اور ثقافتی وصنعتی ترقی تک پہنچ چکے ہیں۔لیکن وہ اس کے ساتھ ہی بے پناہ بدبختیوں اور بے شمار تاریکیوں سے دوچار ہوئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ بین الاقوامی کشمکش اور خون ریزیاں دنیا کے مستقبل کوعوامی سطح پر اور ہر لمحہ ماضی سے بدتروحوادث کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔واضح ر ہے کہ یہ سب تلخ وشرین نتائج ،ان ملتوں ومعاشروں کی تہذیب وتمدن اور زندگی کے طور طریقوںکے درخت کا پھل ہیں جو بظاہر ترقی کی راہ پر گامزن ہیں ۔لیکن جاننا چاہئے کہ اس کے میٹھے پھل جن سے انسان نے بہرہ مند ہوکرمعاشرے کوباسعادت بنادیاہے،ان ملتوںکے بہت سے پسندیدہ اخلاق جیسے سچائی،صحیح کام،فرض شناسی،خیرخواہی اور فداکاری کا نتیجہ ہے ،نہ صرف قانون کا!کیونکہ یہی قوانین پسماندہ ملتوں ،جیسے ایشیااور افریقہ میں بھی موجود ہیں حالانکہ ان کی پستی اور بدبختی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔لیکن اس درخت کا تلخ پھل ۔جس سے انسان آج تک کو تلخ کام ہے وہ انسان کے لئے تاریکی اوربدبختی کاسبب بناہے اور خود ان ترقی یافتہ ملتوں کو بھی دوسروں کی طرح نابودی کی طرف کھینچ رہا ہے۔ کچھ ناپسندیدہ اخلاق ہیں،جن کاسرچشمہ:حرص،طمع، بے انصافی،بے رحمی،غرور،تکبر،ضد،اور ہٹ دھرمی ہے۔اگرہم دین مقدس اسلام کے قوانین پر سنجیدگی سے غور کریں ،توہم متوجہ ہوں گے کہ اسلام مذکورہ صفات کے پہلے حصہ کا حکم دیتا ہے اور دوسرے حصہ سے روکتا ہے ،مختصر یہ کہ کلی طورپر تمام حق اور نیک انسان کی مصلحت کے امور کی دعوت دیتا ہے اور انھیں اپنی تربیت کی بنیاد قرار دیتا ہے اور ہر اس ناحق اوربرے کام سے روکتا ہے جو انسان کی زندگی کے آرام میں خلل ڈالتا ہے (خواہ کسی خاص قوم وملت سے مربوط ہو)
نتیجہمذکورہ بیانات کے نتیجہ کے طور پر مندرجہ ذیل چند نکات ذکر کئے جاتے ہیں :١۔اسلام کا طریقہ دوسرے تمام اجتماعی طریقوں سے زیادہ پسندیدہ اورانسانیت کے لئے زیادہ مفید ہے:(۔۔۔ذلک دین القیّم ولکن اکثر النّاس لا یعلمون) (روم٣٠)”…یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے ”٢۔موجودہ دنیا کی تہذیب وتمدن کے واضح نقوش اور میٹھے پھل سبھی دین مقدس اسلام کی برکتیں اور اس کے آثار کی زندہ شقیں اور اصول ہیں جو مغرب والوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں ،کیونکہ اسلام ،مغر بی تمدن کے آثار کے رونما ہونے سے صدیوں پہلے لوگوں کو انہی اخلاقی اصولوں کی طرف دعوت دے رہا تھا کہ یورپ والوں نے ان پر عمل کرنے میں ہم سے پیش قدمی کی ۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں لوگوں سے فرماتے تھے:”تمہارا برتائوایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ قرآن مجید پر عمل کرنے میں تم سے آگے بڑھ جائیں” ۔(١)٣۔اسلام کے حکم کے مطابق ”اخلاق”کو اصلی مقصد قرار دینا چاہئے اور قوانین کو اس کی بنیاد پر مرتب کرنا چاہئے ،کیونکہ پسندیدہ اخلاق کو فراموش کرنا(جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرنے کا سبب ہے)انسان کو معنویت سے مادیت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے اور اس کو بھیڑئیے،چیتے اور گائے جیسا درندہ بنادیتا ہے نیز اس میں گوسفند کے صفات پیدا کر دیتا ہے ۔…………..١۔ نہج البلاغہ ،صبحی صالح،ص٤٢٢۔اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:”بُعِثتُ لاتِّمم مکارم الاخلاق”(١)”میری بعثت کا اصلی مقصد ،لوگوں کی اخلاقی تر بیت ہے ”…………..١۔بحار الانوار ،ج٧١،ص٣٧٣۔
طبیعی وسائل سے اسلام کی ترقیغیرطبیعی وسائل ،کہ جن کا کوئی مادی وجود نہیں ہے، ناکام ہوتے ہیں اور جلد یا کچھ مدت بعد نا بود ہوجا تے ہیں، اسلام جیسے دین میں جو کہ بشریت پر ہمیشہ حکو مت کرنا چاہتا ہے، ان غیر طبیعی وسائل سے استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنی ترقی میں طاقت کا سہارا نہیں لیا ہے .یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ”اسلام تلوار کا دین ہے”حقیقت میںیہ لوگ صدراسلام کی جنگوںکو ظاہری طور پردیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے فیصلہ کر دیتے ہیں ۔جودین علم وایمان کی بنیاد پر وجود میں آیا ہو ،اس کے لئے بعید ہے کہ وہ اپنی ترقی اور لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنے کے لئے تلوار کا سہارا لے لے (اسلام میں جہاد کے فلسفہ کا مطالعہ فرمائیں )اسی لئے اسلا م نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے نیرنگ ،جھوٹ اورسیاسی شعبدہ بازی کا سہارا نہیں لیاہے اورانہیں صحیح نہیں جاناہے ،کیونکہ اسلام صرف یہ چاہتا ہے کہ حق زندہ ہواور باطل نابود ہو اور حق تک پہنچنے کے لئے باطل کی راہ پر گامزن ہونا ،حق کی نابودی کا سبب بنتا ہے۔خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتا ہے:” خداظالموں ،بدکاروں اور حق کو چھپانے والوں کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے نہیں دیتا ” (١)
…………..١۔بقرہ١٥٩و١٧٤۔